Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 73
فَقُلْنَا اضْرِبُوْهُ بِبَعْضِهَا١ؕ كَذٰلِكَ یُحْیِ اللّٰهُ الْمَوْتٰى١ۙ وَ یُرِیْكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ
فَقُلْنَا : پھر ہم نے کہا اضْرِبُوْهُ : اسے مارو بِبَعْضِهَا : اس کا ٹکڑا کَذٰلِکَ : اس طرح يُحْيِي اللّٰهُ : اللہ زندہ کرے گا الْمَوْتَىٰ : مردے وَيُرِیْكُمْ : اور تمہیں دکھاتا ہے اٰيَاتِهِ : اپنے نشان لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَعْقِلُوْنَ : غور کرو
اس لئے ہم نے حکم دیا کہ تم ذبح شدہ بیل کا ایک ٹکڑا مقتول سے لگا دو اسی طرح اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کر دے گا اور وہ تم کو اپنی قدرت کی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو1
1 اور یاد کرو جب تم نے یعنی تمہارے اسلاف میں سے کسی نے ایک شخص کو قتل کردیا تھا پھر تم آپس میں جھگڑنے لگے اور ایک دوسرے پر اس کا الزام لگانے لگے حالانکہ اللہ تعالیٰ کو اس کا ظاہر کرنا مقصود تھا جس کو تم چھپانے اور مخفی رکھنے کے در پے تھے لہٰذا ہم نے حکم دیا کہ اس ذبح شدہ بیل کا ایک ٹکڑا اس مقتول کے جسم سے لگا دو اللہ تعالیٰ اسی طرح قیامت میں مردوں کو زندہ کر دے گا اور تم کو وہ اپنی قدرت کی نشانیاں اور دلائل دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھو اور عقل سے کام لو۔ غرض ان لوگوں نے بڑی قیمت ادا کر کے اس بیل کو حاصل کیا اور امر خداوندی کے موافق اس کو ذبح کیا پھر اس کا ایک حصہ خواہ وہ زبان ہو یا دم کا کوئی حصہ ہو مرنے والے کے بدن سے لگایا جس سے وہ مقتول زندہ ہوگیا اور اس نے اپنے ان ہی وارثوں میں سے ایک شخص کا نام بتادیا جو مدعی بنے پھرتے تھے الزام لگانے لگے کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص اپنے سے الزام کو دفع کرتا تھا اور دوسرے پر ڈالتا تھا اور یہ جو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس چیز کو جسے وہ چھپانا چاہتے تھے ظاہر کرنیوالا تھا ہر عمل کا یہی حال ہے خواہ کوئی عمل اچھا ہو یا برا ہو اور اس کو کتنا ہی چھپا کر کیا جائے وہ ظاہر ہو ہی جاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کوئی آدمی کسی ایسے پتھر میں جس میں نہ کوئی دروازہ ہو اور نہ کوئی روشن دان ہو گھس کر بھی کوئی عمل کرے گا خواہ وہ کوئی بھی عمل ہو وہ ایک دن ظاہر ہو کر رہے گا۔ بیہقی نے حضرت عثمان سے روایت کی ہے فرمایا نبی کریم ﷺ نے کسی شخص کا کوئی پوشیدہ عمل خواہ نیک ہو یا بد اللہ تعالیٰ اس طرح ظاہر کردیتا ہے جس طرح چادر کہ اس چادر سے پہچانا جاتا ہے یعنی اس عمل کو چادر بنا کر اڑھا دیا جاتا ہے جس سے ہر شخص کو معلوم ہوجاتا ہے غرض نیکی بدی چھپتی نہیں اسی کو فرمایا واللہ مخرج ماکنتم تکتمون اور یہ جو فرمایا کذالک یحی اللہ الموتی اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ہم نے عامیل کو زندہ کردیا اسی طرح ہم قیامت کے دن تمام مردوں کو زندہ کردیں گے وہ اپنی توحید کے دلائل اور اپنی قدرت کی نشانیاں اسی طرح دکھایا کرتے ہیں تاکہ تم لوگ عقل سے کام لو عامیل کو اگرچہ بغیر اس کے بھی زندہ کرسکتے تھے لیکن ان کے کسی فعل کی مصلحت اور حکمت کا کون احاطہ کرسکتا ہے ممکن ہے کہ اس میں ادائے واجب کا امتحان مقصود ہو اور یتیم کو نفع پہچونچانا ہو اور توکل کی برکت اور اولاد پر شفقت اور ماں کی اطاعت کا اظہار مقصود ہو۔ واللہ اعلم حضرت شاہ صاحب موضح القرآن میں فرماتے ہیں بنی اسرائیل میں ایک شخص مارا گیا تھا اس کا قاتل معلوم نہ تھا اس کے وارث ہر کسی پر دعویٰ کرتے اللہ تعالیٰ نے اس طرح اس مردے کو جلایا اس نے بتایا کہ ان وارثوں ہی نے مارا تھا۔ موضح القرآن (تسہیل)
Top