Mafhoom-ul-Quran - Al-Baqara : 252
تِلْكَ اٰیٰتُ اللّٰهِ نَتْلُوْهَا عَلَیْكَ بِالْحَقِّ١ؕ وَ اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ
تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ اللّٰهِ : اللہ کے احکام نَتْلُوْھَا : ہم سناتے ہیں وہ عَلَيْكَ : آپ پر بِالْحَقِّ : ٹھیک ٹھیک وَاِنَّكَ : اور بیشک آپ لَمِنَ : ضرور۔ سے الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
یہ اللہ کی آیات ہیں جو ہم آپ کو ٹھیک ٹھیک سنا رہے ہیں اور تم یقیناً ان لوگوں میں سے ہو جو رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں
گزشتہ نشانیاں تشریح : اس آیت میں ایک تو اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ قرآن پاک میں جو بھی مضامین اور واقعات سابقہ قوموں کے بیان کئے گئے ہیں وہ بالکل ٹھیک اور اصل صورت میں بیان کئے گئے ہیں پچھلی قوموں کی آسمانی کتابوں کی طرح تبدیل نہیں کردیا گیا قرآن مجید کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ اس میں قیامت تک کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی یہ اللہ کا وعدہ ہے اور یہ تمام واقعات بالکل ٹھیک سنانے میں کئی مصلحتیں ہیں۔ مثلاً : پہلی بات یہ ہے کہ یہ بالکل سچے قصے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آنے والی قوموں اور نسلوں کو ان کی زندگیوں سے سبق دینا مطلوب ہے کہ نیکی اور بدی کا انجام کیا ہوتا ہے۔ خلوص اور بدنیتی کا کیا بدلہ ملتا ہے جیسا کہ بنی اسرائیل کا کردار ہمارے سامنے ہے، کس طرح ہزاروں لوگ گھروں سے نکلے، مرگئے پھر زندہ کئے گئے۔ جالوت کا حملہ کرنا، سپہ سالار کے لئے درخواست کرنا، حضرت طالوت (علیہ السلام) کا بادشاہ بننا پھر انہیں علم اور جسمانی مضبوطی میں سب پر فوقیت حاصل ہونا، تابوت سکینہ کا واپس ملنا، طالوت و جالوت کا مقابلہ ہونا، حضرت داؤ (علیہ السلام) کا جالوت کو قتل کرنا اور پھر سلطنت و پیغمبری کا ملنا یہ سب واقعات آنے والے لوگوں کیلئے نصیحت کا باعث ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ اس سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ نبی کریم ﷺ واقعی سچے اور آخری نبی ہیں۔ کیونکہ یہ سب واقعات نبی کریم ﷺ کو کسی نے نہیں بتائے اور نہ ہی آپ ﷺ اس وقت موجود تھے۔ رب العزت نے ان کو اپنی کتاب قرآن مجید کے ذریعہ ہی سب کچھ بتایا ہے۔ قرآن کی سچائی اور آنحضرت ﷺ کی سچائی اس سے ثابت ہوجاتی ہے۔ آخر میں تنبیہ کی جارہی ہے کہ محمد ﷺ صرف ایک رسول اور پیغمبر ہیں جیسا کہ ان سے پہلے کئی رسول بھیجے جا چکے ہیں اور رسول کا کام صرف اللہ کا پیغام بندوں تک پہنچاتا ہے وہ خود عبادت کئے جانے کے قابل نہیں ہوتے، عبادت کا حق تو صرف اللہ وحدہ لاشریک کا ہی ہے۔ صرف اللہ کی عبادت کرنے کی اجازت ہے۔ نبی یا رسول کا کام تو صرف اللہ کا حکم بندوں تک پہنچانا ہوتا ہے۔ جس قدر نبی اور رسول پہلے گزر چکے ہیں آپ بھی انہی میں سے ایک ہیں۔ آپ کی فرمانبرداری کرنا بندوں کا فرض ہے آپ کی عبادت کرنا منع اور شرک ہے، کیونکہ عبادت کے لائق صرف اللہ ہی ہے اور کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔ ہاں البتہ بعض رسولوں کو بعض پر بڑائی دی گئی ہے جس کا ذکر تیسرے پارے کے شروع میں ہی کیا جارہا ہے۔ خلاصہ پارہ دوم پہلے پارے کی ابتداء سورة فاتحہ سے ہوئی۔ یہ سورت ایک جامع دعا پر مشتمل ہے میں صراط مستقیم کی التجا تھی تو جس کے جواب میں پورا قرآن مل گیا۔ پھر سورة البقرہ شروع ہوئی اس میں مندرجہ ذیل موضوعات ہیں۔ مومن، کافر اور منافق کی تعریف و علامات، خلافت آدم، بنی اسرائیل کی تاریخ اور احکام الٰہی کی مخالفت، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے خاندان کے حالات بیان کئے گئے۔ دوسرے پارہ میں سب سے پہلے ملت اسلامیہ کے فرائض بتائے گئے۔ پھر تحویل قبلہ کا ذکر ہوا۔ تیسرے رکوع میں شہادت، چوتھے اور پانچویں رکوع میں حلال و حرام اور جاہلی رسمیں۔ چھٹے رکوع میں نیکی کا تصور، قصاص، وصیت، روزہ، دعا اور اعتکاف کے بیانات ہیں۔ آٹھویں، نویں اور دسویں رکوع میں جہاد اور مختلف مسائل کا بیان ہے۔ اس کے بعد اللہ کے راستے میں خرچ کرنا، شراب کا حرام ہونا۔ اہل شرک سے نکاح کی ممانعت کا ذکر ہے۔ بارہویں سے پندرہویں رکوع میں عائلی زندگی کے تمام مسائل اور بچے کے دودھ کی مدت کا ذکر ہے۔ سولہویں اور سترہویں رکوع میں تاریخ بنی اسرائیل کا اہم واقعہ کہ حضرت طالوت (علیہ السلام) کا بادشاہ بننا۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی کامیابیاں اور باطل کی شکست کا ذکر کرکے بتلایا کہ کامیابی آخر کار اہل حق کو ہوتی ہے اگرچہ آزمائش کے بعد ہو اور ناکامی ونامرادی ہمیشہ باطل پرستوں کو ہوتی ہے اگرچہ چند دن فراوانی کے گزارلیں۔ مولائے کریم سے دعا گوں ہوں کہ ہمیں بھی اہل حق کے راستہ پر چل کر دارین کی کامیابیاں عطا فرمائے۔ ( آمین) الحمد للہ دوسرا پارہ مکمل ہوا ’
Top