Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 252
تِلْكَ اٰیٰتُ اللّٰهِ نَتْلُوْهَا عَلَیْكَ بِالْحَقِّ١ؕ وَ اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ
تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ اللّٰهِ : اللہ کے احکام نَتْلُوْھَا : ہم سناتے ہیں وہ عَلَيْكَ : آپ پر بِالْحَقِّ : ٹھیک ٹھیک وَاِنَّكَ : اور بیشک آپ لَمِنَ : ضرور۔ سے الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
یہ اللہ کی آیتیں ہیں جو ہم تم پر پڑھ کے سناتے ہیں مقصد کے ساتھ اور بیشک تم اللہ کے رسولوں میں سے ہو
تِلْـکَ اٰیٰتُ اللّٰہِ نَتْلُوْہَا عَلَیْکَ بِالْحَقِّ ط وَاِنَّـکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ ۔ (یہ اللہ کی آیتیں ہیں جو ہم تم پر پڑھ کے سناتے ہیں مقصد کے ساتھ اور بیشک تم اللہ کے رسولوں میں سے ہو) (252) نبی کریم ﷺ کی طرف التفات اور آپ ﷺ کی رسالت کا اثبات اس آیت میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں تین باتوں پر زور دیا گیا ہے۔ پہلی یہ بات کہ یہ قرآن کریم کی شکل میں ہم جو کچھ بھی تم پر نازل کر رہے ہیں اور ہمارا فرشتہ تمہیں پڑھ کر سنا رہا ہے یہ اللہ کی آیات ہیں۔ اس لیے کسی کو یہ شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ محمد ﷺ نے اسے خود لکھ لیا ہے۔ وہ تو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے اور جو لکھنا پڑھنا جانتے ہیں بلکہ انھیں اپنی فصاحت و بلاغت پر بڑا ناز ہے وہ بھی قرآن پاک کی ایک سورت جیسی سورت بنا کر نہیں لاسکتے اور مزید یہ بات کہ چونکہ یہ اللہ کا کلام ہے تو اللہ کے کلام کا تقاضا یہ ہے کہ اس سے پہلے آسمانی کتابوں میں جو کچھ تحریف اور ترمیم کا کاروبار ہوتا رہا ہے اور جس کی وجہ سے وہ کتابیں من جانب اللہ ہوتے ہوئے بھی غیر محفوظ ہو کر رہ گئی ہیں ‘ ضروری ہے کہ جب ان کے بیان کردہ کسی واقعے کو بھی قرآن کریم میں بیان کیا جائے تو ضروری حد تک ان غلطیوں کی اصلاح کردی جائے جو پورے واقعے کو متاثر کرتی ہیں۔ چناچہ قرآن کریم میں متذکرہ بالا واقعات کو بیان کرتے ہوئے اس تقاضے کو پورا کیا گیا ہے۔ اس لیے جو جو باتیں اس میں کہی گئی ہیں اور جس طرح کہی گئی ہیں وہی ان کی اصل حقیقت ہیں۔ اس سے مختلف جو کچھ دوسری آسمانوں کتابوں میں کہا گیا ہے وہ یکسر غلط ہے۔ قرآن اور تورات کے بیان کردہ واقعات میں اختلافات تو بہت ہیں لیکن متذکرہ بالا واقعات کے حوالے سے ہم صرف چند ایک کا ذکر کرتے ہیں تاکہ اس آیت کریمہ کو سمجھنے میں آسانی ہوجائے۔ تورات کے تضادات کی اصلاح 1 حضرت سموئیل (علیہ السلام) نے جس شخص کو اللہ کے حکم سے بنی اسرائیل کا حکمران یا امیر لشکر بنایا تورات میں اس کا نام سائول روایت کیا گیا ہے ‘ لیکن قرآن کریم نے اس کی اصلاح کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کا نام طالوت تھا۔ یا وہ اسی نام سے پکارے جاتے تھے اور کسی مشہور واقعے کو بیان کرتے ہوئے تاریخ کا اصول بھی یہ ہے کہ جب کسی کردار کا ذکر کیا جائے تو اس کا وہ نام لیا جائے جس سے وہ پکارا جاتا ہو۔ طالوت اصل میں طولوت ہے جس کا معنی ہے لمبا تڑنگا۔ وہ اپنے قد کی طوالت کے باعث یقینا اسی نام سے پکارے جاتے ہوں گے۔ کیونکہ ان کے قد کی طوالت کا ذکر تو تورات نے اس طرح کیا ہے کہ ” جب وہ لوگوں کے درمیان کھڑا ہوا تو ایسا قد آور تھا کہ لوگ اس کے کندھے تک آتے تھے۔ “ چناچہ قرآن کریم نے اصلاح کرتے ہوئے اس کے معروف نام سے اسے پکارا ہے۔ 2 قرآن کریم اور تورات دونوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل پر جب زوال آیا اور وہ اللہ کی تائید و نصرت سے محروم ہوگئے تو ان کی ہمسایہ ریاستوں نے وقتاً فوقتاً ان کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان پر یلغار کرنا شروع کی۔ کبھی ان کا کوئی علاقہ چھین لیا جاتا اور کبھی کسی شہر پر قبضہ کرلیا جاتا۔ لیکن وہ پھر بھی اپنی غفلت سے بیدار نہ ہوئے۔ ان کی کمزوری ‘ ناتوانی اور غفلت یہاں تک بڑھی کہ فلسطینیوں نے ان سے تابوتِ سکینہ بھی چھین لیا۔ تابوتِ سکینہ کا چھن جانا کعبہ کے چھن جانے کے مترادف تھا۔ یہی وہ تابوت تھا جسے وہ اپنی نمازوں میں سامنے رکھتے تھے اور جنگوں میں اسی سے حوصلہ پاتے تھے۔ وہ اپنی زندگی کی بقا اسی سے وابستہ سمجھتے تھے۔ اس کے چھن جانے کے باعث اجتماعی طور پر ان پر مردنی چھا گئی۔ لیکن اسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت سموئیل (علیہ السلام) نے ان میں اصلاح اور بیداری کا کام کیا۔ آہستہ آہستہ ان میں احساس جاگا ‘ حتیٰ کہ انھوں نے خود اپنے پیغمبر سے خواہش کی کہ آپ ہم پر کسی نوجوان اور توانا آدمی کو امیر مقرر کریں۔ تاکہ ہم اپنے دشمن سے عہدہ برآ ہو سکیں۔ چناچہ حضرت طالوت کو ان کا امیر مقرر کیا گیا۔ طالوت نے اپنی غیر معمولی صلاحیتوں سے کام لے کر حضرت سموئیل (علیہ السلام) کی رہنمائی میں ان کی شیرازہ بندی کی اور قوم کے حوصلوں کو مزید جلا دینے اور ان کے دل و دماغ میں یہ بات پختہ کرنے کے لیے کہ طالوت کا تقرر اللہ کی جانب سے ہے ‘ تابوتِ سکینہ کو غیر معمولی طریقے سے ان کے ملک میں پہنچا دیا۔ اور یہ بات بھی قرین قیاس ہے کہ تابوتِ سکینہ فلسطینیوں نے خود ان کی طرف بھیجا ہو۔ کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ یہ قوم بڑی تیزی سے منظم ہو رہی ہے اور اگر ہم نے تابوتِ سکینہ کو انھیں واپس نہ دیا تو یہ ہم پر چڑھائی کردیں گے اور یقینا اس میں اس بات کا بھی دخل تھا کہ اللہ نے غیر مرئی طریقے سے بنی اسرائیل کی طرف سے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا ہو۔ یہ وہ بات ہے جسے قرآن کریم تابوتِ سکینہ کی واپسی کے لیے بیان کرتا ہے۔ لیکن اس کے بالمقابل تورات کا بیان یہ ہے کہ تابوتِ سکینہ سات مہینے کے بعد ہی بنی اسرائیل کو واپس مل گیا تھا۔ سبب اس کا یہ ہوا کہ فلسطینی اسے چھین کر تو لے گئے لیکن وہ جس شہر میں بھی اسے رکھتے وہاں وبائیں پھوٹ پڑتیں جس سے ہزاروں آدمی مرجاتے۔ انھوں نے اس مصیبت سے جان چھڑانے کے لیے اسے واپس بھیج دیا۔ اندازہ فرمایئے کیا قوموں کے فیصلے جن کے ساتھ قومی عظمت بھی وابستہ ہو ان معمولی باتوں کے حوالے سے ہوا کرتے ہیں۔ اور اس سے بھی بڑی بات یہ کہ تورات ایک طرف تو یہ کہتی ہے کہ سات مہینے کے بعد انھوں نے تابوتِ سکینہ واپس کردیا لیکن دوسری جگہ اس کا کہنا یہ ہے ” اور جس دن سے صندوق قریت یعریم میں رہا تب سے مدت ہوگئی۔ یعنی بیس برس گزرے اور اسرائیل کا سارا گھرانہ خداوند کے پیچھے نوحہ کرتا رہا۔ “ (سموئیل باب 7 1) غور فرمایئے کہ ایک طرف تو بنی اسرائیل تابوتِ سکینہ کے چھن جانے کے باعث بیس سال تک نوحہ کرتے رہے اور دوسری طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ سات مہینہ کے بعد یہ تابوت واپس آگیا۔ قرآن کہتا ہے کہ اسے فرشتے لے کے آئے۔ تورات کہتی ہے کہ ایک چھکڑے پر جسے دو بچوں والی گائیاں جنھیں اس سے پہلے کبھی کسی سواری میں جوتا نہیں گیا ہو اس حال میں کھینچ کر لائیں کہ بچے ان سے چھین کر گھروں میں بند کردیے گئے ‘ لیکن وہ اس کے باوجود ڈکارتی ہوئیں سیدھی بیت شمس جا پہنچیں۔ اندازہ فرمائیں کہ اگر ان گائیوں کو کوئی غیر مرئی طاقت ہانک نہیں رہی تھی اور انھیں سیدھا چلنے پر مجبور نہیں کر رہی تھی تو کیا عقل اس بات کو باور کرتی ہے کہ جن گائیوں کے بچے بھی چھین لیے جائیں اور انھوں نے کبھی چھکڑا نہ کھینچا ہو اور راستے سے بھی بیخبر ہوں ‘ وہ ڈکارتی ہوئی یعنی خوشی خوشی پورا راستہ طے کر جائیں ‘ یہ سراسر ایک افسانہ نویسی ہے۔ لیکن قرآن کریم نے جو کچھ کہا وہ عقل کے مطابق اور روحانیت کی روح ہے۔ اسی سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ قرآن کریم کس طرح ایک ایک بات کی اصلاح کر رہا ہے۔ 3 قرآن کریم کہتا ہے کہ بنی اسرائیل کو جالوت اور اس کے لشکر کے مقابلے میں ایک بڑا معرکہ درپیش تھا۔ اور ایسا معرکہ کوئی ایسی فوج سر نہیں کرسکتی جن میں حوصلے ‘ ثابت قدمی اور اولو العزمی کی کمی ہو۔ اس کے لیے اگر ایسے لوگوں کی بھیڑ جمع کرلی جائے جو سرفروشی اور ایثار کے جذبات سے تہی دامن ہو تو وہ پسپائی کا سامان تو کرسکتی ہے ‘ معرکہ آرائی کا نہیں۔ اس لیے اللہ کے حکم سے پیغمبر کی راہنمائی میں حضرت طالوت نے میدانِ جنگ تک پہنچنے سے پہلے راستے میں ان کی آزمائش کی۔ جو لوگ اس آزمائش میں ناکام ہوئے انھیں راستے میں چھوڑ دیا گیا اور جو کامیاب ٹھہرے وہی مرد میدان ثابت ہوئے۔ چناچہ انہی کے ایمان و یقین کی قوت کی وجہ سے اللہ نے انھیں فتح عطا فرمائی۔ لیکن اس کے برعکس تورات کا کہنا یہ ہے کہ بنی اسرائیل کی آزمائش ضرور کی گئی ‘ لیکن معرکہ جنگ سے پہلے نہیں ‘ بلکہ بعد میں۔ طالوت نے حکم دیا کہ جب تک میں اپنے دشمن سے انتقام نہ لے لوں تمہارا لیے کچھ کھانا حرام ہے۔ جنگ ہوچکی ‘ قتل عام باقی ہے ‘ اب آزمائش کی کیا ضرورت ہے ؟ اور مزید یہ کہ اس میں تضادات کی کمی نہیں۔ حضرت طالوت کے بڑے صاحبزادے کو ایک جگہ تو نہایت بلند کردار دکھایا گیا مثلاً تورات میں کہا گیا : ” سو یونتن نے اس جوان سے جو اس کا سلاح بردار تھا کہا آ ہم اوپر ان نا مختونوں کی چوکی کو چلیں ممکن ہے کہ خدا ہمارا کام بنا دے کیونکہ خداوند کے لیے بہتوں یا تھوڑوں کے ذریعے سے بچانے کی قید نہیں۔ “ اس عبارت میں دیکھئے یونتن کو کتنا بڑا صبر و استقامت اور عزم و ہمت کا پیکر دکھایا گیا۔ اور دوسری جگہ یہ بتایا گیا ہے کہ طالوت نے اپنی قوم کو کھانا کھانے سے منع کیا تھا اور کہا تھا کہ جو کھائے گا وہ ملعون ہوگا۔ لیکن اس حکم کو سب سے پہلے اسی صاحبزادے نے توڑا اور کہا ” کہ دیکھو میرے باپ نے دکھ دیا ہے۔ دیکھو میری آنکھوں میں ذرا سا شہد چکھنے سے کیسی روشنی آئی۔ کتنا زیادہ اچھا ہوتا اگر سب لوگ دشمن کی لوٹ میں سے جو ان کو ملی دل کھول کر کھاتے “……سو وہ لوگ لوٹ پر گرے اور بھیڑوں ‘ بکریوں ‘ بیلوں اور بچھڑوں کو لے کر ان کو زمین پر ذبح کیا اور خون سمیت کھانے لگے۔ “ 4 تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ طالوت کی پوری فوج امتحان میں ناکام رہی۔ یہاں تک کہ خود ان کے فرزند بھی ناکام رہے۔ بلکہ انہی صاحبزادے نے پوری فوج کے لیے اس ناکامی کی راہ کھولی۔ اس کے برعکس قرآن کریم سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کے اندر سے ایک جماعت اپنے عزم و ایمان پر قائم رہی۔ اور اسی عزم و ایمان کی بدولت اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فلسطینیوں پر فتح عطا فرمائی۔ دوسری بات جس پر قرآن کریم زور دیتا ہے وہ یہ ہے کہ تورات نے جس طرح ان واقعات کو بیان کیا ہے وہ قصہ گوئی کی مشق کے سوا اور کچھ نہیں۔ جزوی واقعات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ‘ لیکن یہ واقعات کیوں پیش آئے ؟ بنی اسرائیل کی اصل کمزوریاں کیا تھیں ؟ حضرت سموئیل نے ان میں جو اصلاحی کام کیا اس کا نتیجہ کیا رہا ؟ طالوت نے کس طرح ان کے اندر ملی شعور پیدا کیا ؟ اور ان کو اس قابل بنایا کہ وہ اپنے عظمت رفتہ کو واپس لے سکیں اور پھر طالوت اور جالوت کی جنگ سے پیدا ہونے والے عبرت آموز واقعات اور حقائق جن کی ہمیشہ اہل ایمان کو ضرورت رہے گی اور پھر بنی اسرائیل کی کامیابی ‘ حضرت دائود کا غیر معمولی ظہور اور آپ کی حکمت و دانش … ان میں سے کسی بات کو تورات نے نمایاں نہیں کیا اور قرآن کریم نے واقعات کے ان اجزاء کو بیان کیا جس سے مسلمانوں کو وہ حکمتیں سمجھائی جاسکتی تھیں جو ان کی قومی اور ملی زندگی کے لیے ضروری تھیں۔ اور قرآن کریم جب بھی کسی تاریخی واقعے کو بیان کرتا ہے تو اس کے پیش نظر صرف یہی ایک مقصد ہوتا ہے کہ ان واقعات کی مدد سے غلطیوں پر تنبیہ کی جائے اور قابل تقلید باتوں کو نمایاں کیا جائے تاکہ ہر دور کا انسان اس کتاب سے ہدایت حاصل کرسکے کیونکہ یہ کتاب کتاب ہدایت ہے تاریخ کی کتاب نہیں۔ اور یہاں بالحق سے یہی مراد ہے۔ تیسری بات اس آیت کریمہ میں یہ فرمائی گئی ہے کہ پہلی آسمانی کتابوں کی غلطیوں کی اصلاح اور ٹھیک ٹھیک واقعات کا بیان اور ان واقعات سے پیدا ہونے والے عبرت و نصیحت کے جواہر جو قرآن کی صورت میں آپ کی زبان سے پیش کیے جا رہے ہیں ‘ یہ اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ کیونکہ تاریخ نے ان واقعات کے بارے میں جو کچھ کہا۔ آپ ﷺ چونکہ امی محض ہیں اس لیے آپ ﷺ کے پاس ان کے جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں۔ لیکن نہ جانتے ہوئے بھی آپ ﷺ ان واقعات کو بیان کر رہے ہیں اور مزید یہ کہ صرف واقعات بیان ہی نہیں کر رہے بلکہ ان کی اصلاح بھی کر رہے ہیں ‘ غلطیوں کی نشاندہی کر رہے ہیں اور صحیح بات کو نمایاں کر رہے ہیں۔ جبکہ آج دنیا میں ان کی اصلاح کی کوئی صورت ممکن نہیں۔ کیونکہ ان واقعات کو صرف تورات نے یا اس کے شارحین نے بیان کیا ہے۔ وہاں سے ان واقعات کو نقل تو کیا جاسکتا ہے لیکن ان کی غلطیوں کی اصلاح کسی کے بس کی بات نہیں۔ تورات کے علماء بھی ان غلطیوں سے باخبر نہیں ہوسکتے۔ ایسے حقائق جن سے آگاہی کا ذریعہ اللہ کے سوا اور کوئی نہ ہو اس سے اگر کوئی ذات باخبر کرے اور وہ نہایت اعتماد کے ساتھ ایک ایک بات پر متنبہ کرے تو ایسی ہی ذات کو اللہ کا رسول کہا جاتا ہے۔ چناچہ ان واقعات کا بیان اور اس میں مستور حکمتوں اور مصلحتوں کی نشاندہی اور اس کے نتائج و فوائد کی طرف راہنمائی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ یقینا اللہ کے رسول ہیں اور اہل کتاب کو بالخصوص اور اہل دنیا کو بالعموم ان دلائل کو سامنے رکھتے ہوئے آپ ﷺ کی رسالت کا یقین کرلینا چاہیے۔ کیونکہ اس سے بڑھ کر بےساختہ دلیل اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ اب اگر اہل کتاب اتنی واضح دلیل کے بعد بھی آپ ﷺ کی رسالت پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں تو اس کا سبب ان کا وہ گروہی تعصب ہے جس میں مبتلا ہو کر وہ سب کی تکذیب پر تلے ہوئے ہیں۔ آپ ﷺ کے معجزات اور آپ ﷺ کی صداقت کے منہ بولتے دلائل کو دیکھ کر بھی صرف ان تعصبات کی وجہ سے ماننے کے لیے تیار نہیں۔ کیونکہ وہ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے سوا اور کوئی اللہ کا رسول نہیں ہوسکتا۔ اور اگر ہو بھی تو ان جیسی خصوصیات کا حامل نہیں ہوسکتا۔ تو ان کی موجودگی میں ہم کسی دوسرے کو رسول کیوں تسلیم کریں۔ چناچہ اگلی آیت کریمہ میں اسی حقیقت کو بیان کیا جا رہا ہے۔
Top