Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 252
تِلْكَ اٰیٰتُ اللّٰهِ نَتْلُوْهَا عَلَیْكَ بِالْحَقِّ١ؕ وَ اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ
تِلْكَ
: یہ
اٰيٰتُ اللّٰهِ
: اللہ کے احکام
نَتْلُوْھَا
: ہم سناتے ہیں وہ
عَلَيْكَ
: آپ پر
بِالْحَقِّ
: ٹھیک ٹھیک
وَاِنَّكَ
: اور بیشک آپ
لَمِنَ
: ضرور۔ سے
الْمُرْسَلِيْنَ
: رسول (جمع)
یہ اللہ کی آیتیں ہیں جو ہم تم پر پڑھ کے سناتے ہیں مقصد کے ساتھ اور بیشک تم اللہ کے رسولوں میں سے ہو
تِلْـکَ اٰیٰتُ اللّٰہِ نَتْلُوْہَا عَلَیْکَ بِالْحَقِّ ط وَاِنَّـکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ ۔ (یہ اللہ کی آیتیں ہیں جو ہم تم پر پڑھ کے سناتے ہیں مقصد کے ساتھ اور بیشک تم اللہ کے رسولوں میں سے ہو) (252) نبی کریم ﷺ کی طرف التفات اور آپ ﷺ کی رسالت کا اثبات اس آیت میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں تین باتوں پر زور دیا گیا ہے۔ پہلی یہ بات کہ یہ قرآن کریم کی شکل میں ہم جو کچھ بھی تم پر نازل کر رہے ہیں اور ہمارا فرشتہ تمہیں پڑھ کر سنا رہا ہے یہ اللہ کی آیات ہیں۔ اس لیے کسی کو یہ شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ محمد ﷺ نے اسے خود لکھ لیا ہے۔ وہ تو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے اور جو لکھنا پڑھنا جانتے ہیں بلکہ انھیں اپنی فصاحت و بلاغت پر بڑا ناز ہے وہ بھی قرآن پاک کی ایک سورت جیسی سورت بنا کر نہیں لاسکتے اور مزید یہ بات کہ چونکہ یہ اللہ کا کلام ہے تو اللہ کے کلام کا تقاضا یہ ہے کہ اس سے پہلے آسمانی کتابوں میں جو کچھ تحریف اور ترمیم کا کاروبار ہوتا رہا ہے اور جس کی وجہ سے وہ کتابیں من جانب اللہ ہوتے ہوئے بھی غیر محفوظ ہو کر رہ گئی ہیں ‘ ضروری ہے کہ جب ان کے بیان کردہ کسی واقعے کو بھی قرآن کریم میں بیان کیا جائے تو ضروری حد تک ان غلطیوں کی اصلاح کردی جائے جو پورے واقعے کو متاثر کرتی ہیں۔ چناچہ قرآن کریم میں متذکرہ بالا واقعات کو بیان کرتے ہوئے اس تقاضے کو پورا کیا گیا ہے۔ اس لیے جو جو باتیں اس میں کہی گئی ہیں اور جس طرح کہی گئی ہیں وہی ان کی اصل حقیقت ہیں۔ اس سے مختلف جو کچھ دوسری آسمانوں کتابوں میں کہا گیا ہے وہ یکسر غلط ہے۔ قرآن اور تورات کے بیان کردہ واقعات میں اختلافات تو بہت ہیں لیکن متذکرہ بالا واقعات کے حوالے سے ہم صرف چند ایک کا ذکر کرتے ہیں تاکہ اس آیت کریمہ کو سمجھنے میں آسانی ہوجائے۔ تورات کے تضادات کی اصلاح 1 حضرت سموئیل (علیہ السلام) نے جس شخص کو اللہ کے حکم سے بنی اسرائیل کا حکمران یا امیر لشکر بنایا تورات میں اس کا نام سائول روایت کیا گیا ہے ‘ لیکن قرآن کریم نے اس کی اصلاح کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کا نام طالوت تھا۔ یا وہ اسی نام سے پکارے جاتے تھے اور کسی مشہور واقعے کو بیان کرتے ہوئے تاریخ کا اصول بھی یہ ہے کہ جب کسی کردار کا ذکر کیا جائے تو اس کا وہ نام لیا جائے جس سے وہ پکارا جاتا ہو۔ طالوت اصل میں طولوت ہے جس کا معنی ہے لمبا تڑنگا۔ وہ اپنے قد کی طوالت کے باعث یقینا اسی نام سے پکارے جاتے ہوں گے۔ کیونکہ ان کے قد کی طوالت کا ذکر تو تورات نے اس طرح کیا ہے کہ ” جب وہ لوگوں کے درمیان کھڑا ہوا تو ایسا قد آور تھا کہ لوگ اس کے کندھے تک آتے تھے۔ “ چناچہ قرآن کریم نے اصلاح کرتے ہوئے اس کے معروف نام سے اسے پکارا ہے۔ 2 قرآن کریم اور تورات دونوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل پر جب زوال آیا اور وہ اللہ کی تائید و نصرت سے محروم ہوگئے تو ان کی ہمسایہ ریاستوں نے وقتاً فوقتاً ان کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان پر یلغار کرنا شروع کی۔ کبھی ان کا کوئی علاقہ چھین لیا جاتا اور کبھی کسی شہر پر قبضہ کرلیا جاتا۔ لیکن وہ پھر بھی اپنی غفلت سے بیدار نہ ہوئے۔ ان کی کمزوری ‘ ناتوانی اور غفلت یہاں تک بڑھی کہ فلسطینیوں نے ان سے تابوتِ سکینہ بھی چھین لیا۔ تابوتِ سکینہ کا چھن جانا کعبہ کے چھن جانے کے مترادف تھا۔ یہی وہ تابوت تھا جسے وہ اپنی نمازوں میں سامنے رکھتے تھے اور جنگوں میں اسی سے حوصلہ پاتے تھے۔ وہ اپنی زندگی کی بقا اسی سے وابستہ سمجھتے تھے۔ اس کے چھن جانے کے باعث اجتماعی طور پر ان پر مردنی چھا گئی۔ لیکن اسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت سموئیل (علیہ السلام) نے ان میں اصلاح اور بیداری کا کام کیا۔ آہستہ آہستہ ان میں احساس جاگا ‘ حتیٰ کہ انھوں نے خود اپنے پیغمبر سے خواہش کی کہ آپ ہم پر کسی نوجوان اور توانا آدمی کو امیر مقرر کریں۔ تاکہ ہم اپنے دشمن سے عہدہ برآ ہو سکیں۔ چناچہ حضرت طالوت کو ان کا امیر مقرر کیا گیا۔ طالوت نے اپنی غیر معمولی صلاحیتوں سے کام لے کر حضرت سموئیل (علیہ السلام) کی رہنمائی میں ان کی شیرازہ بندی کی اور قوم کے حوصلوں کو مزید جلا دینے اور ان کے دل و دماغ میں یہ بات پختہ کرنے کے لیے کہ طالوت کا تقرر اللہ کی جانب سے ہے ‘ تابوتِ سکینہ کو غیر معمولی طریقے سے ان کے ملک میں پہنچا دیا۔ اور یہ بات بھی قرین قیاس ہے کہ تابوتِ سکینہ فلسطینیوں نے خود ان کی طرف بھیجا ہو۔ کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ یہ قوم بڑی تیزی سے منظم ہو رہی ہے اور اگر ہم نے تابوتِ سکینہ کو انھیں واپس نہ دیا تو یہ ہم پر چڑھائی کردیں گے اور یقینا اس میں اس بات کا بھی دخل تھا کہ اللہ نے غیر مرئی طریقے سے بنی اسرائیل کی طرف سے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا ہو۔ یہ وہ بات ہے جسے قرآن کریم تابوتِ سکینہ کی واپسی کے لیے بیان کرتا ہے۔ لیکن اس کے بالمقابل تورات کا بیان یہ ہے کہ تابوتِ سکینہ سات مہینے کے بعد ہی بنی اسرائیل کو واپس مل گیا تھا۔ سبب اس کا یہ ہوا کہ فلسطینی اسے چھین کر تو لے گئے لیکن وہ جس شہر میں بھی اسے رکھتے وہاں وبائیں پھوٹ پڑتیں جس سے ہزاروں آدمی مرجاتے۔ انھوں نے اس مصیبت سے جان چھڑانے کے لیے اسے واپس بھیج دیا۔ اندازہ فرمایئے کیا قوموں کے فیصلے جن کے ساتھ قومی عظمت بھی وابستہ ہو ان معمولی باتوں کے حوالے سے ہوا کرتے ہیں۔ اور اس سے بھی بڑی بات یہ کہ تورات ایک طرف تو یہ کہتی ہے کہ سات مہینے کے بعد انھوں نے تابوتِ سکینہ واپس کردیا لیکن دوسری جگہ اس کا کہنا یہ ہے ” اور جس دن سے صندوق قریت یعریم میں رہا تب سے مدت ہوگئی۔ یعنی بیس برس گزرے اور اسرائیل کا سارا گھرانہ خداوند کے پیچھے نوحہ کرتا رہا۔ “ (سموئیل باب 7 1) غور فرمایئے کہ ایک طرف تو بنی اسرائیل تابوتِ سکینہ کے چھن جانے کے باعث بیس سال تک نوحہ کرتے رہے اور دوسری طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ سات مہینہ کے بعد یہ تابوت واپس آگیا۔ قرآن کہتا ہے کہ اسے فرشتے لے کے آئے۔ تورات کہتی ہے کہ ایک چھکڑے پر جسے دو بچوں والی گائیاں جنھیں اس سے پہلے کبھی کسی سواری میں جوتا نہیں گیا ہو اس حال میں کھینچ کر لائیں کہ بچے ان سے چھین کر گھروں میں بند کردیے گئے ‘ لیکن وہ اس کے باوجود ڈکارتی ہوئیں سیدھی بیت شمس جا پہنچیں۔ اندازہ فرمائیں کہ اگر ان گائیوں کو کوئی غیر مرئی طاقت ہانک نہیں رہی تھی اور انھیں سیدھا چلنے پر مجبور نہیں کر رہی تھی تو کیا عقل اس بات کو باور کرتی ہے کہ جن گائیوں کے بچے بھی چھین لیے جائیں اور انھوں نے کبھی چھکڑا نہ کھینچا ہو اور راستے سے بھی بیخبر ہوں ‘ وہ ڈکارتی ہوئی یعنی خوشی خوشی پورا راستہ طے کر جائیں ‘ یہ سراسر ایک افسانہ نویسی ہے۔ لیکن قرآن کریم نے جو کچھ کہا وہ عقل کے مطابق اور روحانیت کی روح ہے۔ اسی سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ قرآن کریم کس طرح ایک ایک بات کی اصلاح کر رہا ہے۔ 3 قرآن کریم کہتا ہے کہ بنی اسرائیل کو جالوت اور اس کے لشکر کے مقابلے میں ایک بڑا معرکہ درپیش تھا۔ اور ایسا معرکہ کوئی ایسی فوج سر نہیں کرسکتی جن میں حوصلے ‘ ثابت قدمی اور اولو العزمی کی کمی ہو۔ اس کے لیے اگر ایسے لوگوں کی بھیڑ جمع کرلی جائے جو سرفروشی اور ایثار کے جذبات سے تہی دامن ہو تو وہ پسپائی کا سامان تو کرسکتی ہے ‘ معرکہ آرائی کا نہیں۔ اس لیے اللہ کے حکم سے پیغمبر کی راہنمائی میں حضرت طالوت نے میدانِ جنگ تک پہنچنے سے پہلے راستے میں ان کی آزمائش کی۔ جو لوگ اس آزمائش میں ناکام ہوئے انھیں راستے میں چھوڑ دیا گیا اور جو کامیاب ٹھہرے وہی مرد میدان ثابت ہوئے۔ چناچہ انہی کے ایمان و یقین کی قوت کی وجہ سے اللہ نے انھیں فتح عطا فرمائی۔ لیکن اس کے برعکس تورات کا کہنا یہ ہے کہ بنی اسرائیل کی آزمائش ضرور کی گئی ‘ لیکن معرکہ جنگ سے پہلے نہیں ‘ بلکہ بعد میں۔ طالوت نے حکم دیا کہ جب تک میں اپنے دشمن سے انتقام نہ لے لوں تمہارا لیے کچھ کھانا حرام ہے۔ جنگ ہوچکی ‘ قتل عام باقی ہے ‘ اب آزمائش کی کیا ضرورت ہے ؟ اور مزید یہ کہ اس میں تضادات کی کمی نہیں۔ حضرت طالوت کے بڑے صاحبزادے کو ایک جگہ تو نہایت بلند کردار دکھایا گیا مثلاً تورات میں کہا گیا : ” سو یونتن نے اس جوان سے جو اس کا سلاح بردار تھا کہا آ ہم اوپر ان نا مختونوں کی چوکی کو چلیں ممکن ہے کہ خدا ہمارا کام بنا دے کیونکہ خداوند کے لیے بہتوں یا تھوڑوں کے ذریعے سے بچانے کی قید نہیں۔ “ اس عبارت میں دیکھئے یونتن کو کتنا بڑا صبر و استقامت اور عزم و ہمت کا پیکر دکھایا گیا۔ اور دوسری جگہ یہ بتایا گیا ہے کہ طالوت نے اپنی قوم کو کھانا کھانے سے منع کیا تھا اور کہا تھا کہ جو کھائے گا وہ ملعون ہوگا۔ لیکن اس حکم کو سب سے پہلے اسی صاحبزادے نے توڑا اور کہا ” کہ دیکھو میرے باپ نے دکھ دیا ہے۔ دیکھو میری آنکھوں میں ذرا سا شہد چکھنے سے کیسی روشنی آئی۔ کتنا زیادہ اچھا ہوتا اگر سب لوگ دشمن کی لوٹ میں سے جو ان کو ملی دل کھول کر کھاتے “……سو وہ لوگ لوٹ پر گرے اور بھیڑوں ‘ بکریوں ‘ بیلوں اور بچھڑوں کو لے کر ان کو زمین پر ذبح کیا اور خون سمیت کھانے لگے۔ “ 4 تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ طالوت کی پوری فوج امتحان میں ناکام رہی۔ یہاں تک کہ خود ان کے فرزند بھی ناکام رہے۔ بلکہ انہی صاحبزادے نے پوری فوج کے لیے اس ناکامی کی راہ کھولی۔ اس کے برعکس قرآن کریم سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کے اندر سے ایک جماعت اپنے عزم و ایمان پر قائم رہی۔ اور اسی عزم و ایمان کی بدولت اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فلسطینیوں پر فتح عطا فرمائی۔ دوسری بات جس پر قرآن کریم زور دیتا ہے وہ یہ ہے کہ تورات نے جس طرح ان واقعات کو بیان کیا ہے وہ قصہ گوئی کی مشق کے سوا اور کچھ نہیں۔ جزوی واقعات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ‘ لیکن یہ واقعات کیوں پیش آئے ؟ بنی اسرائیل کی اصل کمزوریاں کیا تھیں ؟ حضرت سموئیل نے ان میں جو اصلاحی کام کیا اس کا نتیجہ کیا رہا ؟ طالوت نے کس طرح ان کے اندر ملی شعور پیدا کیا ؟ اور ان کو اس قابل بنایا کہ وہ اپنے عظمت رفتہ کو واپس لے سکیں اور پھر طالوت اور جالوت کی جنگ سے پیدا ہونے والے عبرت آموز واقعات اور حقائق جن کی ہمیشہ اہل ایمان کو ضرورت رہے گی اور پھر بنی اسرائیل کی کامیابی ‘ حضرت دائود کا غیر معمولی ظہور اور آپ کی حکمت و دانش … ان میں سے کسی بات کو تورات نے نمایاں نہیں کیا اور قرآن کریم نے واقعات کے ان اجزاء کو بیان کیا جس سے مسلمانوں کو وہ حکمتیں سمجھائی جاسکتی تھیں جو ان کی قومی اور ملی زندگی کے لیے ضروری تھیں۔ اور قرآن کریم جب بھی کسی تاریخی واقعے کو بیان کرتا ہے تو اس کے پیش نظر صرف یہی ایک مقصد ہوتا ہے کہ ان واقعات کی مدد سے غلطیوں پر تنبیہ کی جائے اور قابل تقلید باتوں کو نمایاں کیا جائے تاکہ ہر دور کا انسان اس کتاب سے ہدایت حاصل کرسکے کیونکہ یہ کتاب کتاب ہدایت ہے تاریخ کی کتاب نہیں۔ اور یہاں بالحق سے یہی مراد ہے۔ تیسری بات اس آیت کریمہ میں یہ فرمائی گئی ہے کہ پہلی آسمانی کتابوں کی غلطیوں کی اصلاح اور ٹھیک ٹھیک واقعات کا بیان اور ان واقعات سے پیدا ہونے والے عبرت و نصیحت کے جواہر جو قرآن کی صورت میں آپ کی زبان سے پیش کیے جا رہے ہیں ‘ یہ اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ کیونکہ تاریخ نے ان واقعات کے بارے میں جو کچھ کہا۔ آپ ﷺ چونکہ امی محض ہیں اس لیے آپ ﷺ کے پاس ان کے جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں۔ لیکن نہ جانتے ہوئے بھی آپ ﷺ ان واقعات کو بیان کر رہے ہیں اور مزید یہ کہ صرف واقعات بیان ہی نہیں کر رہے بلکہ ان کی اصلاح بھی کر رہے ہیں ‘ غلطیوں کی نشاندہی کر رہے ہیں اور صحیح بات کو نمایاں کر رہے ہیں۔ جبکہ آج دنیا میں ان کی اصلاح کی کوئی صورت ممکن نہیں۔ کیونکہ ان واقعات کو صرف تورات نے یا اس کے شارحین نے بیان کیا ہے۔ وہاں سے ان واقعات کو نقل تو کیا جاسکتا ہے لیکن ان کی غلطیوں کی اصلاح کسی کے بس کی بات نہیں۔ تورات کے علماء بھی ان غلطیوں سے باخبر نہیں ہوسکتے۔ ایسے حقائق جن سے آگاہی کا ذریعہ اللہ کے سوا اور کوئی نہ ہو اس سے اگر کوئی ذات باخبر کرے اور وہ نہایت اعتماد کے ساتھ ایک ایک بات پر متنبہ کرے تو ایسی ہی ذات کو اللہ کا رسول کہا جاتا ہے۔ چناچہ ان واقعات کا بیان اور اس میں مستور حکمتوں اور مصلحتوں کی نشاندہی اور اس کے نتائج و فوائد کی طرف راہنمائی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ یقینا اللہ کے رسول ہیں اور اہل کتاب کو بالخصوص اور اہل دنیا کو بالعموم ان دلائل کو سامنے رکھتے ہوئے آپ ﷺ کی رسالت کا یقین کرلینا چاہیے۔ کیونکہ اس سے بڑھ کر بےساختہ دلیل اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ اب اگر اہل کتاب اتنی واضح دلیل کے بعد بھی آپ ﷺ کی رسالت پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں تو اس کا سبب ان کا وہ گروہی تعصب ہے جس میں مبتلا ہو کر وہ سب کی تکذیب پر تلے ہوئے ہیں۔ آپ ﷺ کے معجزات اور آپ ﷺ کی صداقت کے منہ بولتے دلائل کو دیکھ کر بھی صرف ان تعصبات کی وجہ سے ماننے کے لیے تیار نہیں۔ کیونکہ وہ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے سوا اور کوئی اللہ کا رسول نہیں ہوسکتا۔ اور اگر ہو بھی تو ان جیسی خصوصیات کا حامل نہیں ہوسکتا۔ تو ان کی موجودگی میں ہم کسی دوسرے کو رسول کیوں تسلیم کریں۔ چناچہ اگلی آیت کریمہ میں اسی حقیقت کو بیان کیا جا رہا ہے۔
Top