Aasan Quran - Al-Baqara : 73
فَقُلْنَا اضْرِبُوْهُ بِبَعْضِهَا١ؕ كَذٰلِكَ یُحْیِ اللّٰهُ الْمَوْتٰى١ۙ وَ یُرِیْكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ
فَقُلْنَا : پھر ہم نے کہا اضْرِبُوْهُ : اسے مارو بِبَعْضِهَا : اس کا ٹکڑا کَذٰلِکَ : اس طرح يُحْيِي اللّٰهُ : اللہ زندہ کرے گا الْمَوْتَىٰ : مردے وَيُرِیْكُمْ : اور تمہیں دکھاتا ہے اٰيَاتِهِ : اپنے نشان لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَعْقِلُوْنَ : غور کرو
چنانچہ ہم نے کہا کہ اس (مقتول) کو اس (گائے) کے ایک حصے سے مارو۔ (53) اسی طرح اللہ مردوں کو زندہ کرتا ہے، اور تمہیں (اپنی قدرت کی) نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھ سکو۔
53 : اس واقعہ کی تفصیل تاریخی روایات میں یہ آئی ہے کہ بنی اسرائیل کے ایک شخص نے اپنے ایک بھائی کو اس کی میراث حاصل کرنے کی خاطر قتل کیا اور اس کی لاش سڑک پر ڈال دی، پھر خود ہی حضرت موسیٰ ؑ کے پاس شکایت لے کر پہنچ گیا کہ قاتل کو پکڑ کر سزا دی جائے، اس موقع پر حضرت موسیٰ ؑ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے انہیں گائے ذبح کرنے کو کہا، جس کا واقعہ اوپر گذرا۔ جب گائے ذبح ہوگئی تو آپ نے فرمایا کہ گائے کا کوئی عضو اٹھا کر مقتول کی لاش پر مارو تو وہ زندہ ہو کر قاتل کا نام بتادے گا ؛ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اس طرح قاتل کا پول کھل گیا اور وہ پکڑا گیا، قاتل کی دریافت کے لئے یہ طریقہ اختیار کرنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ مردوں کو زندہ کرنے کی خدائی طاقت کا عملی مظاہرہ کرکے ان لوگوں کی زبانیں بند کردیں گئیں جو دوسری زندگی کو ناممکن سمجھتے تھے۔ غالباً اس واقعے کے بعد ہی بنی اسرائیل میں یہ طریقہ جاری ہوا کہ جب کوئی شخص مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چل رہا ہو تو ایک گائے ذبح کرکے اس پر اپنے ہاتھ دھوئیں اور قسم کھائیں کہ ہم نے اسے قتل نہیں کیا جس کا ذکر بائبل کی کتاب استثناء 121 تا 8 میں ایا ہے۔
Top