Al-Qurtubi - Al-An'aam : 113
وَ لِتَصْغٰۤى اِلَیْهِ اَفْئِدَةُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ وَ لِیَرْضَوْهُ وَ لِیَقْتَرِفُوْا مَا هُمْ مُّقْتَرِفُوْنَ
وَلِتَصْغٰٓى : اور تاکہ مائل ہوجائیں اِلَيْهِ : اس کی طرف اَفْئِدَةُ : دل (جمع) الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں رکھتے بِالْاٰخِرَةِ : آخرت پر وَلِيَرْضَوْهُ : اور تاکہ وہ اس کو پسند کرلیں وَلِيَقْتَرِفُوْا : اور تاکہ وہ کرتے رہیں مَا : جو هُمْ : وہ مُّقْتَرِفُوْنَ : برے کام کرتے ہیں
اور (وہ ایسے کام) اس لیے بھی (کرتے تھے) کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل ان کی باتوں پر مائل ہوں اور وہ انھیں پسند کریں اور جو کام وہ کرتے تھے وہی کرنے لگیں۔
آیت نمبر 113 قولہ تعالیٰ آیت : ولتصغی الیہ افئدہ، تصغی بمعنی تمیل ( مائل ہونا) ہے۔ کہا جاتا ہے : صغوت اصغو صغوا وصغوا، وصغیت اصغی، وصغیت یہ غین کے کسرہ کے ساتھ بھی ہے۔ اس سے کہا جاتا ہے : صغی یصغی صغی وصغیا، واصغیت الیہ اصغاء تمام ہم معنی ہیں۔ شاعر نے کہا ہے :؎ تری السفیۃ بہ عن کل محکمہ زیغ وفیہ الی التشبیہ اصغاء اور کہا جاتا ہے : اصغیت الاناء ( اور یہ تب کہا جاتا ہے) جب تو برتن کو جھکا دے تاکہ جو کچھ اس میں ہے وہ جمع اور اکٹھا ہوجائے۔ اور اس کی اصل المیل الی الشیء لغرض من الاغراض ہے یعنی کسی غرض اور مقصد کے لیے کسی چیز کی طف مائل ہونا (جھکنا) اور اسی سے ہے صغت النجوم ستارے غروب ہونے کی طرف مائل ہوئے۔ اور قرآن کریم میں ہے : آیت : فقد صغت قلوبکما ( التحریم : 4) ( اور تمہارے دل بھی توبہ کی طرف مائل ہوچکے ہیں) ابو زید نے کہا ہے : ( کہا جاتا ہے) صغوہ معک وصغوہ معک، صغاہ مع کی ای میلہ ( اس کا میلان تیرے ساتھ ہے) اور حدیث میں ہے : فاصغی لھا لانائ (سنن ابی داؤد، کتاب الاستبرا باب سورة الھرۃ، حدیث 68، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یعنی اس نے بلی کے لیے برتن جھکا دیا۔ اور اکرموا فلانا فی صاغیتہ یعنی تم فلان کی تکریم کرو اس کی اس قربت کے سبب جس کی طرف وہ مائل ہوتے ہیں اور جو اس کے پاس ہے اس کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اور اصغت الناقۃ ( یہ تب کہا جاتا ہے ( جب ناقہ اپنا سر آدمی کی طرف جھکائے گویا کہ وہ اس سے کچھ سن رہی ہے جب وہ اس پر کجاوہ باندھتا ہے۔ ذوالرمہ نے کہا ہے : تصغی اذا شدھا بالکور جائحۃ حتی اذا ما استوی فی غرزھا تثب اور ولتصغی میں لام لام کی ہے، اور اس میں عامل یوحی ہے۔ تقدیر عبارت یہ ہے : یوحی بعضھم الی بعض لیغروھم ولتصغی ( ان میں سے بعض بعض کی طرف القاء کرتے ہیں تاکہ وہ انہیں دھوکہ دیں تاکہ ( دل ان کی طرف) مائل ہوں) ۔ اور بعض نے یہ گمان کیا ہے کہ یہ لام امر ہے، اور یہ غلط ہے، کیونکہ اس میں ولتصغ الیہ الف کو حذف کرنا واجب ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ لام کی ہی ہے۔ اور اسی طرح ولیروہ لیقترفوا میں بھی ہے۔ مگر حسن نے آیت : ولیرضوہ ولیقترفوا لام کو سکون کے ساتھ پڑھا ہے، اور اسے لام امر قرار دیا ہے اور اس میں تہدید کا معنی موجود ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے : افعل ما شئت ( جو تیری مرضی وہ کر، تو اس میں امر تہدید کے لیے ہے) اور آیت ولیقترفوا ما ھم مقترفون کا معنی ہے ولیکتسبوا ( چاہیے کہ وہ کرتے رہیں) حضرت ابن عباس ؓ ، سدی اور ابن زید رحمۃ اللہ علیہما سے یہی مروی ہے۔ کہا جاتا ہے : خرج یقترف اھلہ ای یکتسب لھم ( وہ نکل گیا جو اپنے اہل کے لیے کرتا ہے) اور قارف فلان ھذا الامر جب وہ اس کام میں کود واقع ہو اور اسے عملا کرے۔ اور قرفتنی بھا ادعیت علی ای رمیتنی بالربیۃ ( تو نے مجھے شک میں ڈال دیا) اور قرف القرحۃ ( تب کہا جاتا ہے) جب وہ زخم کو چھیل دے اور اقترف کذبا ( اس نے جھوٹ گھڑ لیا) ۔ رؤبہ نے کہا ہے : اعیا اقراف الکذب المقرف تقوی التقی وعفۃ العفیف اور اس کا اصل معنی ہے کسی شی سے کوئی ٹکڑا کاٹنا۔
Top