Maarif-ul-Quran - Al-Waaqia : 83
فَلَوْ لَاۤ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَۙ
فَلَوْلَآ : پس کیوں نہیں اِذَا بَلَغَتِ : جب پہنچ جاتی ہے الْحُلْقُوْمَ : حلق کو۔ نرخرے کو
پھر کیوں نہیں جس وقت جان پہنچے حلق کو
سابقہ آیات میں پہلے عقلی دلائل سے پھر حق تعالیٰ کی طرف سے ستاروں کی قسم کھا کر اور ان کے مقہور و مغلوب ہونے کی کیفیت کی طرف اشارہ کر کے دو باتیں ثابت کی گئی ہیں، اول یہ کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اس میں کسی شیطان و جن وغیرہ کا کوئی تصرف نہیں ہو سکتا، جو کچھ اس میں ہے وہ حق ہے، دوسرا مسئلہ جو قرآن کے مسائل میں خاص اہمیت رکھتا ہے، وہ قیامت کا آنا اور سب مردوں کا زندہ ہو کر رب العزت کے سامنے حساب کے لئے پیش ہونا ہے اور اس کے آخر میں کفار و مشرکین کا ان سب دلائل واضحہ کے خلاف قرآن کی حقانیت اور قیامت میں مردوں کے زندہ ہونے سے انکار کا ذکر کیا گیا تھا۔
قیامت اور مرنے کے بعد زندہ ہونے سے انکار گویا ان کی طرف سے اس کا دعویٰ ہے کہ ان کی جان اور روح خود ان کے قبضہ میں ہے اور ان کی اپنی زندگی میں ان کو بھی کچھ دخل ہے، ان کے اس خیال باطل کی تردید کے لئے آیات مذکورہ میں ایک قریب الموت انسان کی مثال دے کر بتلایا کہ جب اس کی روح حلق میں پہنچتی ہے اور تم یعنی مرنے والے کے عزیز، دوست و احباب سب اس کے حال کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اور بتقاضائے محبت وتعلق یہ بھی چاہتے ہیں کہ اس کی روح نہ نکلے، یہ زندہ رہے، مگر اس وقت سب کو اپنی بیچارگی اور عاجزی کا احساس و اقرار ہوتا ہے کہ کوئی اس مرنے والے کی جان نہیں بچا سکتا اس پر حق تعالیٰ نے فرمایا کہ اس وقت اپنے علم وقدرت کے لحاظ سے ہم تمہاری نسبت اس مرنے والے سے زیادہ قریب ہوتے ہیں، قریب ہونے سے مراد اس کے اندرونی اور ظاہری حالات سے واقفیت اور اس پر پوری قدرت ہے اور فرمایا کہ مگر تم ہمارے اس قرب کو اور مرنے والے کے زیر تصرف ہونے کو آنکھوں سے نہیں دیکھتے، خلاصہ یہ ہے کہ تم سب مل کر اس کی زندگی اور روح کی حفاظت چاہتے ہو مگر تمہاری بات نہیں چلتی، ہم اپنے علم وقدرت کے اعتبار سے اس کے زیادہ قریب ہیں، وہ ہمارے زیر تصرف اور مشیت و حکم کے تابع ہے، جس لمحہ میں اس کی روح نکالنا ہم طے کرچکے ہیں، اس کو کوئی روک نہیں سکتا، اس مثال کو سامنے کر کے ارشاد ہوتا ہے کہ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ مرنے کے بعد تمہیں زندہ نہیں کیا جاسکتا اور تم اتنے قوی اور بہادر ہو کر خدا تعالیٰ کی گرفت سے باہر ہو تو ذرا اپنی قوت وقدرت کا امتحان یہیں کر دیکھو کہ اس مرنے والے کی روح کو نکلنے سے بچا لو، یا نکلنے کے بعد اس میں لوٹا دو اور جب تم سے اتنا بھی نہیں ہوسکتا تو پھر اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی گرفت سے باہر سمجھنا اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے سے انکار کرنا کس قدر بےعقلی کی علامت ہے۔
Top