Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Furqaan : 38
اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَ یَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَآءِ١ۚ وَ اللّٰهُ یَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَ فَضْلًا١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌۖۙ
اَلشَّيْطٰنُ : شیطان يَعِدُكُمُ : تم سے وعدہ کرتا ہے الْفَقْرَ : تنگدستی وَيَاْمُرُكُمْ : اور تمہیں حکم دیتا ہے بِالْفَحْشَآءِ : بےحیائی کا وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعِدُكُمْ : تم سے وعدہ کرتا ہے مَّغْفِرَةً : بخشش مِّنْهُ : اس سے (اپنی) وَفَضْلًا : اور فضل وَاللّٰهُ : اور اللہ وَاسِعٌ : وسعت والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
(اور دیکھنا) شیطان (کا کہا نہ ماننا وہی) تمہیں تنگدستی کا خوف دلاتا اور بےحیائی کے کام کرنے کو کہتا ہے اور خدا تم سے اپنی بخشش اور رحمت کا وعدہ کرتا ہے اور خدا بڑی کشائش والا اور سب کچھ جاننے والا ہے
(تفسیر) 268۔: (الشیطان یعدکم الفقر شیطان تم کو مفلس ہوجانے سے ڈراتا ہے) تمہیں وہ فقر وفاقہ سے ڈراتا ہے کہا جاتا ہے ” وعدتہ خیرا ووعدتہ شرا “۔ یعنی کبھی تو وہ خیر سے ڈراتا ہے اور کبھی شر سے ، اللہ تعالیٰ خیر کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ (آیت)” وعدکم اللہ مغانم کثیرۃ “ کہ اللہ تم سے کثیر مال غنیمت کا وعدہ کرتا ہے اور شر کے متعلق ارشاد فرمایا (آیت)” النار وعدھا اللہ الذین کفروا “ (کہ ان لوگوں کے لیے آگ کا وعدہ ہے جو کفر کرتے ہیں) لیکن جب نہ خیر کا قرینہ مراد ہو اور نہ شر کا تو پھر خیر ہی مراد ہوتا ہے اور شر کا استعمال باب افعال سے ہی ہوتا ہے ۔ فقر کہتے ہیں بری حالت اور مال کی کمی کو ، یہ اصل میں الفقار فاء کے کسرہ کے ساتھ ہے آیت کا معنی یہ ہوگا کہ بیشک شیطان تمہیں فقر سے ڈراتا ہے اور آدمی سے کہتا ہے کہ مال اپنے پاس روکے رکھ اگر تو نے اس کو خرچ کیا تو فقیر ہوجائے گا (ویامرکم بالفحشآء اور تمہیں حکم کرتا ہے بےحیائی کا) فحشاء سے مراد بخل ہے زکوۃ کا روکنا ہے اور کلبی (رح) فرماتے ہیں کہ قرآن میں جہاں بھی فحشاء کا لفظ آیا ہے وہاں زنا مراد ہے صرف یہاں زنا مراد نہیں ۔ (واللہ یعدکم مغفرۃ منہ وفضلا “ اور اللہ تم سے وعدہ کرتا ہے بخشش اور فضل کا) بخشش سے مراد تمہارے گناہوں کی معافی ہے ۔ (واللہ واسع اور اللہ وسعت والا ہے) واسع سے مراد غنی ہے (علیم جاننے والا ہے) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں کہ اے ابن آدم تو خرچ کر تجھ پر خرچ کیا جائے گا اور آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کا ہاتھ بھرپور ہے ، دن رات خرچ کرنے سے اس کے خزانے میں کمی نہیں آتی کیا تم نہیں دیکھتے کہ جب سے زمین و آسمان پیدا کیے اس وقت سے وہ اپنے خزانوں سے خرچ کر رہا ہے تو اس کے خزانوں سے ذرہ برابر بھی کمی نہیں آئی اور فرمایا کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا اور دوسرا ہاتھ میزان پر ہے وہ اس بلند کرتا ہے اور پست کرتا ہے ، حضرت فاطمہ بنت منذر ؓ حضرت اسماء ؓ سے روایت کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ خرچ کیا کرو اس کو شمار نہ کیا کرو وگرنہ اللہ تعالیٰ بھی شمار کر کر کے دے گا اور اس کو جمع کرکے نہ رکھ وگرنہ اللہ تعالیٰ بھی جمع کرلے گا ۔
Top