Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 252
تِلْكَ اٰیٰتُ اللّٰهِ نَتْلُوْهَا عَلَیْكَ بِالْحَقِّ١ؕ وَ اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ
تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ اللّٰهِ : اللہ کے احکام نَتْلُوْھَا : ہم سناتے ہیں وہ عَلَيْكَ : آپ پر بِالْحَقِّ : ٹھیک ٹھیک وَاِنَّكَ : اور بیشک آپ لَمِنَ : ضرور۔ سے الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
یہ اللہ کی آیات ہیں ، جو ہم ٹھیک ٹھیک تم کو سنا رہے ہیں اور تم یقیناً ان لوگوں میں سے ہو جو رسول بناکر بھیجے گئے ہیں۔ “
یہ آیات عالی مقام ہیں ، دوررس مقاصد کی حامل ہیں ، اور اللہ تعالیٰ خود ان کو اپنے نبی کو پڑھ کر سناتے ہیں نَتْلُوهَا عَلَيْكَ ” ہم خود تم کو سنا رہے ہیں ۔ “ ہم خود سنا رہے ہیں ۔ کس قدر عظیم بات ہے ۔ انتہائی مہیب حقیقت ہے یہ ۔ سوچنے کی بات ہے کہ خود رب ذوالجلال ان آیات کو پڑھ کر سنارہا ہے اور جو بالحق سچائی کے ساتھ ۔ خود ذات باری یہ آیات سنارہی ہے جسے سنانے کا حق ہے ۔ جس کے حکم پر یہ آیات نازل ہورہی ہیں ، جس کے حکم سے یہ انسانوں کا دستور العمل بنی ہیں ۔ اللہ کے سوا یہ مقام کسی کو حاصل نہیں ہے ۔ اس لئے جو شخص انسانوں کے لئے از خود کوئی نظام تجویز کرتا ہے وہ مفتری ہے ۔ وہ حق تعالیٰ پر افتراء باندھتا ہے۔ وہ خود اپنے ظلم کررہا ہے اور بندوں پر بھی ظلم کررہا ہے ۔ وہ ایک ایسا دعویٰ کررہا ہے جس کا وہ مستحق نہیں ہے ۔ وہ باطل پرست ہے اور اس بات کا مستحق نہیں کہ اس کی اطاعت کی جائے ۔ اطاعت تو امرالٰہی کے لئے مخصوص ہے ۔ پھر اس کی اطاعت کی جانی ہے جو اللہ تعالیٰ سے ہدایت لیتا ہے ۔ اس کے سوا کوئی مستحق اطاعت نہیں ہے۔ وَإِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ ” تم یقیناً ان لوگوں میں سے ہو ، جو رسول بناکر بھیجے گئے ہیں ۔ “ یہی وجہ ہے باری تعالیٰ خود تم پر آیات کی تلاوت فرماتے ہیں اور پوری انسانی تاریخ کے تمام تجربات سے تمہیں آگاہ کررہے ہیں ۔ قافلہ اہل ایمان کے تمام تجربے ، تمام مراحل کے نشیب و فراز تمہیں بتائے جارہے ہیں اور تمام مرسلین کی میراث تمہارے حوالے کی جارہی ہے ۔ چناچہ یہاں یہ سبق ختم ہوجاتا ہے ، جو تحریکی تجربات کیے ذخیرہ سے بھر پڑا ہے ۔ اس سبق پر فی ظلال القرآن کا یہ دوسرا حصہ بھی ختم ہوجاتا ہے ۔ جس میں تحریک اسلامی کو مختلف سمتوں میں لے جایا گیا اور مختلف میدانوں اسے پھرایا گیا ۔ اور اسے اس عظیم رول کے لئے تربیت دی گئی جس کو اس نے کرہ ارض پر ادا کرنا تھا ، جسے اللہ تعالیٰ نے اس کا نگران مقرر کیا اور اسے امت وسط قرار دیا تاکہ وہ زمانہ آخر تک لوگوں کے لئے اس ربانی نظام زندگی کی حامل ہو۔
Top