Asrar-ut-Tanzil - Al-Furqaan : 35
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنَا مَعَهٗۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ وَزِیْرًاۚۖ
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا : اور البتہ ہم نے دی مُوْسَى : موسیٰ الْكِتٰبَ : کتاب وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنایا مَعَهٗٓ : اس کے ساتھ اَخَاهُ : اس کا بھائی هٰرُوْنَ : ہارون وَزِيْرًا : وزیر (معاون)
اور یقینا ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی تھی اور ہم نے ان کے ساتھ ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو (ان کا) معاون بنایا تھا
(رکوع نمبر 4) اسرارومعارف اور اگر ان کی یہی دلیل ہو کہ قرآن یکبارگی نازل کیوں نہ ہوا تو قبل ازیں موسیٰ (علیہ السلام) کو تو یکبارگی کتاب عطا ہوئی تھی اور ان کے ساتھ ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو بھی معاون بنا دیا گیا اور دونوں کو ایسی قوم کی طرف بھیجا گیا یعنی فرعون اور آل فرعون کی طرف جنہوں نے ہماری آیات اور عظمت کے دلائل کو ماننے اور سمجھنے سے انکار کر رکھا تھا مگر انہوں نے کب مان کردیا تھا حتی کہ معجزات تک کا انکار کیا اور اپنے کفر پر قائم رہے تاآنکہ قہر الہی نے انہیں برباد کر کے نام ونشان مٹا دیا یعنی غرق دریا ہوگئے اگرچہ فرعون نزول کتاب سے قبل ہلاک ہوا مگر بعد کے کفار نے بھی تسلیم تو نہ کیا اور یہ دلیل نہ مانی کہ یکبارگی نازل ہونے والی کتاب کو مانا جائے اور یہ ایک مثال ہی تو نہیں نوح (علیہ السلام) کی قوم نے اللہ جل جلالہ کے رسولوں کی تعلیمات کو ماننے سے انکار کردیا کہ عقائد تو سارے نبی وہی بیان فرماتے ہیں لہذا ایک کا انکار تمام انبیاء کرام ﷺ کی تعلیم کا انکار ہے ، چناچہ اس انکار کے نتیجہ میں یوں غرق ہو کر تباہ ہوئے کہ درس عبرت بن گئے یہ سزا اور برائی کا انجام تو دنیا کی زندگی میں تھا آخرت میں ایسے منکرین کے لیے ہم نے بہت درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے یہی حال عاد قوم ثمود اور اصحاب الرس یعنی کچے کنوؤں پر آباد قوم کا بھی ہوا اور بھی بہت سی اقوام جنہوں نے انبیاء کرام ﷺ کی تعلیمات کو جھٹلایا اسی بربادی ہی سے دو چار ہوئیں ، ان سب کے لیے اللہ کریم نے بڑے موثر انداز میں اور مثالیں دے کر تعلیمات نازل فرمائیں مگر وہ نہ مانے اور یوں سب کے سب تباہی و بربادی ہی سے دو چار ہوئے اور یہ کفار جو آپ ﷺ کی تعلیمات کا انکار کر رہے ہیں اپنے تجارتی سفروں میں قوم لوط (علیہ السلام) کے تباہ شدہ کھنڈروں پر سے ہو کر گذرتے ہیں جن پر پتھر برسائے گئے تھے تو کیا یہ عبرت کے لیے کافی نہیں مگر انکی گمراہی کا سبب ان کا آخرت سے اور مرنے کے بعد زندہ ہونے سے انکار پر ہے انہیں یہ یقین ہی نہیں کہ پھر زندہ ہو کر جواب دینا ہے لہذا اس تباہی کو حادثات اور اتفاقات سمجھتے ہیں کفر و انکار کا وبال نہیں سمجھتے اور ان کے اندھے پن کا یہ حال ہے کہ آپ ﷺ کو دیکھ کر مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ذرا دیکھو تو انہیں اللہ جل جلالہ نے رسول مبعوث کردیا ہے یعنی دل کے اندھے ہیں آپ کا حسن و جمال نظر آتا ہے نہ آپ کے کمالات کی طرف دھیان جاتا ہے بلکہ اپنے معیار کے مطابق بڑے بڑے دنیا داروں ہی کی عزت کرتے ہیں ، ان کا خیال ہے کہ ان کے روساء میں سے کسی کو رسول ہونا چاہیے تھا اور کہتے ہیں کہ انہوں نے تو حد کردی اگر ہم ڈٹ کر نہ رہتے تو یہ ہمیں ہمارے بتوں سے ہٹا کر گمراہ کردیتے گویا خود کو ہدایت پر اور اللہ کے رسول ﷺ کو معاذ اللہ گمراہ سمجھتے ہیں ، ان کی یہ کج فہمی بہت جلد درست ہوجائے گی ، جب اللہ جل جلالہ کا عذاب ان کے روبرو ہوگا عذاب الموت بھی اور روز حشر بھی انہیں پتہ چل جائے گا کہ واقعی گمراہ کون ہے آپ ﷺ نے ان لوگوں کی زندگی کو مشاہدہ فرما لیا یہ سب اپنی خواہشات کے بندے ہیں اور کافرانہ رسومات جو مذہب کے نام پر گھڑی جاتی ہیں ان کا فلسفہ ہی یہی ہے کہ لوگوں کی خواہشات کو ان سے متعلق بنایا جاتا ہے اس بت کو پوجا کرو دولت مند ہوجاؤ گے یا فلاں رسم سے صحت ملے گی وغیرہ لہذا یہ دراصل اپنی خواہشات کے پجاری ہیں اور اپنی آرزوؤں کو معبود بنا رکھا ہے ، ایسے لوگوں کو ہدایت پر لانے کے آپ ﷺ ذمہ دار نہیں ہیں آپ ﷺ کا کام اللہ کا پیغام دینا ہے جسے سمجھنے کے لیے عقل و شعور کی ضرورت ہے جو یہ اپنے گناہوں کے باعث گم کرچکے اب نہ انہیں کوئی دلیل سنائی ہی دیتی ہے نہ ان میں غور وفکر کی استعداد باقی ہے بس چوپایوں کی زندگی گذار رہے ہیں کہ پیٹ بھر لیا رہنے کا ٹھکانہ مل گیا بچے پیدا کیے اور مر گئے یہ چوپایوں سے بھی بدتر ہیں کہ انسانی اوصاف عطا ہوئے تھے جنہیں گناہوں کی دلدل میں گم کر کے حیوانی زندگی کی سطح پر آگئے جیسے مغرب کا معاشرہ کہ انسانی رشتے تک قدر کھو چکے ہیں اور محض مال یا جنس کا رشتہ رہ گیا ہے اور حقیقی رشتے تک ان سے چھوٹ گئے جو زندگی کی راحتوں کا باعث تھے ۔
Top