Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 252
تِلْكَ اٰیٰتُ اللّٰهِ نَتْلُوْهَا عَلَیْكَ بِالْحَقِّ١ؕ وَ اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ
تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ اللّٰهِ : اللہ کے احکام نَتْلُوْھَا : ہم سناتے ہیں وہ عَلَيْكَ : آپ پر بِالْحَقِّ : ٹھیک ٹھیک وَاِنَّكَ : اور بیشک آپ لَمِنَ : ضرور۔ سے الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
یہ اللہ تعالیٰ کی آیتیں ہیں جو ہم آپ کو حق کے ساتھ سناتے ہیں اور بیشک آپ اللہ تعالیٰ کے رسولوں میں سے ہیں
ربطہ آیات بنی اسرائیل کے واقعات بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضور خاتم النبین ﷺ کی نبوت کا بطور خاص اور پھر تمام انبیاء کی نبوت کا تذکرہ کیا ہے۔ اس سے پہلی آیت میں جہاد کی حکمت بیان فرمائی تھی۔ اور معترضین کے اعتراض کا ردّ تھا۔ اور واضح کیا تھا کہ اگر جہاد فرض نہ کیا جاتا تو مفسدین زمین میں فساد برپا کرکے اس کو خراب کردیتے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت فرمائی اور بد امنی کے خاتمے کے لیے جہاد کا حکم دیا تمام انبیاء اپنے اپنے دور میں جہاد کرتے آئے ہیں۔ اسی ضمن میں طالوت کا ذکر کیا جو کہ سموئیل نبی کے زمانے میں ہوا ہے۔ آپ کے نام پر بائیبل میں د و صحیفے بھی موجود ہیں۔ آپ خود بھی جہاد میں شریک ہوئے۔ بعثت انبیاء کا مقصد حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ انبیاء (علیہم السلام) کی بعثت کا مقصد لوگوں کو ایمان اور توحید کا راستہ بتانا ، اور ان کے عقائد اور اعمال کی اصلاح کرنا ہے اس کے علاوہ رسومات باطلہ کو مٹانا اور رفع تظالم بین الناس یعنی لوگوں کے درمیان ظلم و زیادتی کو فرو کرنا ہے۔ اور ان مقاصد کے حصول کے لیے جہاد لازمی ہے۔ اس کے بغیر کامیابی نہیں ہوسکتی۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ معاشرہ میں ظلم و زیادتی برپا کرنے والے لوگوں کی مثال ایسی ہے جیسے جسم میں پھوڑا ہوتا ہے جب تک اس پھوڑے کو کاٹ نہیں دیا جاتا جسم تندرست نہیں ہوسکتا ، اسی طرح جب تک فسادی لوگوں کو جڑ سے نہیں اکھاڑ دیا جاتا معاشرے میں امن وامان قائم نہیں ہوسکتا۔ اسی آپریشن کا نام جہاد ہے۔ تصدیق رسالت اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی نبوت و رسالت کی تصدیق فرمائی ہے۔ بنی اسرائیل کا واقعہ بیا ن کیا کہ وہ ہزاروں کی تعداد میں موت سے ڈر کر بھاگ کھڑے ہوئے مگر اللہ نے انہیں راستے ہی میں موت سے ہمکنار کردیا پھر اللہ کے نبی نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ زندگی دی۔ ان کی اپنی فرمائش پر اللہ تعالیٰ نے طالوت کو ان کا امیر مقرر کیا۔ اور اس کی سرکردگی میں جہاد کا حکم دیا ۔ پھر راستے میں لشکر کی آزمائش ہوئی۔ اور ان میں سے بہت تھوڑے اس آزمائش میں پورے اترے اکثریت نے بےصبری کا اظہار کیا اور جہاد سے محروم رہے۔ جانثاروں کی ایک قلیل تعدادکو اللہ نے فتح سے ہمکنار کیا۔ اس موقع پر اللہ نے دعا کا فلسفہ سکھایا اور پھر میدان جنگ میں دشمن کا سردار حضر ت دائود (علیہ السلام) کے پتھر سے ہلاک ہوا۔ طالوت کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود (علیہ السلام) کو خلیفہ بنایا۔ یہ تمام واقعات ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی نشانیاں قرار دیا۔ تلک اٰیت اللہ نتلوھا علیک بالحق یہ اللہ کی نشانیاں ہیں اللہ کی آیتیں ہیں۔ جنہیں ہم آپ کو حق کے ساتھ سناتے ہیں۔ وحی الٰہی کے ذریعے لاتے ہیں۔ وگرنہ آپ نے کوئی تاریخ نہیں پ ڑھی اور نہ کسی تاریخ میں ایسے واقعات موجود تھے۔ یہ آپ کی نبوت و رسالت کی نشانی ہے کہ آپ کے علم میں ایسے ایسے واقعات رہے ہیں۔ اور پھر یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر منحصر ہے کہ وہ جونسے واقعات چاہے آپ کو بتلا دے۔ اور جو نہ چاہے ، نہ بتلائے ، دوسری جگہ فرمایا ” لو شاء اللہ ماتلوتہ لیسکم “ اور اگر اللہ چاہتا تو یہ واقعات آپ کو نہ سناتا یہ چیزیں آپ کی نبوت کی دلیل ہیں فرمایا ” فقد لبثت فیکم عمراً من قبلہ افلا تعقلون “ میں نے تم میں عمر کا ایک حصہ گزارا ہے اس سے پہلے میں نے کبھی ایسی باتیں نہیں بتائی تھیں۔ جب اللہ کی وحی نازل ہونے لگی۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے واقعات کا انکشاف ہوا۔ تو میں نے یہ آیتیں تمہیں بھی پڑھ کر سنادی ہیں۔ پہلی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے نبوت و رسالت کے مرتبہ پر فائز کیا ہے فرمای وانک لمن المرسلین یقینا آپ اللہ کے نبیوں میں سے ہیں۔ بلکہ سلسلہ انبیاء کی آخری کڑی ہیں آپ کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ آپ خاتم النبین ہیں۔ انبیاء کی ایک دوسرے پر فضیلت اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں کا اجمالاً ذکر فرمایا تلک الرسل یہ اللہ کے ایسے رسول ہیں اس سے پہلے بہت سے انبیاء کا ذکر آچکا ہے۔ گذشتہ آیات میں حضرت سموئیل (علیہ السلام) کا ذکر آیا ہے۔ ” قال لھم نبیھم “ ان کے نبی نے ان سے کہا۔ اگرچہ یہاں پر نبی کا نام نہیں لیا گیا۔ تاہم اس سے مراد سموئیل نبی ہیں۔ دائود (علیہ السلام) کا ذکر آچکا ہے۔ اس سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا بیان آچکا ہے۔ فرمایا یہ تما ام اللہ کے رسول ہیں۔ ان سب پر ایمان لانا ضروری ہے کسی ایک نبی کا انکار ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کے انکار کے برابر ہے۔ لا نفرق بین احدٍ منھم جہاں تک منصب نبوت و رسالت کا تعلق ہے ہم ان میں کوئی فرق نہیں رکھتے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے ہیں اور معصوم ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں گناہ سے پاک رکھتا ہے البتہ باعتبار فضائل اور خصوصیات فضلن بعضھم علی بعضٍ اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت بخشی ہے۔ یہاں پر ایک… کا ازالہ ضروری ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے لا تفضلوا بین الانبیاء یعنی نبیوں کے درمیان تفاضل نہ کرو۔ یا مجھے بھی باقی نبیوں کے درمیان فضیلت نہ دو ۔ یا یہ کو یونس ابن متیٰ کے مقابلہ میں کسی کو فضیلت نہ دو ۔ اس کے متعلق محدیثن کرام فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس معاملہ میں اپنی عقل سے بات نہ کرو۔ کہ بعض کو بعض پر فضیلت دینے لگو اور بعض کی توہین کرنے لگو ، ایسا نہ کرو ، کیونکہ ایسا کرنے سے کفر لازم آجاتا ہے۔ فضیلت کا جو ذکر اللہ تعالیٰ نے فرمادیا ہے۔ اسی پر کاربند رہو۔ چناچہ اس امر میں اجماع اور اتفاق ہے کہ حضور ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء پر فضیلت دی ہے۔ آپ کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ، حضرت نوح (علیہ السلام) کے درجات ہیں خصوصاً حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی امامت عامہ کا ذکر خود قرآن میں موجود ہے انی جاعلک للناس اماماً یعنی میں تم کو تمام لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔ اس مقام پر فضاء انبیاء کے متعلق ارشاد ہے منھم من کلم اللہ ان میں سے بعض ایسے ہیں جن کے ساتھ اللہ نے کلام کیا۔ چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا۔ وکلم اللہ موسیٰ تکلیماً اور کوہ طور پر اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے بالمشافہ کلام فرمایا۔ معراج کے واقعہ میں آتا ہے کہ حضور ابوذر غفدی ؓ نے حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ اول النبین یعنی سب سے پہلے نبی کون ہے آپ نے فرمایا آدم علیہ السلام۔ پھر عرض کیا ہے حضور ! کیا وہ نبی ہیں ۔ فرمایا ، ہاں وہ نبی مکلم اللہ تعالیٰ نے ان سے بالمشافہ کلام کیا۔ آپ سب سے پہلے نبی ہیں اور سب سے آخری نبی حضور خاتم النبین علیہ التحیۃ والسلام ہیں ۔ فرمایا ورفع بعضھم درجتٍ اور بعض کے درجات بلند کیے۔ اس آیت میں بعض کے درجات سے مراد حضور ﷺ ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے درجات سب نبیوں سے زیادہ بلند کئے ہیں۔ اللہ نے آپ کو مقام محمود پر سرفراز فرمایا ہے۔ جس کا مظاہرہ قیامت کے روز ہوگا۔ آپ کو شفاعت کبریٰ عطا ہوئی ہے آپ کو وسیلہ عطا ہوا ہے آپکی امت کو اکثریت حاصل ہے آپکی امت تمام امتوں سے افضل ہے آپ کو کتاب بھی سب سے افضل دی گئی ہے اور آپکو اللہ نے بیشمار معجزات عطا کئے ہیں غرضیکہ آپکے درجات بہت بلند فرماتے ہیں۔ اسی لیے فرمایا کہ بعض کے درجات بلند کیے ہیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات فرمایا واٰتینا عیسیٰ ابن مریم البینت اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو واضح نشانیاں عطا کیں۔ قرآن میں اسکی وضاحت موجود ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات میں مردوں کو زندہ کرنا ، کوڑھیوں کو تندرست کرنا ، اللہ کے حکم سے غیب کی خبریں دینا۔ گھر سے کھا کر آنے والے کو بتا دینا کہ کیا کھایا ہے وغیرہ شامل ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا جہاں بھی قرآن میں ذکر آتا ہے۔ عیسیٰ ابن مریم کے نام سے آتا ہے۔ جس سے یہ بتانا مقصود ہے۔ کہ آپ کا باپ کوئی نہ تھا۔ اللہ نے انہیں بغیر باپ کے پیدا کیا۔ قیامت کے روز بھی آپ کو یا عیسیٰ ابن مریم کے لقب سے پکاراجائے گا اور پھر پوچھاجائے گا کہ کیا آپ نے لوگوں کو کہا تھا کہ مجھے معبود بنالو۔ آپ جواب دیں گے۔ سبحانک اے اللہ تو پاک ہے۔ میں ایسی بات کس طرح کہہ سکتا ہوں جس کا مجھے حق نہیں۔ میں نے تو انہیں وہی کچھ کہاجس کا تو نے مجھے حکم دیا۔ گویا عیسیٰ (علیہ السلام) کی الوہیت کا ردّ کیا گیا ہے۔ اور ایسا عقیدہ رکھنے والوں کی سرزنش کی گئی ہے۔ مگر کیا کیا جائے کہ سرسید اور پرویز جیسے لوگ بھی موجود ہیں۔ جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا باپ بھی ثابت کرتے ہیں۔ یہ بات قرآن پاک کی تعلیم کے قطعاً خلاف ہے اور ملحدانہ عقیدہ ہے اللہ فرماتا ہے کہ ہم نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو واضح نشانیاں دیں۔ روح القدس سے تائید حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق ہی فرمایا وایدنہ بروح القدس ہم نے روح القدس کے ساتھ ان کی تائید فرمائی۔ روح القدس کا معنی عام طور پر جرائیل (علیہ السلام) کیا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جدھر بھی جاتے تھے۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی تائید ان کے شامل حال ہوتی تھی ۔ حضور ﷺ نے یہی بات حضرت حسان ؓ کو کہی تھی۔ فرمایا۔ اے حسان ! تم مشرکین کو اشعار کے ذریعے جواب دو ۔ تمہیں جبرئیل کی تائید حاصل ہوگی۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) کے نزدیک القدس کا معنی کچھ اور ہے وہ فرماتے ہیں کہ کائنات کی ہر چیز مشیت الٰہی کی تابع ہے۔ اور ملاء اعلیٰ کی تمام بزرگ ہستیوں کی توجہ جس طرح ایک طرف لگی رہتی ہے۔ اس کو تائید روح القدس کہا جاتا ہے اور پھر خطیرۃ القدس جیسے پاک مقام سے جو شعائیں ان بزرگوں ہستیوں پر پڑتی ہیں یہ بھی روح القدس کی تائید ہوتی ہے۔ انسان اپنے … کا خودذمہ دار ہے فرمایا ولو شاء اللہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا ما اقتل الذین من بعد ھم من بعد ما جاء تھم البینت تو نبیوں کے بعد آنے والے لوگ واضح نشانیاں آجانے کے بعد نہ لڑتے۔ یعنی اگر مشیت الٰہی چاہتی تو سب لوگوں کو ہدایت دے دیتی اور وہ ایک دوسرے سے لڑائی جھگڑا نہ کرتے۔ دوسری جگہ فرمایا ولو شاء لھداکم اجمعین۔ اگر اللہ چاہتا تو سب لوگوں کو ہدایت دے دیتا۔ ولا یزالون مختلفین مگر لوگ اختلاف کرتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں کسی کام پر مجبور نہیں کیا۔ بلکہ خیروشر کے دونوں راستے دکھا کر انسان کو اپنے ارادے کے مطابق عمل کرنے کا اختیار دے دیا۔ ” فمن شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر “ جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کے ارادے کو سلب نہیں کیا۔ اگر ایسا ہوتا تو انسان کی فضیلت باقی نہ رہتی۔ اس کا امتحان نہ ہوپاتا اور وہ بےجان چیزوں کی طرح مجبور محض قرار پاتا۔ چناچہ ان لوگوں نے نیکی کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے ولکن اختلفو ا انہوں نے اختلاف کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا فمنھم من امن ومنھم من کفر کہ ان میں کچھ لوگ ایمان لے آئے۔ اور کچھ دوسروں نے انکار کردیا۔ اور کفر کا راستہ اختیار کیا جب اختلاف پیدا ہوگا تو پھر لڑائی بھی ہوگی اہل ایمان اور کفار ایک جگہ اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ ان میں سے ہر گروہ اپنا پروگرام نافذ کرنا چاہے گا۔ لہٰذا ان کے درمیان ضرور ٹکر ہوگی اور یہی جہاد ہے جو اہل اسلام پر فرض کیا گیا ہے کیونکہ جہاد کے بغیر فتنہ و فساد کا قلع قمع نہیں ہوسکتا پچھلے درس میں آچکا ہے کہ جہاد کے ذریعے شر و فساد کو مٹانا مقصود ہے اسی چیز کے متعلق فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ بعض کو بعض کے ذریعے نہ مٹاتا تو زمین میں فساد برپا رہتا۔ لہٰذا جہاد لازم قرار دیا۔ اور بتادیا کہ جہاد کو ترک کردو گے تو یسلط اللہ ذلۃً علیکم ( ابو دائود) اللہ تعالیٰ تم پر ذلت مسلط کردے گا اور یہ ذلت ختم نہ ہوگی۔ حتیٰ ترجعوا الیٰ دینکم جب تک تم اپنے دین کی طرف پلٹ کر نہ جائو گے۔ فرمایا ولو شاء اللہ ما اقتلوا اگر اللہ چاہتا تو یہ لوگ آپس میں نہ لڑتے سب ایک ہی راستے پر ہوتے اور ان میں کوئی اختلاف رونما نہ ہوتا مگر حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو عقل اور قوت عطا کی ہے۔ اسے اشرف المخلوقات بنایا ہے اور پھر اسے اختیار دیا ہے کہ وہ اپنے ارادے سے جونسا راستہ چاہے اختیار کرے۔ ” انا ھدینہ السبیل اما شاکراً وماً کفوراً “ یہ اپنے ارادے کا خود ذمہ دار ہے جو راستہ اختیار کرے گا اس کے مطابق سزا و جزا کا مستحق ہوگا۔ اگر صحیح راستہ اختیار کرے گا تو اللہ تعالیٰ راضی ہوجائے گا۔ اور اللہ تعالیٰ ایمان پر راضی ہوتا ہے کفر پر راضی نہیں ہوتا اہل ایمان کو نجات دے گا اور ان کو فلاح حاصل ہوگی۔ فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں ہے کہ وہ چاہتا تو یہ لوگ اختلاف کا شکار نہ ہوتے ولکن اللہ یفعل ما یرید مگر اللہ تعالیٰ وہ کچھ کرتا ہے جو اس کا اپنا ارادہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ انسان کا امتحان لینا چاہتا ہے۔ اور اپنے بندوں کو آزما کر اس کے مطابق جزا یا سزا دے گا۔ اس کا منشاء یہ ہے کہ لوگ ایمان کا راستہ اختیار کریں اور جو لوگ کفر کے راستے پر چل نکلیں ان کے شر و فساد کو مٹانے کے لیے ایمان والے جہاد کریں تاکہ اسلام کو غلبہ حاصل ہو اور اللہ کا دین اختیار کرنے میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے۔
Top