Anwar-ul-Bayan - Al-Waaqia : 83
فَلَوْ لَاۤ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَۙ
فَلَوْلَآ : پس کیوں نہیں اِذَا بَلَغَتِ : جب پہنچ جاتی ہے الْحُلْقُوْمَ : حلق کو۔ نرخرے کو
سو جس وقت روح حلق تک آپہنچتی ہے
اگر تمہیں جزا ملنی نہیں ہے نہیں ہے تو موت کے وقت روح کو کیوں واپس نہیں لوٹا دیتے ان آیات میں اولاً انسانوں کی بےبسی ظاہر فرمائی ہے جو موت کے وقت ظاہر ہوتی ہے، ثانیاً انسانوں کی انہیں تینوں جماعتوں کا عذاب وثواب بیان فرمایا ہے جن کا پہلے رکوع میں تذکرہ فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے انسانوں کو پیدا فرمایا اور انہیں بہت سے اعمال کرنے کا حکم دیا اور بہت سے اعمال سے منع فرمایا تاکہ بندوں کی فرمانبرداری اور نافرمانی کا امتحان لیا جائے، سورة الملک میں فرمایا ﴿خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ﴾ (موت اور حیات کو پیدا فرمایا تاکہ وہ آزمائے کہ تم میں اچھے عمل والا کون ہے ؟ ) لہٰذا زندگی کے بعد موت بھی ضروری ہے اور ان دونوں میں سے بندوں کو کسی کے بارے میں کچھ بھی اختیار نہیں اللہ تعالیٰ نے زندگی دی، وہی موت دے گا، اس نے دونوں کا وقت مقرر اور مقدر فرما دیا ہے کسی کو اختیار نہیں کہ خود سے پیدا ہوجائے یا وقت مقرر سے پہلے مرجائے۔ خالق تعالیٰ شانہٗ کی قضاء اور قدر کے خلاف اور اس کی مشیت کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا ارشاد فرمایا ﴿ فَلَوْ لَاۤ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَۙ0083﴾ (الآت الخمس) کہ جب مرنے والے کی روح حلق کو پہنچ جاتی ہے تو تم وہاں موجود ہوتے ہو اسے حسرت کی آنکھوں سے ٹک ٹک دیکھا کرتے ہو اور اس پر ترس کھاتے ہو اور تمہاری آرزو ہوتی ہے کہ اسے موت نہ آئے اور ہم بہ نسبت تمہارے مرنے والے سے زیادہ قریب ہوتے ہیں (کیونکہ تم اس کی طرف ظاہری حالت کو دیکھتے ہو اور ہم اس کی باطنی حالت پر بھی مطلع ہوتے ہیں) لیکن تم نہیں سمجھتے اگر تم یہ سمجھتے ہو اور اپنے خیال میں سچے ہو کہ تمہیں اعمال کے بدلے دیئے جانے والے نہیں ہیں تو مرنے والے کی موت کو روک کر دکھا دو ۔ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کی موت کا وقت مقرر فرمایا ہے وہ اپنے فرشتے بھیجتا ہے جو روح نکالتے ہیں حاضرین بےبس ہیں کچھ نہیں کرسکتے جس طرح یہاں بےبس ہیں اسی طرح اس وقت بھی بےبس ہوں گے جب اللہ تعالیٰ شانہ ٗ اعمال کی جزا دینے کے لیے جسموں میں روحیں ڈالے گا، یہ عاجز بندے نہ دنیا میں کسی مرنے والے کی روح کو واپس کرسکتے ہیں نہ قیامت کے دن دوبارہ زندگی کو روک سکتے ہیں، یہ دوبارہ زندہ ہونا اور پہلی زندگی کے اعمال کا بدلہ دیا جانا خالق تعالیٰ شانہ کی طرف سے طے شدہ ہے تم قیامت ہونے اور دوبارہ زندہ ہونے اور اعمال کا بدلہ دیا جانے کے منکر ہو اور اس انکار کی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے اگر تمہیں موت سے بچنے بچانے کی قدرت ہوتی تو یہ کہنے کا بھی موقع تھا کہ ہم دوبارہ زندہ نہ ہونگے اور جزا اور سزا کے لیے پیشی نہ ہوگی، جب اسی دنیا میں اپنی عاجزی دیکھ رہے ہو تو دوبارہ زندہ ہونے اور قیامت کی پیشی کا انکار کس بنیاد پر کر رہے ہو جبکہ خالق جل مجدہ نے اپنی کتاب میں واضح طور پر بتادیا ہے کہ تم سب کو مرنا ہے اور اعمال کی جزا ملنی ہے۔ كذا فسر حکیم الامة قدس سرہ فی بیان القرآن وان ردہ صاحب روح المعانی وقال : انہ لیس بشی، ثم فسر بتفسیر اٰخر وجعل المدینین بمعنی مربوبین وقال : التقدیر فلو لا ترجعونھا اذا بلغت الحلقوم، وحاصل المعنی انکم ان کنتم غیر مربوبین کما تقتضیة اقوالکم وافعالکم فما لکم لا ترجعون الروح الی البدین اذا بلغت الحلقوم و تردونھا کما کانت بقدرتکم او بواسطة علاج للطبیعۃ 1 ھ والاقرب الی السیاق ما ذکر فی بیان القرآن۔ وقال القرطبی صفحہ 211: ج 17 ای فھلا ان کنتم غیر محاسبین ولا مجزین باعمالکم ای ولن ترجعوھا فبطل زعمکم انکم غیر مملوکین ولا محاسبین ثم قال : ترجعونھا جواب لقولہ تعالیٰ فلو لا اذا بلغت الحلقوم ولقولھہ فلو لا ان کنتم غیر مدینین اجیبا بجوابٍ واحد قالہ الفراء اور بما اعادت العرب الحرفین ومعناھما واحد وقیل حذف احدھما لدلالہ الآخر علیہ انتھی ـ
Top