Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 252
تِلْكَ اٰیٰتُ اللّٰهِ نَتْلُوْهَا عَلَیْكَ بِالْحَقِّ١ؕ وَ اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ
تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ اللّٰهِ : اللہ کے احکام نَتْلُوْھَا : ہم سناتے ہیں وہ عَلَيْكَ : آپ پر بِالْحَقِّ : ٹھیک ٹھیک وَاِنَّكَ : اور بیشک آپ لَمِنَ : ضرور۔ سے الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
یہ اللہ کی آیتیں ہیں جو ہم تمہیں سنا رہے ہیں اور ہمارا سنانا بالکل حق ہے ، یقینا تم ان لوگوں میں سے ہو جنہیں ہم نے رسول بنایا ہے
قرآن کریم کی دور رس نظر پکار رہی ہے کہ میں اللہ کا کلام ہوں : 421: اس رکوع کے واقعات پر عیسائیوں نے تاریخی طور پر غلط ہونے یا گڑ بڑ کرنے کا اعتراض کیا ہے۔ گذشتہ صفحات پر آپ پڑھ چکے ہیں کہ دراصل یہ دونوں باتیں انہوں نے خود اپنی کتاب توراۃ میں بھر دیں جن کی کوئی اصل نہ تھی اور پھر جب قرآن کریم کا بیان اس پر فٹ نہ ہوا تو انہوں نے ” اُلٹا چور کو توال کو ڈانٹے “ والاکام کیا اپنی تحریف کو چھپانے کے لئے قرآن کریم پر اعتراض جڑ دیا مگر کیسی حفاظت قرآن کریم کی نظر آتی ہے کہ جہاں اعتراض ہوتا تھا وہیں ان باتوں کا خود ذکر کر کے فرمایا کہ یہ جو کچھ پڑھا گیا ” بِالْحَقِّ 1ؕ“ ہے یعنی یہ واقعات صحیح بھی ہیں اور ایک ضرورت حقہ کے لئے بیان بھی کئے گئے ہیں اور پھر جس قدر ضرورت ان کے بیان کرنے کی تھی اسی قدر بیان بھی کئے گئے ہیں ضرورت سے تجاوز نہیں کیا گیا کیونکہ قرآن کریم قصہ کہانی کی کتاب نہیں ہے۔ ضرورت کیا تھی ؟ یہ کہ مسلمانوں کو جنگ درپیش تھی وہ ہجرت کرکے مدینہ آچکے تھے ۔ وہ تھوڑے تھے ان کو سمجھا دیا گیا کہ بہتوں پر کس طرح غالب آئیں گے۔ ان کو یہ بھی واضح کردیا گیا کہ منافق یا کچے لوگ تم سے عین جنگ کی حالت میں الگ ہوجائیں گے جب ایسا ہو تو خوب یاد رکھو کہ یہ تمہارے لئے کمزوری نہیں بلکہ قوت کا موجب ہوگا اور آخر میں بتا دیا کہ جنگوں کی ضرورت اب فساد دور کرنے کے لئے ہے۔ یقینا ! تم اے پیغمبر اسلام ! مرسلوں میں سے ہو یعنی آپ خود ان باتوں کو نہیں بیان کر رہے بلکہ یہ اللہ کی بتائی ہوئی باتیں ہیں اور پھر جب پہلے بھی رسولوں کو جنگ ناگزیر تھی تو اب آپ ﷺ کی جنگوں پر ان لوگوں کو کیوں اعتراض ہے ؟ ” لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ “ لفظ مرسلین کی معنویت قابل غور ہے۔ بتا دیا کہ انبیاء کی حیثیت اسلام میں تمامتر قاصدوں ، سفیروں ، بھیجے ہوؤں کی ہے اور جو مرسل یعنی بھیجا ہوا ہوتا ہے ظاہر ہے کسی کی طرف سے کسی کے پاس ہی بھیجا ہوا ہوتا ہے۔ یہ پیامبر خالق کی طرف سے مخلوق کے پاس سفیر بن کر آتے رہے۔ ان کی عظمت و بزرگی جو کچھ بھی ہے ان کے اس منصب متعارف وپیامبری سے وابستہ تھی۔ یہ خود نہ اوتار ہوتے تھے نہ دیوتا۔ نہ خدائی کے مظہر ، نہ ان میں خدائی حلول کئے ہوتی تھی۔ معبودیت یا نیم معبودیت کی صلاحیت یہ ذرا سی بھی نہیں رکھتے۔ یہ انسان تھے لیکن انسانوں میں ایک ممتاز حیثیت رکھتے تھے بالکل اس طرح جس طرح خود انسان حیوان سے ایک ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ قصہ طالوت پر ایک نظر گذشتہ قصہ پر دوبارہ ایک نظر ڈالئے۔ آپ دیکھیں گے کہ اس سے حسب ذیل باتیں استنباط و استخراج ہوئی ہیں : ! : جنگ شروع کرنے سے قبل امیر لشکر کا انتخاب ضروری ہے جس کے احکام کے مطابق عمل جہاد جاری کیا جائے۔ " : امیر لشکر کے لئے دو چیزوں کی بہت ضرورت ہوتی ہے : (ا) جہانگیری و جہانداری کے مسائل سے خوب واقف ہو۔ (ب) فنون جنگ میں پوری مہارت رکھتا ہو۔ #: رائے عامہ کا احترام ضروری ہے اگر اس کے خلاف کوئی بات کہی جائے تو عام لوگوں کو اطمینان دلایا جائے ورنہ کام میں رکاوٹ پیدا ہوجائے گی جس کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں ہوگا۔ $: امارت کے لئے دولت پر نظر نہ ہو اور صدر نشینی کے لئے مال داروں کو تلاش نہ کیا جائے۔ %: جو لوگ اپنی خدمات پیش کریں ان کا امتحان لینا ضروری ہے کہ کھوٹے اور کھرے میں تمیز ہوجائے ورنہ کسی وقت بھی کچھ ہو سکتا ہے۔ ^: صرف مقصد حیات پر مارنے مرنے والوں سے کام لیا جائے کہ یہی لوگ وہ کھرے لوگ ہیں۔ : کامیابی کے لئے امیر لشکر کی نظر صرف قلت و کثرت تعداد پر نہ ہو بلکہ خدمات حقہ اور اخلاق فاضلہ پر ہو۔ : دیانتداری سے کام سر انجام دینے کے بعد نتائج کو اللہ پر چھوڑ دیا جائے اس لئے کہ یہی تو کل ہے۔ ( : حق و صداقت کی مدافعت اور کفر و باطل پرستی کے استیصال کے لئے سرفرشوں کا ایک گروہ ہمیشہ تیار رہنا چاہئے۔ ) : یہود و نصاریٰ اپنی اپنی حکومتیں قائم کرنے کے لئے کوشش کر رہے ہیں مسلمانوں کو اپنی خالص اسلامی حکومت قائم کرنے کی سرتوڑ کوشش کرنا چاہئے اور کوشش اس وقت تک جاری رہے گی جب خالص اسلامی حکومت قائم ہوجائے۔ یہ تمام قصہ اس غرض کے لئے بیان کیا گیا ہے کہ جس طرح بنی اسرائیل نے اپنی حکومت قائم کی ایسے ہی رسول اللہ ﷺ کے حق میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ آپ ﷺ کو بھی مخالفین و معاندیں اسلام سے جنگ کرنی پڑے گی اور انجام کار آپ ﷺ غالب رہیں گے اور یہ کہ آپ ﷺ کو امت مسلمہ کے بقاو قیام کے لئے سلطنت قائم کرنے کی ضرورت محسوس ہوگی اس لئے آپ ﷺ کی آئندہ ضرورت کو پیش نظر رکھ کر یہ قصہ اس وقت بیان کیا جاتا ہے اور اس قصہ میں ان تمام سیاسی امور کی تعلیم دی گئی ہے جو قیام حکومت میں پیش آئیں گے اور آپ آسانی سے ان کی بنا پر تنظیم مملکت کرسکیں گے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) بھی انبیائے مرسلین میں سے تھے انکو جہانگیری و جہانداری کے علوم نوازش کئے گئے آپ ﷺ بھی نبی و مرسل ہیں اس لئے ضروری ہے کہ ان نوازش ہائے گوناگوں سے آپ ﷺ بھی سرفراز کئے جائیں ۔ گویا یہ ایک پیشگوئی بھی ہے ، انتظام مملکت کی ، تعلیم الٰہی بھی۔
Top