Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 73
فَقُلْنَا اضْرِبُوْهُ بِبَعْضِهَا١ؕ كَذٰلِكَ یُحْیِ اللّٰهُ الْمَوْتٰى١ۙ وَ یُرِیْكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ
فَقُلْنَا : پھر ہم نے کہا اضْرِبُوْهُ : اسے مارو بِبَعْضِهَا : اس کا ٹکڑا کَذٰلِکَ : اس طرح يُحْيِي اللّٰهُ : اللہ زندہ کرے گا الْمَوْتَىٰ : مردے وَيُرِیْكُمْ : اور تمہیں دکھاتا ہے اٰيَاتِهِ : اپنے نشان لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَعْقِلُوْنَ : غور کرو
تو ہم نے کہا کہ اس (میت) پر اس (گائے) کا کوئی ٹکڑا مارو250 ۔ یوں ہی اللہ مردوں کو زندہ کرے گا،251 ۔ اور وہ تم کو اپنی نشانیاں،252 ۔ دکھاتا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو،253 ۔
250 ۔ تفصیلات کا علم تو عالم الغیب کو ہے۔ البتہ اتنا پتہ تو یہود کے قانون شریعت (توریت) کے مطالعہ سے بہرحال چلتا ہے کہ قتل کے موقع پر جب قاتل کی تحقیق ہورہی ہو، چند خاص شرائط کی پابندی کے ساتھ ایک جوان گائے کو جس سے کوئی خدمت نہ لی گئی ہو، ذبح کیا جاتا تھا اور اس کے لاشہ پر بزرگان قوم ایک خاص طریق پر دعا کرکے خون کے گناہ سے اپنی بخشائش چاہتے تھے، کتاب استثناء کے باب 2 1 میں آیات 1 ۔ 9 میں تفصیلات درج ہیں۔ یہاں صرف چند سطریں نقل کی جاتی ہیں :۔ ” اگر اس سرزمین میں جس کا خدا وند تیرا خدا تجھے ارشاد کرتا ہے، کسی کی لاش کھیت میں پڑی ہوئی ملے اور معلوم نہ ہو کہ اس کا قاتل کون ہے، تب تیرے بزرگ اور تیرے قاضی باہر نکلیں اور ان بستیوں تک جو مقتول کے گردا گرد ہیں، درمیان کو ناپیں۔ اور یوں ہوگا کہ جو شہر مقتول سے زیادہ نزدیک ہے اسی شہر کے بزرگ ایک بچھیا لیں جس سے ہنوز کچھ خدمت نہ لی گئی ہو، اور جوئے تلے نہ آئی ہو۔۔ اور ہاں اس وادی میں اس بچھیا کی گردن کاٹیں۔ پھر اس شہر کے سارے بزرگ جو مقتول سے نزدیک ہیں اس بچھیا کے اوپر جو اس وادی میں گردن ماری گئی ہے اپنے ہاتھ دھوئیں اور جو اب دے کے کہیں کہ ہمارے ہاتھوں نے یہ خون نہیں کیا، نہ ہماری آنکھوں نے دیکھا “ تفسیر روایات میں آتا ہے کہ مقتول زندہ ہوگیا تھا اور قاتل کا نام اور پتہ بتا کر پھر مرگیا۔ واللہ اعلم 251 ۔ (قیامت کے دن) جعل تبارک وتعالیٰ ذلک الصنیع حجۃ لھم علی المعاد (ابن کثیر) قرآن مجید نے اپنی عام خصوصیت یعنی خاص سے عام کی تعلیم کی یہاں بھی نہ چھوڑی۔ اور ایک جزئی واقعہ سے اپنی قدرت اور امکان بعث ہی کا پہلو نمایاں کیا۔ 252 ۔ (اور نمونے اپنی قدرت کاملہ اور اختیار مطلق کے) 253 ۔ (اور کم از کم، اس نظیر کے مشاہدہ کے بعد امکان بعث اور وقوع قیامت کے انکار سے تو باز آجاؤ)
Top