Dure-Mansoor - Al-Baqara : 73
فَقُلْنَا اضْرِبُوْهُ بِبَعْضِهَا١ؕ كَذٰلِكَ یُحْیِ اللّٰهُ الْمَوْتٰى١ۙ وَ یُرِیْكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ
فَقُلْنَا : پھر ہم نے کہا اضْرِبُوْهُ : اسے مارو بِبَعْضِهَا : اس کا ٹکڑا کَذٰلِکَ : اس طرح يُحْيِي اللّٰهُ : اللہ زندہ کرے گا الْمَوْتَىٰ : مردے وَيُرِیْكُمْ : اور تمہیں دکھاتا ہے اٰيَاتِهِ : اپنے نشان لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَعْقِلُوْنَ : غور کرو
پس ہم نے حکم دیا کہ اس کا ایک حصہ اس میں مارو، ایسا ہی اللہ تعالیٰ زندہ فرماتا ہے مردوں کو، اور دکھاتا ہے تم کو اپنی نشانیاں تاکہ تم عقل سے کام لو
(1) وکیع، الفریابی، عبد بن حمید، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فقلنا اضربوہ ببعضھا “ سے مراد ہے کہ انہوں نے میت کو اس ہڈی سے مارا جو مونڈے کی کر کری ہڈی سے ملی ہوتی ہے۔ (2) عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ انہوں نے اس میت کو اس (گائے) کی ران کا گوشت مارا جب انہوں نے ایسا کہ تو اللہ تعالیٰ نے اس کو زندہ کردیا یہاں تک کہ اس نے ان کو اپنے قاتل کی خبر دی جس نے اس کو قتل کیا تھا۔ یہ بات کرنے کے بعد وہ (پھر) مرگیا۔ (3) امام وکیع اور ابن جریر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس میت کو اس (گائے) کی ران کے ساتھ مارا تو وہ زندہ ہوگیا اور اس نے اس بات کے علاوہ کوئی اور زائد بات نہیں کہ کہ مجھے فلاں نے قتل کیا ہے پھر وہ دوبارہ مرگیا۔ (4) عبد بن حمید اور ابن ھریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے گائے کی ران میت کو ماری تو وہ زنہ ہو کر کھڑا ہوگیا اور کہا کہ مجھے فلاں نے قتل کیا ہے پھر وہ مرگیا۔ (5) امام ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس کو کندھوں کے درمیان کا گوشت مارا۔ (6) امام ابن جریر نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو حکم فرمایا کہ (اس گائے) ہذی کو لے لو اور اس کے ساتھ مقتول کو مارو انہوں نے ایسا ہی کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی روح کو واپس لوٹا دیا اس نے اپنے قاتل کا نام بتایا پھر وہ مر دہ ہو کر لوٹ گیا جیسے کہ پہلے تھا۔ وأما قولہ تعالیٰ : کذلک یحی اللہ الموتی۔ والدہ کی فرمانبرداری کا صلہ (7) عبد بن حمید اور ابو الشیخ نے العظمہ میں وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ بنی اسرائیل میں ایک نوجوان تھا جو اپنی والدہ کا فرمانبردار تھا اور وہ تہائی رات نماز پڑھتا تھا اور تہائی رات اپنی والدہ کے سر کے پاس بیٹھا رہتا تھا اور اس کو تسبیح، تہلیل، تکبر اور تمحید یاد دلاتا تھا۔ اور کہتا تھا اے میری ماں اگر تو رات کو کھڑی ہونے سے عاجز ہے تو اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کر یعنی اللہ اکبر کہہ کر اس کی تسبیح بیان کر یعنی سبحان اللہ کہہ اور اس کی تہلیل بیان کر یعنی لا الہ الا اللہ کہہ یہ دونوں عمل اس کی پوری زندگی کے معمول تھے جب صبح ہوتی تو پہاڑوں کی طرف آجاتا اور اپنی پیٹھ پر لکڑیاں اٹھا کر ان کو بازار میں بیچ دیتا اس قیمت میں سے ایک تہائی صدقہ کردیتا اور ایک تہائی اپنی عبادت کے لیے رکھ لیتا اور ایک تہائی اپنی ماں کو دے دیتا۔ اس کی ماں اس تہائی میں آدھی قیمت کھا لیتی اور آدھی قیمت صدقہ کردیتی۔ یہ عمل بھی ان کی پوری زندگی کا معمول تھا جب عرصہ دراز گزر گیا تو کہنے لگی اے میرے بیٹے تو جان لے کہ مجھے تیرے باپ کی میراث میں سے ایک گائے ملی تھی اور میں نے اس کی گردن پر مہر لگا کر اس کو میں اسماعیل، اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) کے خدا کے نام پر (جنگل میں) چھوڑ آئی تھی کہنے لگی میں عنقریب تجھے اس کا رنگ اور اس کی شکل و صورت بتاؤں گی جب تو گائے کے پاس جائے تو اسے ابراہیم، اسماعیل، اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) کے رب کے نام کے ساتھ بلانا کیونکہ وہ ایسا ہی کرے گی جیسے اس نے میرے ساتھ وعدہ کیا تھا اور کہنے لگی اس کی نشانی یہ ہے کہ وہ نہ بوڑھی ہے اور نہ جوان ہے وہ درمیان عمر کی ہے وہ گہرے زرد رنگ کی ہے جو دیکھنے والوں کو خوش کردیتی ہے (اچھی لگتی ہے) جب تو اس کی کھال کی طرف دیکھے گا تو تجھے ایسا معلوم ہوگا کہ سورج کی شعاعیں اس کی کھال میں سے نکل رہی ہیں اور اس پر کام نہیں کیا گیا اس پر ہل جوتے گئے اور نہ اس کے ذریعہ کھیتی کو پانی پلایا گیا صحیح سالم ہے اس میں کوئی عیب نہیں اور ایک رنگ والی ہے۔ جب تو اس کو دیکھے تو اس کی گردن سے پکڑنا وہ اسرائیل کے خدا کے حکم سے تیرے پیچھے چل آئے گی۔ نوجوان چلا اور اس نے اپنی والدہ کی وصیت کو یاد کیا اور جنگل میں دو یا تین دن چلتا رہا یہاں تک کہ ایک دن کی صبح کو اس نے زور سے پکار کر کہا اور ابراہیم، اسماعیل، اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) کے خدا کا واسطہ دے کر اس گائے کو بلایا ایک گائے اس کے پاس آگئی اور اس نے چرنے کو چھوڑ دیا اور اس نوجوان کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی اس نے گردن سے پکڑا تو وہ گائے بول پڑی اور کہنے لگی اے اپنی والدہ سے حسن سلوک کرنے والے جواب مجھ پر سوار ہوجا بیشک یہ تجھ پر آسان ہوگا جو ان نے کہا میری والدہ نے مجھے تجھ پر سوار ہونے کا حکم نہیں فرمایا تھا لیکن اس نے تجھے ہانک کرلے آنے کا حکم دیا تھا مجھے یہ بات پسند ہے کہ میں ان کی بات کو پورا کروں پھر گائے نے کہا اسرائیل کے معبود کی قسم اگر تو مجھ پر قادر نہ ہوتا۔ سو تو چلا جا اے اپنی والدہ سے حسن سلوک کرنے والے جوان اگر تو اس پہاڑ کو حکم کرے کہ تیرے لئے جڑ سے اکھڑ جائے تو تیری والدہ کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور اپنے خدا کی اطاعت کرنے کی وجہ سے وہ ضرور جڑ سے اکھڑ جائے گا۔ وہ جو ان پڑا یہاں تک کہ جب وہ اپنے گھر سے ایک دن کی مسا فت پر تھا اللہ کے دشمن ابلیس اس کے سامنے آیا اور گائے چرانے والے کی شکل بنائے ہوئے تھا اور کہنے لگا اے جوان تو اس گائے کو کہاں سے لایا کاش کہ تو اس پر سوار ہوجاتا کیونکہ میں تجھ کو تھکا ہوا دیکھتا ہوں اور میں یہ بھی گمان کرتا ہوں کہ تو اس گائے کے علاوہ دنیا میں کسی مال کا مالک نہیں ہے میں تجھ کو مزدوری دوں گا جو تجھ کو نفع دے گی اور تجھے نقصان نہ دے گی میں گائے چرانے والوں میں سے ایک آدمی ہوں اور اپنے اہل و عیال کی ملاقات کا شوق ہوا میں نے اپنے بیلوں میں سے ایک بیل کو لیا اور اس پر اپنا کھانا اور اپنا سامان لادا یہاں تک کہ جب میں آدھے راستہ پر پہنچا تو میرے پیٹ میں درد ہوا اور میں نے اپنی حاجت پوری کرنے کے لیے چل دیا میرا بیل پہاڑ کے اندر بھاگ گیا اور مجھے چھوڑ دیا میں نے اس کو تلاش کیا مگر اس پر قادر نہ ہوا اب میں اپنی جان کے ہلاک ہونے پر ڈرتا ہوں کیونکہ میرے پاس نہ توشہ ہے نہ پانی ہے اگر تو مجھے اپنی گائے پر سوار کرلے اور مجھے چراگاہ تک پہنچا دے اور موت سے مجھے نجات دلادے تو میں اس کے بدلے دو گائے تجھ کو دوں گا جوان نے کہا بلاشہ آدم کی اولاد ایسی نہیں ہوئی کہ اس کو یقین قتل کر دے یا ان کو اس کے نفوس ہلاک کردیں اگر اللہ تعالیٰ نے تجھ سے یقین کو جان لیا تو تجھ کو بغیر زادراہ اور پانی کے پہنچا دے گا اور میں تجھ کو سوار نہیں کروں گا (کیونکہ) اس کا حکم نہیں دیا گیا۔ میں ایک بندہ مامور ہوں اگر میرے مالک کو پتہ چل گیا کہ میں نے اس گائے کے بارے میں نافرمانی کی ہے تو وہ مجھے ہلاک کر دے گا اور مجھے سخت سزا دے گا۔ میں تیری خواہش کو اپنے مالک کی خواہش پر ترجیح دینے والا نہیں ہوں اے آدمی ! سلامتی کے ساتھ چلا جا ابلیس نے کہا میں تجھ کو ہر قدم کے بدلے میں جو تو قدم میری منزل کی طرف اٹھائے گا ایک درہم دوں گا اور یہ بڑا مال ہوگا جس سے میں اسے گائے کے ذریعے موت سے بچ جاؤں گا جو ان نے کہا میرے مالک کے پاس زمین کا سونا اور چاندی ہے اگر تو اس (زمین) میں سے کوئی چیز دے گا تو یہ جان لے گا کہ یہ اس کے مال میں سے ہے لیکن تو مجھ کو آسمان کے سونے اور چاندی میں سے لا دے تو پھر میں کہوں گا کہ یہ تیرے مال میں سے نہیں ہے۔ ابلیس نے کہا کیا آسمان میں سونا اور چاندی ہے ؟ اور کیا کوئی آدمی اس کے لانے پر قادر نہیں ہوسکتا ہے ؟ جوان نے کہا کیا کوئی بندہ دو کام کرسکتا ہے جس کا حکم نہیں دیا گیا جیسا کہ آسمان کا سونا اور چاندی لانے کی تو طاقت نہیں رکھتا۔ ابلیس نے کہا میں تجھ کو اپنے کام میں سب سے زیادہ عاجز بندہ دیکھتا ہوں۔ جوان نے کہا عاجز وہ ہے جو اپنے رب کی نافرمانی کرے۔ ابلیس نے کہا کیا بات ہے میں تیرے پاس زادراہ اور پانی نہیں دیکھ رہا ہوں جوان نے کہا میرا زادراہ تقوی ہے اور میرا طعام گھاس ہے اور میرا پینا پہاڑوں کے چشموں میں سے ہے۔ ابلیس نے کہا کیا میں تجھ کو یہ کام نہ بتاؤں جو تیری رہنمائی کرے۔ جوان نے کہا اپنے نفس کو حکم کر میں انشاء اللہ ہدایت پر ہی ہوں۔ ابلیس نے کہا میں تجھ کو نصیحت قبول کرنے والا نہیں دیکھتا ہوں جوان نے کہا اپنے آپ کو نصیحت کرنے والا وہ شخص ہے جو اپنے مالک کی اطاعت کرے اور اس کے حق کو ادا کرے جو اس پر ہے اگر تو شیطان ہے تو میں تجھ سے اللہ کے واسطے پناہ مانگتا ہوں اور اگر تو آدمی ہے تو نکل جا تیری صحبت کی مجھے کوئی ضرورت نہیں۔ ابلیس (یہ سن کر) اس کے پاس تین لمحات اپنی جگہ پر ساکت کھڑا رہا اگر وہ نوجوان ابلیس کو سوار کرلیتا تو پھر جوان گائے پر کبھی قادر نہ ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ نے شیطان کو اس سے روک دیا اس درمیان کہ جوان چل رہا تھا اچانک ایک پرندہ اڑتا ہوا اس کے آگے سے گزرا اور اس نے چھپٹا مار کر (جوان کے ہاتھ) سے گائے کو چھین لیا جو ان نے پکار کر کہا ابراہیم، اسحاق، اسمعیل اور یعقوب (علیہم السلام) کے معبود کا واسطہ تو میرے پاس آجا۔ گائے اس کے پاس آئی اور اس کے سامنے کھڑی ہوگئی اور کہنے لگی اے جوان ! کیا تو جانتا ہے اس پرندہ کو جو تیرے سامنے سے اڑا تھا ؟ وہ ابلیس اللہ کا دشمن تھا جس نے مجھ کو چھپٹا مار کر چھین لیا۔ جب تو نے اسرائیل کے معبود کے واسطے سے مجھے بلایا تو فرشتوں میں سے ایک فرشتہ نے آکر مجھے اس سے چھڑا دیا اور تیری طرف لوٹا دیا تیری والدہ کے ساتھ حسن سلوک اور اپنے رب کی اطاعت کی وجہ سے پس تو چلا جا اب تو سفر کرے گا انشاء اللہ اپنے گھر والوں کے پاس پہنچ جائے گا۔ جوان اپنی ماں کے پاس آگیا اور اس کو (ساری) خبر دی اس نے کہا اے میرے بیٹے میں تجھ کو رات اور دن اپنی پیٹھ پر لکڑیاں لادے ہوئے دیکھ کر بےقرار ہوتی تھی اس گائے کو لے کر بیچ دے اور اس کی قیمت لے کر اس کے ذریعہ اپنے آپ قوت اور راحت دے جوان نے پوچھا اس کا کتنے میں بیچ دوں ؟ ماں نے کہا میری رضا مندی کی شرط پر اس کو تین دینار میں بیچ دے جوان بازار کی طرف چلا اللہ تعالیٰ نے فرشتوں میں سے ایک فرشتہ کو اس کی طرف بھیجا تاکہ مخلوق اس کی قدرت کا کرشمہ دیکھ لے فرشتے نے جوان سے کہا جوان ! اس گائے کو کتنے میں بیچو گے ؟ اس نے کہا کہ میں اپنی والدہ کی رضا مندی کی شرط پر اس کو تین دینار میں بیچوں گا فرشتہ نے کہا تم چھ دینار لے لو اور اپنی والدہ سے مشورہ نہ کرو جوان نے کہا اگر تو مجھے اس کے برابر وزن دے تو میں اس کو نہ بیچوں گا یہاں تک کہ میں والدہ سے مشورہ کرلوں جو ان نکلا اور اپنی والدہ کو اس بیع کی خبر دی وہ کہنے لگی کہ میری رضا مندی کی شرط پر اس کو چھ دینار میں فروخت کرنا جوان چلا تو اس کے پاس (پھر) فرشتہ آیا اور پوچھا کیا کرو گے جوان نے کہا کہ میں اس کو اپنی والدہ کی رضا مندی کی شرط پر چھ دینار میں بیچوں گا فرشتہ نے کہا بارہ دینار لے لے اور اپنی والدہ سے مشورہ چھوڑ دے۔ جوان نے کہا نہیں (ایسا نہیں ہوسکتا) پھر نوجوان اپنی ماں کی طرف گیا اس کی ماں نے کہا اے میرے بیٹے وہ فرشتہ تھا جو تیرے پاس آدمی کی شکل میں آیا تھا جب وہ تیرے پاس آئے تو اس سے کہہ میری والدہ تجھ کو سلام کہتی ہے کہ تو مجھے اس گائے کے بیچنے میں کتنی قیمت کا حکم دیتا ہے۔ فرشتہ نے کہا اے نوجوان ! تیری اس گائے کو موسیٰ بن عمران ایک مقتول کے لیے خریدیں گے جو بنی اسرائیل سے قتل ہوا ہے۔ اس کا مال بہت زیادہ تھا وہ اپنے باپ کا اکلوتا لڑکا تھا اس کا ایک بھائی تھا جس کے بہت سے بیٹے تھے اور وہ کہتے تھے کہ کس طرح ہم اس کو قتل کرکے اس کا مال لے لیں انہوں نے لڑکے کو اپنی منزل کی طرف بلایا اور اس کو قتل کر کے ان کے گھر کی جانب پھینک دیا گھر والوں نے صبح کے وقت اس لڑکے کو اپنے گھر کے دروازے کی طرف باہر پھینک دیا لڑکے کے چچا کے بیٹے آئے اور انہوں نے گھر والوں کو پکڑ لیا اور ان کو موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس لے گئے موسیٰ (علیہ السلام) نہیں جانتے تھے کہ کس طرح ان دونوں میں فیصلہ کریں اس وجہ سے کہ گھر والے لڑکے کے قتل سے بری ہیں سو یہ بات موسیٰ (علیہ السلام) پر بہت بھاری گزری اور انہوں نے اپنے رب سے دعا کی اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ گہرے سخت زرد رنگ کی گائے لے لو اور اس کو ذبح کر دو اس کا کچھ حصہ اس مقتول کو مارو انہوں نے اس نوجوان کی گائے (خریدنے) کا ارادہ کیا اور انہوں نے اس کو اس شرط پر خریدا کیہ اس کی کھال کو دیناروں سے بھر دیں گے۔ پھر انہوں نے اس کو ذبح کیا اور (مردہ) لڑکے کو اس کا گوشت مارا۔ تو وہ کھڑا ہوگیا اور ان کو بتایا کہ میرے چچا کے بیٹوں نے مجھے قتل کیا اور یہ گھر والے میرے قتل سے بری ہیں موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو پکڑا تو وہ کہنے لگے اے موسیٰ ! تو ہم سے مذاق کرتا ہے ہمارے چچا کا بیٹا مظلوم قتل کردیا گیا اور تحقیق انہوں نے (یعنی قتل کرنے والے نے) جان لیا تھا کہ وہ عنقریب رسوا ہوں گے۔ پھر انہوں نے گائے کی کھال کو لیا اور اس کو دیناروں سے بھر کر اس جوان کو دے دیا اس جوان نے دو ثلث بنی اسرائیل کے فقراء پر صدقہ کر دئیے اور ایک ثلث سے طاقت حاصل کی (یعنی اپنے استعمال میں لیا) ” کذلک یحی اللہ الموتی ویریکم ایتہ لعلکم تعقلون “۔
Top