Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 74
ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ فَهِیَ كَالْحِجَارَةِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً١ؕ وَ اِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْهٰرُ١ؕ وَ اِنَّ مِنْهَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْهُ الْمَآءُ١ؕ وَ اِنَّ مِنْهَا لَمَا یَهْبِطُ مِنْ خَشْیَةِ اللّٰهِ١ؕ وَ مَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ
ثُمَّ : پھر قَسَتْ : سخت ہوگئے قُلُوْبُكُمْ : تمہارے دل مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ : اس کے بعد فَهِيَ : سو وہ کَالْحِجَارَةِ : پتھر جیسے اَوْ : یا اَشَدُّ قَسْوَةً : اس سے زیادہ سخت وَاِنَّ : اور بیشک مِنَ الْحِجَارَةِ : پتھروں سے لَمَا : البتہ يَتَفَجَّرُ : پھوٹ نکلتی ہیں مِنْهُ : اس سے الْاَنْهَارُ : نہریں وَاِنَّ : اور بیشک مِنْهَا : اس سے (بعض) لَمَا : البتہ جو يَشَّقَّقُ : پھٹ جاتے ہیں فَيَخْرُجُ : تو نکلتا ہے مِنْهُ : اس سے الْمَآءُ : پانی وَاِنَّ : اور بیشک مِنْهَا : اس سے لَمَا : البتہ يَهْبِطُ : گرتا ہے مِنْ : سے خَشْيَةِ اللہِ : اللہ کے ڈر وَمَا : اور نہیں اللّٰہُ : اللہ بِغَافِلٍ : بیخبر عَمَّا : سے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
پھر اس سب کے بعد تمہارے دل سخت ہوگئے، پس وہ پتھر کے مانند ہوگئے یا ان سے بھی زیادہ سخت۔ پتھروں میں بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے نہریں پھوٹ نکلتی ہیں، بعض پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی جاری ہوجاتا ہے اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو خوف خدا سے گر پڑتے ہیں۔ اور اللہ اس سے بیخبر نہیں ہے جو تم کر رہے ہو
“پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہو گئے”۔ یہاں ثُمَّ کے استعمال سے یہ بات نکلتی ہے کہ دین کے معاملہ میں تمہاری اس قسم کی کٹھ حجتیوں اور فرار پسندیوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ تمہارے دل سخت ہو گئے۔ یہاں اگرچہ تصریح نہیں ہے لیکن سیاق کلام دلیل ہے کہ بنی اسرائیل نے جس طرح گائے کے ذبح کے حکم کی تعمیل میں بہت سی حجتیں پیدا کیں اسی طرح اس کے ذبح کے بعد بھی اس قربانی کا صحیح احترام ملحوظ نہیں رکھا بلکہ جھوٹی قسمیں کھا کر قاتل کو چھپانے کی کوشش کی۔ کسی جرم کے ساتھ جب حیلہ بازی اور کٹھ حجتی اور پھر مزید براں ڈھٹائی اور جسارت بھی شامل ہو جائے تو ایسے مجرموں کے دل خدا کے قانون کے مطابق پتھر کے مانند سخت ہو جایا کرتے ہیں جس کے بعد نیکی اور تقویٰ کی روئیدگی کی صلاحیت ان کے اندر بالکل ہی ختم ہو جاتی ہے۔ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً (پس وہ پتھر کے مانند ہو گئے یا پتھر سے بھی زیادہ سخت) یہ اس طرح کا اسلوب کلام ہے جیسا کہ دوسری جگہ وارد ہے اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ھُمۡ اَضَلُّ اعراف :۱۷۹ یہ لوگ چوپایوں کے مانند ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ۔ یہ محض مبالغہ کا ایک اسلوب بیان نہیں ہے بلکہ یکسر تعبیر حقیقت ہے۔ جمادات وغیرہ میں جو سختی ہوتی ہے وہ سختی ان کو ان صلاحیتوں سے محروم نہیں کرتی جو قدرت کی طرف سے ان کے اندر ودیعت ہوتی ہے۔ برعکس اس کے انسان اگر اپنے آپ کو بگاڑتا ہے تو اس کا بگاڑ آہستہ آہستہ قانون الہٰی کے بموجب ان تمام صلاحیتوں سے اس کو محروم کر دیتا ہے جو فطرت کی طرف سے اس کو ودیعت ہوئی ہوتی ہیں۔ پتھر سخت سے سخت تر ہو کر بھی پتھر ہی رہتا ہے۔ اس کی رگوں کے اندر پانی کی سوت جاری کرنے کی صلاحیت اگر قدرت نے رکھی ہوتی ہے تو اس سختی کے باوجود یہ چیز اس کے اندر باقی رہتی ہے۔ برعکس اس کے انسان کا دل اگر کسی اخلاقی بیماری کے سبب سے سخت ہو جائے تو اس کے دل کی تمام سوتیں بالکل خشک ہو جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بگڑے ہوئے انسان کے بگاڑ کا مقابلہ دنیا کی کوئی چیز بھی نہیں کر سکتی اگرچہ وہ کتنی ہی بگڑی ہوئی کیوں نہ ہو۔ یہاں یہ جو فرمایا کہ“پتھروں میں سے بعض ایسے ہوتے ہیں جن سے نہریں پھوٹ نکلتی ہیں، بعض ایسے ہوتے ہیں جو پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکل پڑتا ہے اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو خشیت الہٰی سے گرپڑتے ہیں”۔ یہ پتھروں کی انہی فطری صلاحیتوں کی طرف اشارات ہیں جو قدرت نے ان کے اندر ودیعت کر رکھی ہیں اور جو بہ ہرصورت باقی رہتی ہیں۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ یہ محض کوئی شاعرانہ اسلوب بیان نہیں ہے جس کا واقعات کی دنیا سے کوئی تعلق نہ ہو بلکہ یہ تلمیح ہے ان مشاہدات کی طرف جو صحرا کی زندگی میں خود بنی اسرائیل کی نگاہوں کے سامنے گزر چکے تھے۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے ایک چٹان سے اکٹھے بارہ چشمے پھوٹتے اور طور کے ایک حصہ کو تجلی الہٰی سے پاش پاش ہوتے دیکھا تھا لیکن یہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود بھی ان کے دلوں کی سختی کا یہ حال رہا کہ وہ کسی نشانی کوبھی دیکھ کر نرم نہیں ہوتے تھے۔ پھر اس بات میں شبہ کرنے کی گنجائش کہاں رہی کہ ان کے دلوں کی سختی پتھروں اور چٹانوں کی سختی سے بھی بڑھی ہوئی تھی۔ وَمَا اللهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ: اور اللہ اس سے بےخبر نہیں ہے جو تم کرتے رہے ہو، یعنی اپنے شرف و تقدس، اپنی بڑائی اور بزرگی اور اپنی پاکیٔ دامن کی حکایت تو وہ بڑھائے جس کے کارنامے ڈھکے چھپے ہوئے ہوں اور اس کے سامنے بڑھائے جو بے خبر اور بے علم ہو، جو ہر بات سے باخبر ہو اس کے سامنے اس قسم کے ادعا اورغرور سے کیا حاصل!
Top