Tadabbur-e-Quran - Al-Furqaan : 35
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنَا مَعَهٗۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ وَزِیْرًاۚۖ
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا : اور البتہ ہم نے دی مُوْسَى : موسیٰ الْكِتٰبَ : کتاب وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنایا مَعَهٗٓ : اس کے ساتھ اَخَاهُ : اس کا بھائی هٰرُوْنَ : ہارون وَزِيْرًا : وزیر (معاون)
اور ہم نے موسٰی کو کتاب عطا کی اور اس کے ساتھ اس کے بھائی ہارون کو اس کا مددگار بنایا
آگے کا مضمون …44-35 آگے حضرت مسیٰ اور حضرت نوح اور ان کے درمیان کی ان قوموں کا اجمالی حوالہ ہے جن کے اندر رسولوں کی بعثت ہوئی۔ مقصود اس حوالہ سے آنحضرت ﷺ کو تسلی دینا اور آپ ﷺ کی قوم کو متنبہ کرنا ہے کہ ان قوموں کو بھی اللہ نے اپنی تعلیمات و ہدایات سے آگاہ کیا لیکن انہوں نے ان کی قدر کرنے کے بجائے ان تعلیمات کے پیش کرنے والوں کا مذاق اڑایا جس کا نتیجہ بالاخر یہ نکلا کہ وہ نہایت تباہ کن انجام سے دوچار ہوئیں۔ اس سورة میں واقعات کی طرف صرف اشارہ ہے۔ آگے کی سورة میں، جو اس کی مثنٰی ہے۔ ان واقعات کی تفصیل آئے گی۔ واقعات کی ترتیب صعودی بھی ہے اور نزولی بھی۔ پہلے حضرت موسیٰ کا ذکر فرمایا ہے جو سلسلہ بنی اسرائیل کے سب سے زیادہ جلیل القادر صاحب کتاب و شریعت بنی و رسول ہیں۔ اس کے بعد حضرت نوح کا ذکر فرمایا ہے جن سے حضرت آدم کے بعد، گویا سلسلہ رسالت کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ نیچے سے اوپر کی طرف اشارہ ہوا۔ پھر درمیان کی دوسری امتوں کا ذکر فرمایا اور ان کے ذکر میں ترتیب نزولی یعنی اوپر سے نیچے کی طرف ہے۔ آیات کی تلاوت فرمایئے۔ حضرت موسیٰ کے ساتھ حضرت ہارون کا ذکر اتمام حجت کے پہلو سے حضرت موسیٰ کے ساتھ حضرت ہارون کا ذکر، ان کے مددگار کی حیثیت سے بار بار جو آتا ہے اس سے مقصود اس احسان اور تمام حجت کے پہلو کو نمایاں کرنا ہوتا ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ ایک سرول کے ساتھ اپنے ایک دوسرے پیغمبر کو اس کی مدد کے لئے مامور فرمایا۔ دوسرے مقام میں یہ تفصیل گزر چکی ہے کہ اظہار وبیان کے پہلو سے حضرت موسیٰ ؑ اپنے اندر ایک کمی محسوس فرماتے تھے اس وجہ سے انہوں نے دعا فرمائی کہ حضرت ہارون کو ان کا شریک کار بنا دیا جائے کہ ان کی زبان آوری اور فصاحت کی مدد سے وہ پوری قوت و اعتماد کے ساتھ تبلیغ حق کرسکیں تاکہ دعوت و اتمامح جت کے پہلو سے ادائے فرض میں کوئی کسر نہ رہ جائے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور ان دونوں نبیوں نے بیک وقت فرعونیوں کو دعوت دی لیکن انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس احسان و اہتمام کی کوئی قدر نہ کی۔
Top