Ruh-ul-Quran - Al-Furqaan : 35
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنَا مَعَهٗۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ وَزِیْرًاۚۖ
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا : اور البتہ ہم نے دی مُوْسَى : موسیٰ الْكِتٰبَ : کتاب وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنایا مَعَهٗٓ : اس کے ساتھ اَخَاهُ : اس کا بھائی هٰرُوْنَ : ہارون وَزِيْرًا : وزیر (معاون)
اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب عطا کی اور ان کے ساتھ ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو ان کا مددگار بنایا
وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَجَعَلْنَا مَعَہٗٓ اَخَاہُ ھٰرُوْنَ وَزِیْرًا۔ (الفرقان : 35) (اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب عطا کی اور ان کے ساتھ ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو ان کا مددگار بنایا۔ ) قریش کو تنبیہ کے لیے تاریخِ انبیاء سے استدلال گزشتہ آیات میں قریش اور دیگر اہل مکہ آنحضرت ﷺ کی نبوت اور قرآن کریم کے حوالے سے جو مختلف قسم کے اعتراضات کرتے تھے ان کا جواب دیا گیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کا انجام بھی بیان کیا گیا ہے جس سے وہ قیامت کے دن دوچار ہونے والے ہیں۔ اب پیش نظر آیات میں بعض جلیل القدر انبیائے کرام اور ان کی قوموں کی تاریخ سے استدلال کرتے ہوئے مزید سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ تمہیں اگر اپنے انجام کی فکر نہیں اور اس سے فکرمند ہو کر اپنے رویئے پر نظرثانی کرنے کو تیار نہیں ہو تو تم سے پہلے کئی قومیں گزر چکی ہیں اور ان کی طرف متعدد رسول مبعوث ہوچکے ہیں اور ان کے حالات اور ان کی تباہ شدہ بستیوں کے احوال سے تم کسی حد تک واقف ہو۔ تو کیا اس آئینہ میں تم اپنے انجام کو دیکھ نہیں سکتے، کہ جس طرح تمہاری طرف ایک رسول آیا اور تم اس کی تکذیب کررہے ہو، اسی طرح ان قوموں کی طرف بھی رسول آئے اور انھوں نے ان کی تکذیب کی۔ تو وہ اس جرم کی پاداش میں تباہ و برباد کردی گئیں۔ تو تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر وہی جرم تم کرو تو اللہ تعالیٰ کا عدل کیا تمہیں چھوڑ دے گا، اور تم اس کی گرفت سے اس لیے بچ جاؤ گے کہ تم بیت اللہ کے متولی اور اس کے جوار میں رہنے والے ہو۔ سب سے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر ان کی جلالتِ قدر اور شہرت کے باعث گزشتہ قوموں اور ان کی طرف مبعوث ہونے والے رسولوں کا تذکرہ کرتے ہوئے سب سے پہلے بنی اسرائیل کے سب سے زیادہ جلیل القدر صاحب کتاب و شریعت نبی اور رسول حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ کیا گیا ہے، کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی۔ اور ان کے ساتھ ان کے بھائی ہارون ( علیہ السلام) کو مددگار بنایا۔ اس آیت میں سب سے پہلی بات جو قابل توجہ ہے، وہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت دی گئی اور ان کی درخواست پر حضرت ہارون (علیہ السلام) کو ان کا شریک کار بنایا گیا تو اس وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر کوئی کتاب نازل نہیں کی گئی تھی۔ کیونکہ وہ کتاب جو تورات کے نام سے معروف ہے۔ وہ مصر سے خروج کے بعد وادی سینا میں آپ ( علیہ السلام) کو دی گئی جس کا آغاز ان احکامِ عشرہ سے ہوتا ہے جو طور سینا پر سنگین کتبوں کی شکل میں آپ ( علیہ السلام) کو دیئے گئے۔ اور یہاں جس کتاب کا ذکر ہورہا ہے اس کا تعلق تو اس وقت سے ہے جب آپ ( علیہ السلام) کو منصب نبوت پر سرفراز کیا گیا۔ تو سوال یہ ہے کہ اس کتاب سے مراد کیا ہے۔ بعض اہل علم کا خیال ہے اور یہ صحیح معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد وہ ہدایات ہیں جو نبوت کے منصب پر مامور ہونے کے وقت سے لے کر خروج تک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دی جاتی رہیں۔ ان میں وہ خطبے بھی شامل ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کے دربار میں دیئے اور وہ ہدایات بھی شامل ہیں جو فرعون اور اور آل فرعون کیخلاف جدوجہد کے دوران آپ ( علیہ السلام) کو دی جاتی رہیں۔ قرآن مجید نے جگہ جگہ ان کا ذکر فرمایا ہے۔ لیکن تورات میں ان چیزوں کا کہیں وجود نہیں۔ ہماری ناقص رائے میں ان ہدایات کی حیثیت وہی ہے جو آنحضرت ﷺ کی احادیث کی ہے۔ آپ ﷺ کی تئیس سالہ تبلیغی مساعی اور غلبہ دین کی کاوشوں کے سلسلے میں جو ہدایات دی جاتی رہی ہیں ان میں جو اصولی احکام ہیں وہ تو قرآن کریم کی شکل میں نازل ہوئے۔ لیکن جو تشریحی امور ہیں اور جن کا تعلق غلبہ دین کے راستے میں پیش آنے والی مشکلات سے ہے انھیں مضمون اور مفہوم کی شکل میں عموماً آنحضرت ﷺ کے قلب مبارک پر نازل کیا گیا۔ اور آپ ﷺ نے ان کے مطابق ہدایات بھی دیں اور احکام کی وضاحت بھی فرمائی۔ اور جہاں کہیں ضرورت لاحق ہوئی عمل کی صورت آرائی بھی کی۔ یہی کیفیت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی جانی والی ہدایات کی ہے۔ رہی یہ بات کہ انھیں کتاب کا نام دیا گیا ہے تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ کیونکہ پیغمبر کی احادیث اور سنت، کتاب کی تشریح و تعبیر اور تفصیل و وضاحت پر مشتمل ہوتی ہے۔ اور کتاب اللہ کے اقوال کو عملی شکل دینے اور ادارتی سانچے میں ڈھالنے کی کاوش ہوتی ہے۔ اس لیے وہ کتاب سے ہٹ کر کوئی اجنبی چیز نہیں ہوتی۔ ثبوت کے اعتبار سے دونوں میں فرق ضرور ہے لیکن عمل کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) کی رفاقت اہتمام دعوت کے حوالے سے دوسری بات جو قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اظہار وبیان کے حوالے سے اپنے طبعی اشکال کو محسوس کرتے ہوئے اپنے بڑے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) کو رسالت دینے، آپ کا وزیر بنانے اور اس ذمہ داری کی ادائیگی میں معاون بنانے کی درخواست کی۔ اور یہ فرمایا کہ واخی ہارون ہوافصح منی لسانا ” میرے بھائی ہارون بیان و اظہار میں مجھ سے زیادہ فصیح ہیں۔ “ اور میں اپنے اندر جرأتِ اظہار میں کمی پاتا ہوں۔ تو انھیں میرے ساتھ لگا دیجیے تاکہ ہم دونوں مل کر اس کار عظیم کو انجام دے سکیں۔ کسی رسول کی دعا سے دوسرے شخص کو رسول بنا کر اس کا معاون و مددگار بنادینا تاریخِ رسالت میں اس کی اور کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ ایک غیرمعمولی احسان ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر کیا ہے۔ اور قرآن کریم بار بار اس احسان کا ذکر کرتا ہے۔ چناچہ پیش نظر آیت میں بھی اس احسان کا ذکر اس حوالے سے کیا جارہا ہے کہ قریش کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل مصر کی اصلاح کے لیے کس قدر اہتمام سے کام لیا تھا، کہ ایک نہیں بیک وقت دو رسولوں کو ان کی طرف مبعوث کیا تاکہ اللہ تعالیٰ کے دین کے ابلاغ اور لوگوں کی تفہیم میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔ اس طرح تبلیغ و دعوت کا حق بھی ادا ہوجائے گا اور اتمامِ حجت بھی ہوجائے گا۔ لیکن جب انھوں نے اللہ تعالیٰ کے اس احسان و اہتمام کی کوئی قدر نہ کی، تو پھر ان کا جو انجام ہوا تو تم اس سے واقف ہو اور اگلی آیت میں نہایت اختصار سے اس کا ذکر کیا جارہا ہے۔
Top