Baseerat-e-Quran - Al-Baqara : 252
تِلْكَ اٰیٰتُ اللّٰهِ نَتْلُوْهَا عَلَیْكَ بِالْحَقِّ١ؕ وَ اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ
تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ اللّٰهِ : اللہ کے احکام نَتْلُوْھَا : ہم سناتے ہیں وہ عَلَيْكَ : آپ پر بِالْحَقِّ : ٹھیک ٹھیک وَاِنَّكَ : اور بیشک آپ لَمِنَ : ضرور۔ سے الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
اے نبی ﷺ ! یہ ہیں اللہ کی وہ آیتیں جن کو ہم نے آپ پر ٹھیک ٹھیک تلاوت کیا ہے اور یقیناً آپ رسولوں میں سے ہیں۔
لغات القرآن : آیت نمبر 252 تا 254 نتلوا (ہم تلاوت کرتے ہیں) ۔ المرسلین (بھیجے گئے ہیں (المرسل) ۔ تلک الرسل (یہ رسول) ۔ فضلنا (ہم نے بڑائی دی) ۔ کلم (کلام کیا) ۔ رفع (بلند کیا) ۔ ایدناہ (ہم نے اس کو قوت دی) ۔ انفقوا (خرچ کرو) ۔ ان یاتی (یہ کہ آئے) ۔ لا بیع (تجارت نہیں ہے) ۔ لا خلۃ (دوستی نہیں ہے) ۔ لا شفاعۃ (سفارش نہیں ہے) ۔ تشریح : آیت نمبر 252 تا 254 جہاد کے بیان میں یہ چند آیتیں نبی کریم ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرمائی جا رہی ہیں۔ ارشاد ہے کہ بنی اسرائیل نے اپنی تاریخ کی ایک نہایت اہم سرگزشت کو بےمعنی اور بےمقصد بنا کر رکھ دیا تھا۔ اب ہم نے اس کو بالکل ٹھیک ٹھیک اس کے نتائج اور انجام کے ساتھ آپ کو سنا دیا ہے تا کہ آپ اور آپ کے ساتھ مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کا کچھ اندازہ کرسکیں۔ اور یہ اس بات کی نہایت روشن دلیل ہے کہ آپ بھی انبیاء ورسل کے مبارک سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام رسولوں کو کوئی نہ کوئی فضیلت و عظمت عطا فرمائی ہے اور سب کے درجات اور مراتب ہیں۔ لیکن اہل کتاب نے جماعتی تعصب اور گروہ بندیوں میں مبتلا ہو کر اپنے رسول کے سوا بقیہ نبیوں اور رسولوں کو جھٹلایا۔ اور سب کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے۔ فرما یا گیا ہے کہ اے نبی ﷺ آپ اس صورت حال پر صبر کیجئے اور ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیجئے، اللہ اپنی حکمت و مصلحت سے ان کا فیصلہ خود ہی کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں میں سے ہر رسول کو کسی نہ کسی پہلو سے فضیلت بخشی ہے اور اسی فضیلت کی وجہ سے وہ دوسروں سے ممتاز رہے۔ مثلاً موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ نے کلام فرمایا یہ ان کی فضیلت کا خاص پہلو ہے، اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو کھلے کھلے معجزات دئیے گئے اور روح القدس آپ کے ساتھ ساتھ رہتے تھے یہ ان کی خصوصیت ہے۔ اسی طرح تمام نبیوں اور رسولوں کو اللہ نے خاص خاص مراتب و درجات سے نوازا ۔ مگر ان کے ماننے والی امتوں نے اپنے نبی کو سب سے اعلیٰ و برتر مان کر اپنے آپ کو تعصب کے خول میں بند کرلیا۔ ورنہ اگر وہ تمام نبیوں کو مانتے تو تمام نبیوں کے مراتب سے فیض حاصل کرتے ۔ ہر رسول ان کا رسول اور ہر ہدایت ان کے لئے روشنی ثابت ہوتی اور اب وہ قرآن کریم کے نور سے بھی پورا پورا فیض حاصل کرتے مگر ان کو ان کے تعصب اور ضد نے کہیں کا نہ چھوڑا۔ اللہ کا دستور یہ ہے کہ وہ ہدایت و گمراہی کے سلسلہ میں کسی پر جبر نہیں کرتا۔ اگر وہ جبر اور زبردستی کرتا تو پھر کسی کو بھی کفر کا راستہ اختیار کرنے کا موقع نہ ملتا۔ لیکن اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ بندوں کو پوری آزادی دی کہ وہ سوچ سمجھ کر اور ارادہ و اختیار کی آزادی کے ساتھ چاہیں تو کفر کی راہ اختیار کریں اور چاہیں تو ایمان کا راستہ اختیار کریں۔ لیکن جس راستے کو بھی وہ اختیار کریں گے اس کا انجام ان کے سامنے ہونا چاہئے ۔ اس میں نبی کریم ﷺ کے لئے بھی تسکین و تسلی کا سامان کیا گیا ہے کہ آپ پیغام حق ان تک پہنچاتے رہیں لیکن ان کی ہدایت کے لئے پریشان نہ ہوں۔ ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جس کو چاہتا ہے عطا کردیتا ہے۔ پھر فرمایا کہ اس دنیا میں مال و متاع کا کوئی ابدی اور دائمی نفع ہے تو صرف اس صورت میں کہ جب تم اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کر کے اس کو ایک لازوال خزانے کی صورت میں تبدیل کرلو۔ اس لئے کہ آگے جو دن آنے والا ہے اس میں نفع پہنچانے والی چیز اگر ہے تو وہ صرف نیکی ہے جو اس دنیا میں کی گئی ہو۔ اس کے علاوہ اس عالم میں کوئی چیز کام آنے والی نہیں ہے۔ اس دنیا میں خریدو فروخت سے بھی کام چل جاتے ہیں۔ دوستیاں بھی کام دے جاتی ہیں اور سفارشیں بھی بعض اوقات نفع پہنچا دیتی ہیں لیکن اس دنیا میں ان چیزوں کی ساری راہیں بند ہوں گی جہاں صرف ایمان اور عمل صالح ہی کام آئیں گے۔
Top