Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 252
تِلْكَ اٰیٰتُ اللّٰهِ نَتْلُوْهَا عَلَیْكَ بِالْحَقِّ١ؕ وَ اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ
تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ اللّٰهِ : اللہ کے احکام نَتْلُوْھَا : ہم سناتے ہیں وہ عَلَيْكَ : آپ پر بِالْحَقِّ : ٹھیک ٹھیک وَاِنَّكَ : اور بیشک آپ لَمِنَ : ضرور۔ سے الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
یہ اللہ کی آیتیں ہیں، ہم انہیں آپ کو پڑھ کر سناتے ہیں ٹھیک ٹھیک،962 ۔ اور آپ یقیناً مرسلین میں سے ہیں،963 ۔
962 ۔ (آیت) ” بالحق “ یعنی بالکل بےکم وکاست، اپنی اصلی حالت میں، اور غرض صحیح کے ساتھ۔ بالیقین الذی لا یشک فیہ اھل الکتب (مدارک) بالوجہ المطابق الذی لایشک فیہ اھل الکتاب وارباب التواریخ (بیضاوی) اے ملتبسۃ بالیقین الذی لایرتاب فیہ احد من اھل الکتاب وارباب التواریخ) (ابوسعود) گویا یہاں یہ ظاہر کردیا کہ صحیح ومستند بیان صرف قرآن ہی کا ہے۔ دوسری الہامی کتابوں اور مذہبی نوشتوں کی طرح اس کے قصے غلط سلط اور مسخ شدہ ہو کر نہیں رہ گئے ہیں۔ اور اس کی ایک مثال خود یہی قصہ طالوت ہے۔ بائبل والوں نے اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ 963 ۔ (بس آپ اپنے پیغمبر برحق ہونے اصلا شک نہ کیجئے، ان حقائق کا نزول پیغمبروں ہی پر ہوتا ہے) (آیت) ” من المرسلین “۔ لفظ مرسلین کی معنویت قابل غور ہے۔ انبیاء کی حیثیت اسلام میں تمامتر قاصدوں، سفیروں، بھیجے ہوؤں کی ہے۔ اور جو مرسل (بھیجا ہوا) ہوتا ہے، ظاہر ہے، کسی کی طرف سے، کسی کے پاس ہی بھیجا ہوا ہوتا ہے۔ یہ مرسلین یا پیامبر، خالق کی طرف سے مخلوق کے پاس ایلچی بن کر آتے ہیں۔ ان کی عظمت و بزرگی جو کچھ بھی ہے، ان کے اسی منصب متعارف وپیامبری سے وابستہ ہے۔ یہ خود نہ اوتار ہوتے ہیں نہ دیوتا، نہ خدائی کے مظہر، نہ ان میں خدائی حلول کیے ہوتی ہے۔ معبودیت یا نیم معبودیت کی صلاحیت یہ ذرا سی بھی نہیں رکھتے اللہ اکبر ! شرک بلکہ شائبہ شرک سے بھی بچنے کا قرآں کو کس درجہ اہتمام ہے۔ اور الفاظ تک کے انتخاب میں وہ اس کا کیسا لحاظ رکھ لیتا ہے۔
Top