Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Furqaan : 35
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنَا مَعَهٗۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ وَزِیْرًاۚۖ
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا
: اور البتہ ہم نے دی
مُوْسَى
: موسیٰ
الْكِتٰبَ
: کتاب
وَجَعَلْنَا
: اور ہم نے بنایا
مَعَهٗٓ
: اس کے ساتھ
اَخَاهُ
: اس کا بھائی
هٰرُوْنَ
: ہارون
وَزِيْرًا
: وزیر (معاون)
ہم نے موسیٰ کتاب دی اور اس کے ساتھ اس کے بھائی ہارون کو مدد گار کے طور پر لگایا
(ولقد اتینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وزیرا) (35 تا 40) ” یہ چند مثالیں سرسری مثالیں ہیں جن میں مکذبین کا انجام دکھایا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی جاتی ہے ان کے بھائی ہارون کو ان کا وزیر اور امدادی رسول بنایا جاتا ہے اور ان کو اس قوم کے مقابلے میں بھیجا جاتا ہے جس نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا۔ القوم الذین کذبوا بایتنا (25 : 36) یہ تھے فرعون اور اس کے سردار جو اللہ کی آیات کی تکذیب کرتے تھے ۔ مطلب یہ ہوا کہ یہ لوگ آیات الہیہ کا انکار حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کو منصب رسالت عطا کیے جانے سے پہلے بھی کرتے تھے۔ کیونکہ اللہ کی آیات تو قائم و دائم ہیں۔ اس کائنات میں بھی ہیں اور انفس میں بھی ہیں ‘ رسولوں کا کام صرف یہ ہے کہ وہ لوگوں کو ان کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ ابھی دوسری آیت ختم نہیں ہوئی کہ بڑی سختی سے انجام بتادیا جاتا ہے۔ فدمرنھم تد میرا (25 : 36) ” آخر کار ان لوگوں کو ہم نے تباہ کر کے رکھ دیا ہے “۔ اس کے بعد قوم نوح کا حال کذبوا الرسل اغرقنھم (25 : 37) ” انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا تو ہم نے ان کو غرق کردیا “ قوم نوح نے تو صرف ایک رسول حضرت نوح (علیہ السلام) کو جھٹلایا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ حضرت نوح نے جو عقیدہ ان کے سامنے پیش کیا تھا وہ تمام نبیوں کا عقیدہ تھا۔ جب انہوں نے حضرت نوح کو جھٹلایا تو گویا تمام رسولوں کو جھٹلادیا۔ وجعلنھم للناس ایۃ (25 : 37) ” اور ان کو دنیا بھر کے لوگوں کے لیے نشان عبرت بنا دیا “۔ کیونکہ طوفان کا معجزہ کبھی بھی بھلایا نہیں جاسکتا۔ جو شخص بھی طوفان کے اس واقعہ پر غور کرے گا اسے عبرت حاصل ہوگی۔ واعتدنا للظلمین عذابا الیما (25 : 37) ” اور ان ظالموں کے لیے ایک درد ناک عذاب ہم نے تیار کر رکھا ہے “۔ یہ عذاب حاضر و موجود ہے۔ کسی تیاری کی ضرورت نہ ہوگی۔ ظالمین کا لفظ ضمیر کی جگہ استعمال کیا گیا تاکہ یہ ان کا دائمی لقب ہو اور یہ بھی بتا دیا جائے کہ یہ عذاب ان کو ان کے ظلم کی وجہ سے دیا جائے گا۔ پھر عاد ‘ ثمود اور اصحاب الرس (وہ لوگ جن کے کنویں کی دیواریں نہ اٹھائی گئی تھیں ‘ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ یمامہ کے ایک گائوں میں رہتے تھے اور انہوں نے اپنے نبی کو قتل کردیا تھا۔ ان جریر نے تو کہا ہے کہ یہ اصحاب الا خدود ہیں جنہوں نے مومنین کو جلا دیا تھا۔ جس کا ذکر سورة بروج میں آیا ہے) ۔ اور ان کے علاوہ دوسرے لوگ جو بعد کے ادوار میں آتے رہے سب کو اللہ نیہلاک کر کے نشان عبرت بنایا۔ انہوں نے پیغمبروں کی دعوت پر غور نہ کیا اور ہلاکت سے نہ بچ سکے۔ یہ تمام مثالیں ‘ قوم موسیٰ ‘ نوح ‘ عاد ‘ ثمود ‘ اصحاب الرس ‘ درمیان زمانوں کی اقوام اور وہ قوم (لوط) جس پر بری بارش کی گئی۔ یہ سب اقوام ایک ہی راہ اور ایک ہی انجام تک پہنچیں۔ اور سب کو اللہ نے نشانہ عبرت بنایا۔ وکلا تبرنا تتبیرا (25 : 40) ” سب کو ہم نے ہلاک کردیا بےدردی سے “۔ کیونکہ انہوں نے نبیوں کی تکذیب کی اور جو اقوام نبیوں کی تکذیب کرتی ہیں وہ ٹوٹ پھوٹ اور ہلاکت کے انجام سے دو چار ہوتی ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ ان ساری اقوام کے المناک انجام پر نہایت ہی سر سری نظر ڈالتا ہے اور یہ سریع الحرکت بیان آکر حضرت لوط کی قوم کے بیان پر ختم ہوتا ہے جو ان کے اسفار سٹاء و صیف میں شاہراہ عام پر ان کو خوب نظر آتا ہے۔ اللہ نے اس قوم کو آتش نشانی کے عمل کے ذریعہ ہلاک کیا۔ ان پر پتھروں کی بارش کردی گئی۔ اور اس طرح ان کو پوری طرح ہلاک کردیا گیا۔ تعجب ہے کہ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے اور سنتے ہوئے یہ لوگ پھر بھی تکذبین کے انجام سے کوئی عبرت نہیں لیتے۔ یہ قیامت کا خوف اپنے دل میں نہیں رکھتے۔ اللہ کے سامنے پیشی سے نہیں ڈرتے۔ یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ ان کے دل پتھر بن گئے ہیں ‘ مسخ ہوچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے مقابلے میں انہوں نے کینہ ‘ عناد ‘ استکبار اور مذاق کا رویہ اختیار کیا ہے اور قرآن پر یہ طرح طرح کے اعتراضات کرتے ہیں۔ اقوام مکذبہ پر اس سرسری نظر کے بعد روئے سخن اب ان لوگوں کے مزاحیہ انداز کی طرف پھرجاتا ہے۔ اس سے قبل انہوں نے اللہ کی شان میں بھی ایسی ہی گستاخی کی تھی۔ اور کہا تھا کہ یہ قرآن موجودہ انداز سے کیوں نازل ہورہا ہے۔ تعجب ہے کہ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے اور سنتے ہوئے یہ لوگ پھر بھی مکذبین کے انجام سے کوئی عبرت نہیں لیتے۔ یہ قیامت کا خوف اپنے دل میں نہیں رکھتے۔ اللہ کے سامنے پیشی سے نہیں ڈرتے۔ یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ ان کے دل پتھر بن گئے ہیں ‘ مسخ ہوچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے مقابلے میں انہوں نے کینہ ‘ عناد ‘ استکبار اور (واذا راوک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سبیلا) (41 تا 44) ” یہ لوگ جب تمہیں دیکھتے ہیں تو تمہارا مذاق بنا لیتے ہیں (کہتے ہیں) ” کیا یہ شخص ہے جسے خدا نے رسول بنا کر بھیجا ہے ؟ اس نے تو ہمیں گمراہ کر کے اپنے معبودوں سے برگشتہ ہی کردیا ہوتا۔ اگر ہم ان کی عقیدت پر جم نہ گئے ہوتے “۔ اچھا ‘ وہ وقت دور نہیں ہے جب عذاب دیکھ کر انہیں خود معلوم ہوجائے گا کہ کون گمراہی میں دور نکل گیا تھا۔ کبھی تم نے اس شخص کے ال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو۔ کیا تم ایسے شخص کو راہ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو ؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں ؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں ‘ بلکہ ان سے بھی گئے گزرے “۔ حضرت محمد ﷺ اپنی قوم میں دیکھے سنے ہوئے تھے۔ قبل بعثت آپ ﷺ ان کے ہاں اک نہایت معتبر شخص تھے۔ آپ بنی ہاشم کے ایک چوٹی کے فرد تھے جو قریش کے چوٹی کے لوگ تھے۔ اپنے اخلاق کی وجہ سے بھی آپ بڑے مرتبے اور مقام کی شخصیت تھے اور بعثت سے قبل صادق اور امین مشہور تھے۔ جب تعمیر خانہ کعبہ کے وقت حجر اسود رکھنے کے مسئلے پر قریش کے اندر اختلافات پیدا ہوگئے تو تمام لوگ اس بات پر تیار ہوگئے کہ آپ اس پتھر کو نصب کردیں اور جب آپ نے ان کو صفا پر بلایا اور ان سے پوچھا کہ اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے اس طرف ایک فوج آپ لوگوں پر حملہ آور ہو رہی ہے تو کیا آپ میری بات کو تسلیم کریں گے تو سب نے کہا ‘ ہاں آپ ﷺ ہمارے ہاں۔۔ نہیں ہیں۔ لیکن بعثت کے بعد قرآنی دعوت پیش کرنے کے بعد وہی تھے جو حضرت محمد ﷺ کے ساتھ مذاق کرتے تھے۔ اھذا الذی بعث اللہ (25 : 41) ” کیا یہ شخص ہے جسے خدا نے رسول بنا کر بھیجا ہے “ ۔ یہ فقرہ وہ بطور مذاق کہتے تھے۔ کیا یہ بات تھی کہ نبی ﷺ کی ذات سے وہ مذاق کرنا چاہتے تھے یا قرآن کریم میں کوئی ایسی بات تھی جس کے ساتھ مذاق کیا جاسکتا تھا۔ نہیں ‘ یہ دونوں باتیں نہ تھیں بلکہ یہ بات وہ کبرائے قریش کے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کہتے تھے۔ اس طرح وہ نبی ﷺ کی عظیم شخصیت کی کردار کشی کرنا چاہتے تھے۔ اور اس طرح وہ قرآن کریم کے بےپناہ اثرات کو کنٹرول کرنا چاہتے تھے۔ یہ انہوں نے اس جدید دعوت کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک تدبیر اختیار کی تھی کیونکہ سابقہ معاشرے میں ان کو جو مقام اور مرتبہ حاصل تھا ‘ اس کو خطرہ لاحق ہوگیا تھا۔ نیز ان کے بعض اقتصادی مفادات سابقہ نظام جاہلیت سے وابستہ تھے۔ یہ منصبی اور اقتصادی حیثیت ان کو ان نظریاتی خرافات کی وجہ سے حاصل تھی جو عربی معاشرے پر چھائے ہوئے تھے اور قرآن ان خرافات لایعنی کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک رہا تھا۔ یہ لوگ جدید دعوت کا مقابلہ کرے کے لیے بڑی بڑی مجلسیں کرتے تھے۔ ان مجالس میں یہ لوگ اس قسم کے غلط پروپینڈے اور جھوٹے کردار کشی کے فیصلے کرتے تھے۔ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ یہ سب کچھ جھوٹ کہہ رہے ہیں۔ ابن اسحاق نے روایت کی ہے کہ ایک بار ولید ابن مغیرہ کے پاس قریش کے کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ بڑا معمو اور دانشور شخص تھا۔ موسم حج قریب تھا۔ اس نے ان قریشیوں سے کہا کہ موسم حج آنے والا ہے۔ تمام عالم عرب سے وفود مکہ آئیں گے۔ انہوں نے تمہارے اس آدمی کے بارے میں تو سن رکھا ہے۔ لہذا مناسب ہے کہ اس کے بارے میں تم اپنی رائے ایک کرلو۔ یہ نہ ہو کہ تم مختلف باتیں کرو۔ اور ایک دوسرے کی تکذیب کرتے پھرو۔ انہوں نے کہا عبدالشمس کے باپ بس تم ہی بتا دو تم ایک رائے قائم کرکے ہمیں کہو ہم سب وہی بات کریں گے ‘ یہ سنکر اس نے کہا کہ پہلے تم بتائو کہ تم کیا کہو گے۔ میں دیکھوں کہ تم کیا کہتے ہو۔ انہوں نے کہا ہم اس کے بارے میں کہیں گے کہ یہ ایک کاہن ہے۔ اس نے کہا ‘ خدا کی قسم یہ بات غلط ہے۔ یہ کاہن نہیں ہے۔ ہم نے کاہنوں کو دیکھا ہے۔ یہ نہ ان کی طرح گنگناتا ہے اور نہ ان کی طرح سجع بندی کے ذریعے بات کرتا ہے۔ انہوں نے کہا : تو پھر ہم کہیں گے کہ یہ مجنوں ہے۔ تو اس نے کہا کہ یہ مجنوں بھی نہیں ہے۔ ہم مجنونوں کو اچھی طرح دیکھتے اور جانتے ہیں۔ نہ مجنوں کی طرح اس کا گلا گھٹتا ہے نہ اسے کوئی خلجان ہے اور نہ کوئی وسوسہ ہے۔ تو انہوں نے کہا تو پھر ہم کہیں گے یہ ایک شاعر ہے۔ تو اس نے کہا وہ تو شاعر نہیں ہے۔ شعر کی اقسام اور اوزان ‘ رجز ‘ ہزج ‘ قریض ‘ مقبوض اور مبسوط کو ہم میں سے ہر شخص جانتا ہے۔ اس پر انہوں نے کہا تو ہم پھر کہیں گے کہ یہ جادو گر ہے تو اس نے کہا وہ تو جادو گر نہیں ہے۔ ہم نے جادو گروں کے جادو کو دیکھا ہے۔ نہ وہ ان کی طرح پھونکتا ہے ‘ نہ گرہیں ڈالتا ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ عبدالشمس کے باپ تم ہی بتائو کہ پھر ہم کیا کہیں ؟ اس نے کہا خاد کی قسم اس کا کلام بہت میٹھا ہے۔ اس کی اساس ایک موٹے تنے پر ہے اور اس کی شاخیں تازہ پھول کی طرح ہیں۔ ان باتوں میں سے تم جو بات بھی کہو گے لوگوں کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ غلط بات کہی جارہی ہے۔ بہر حال سب سے مناسب بات جو تم کہہ سکتے ہو وہ یہ ہے کہ وہ ساحر ہے اور اس کا کلام اس قدر جادو بھرا ہے کہ ایک شخص اور اس کے باپ ‘ اس کے بھائی ‘ اس کی بیوی اور اس کے خاندان کے درمیان جدائی ڈال دیتا ہے۔ چناچہ یہ بات لے کر وہ اس کے پاس سے چلے گئے۔ جب حج کا موسم آتا تو یہ لوگ راستوں میں بیٹھ جاتے ‘ جو شخص بھی ان پر سے گزرتا اسے ڈراتے اور حضرت محمد ﷺ کے بارے میں بتاتے رہتے۔ یہ ہے مثال ان کی گہری سازش اور تدبیر کی وجو وہ حضور ﷺ کے خلاف کرتے تھے اور یہ سازش وہ جانتے ہوئے کرتے تھے کہ حضور اکرم ﷺ سچے ہیں۔ اس لیے یہ جو وہ کہتے تھے :” کیا اس شخص کو اللہ کا رسول بنا کر بھیجا ہے “ یہ بطور تمسخر نہ کہتے تھے ‘ بلکہ یہ وہ گہری سازش کے تحت محض کردار کشی کے لیے کہتے تھے حالانکہ ان کا شعور گواہ تھا کہ وہ حضور ﷺ کو حق پر سمجھتے تھے۔ یہ باتیں کہہ کر وہ عوام کی نظروں میں حضور ﷺ کی شان گراتے تھے تاکہ سابقہ نظام میں ان کو جو عزت اور مرتبہ کا مقام حاصل تھا وہ باقی رہے اور جو مالی مفادات ان کو حاصل ہوتے تھے وہ ان کو حاصل ہوتے رہیں۔ قریش نے رسول اللہ ﷺ کے خلاف جو رویہ اختیار کیا ‘ ہر زمان و مکان میں دعوت حق کے ساتھ مفاد پرست لوگ یہی سلوک کرتے ہیں۔ زبانی طور پر تو وہ مذاق کے انداز میں پروپیگنڈے کرتے تھے اور آپ کی کردار کشی کرتے تھے لیکن خود ان کی باتوں سے یہ بات ظاہر ہوجاتی تھی کہ یہ لوگ حضور اکرم ﷺ کی دعوت سے کس قدر گھبرائے ہوئے تھے۔ وہ قرآن کریم کے اٹل دلائل کے بارے میں یہ تبصرہ بھی کرتے تھے۔ (ان کاد۔۔۔۔۔۔۔۔ علیھا) (25 : 42) ” اس نے ہمیں گمراہ کرکے اپنے معبودوں سے برگشتہ کر ہی دیا ہوتا اگر ہم ان کی عقیدت پر جم نہ گئے ہوتے “۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی ذہنی دنیا میں ایک قسم کا بھونچال آگیا تھا۔ قریب تھا کہ وہ اپنے الہوں کو چھوڑ کر بھاگ جائیں لیکن وہ بڑی استقامت سے اپنے الہوں پر جم گئے۔ اپنے دین اور اس کے ساتھ وابستہ مناسب ومفادات کو بچاتے رہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے یعنی مقابلہ کر کے صبر اور مصابرت سے کام نہ لیتے تو وہ بھی اپنے الہوں کو ترک کرچکے ہوتے۔ تعجب یہ ہے کہ اپنی ہٹ دھرمی اور مفادات کی وجہ سے یہ لوگ ہدایت کو ضلالت کہتے۔ یہی تو ان کی ضلالت تھی کہ خرد کا نام جنوں رکھ رہے تھے لیکن حضرت محمد ﷺ کی دعوت نے ان کے ایوانوں میں جو زلزلہ برپا کردیا تھا اس کو وہ چھپا نہ سکے۔ اگر چہ غایت درجہ ہٹ دھرمی اور اصرار کی وجہ سے وہ حضرت محمد ﷺ کی شخصیت اور قرآن پر حرف گیری کرتے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ بھی انہیں خبردار فرماتا ہے کہ بہت جلد وہ اپنے انجام تک پہنچ جائیں گے۔ (وسوف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سبیلا) (25 : 42) ” وہ وقت دور نہیں ہے جب عذاب دیکھ کر انہیں خود معلوم ہوجائے گا کہ کون گمراہی میں دور نکل گیا ہے “۔ ان کو اچھی طرح معلوم ہوجائے گا کہ حضرت محمد ﷺ جو دعوت لے کر آئے تھے وہ تو ہدایت تھی اور جس پر وہ قائم تھے وہ ضلالت تھی۔ لیکن جب وقت چلا جاتا ہے تو پھر علم کا کوئی فائدہ نہیں رہتا۔ اس وقت تو وہ عذاب دیکھ لیں گے۔ خواہ یہ عذاب دنیا کا ہو ‘ جس طرح بدر کے دن انہوں نے خوب چکھا ‘ یا آخرت کا ہو جسے وہ یوم الحساب میں دیکھیں گے ‘ جانیں گے اور چکھیں گے۔ اب روئے سخن حضرت محمد ﷺ کی طرف پھرجاتا ہے۔ آپ کو ان کے عناد ہٹ دھرمی اور استہزاء پر تسلی دی جاتی ہے کہ آپ نے تو دعوت پہنچا نے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ آپ نے پورے پورے دلائل سنا دیئے اور مناسب نہ تھا کہ ان کا ردعمل وہ ہوتا جو ہوا ہے۔ قصور صرف ان کا ہے۔ انہوں نے دراصل اپنی خواہشات نفسانیہ کو اپنا الہٰ بنارکھا ہے۔ اور وہ کسی محبت اور برہان کی طرف توجہ کرنے والے نہیں ہیں۔ اگر لوگ نہیں مانتے تو رسول ﷺ کیا کرسکتا ہے۔ (ارءیت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وکیلا) ( ُ 25 : 43) ” کیا تم نے اس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا ‘ کیا تم ایسے شخص کو راہ راست پر لے آنے کا ذمہ لے سکتے ہو “۔ یہ عجیب انداز بیان ہے۔ اس سے ان کی عجیب نفسیاتی حالت کا اظہار ہوتا ہے کہ کسی شخص کا نفس تمام طے شدہ معیار ‘ تمام مسلمہ استدلال ‘ تمام طے شدہ اقدار کو چھوڑ کر صرف اپنی خواہش نفس ‘ اپنی پسند اور اپنی ضد کی بندگی شروع کردے۔ کسی استدلال ‘ کسی برہان ‘ کسی منطق اور کسی سنجیدہ بات پر کان نہ دھرے۔ بس صرف اپنی خواہش کو الہٰ بنا کر پوجے۔ اللہ جل شانہ اپنے بندے کو نہایت ہی نرمی ‘ محبت ‘ انس اور گہرے تعلق کے انداز میں پکارتا ہے۔ ارئیت کیا کبھی تم نے غور کیا ہے ‘ کیا تمہیں علوم ہے۔ ایسے شخص کی تصویر کشی کی جارہی ہے جس کے سامنے کوئی معقول بات پیش کرنا فضول ہے۔ وہ حجت ‘ حقیقت اور غور وفکر کو جانتا ہی نہیں ہے۔ ان چیزوں کی اس کے ہاں کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ کو تسلی کے طور پر کہا جاتا ہے کہ ایسا شخص ہدایت کے قابل ہی نہیں ہے۔ لہذا آپ کے ذمہ ایسے شخص کی ہدایت نہیں لگائی جاسکتی اور نہ آپ ایسے شخص کے وکیل ہو سکتے ہیں۔ اور نہ ایسے لوگ ہدایت تک پہنچ سکتے ہیں۔ افانت تکون علیہ وکیلا (25 : 43) ” کیا تم ایسے شخص کو راہ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو ؟ “ یہ لوگ جنہوں نے اپنی خواہشات کو اپنا معبود اور الہٰ بنا رکھا ہے ‘ ان کی اصل حیثیت اور ان کا اصل مقام بھی یہاں بتا دیا جاتا ہے کہ یہ بہت ہی حقیر لوگ ہیں۔ یہ محض اپنی خواہشات اور مفادات کے بندے ہیں۔ یہ حجت اور حقیقت کے آگے جھکنے والے نہیں ہیں۔ بلکہ یہ خواہشات اور مفادات کے آگے سجدہ ریز ہونے والے ہیں۔ بلکہ ان کو اس سے بھی زیادہ گرا ہوا مقام دیا جاتا ہے کہ مقام انسانیت سے گر کر مقام حیوانیت خالصہ میں داخل ہوگئے ہیں بلکہ اس سے بھی نیچے۔ (ام تحسب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اضل سبیلا) (25 : 44) ” کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں ؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں ‘ بلکہ ان سے بھی گئے گزرے “۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے نہایت ہی محتاط انداز کلام اختیار فرمایا ہے۔ یہ کہا ہے اکثرھم سب نہیں بلکہ ان کی اکثریت ایسی ہے۔ کیونکہ اہل مکہ کی ایک قلیل لعداد تو ابتداء ہی میں حلقہ بگوش اسلام ہوگئی تھی۔ یا انمیں سے اکثر اس پر غور کرتے تھے۔ البتہ اکثریت ایسی تھی جو محض خواہش نفسی اور مفادات کی خاطر نہ مانتی تھی۔ ان کے کانوں پر دلائل پڑتے تھے۔ ان کی عقل اسے مانتی تھی لیکن پھر بھی ضد کرتے تھے۔ یہ گویا جانور محض تھے۔ انسان اور انور میں فرق ہی یہ ہیکہانسان غور وفکر کرتا ہے اور پھر انسان اپنے غور وفکر کے مطابق اچھا طرز عمل بھی اختیار کرتا ہے۔ بصیرت اور قصد و ارادے سے حقائق کو اپناتا ہے۔ حجت اور دلیل سے بات کرتا ہے اور سنتا ہے۔ اور اگر انسان اپنے ان خصائص کو چھوڑ دے تو وہ بہائم سے بھی بد تر ہوجاتا ہے۔ کیونکہ بہائم کو اللہ نے جو شعور دیا ہے وہ تو اس سے استفادہ کرتے ہیں اور انسان کو جو عقل و دانش دی گئی ہے وہ اس سے اسفادہ نہیں کرتا۔ حیوانات اپنے فرائض منصبی صحیح طرح ادا کرتے ہیں لیکن انسان ادا نہیں کرتا۔ حیوانات اپنے شعور سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور یہ اپنے تدبر سے کام نہیں لیتا۔ (ان ھم الا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اضل سبیلا) (25 : 44) ” “۔ یہ ہے جواب ان کے استہزاء کا ۔ یعنی تم انسان ہی نہیں ہو ‘ حیوانوں سے بد تر ہو۔ اس لیے تم سرور کو نین حضرت محمد ﷺ کے ساتھ مذاق کرتے ہو۔ یوں اس سبق کا خاتمہ ‘ جواب آل غزل پر ہوتا ہے۔
Top