Al-Quran-al-Kareem - Al-Waaqia : 83
فَلَوْ لَاۤ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَۙ
فَلَوْلَآ : پس کیوں نہیں اِذَا بَلَغَتِ : جب پہنچ جاتی ہے الْحُلْقُوْمَ : حلق کو۔ نرخرے کو
پھر کیوں نہیں کہ جب وہ (جان) حلق کو پہنچ جاتی ہے۔
فَلَوْلَآ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ۔۔۔۔۔۔”مدینین“ ”دان یدین دینا“ (جزادینا ، مالک ہونا ، حساب لینا ، حاکم ہونا) سے اسم مفعول ”مدین“ کی جمع ہے جو اصل میں ”مدیون“ تھا ، بدلا دیے گئے ، محاسبہ کیے گئے ، محکوم ، مملوک ، ان آیات میں ”فلولا“ دو دفعہ آیا ہے اور دونوں کی جزائ ”ترجعونھا ان کنتم صدقین“ ہے۔ ان آیات میں نزع کے عالم کا نقشہ کھینچ کر قیامت کے منکروں سے کہا گیا ہے کہ ایسا کیوں نہیں کہ مرتے وقت جب جان حلق تک آپہنچتی ہے اور تم پاس بیٹھے مرنے والے کو دیکھ رہے ہوتے ہو اور ہم تم سے زیادہ اس مرنے والے کے قریب ہوتے ہیں ، تو پھر اگر تم کسی کے محکوم نہیں اور نہ تم سے کوئی محاسبہ کرنے والا ہے اور تم خود ہی ہر طرح صاحب اختیار ہو ، تو اگر تم سچے ہو تو نکلنے والی اس جان کو واپس کیوں نہیں لے آتے ؟ تمہاری بےبسی سے ثابت ہوا کہ تم سب اللہ تعالیٰ کے مملوک اور اس کے حکم کے پابند ہو ، جب وہ لے جانا چاہے گا لے جائے گا اور جب زندہ کر کے محاسبے کے لیے اپنے سامنے کھڑا کرنا چاہے گا کر دے گا۔ اس لیے تمہاری بھلائی اسی میں ہے کہ اس کی توحید پر ، اس کے رسول پر اور یوم قیامت پر ایمان لے آؤ تا کہ تمہیں اس دن شرمندگی نہ اٹھانا پڑے۔ جان نکلنے کے وقت انسان کی حالت اور اس کے غم گساروں کے بےبسی کا نقشہ سورة ٔ قیامہ کی آیات (26 تا 30) میں بھی خوب کھینچا گیا ہے۔
Top