Baseerat-e-Quran - Al-Furqaan : 35
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنَا مَعَهٗۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ وَزِیْرًاۚۖ
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا : اور البتہ ہم نے دی مُوْسَى : موسیٰ الْكِتٰبَ : کتاب وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنایا مَعَهٗٓ : اس کے ساتھ اَخَاهُ : اس کا بھائی هٰرُوْنَ : ہارون وَزِيْرًا : وزیر (معاون)
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تھی اور ہم نے ان کے بھائی ہارون کو ان کا مدد گار بنایا تھا۔
لغات القرآن آیت نمبر 35 تا 44 : اخاہ ( اس کا بھائی) ‘(وزیر) بوجھ اٹھانے والا۔ مددگار) ‘ دمرنا (ہم نے تباہ کردیا) ‘ تدمیر ( اچھی طرح تباہ کرنا) ‘ اعتدنا ( ہم نے تیار کردیا) ‘ قرون (قرن) قومیں۔ جماعتیں ‘ اصحب الرس (کنویں والے) ‘ تتبیر (اچھی طرح تباہ کرنا) ‘ امطرت (برسایا گیا) ‘ مطرالسوئ (بدترین بارش) ‘ نشور (مرنے کے بعد زندہ ہونا) ‘ ھزو (مذاق۔ ہنسی۔ اڑانا) ‘ بعث (اس نے بھیجا) ‘ کا د (قریب ہے) ‘ صبرنا ( ہم جمے رہے) ‘ اضل (زیادہ گمراہ) ‘۔ تشریح آیت نمبر 35 تا 44 : دنیا میں ہر ظالم و جابر اور قوت و طاقت رکھنے والے شخص کی یہ دلی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اس کی خواہش کے غلام اور حکم کے بندے بن کر رہیں۔ وہ لوگوں کو جدھر چلانا چاہیں لوگ اسی طرف چلیں۔ ہر جگہ ہر موقع پر اس کی ہر بات کو مانا جائے۔ لیکن اگر اس کے بر خلاف وہ تو وہ غرور وتکبر کا پیکربن کر بےکس و بےبس لوگوں کو زبردستی اپنے سامنے سرجھکا نے پر مجبور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ اس خواہش کو وپرا کرنے اور اپنے اقتدار و قوت کو بچانے کے لئے ننھے اور معصوم بچوں کو ذبح کرنا پڑے تو اس میں ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتا ۔ وہ لوگوں کی گردنوں پر سواررہنے کے لئے کبھی جھوٹے معبودوں کبھی چاند ‘ سورج ‘ ستاروں اور پتھر کے بےجان بتوں کے سامنے جھکا نے کی کوشش کرتا ہے۔ آگ کی پرستش اور شجر وحجر کو ان کا معبود بنادیتا ہے۔ بادشاہ بن بیٹھتا ہے اور اقتدار کے نشے میں خود ہی معبود بن جاتا ہے۔ لیکن ایسے لوگ وقتی خوش حالیوں میں ایسے بد مست ہوجاتے ہیں کہ ان کو اپنا انجام یاد نہیں رہتا۔ وہ ہر اس تحریک کو کچل ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کی خواہشوں میں رکاوٹ بنتی ہے۔ غرضیکہ وہ مال و دولت اور حکومت و سلطنت کے حاصل کرنے کے لئے جانوروں کی سطح سے بھی نیچے پہنچ جاتے ہیں۔ جب نبی کریم ﷺ نے جہالت میں ڈوبی ہوئی قوم کو دین اسلام کی سچائیوں کی طرف بلانے کی جدوجہد کی تو ابتدا میں کفار مکہ نے آپ کا اور آپ کے ارشادات کا مذاق اڑایا۔ آپ پر پھبتیاں کسیں اور یہاں تک کہہ دیا کہ ان پر کسی جن یا جادو کا اثر ہوگیا ہے جس سے یہ بہکی بہکی باتیں کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اے ہمارے حبیب ﷺ ! آج یہ کفار جو کچھ کررہے ہیں یا کہہ رہے ہیں وہ ایسی کوئی نئی بات نہیں ہے کہ جو اس سے پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) سے نہ کہی گئی ہو۔ ایسا ہوتارہا ہے اور قیامت تک ہوتا رہے گا کیونکہ حق و صداقت کی ہر آواز سے باطل پرستوں کے ایوانوں میں زلزلے آجاتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ نبیوں کی سچی بات سن لی گئی تو پھر ہماری سرداریوں اور چودھراہٹوں کا کیا ہوگا۔ فرمایا کہ اہل مکہ تو شام و فلسطین جاتے ہوئے ان بستیوں کے کھنڈرات کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ جو کبھی آباد تھیں ‘ لوگوں کی چہل پہل تھی ‘ مال و دولت کے ڈھیر تھے ‘ لوگ خوش حالیوں میں مست تھے لیکن جب انہوں نے اللہ کی نافرمانیوں کی انتہاء کردی تب اللہ نے ان کی بستیوں کو ان کی نافرمانیوں اور گناہوں کی وجہ سے مٹی کا ڈھیر بنا کر رکھ دیا اور آج ان شہروں کے کھنڈرات عبرت کا نمونہ بنے ہوئے ہیں لیکن پھر بھی یہ کفار اس سچائی پر غور فکر نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان ہی سب باتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو توریت جیسی کتاب عطا فرمائی اور ان کی بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) کو نبی بناکر انکا مدد گار بنایا۔ دونوں ہمارے حکم سے فرعون کے دربار میں پہنچے فرعون کو سمجھایا مگر وہ اپنے اقتدار کی مبد مستی میں حق و صداقت کی کوئی بات سننے کے لئے تیار نہ ہوا اور اس نے ہر طرح کے ظلم و ستم کی انتہاء کردی۔ آخر کار اللہ کا وہ فیصلہ آگیا جو نافرمان قوموں کا مقدر ہوا کرتا ہے اور اللہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والوں کو نجات عطا فرمادی اور فرعون ‘ اس کے ساتھیوں اور قوت اقتدار کو سمندر میں غرق کر کے نشان عبرت بنادیا۔ حضرت نوح ؐ نے ساڑھے نو سو سال تک مسلسل اللہ کے دین اور اس کی سچائیوں کو دلوں میں اتارنے کی جدوجہد فرمائی۔ آپ نے ہر طرح اپنی قوم کو سمجھایا مگر وہ کسی بات کو ماننے کے لئے تیار ہی نہ ہوتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو ایک بڑی کشتی بنانے کا حکم دیا جس میں تمام اہل ایمان کو اور ہر جانور کے ایک ایک جوڑے کو رکھنے کا حکم دیا۔ بعض روایات کے مطابق حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی میں کل تین سو تیرہ اہل ایمان سوار ہوئے بقیہ تمام لوگوں کو پانی کے اس طوفان میں غرق کر کے مقام عبرت بنادیا۔ قوم عاد نے دنیا پر ایک ہزار سال کت حکومت کی۔ قوم ثمود نے اپنے معیار زندگی کو انتہائی بلند کیا۔ وہ صنعت و حرفت میں بہت آگے جا چکے تھے اور بیس بیس منزلہ بلڈنگیں پہاڑ کاٹ کاٹ کر بنایا کرتے تھے ۔ بہت سے انبیاء کرام (علیہ السلام) نے ان کی اصلاح کرنا چاہیمگر جب یہ قومیں بھی اللہ کو بھول گئیں اور انہوں نے انبیاء کرام (علیہ السلام) کی تعلیمات کو جھٹلانا شروع کیا تو اللہ کا قہرو غضب ان قوموں پر نازل ہوا اور ان کو جڑ و بنیاد سے کھود کر رکھ دیا گیا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اہل مکہ سے قوم لوط کی برباد بستیاں اور کھنڈرات دور نہیں ہیں وہ جب بھی شام و فلسطین کا سفر کرتے ہیں تو راستے میں قوم لوط کی بستیاں بھی پڑتی ہیں جن کو الٹ کر پتھروں کی بارش کی گئی تھی۔ آج انکی آباد بستیوں کی جگہ ایک ایسا بےجان ( بحرمردار) سمندر ہے جو اپنے اندر کسی جان دار کو برداشت تک نہیں کرتا ۔ اللہ تعالیٰ نے ان قوموں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ ان کو اس بات پر یقین نہیں ہے جب یہ مرجائیں گے تو پھر ان کو دوبارہ زندہ بھی ہونا ہے اگر ان کو اس بات کا یقین ہوتا کہ جب یہمرجائیں گے تو پھر ان کو اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے اور زندگی کے ایک ایک لمحے کا جواب دینا ہے تو ان کی یہ کیفیت نہ ہوتی۔ آج وہ کفار مکہ آپ کا مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اچھا تو یہ ہیں وہ جن کو اللہ نے اپنا رسول بنا کرب بھیجا ہے ؟ یہ تو اچھا ہوا کہ ہم اپنے معبودوں پر جمے بیٹھے ہیں ورنہ اگر ہم اپنی جگہ سے ذرا ہل جاتے اور ان کا کہنا مان لیتے تو نجات ہمارا اور ہمارے معبودوں کا کیا انجام ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دراصل یہ لوگ اپنی خواہشوں کے غلام بن کر رہ گئے ہیں۔ ان کی خواہشات ہی ان کی معبود ہیں۔ جب یہ حالت ہوجائے تو ان خواہش پرستوں سے کیا امید رکھی جاسکتی ہے جو دیکھ کر سن کر بھی سچائی کو قبول نہیں کرتے تو وہ ان چوپایوں اور جانوروں سے بھی بدتر ہیں جو کم ازکم کہیں تو اپنی گردن جھکا دیتے ہیں۔ ان کا تو یہ حال ہے کہ ان میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا کوئی جذبہ ہی باقی نہیں رہا ہے۔ ان کا انجام گذشتہ قوموں سے مختلف نہ ہوگا۔ بلکہ اگر انہوں نے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی اطاعت وفرماں برداری نہ کی تو ان کی زندگیاں بھی مقام عبرت بن جائیں گی۔
Top