Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Furqaan : 38
وَّ عَادًا وَّ ثَمُوْدَاۡ وَ اَصْحٰبَ الرَّسِّ وَ قُرُوْنًۢا بَیْنَ ذٰلِكَ كَثِیْرًا
وَّعَادًا : اور عاد وَّثَمُوْدَا : اور ثمود وَاَصْحٰبَ الرَّسِّ : اور کنویں والے وَقُرُوْنًۢا : اور جماعتیں بَيْنَ ذٰلِكَ : ان کے درمیان كَثِيْرًا : بہت سی
اور عاد اور ثمود اور کنوئیں والوں اور ان کے درمیان اور بہت سی جماعتوں کو بھی (ہلاک کر ڈالا)
38۔ 44:۔ سیرۃ ابن اسحاق اور مسند عبد بن حمید وغیرہ میں ایک روایت 1 ؎ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ‘ قیامت کے دن سب سے پہلے ایک حبشی غلام جنت میں جاوے گا کس لیے کہ پہلے زمانہ میں ایک نبی کو ان نبی کی قوم نے ایک کنویں میں ڈال کر اس کنویں کے منہ پر ایک پتھر کی سل ڈھانک دی تھی ‘ وہ حبشی غلام ان نبی پر ایمان لے آیا تھا ‘ اس لیے ہر روز لکڑیاں جنگل میں سے چن کر لاتا تھا اور ان لکڑیوں کو بیچ کر کچھ کھانے کی چیز خریدتا تھا اور قوم کے لوگوں سے چھپ کر اس کنویں پر آتا تھا اور اللہ تعالیٰ اس کو اتنی قوت دے دیتا کہ وہ اس بھاری پتھر کی سل کو کنویں کے منہ پر سے ہٹا کر ان نبی کو کھانا کھلاتا تھا ایک دفعہ جنگل میں جو وہ حبشی غلام سویا تو خدا کی قدرت سے چودہ برس تک اس کی آنکھ نہ کھلی ‘ اتنے میں اللہ تعالیٰ نے اس قوم کے لوگوں کو ہدایت دی اور ان لوگوں نے ان نبی کو کنویں سے سے نکالا اور ان نبی پر ایمان لائے ‘ یہ نبی قوم کے لوگوں سے اکثر اس حبشی غلام کا حال پوچھا کرتے تھے مگر کسی کو اس جنگل میں سوجانے کی خبر نہ تھی ‘ اس واسطے کسی نے اس کا کچھ حال نہ بتایا یہاں تک کہ جب وہ نبی وفات پاچکے تو اس حبشی غلام کی آنکھ کھلی اور وہ حسب عادت کنویں پر آیا اور ان نبی کو کنویں میں نہ پایا ‘ ابو جعفر ابن جریر نے اس قصہ کو اپنی تفسیر 2 ؎ میں نقل کر کے کہا ہے کہ آیت میں جن کنویں والوں کا ذکر ہے ‘ وہ اس قصہ کے لوگ اس سبب سے نہیں قرار پاسکتے کہ یہ لوگ تو آخر ایمان لے آئے اور آیت میں جن لوگوں کا ذکر ہے ‘ ان کا ایمان لانا آیت سے ثابت نہیں ہوتا بلکہ ان کا عذاب میں گرفتار ہونا آیت سے نکلتا ہے ‘ حافظ ابن کثیر نے اس کا جواب 3 ؎ یہ دیا ہے کہ جن لوگوں نے ان نبی کو کنویں میں قید کیا تھا ‘ وہ عذاب سے ہلاک ہوگئے ہوں اور ان کی اولاد کو اللہ تعالیٰ نے یہ ہدایت دی ہو کہ انہوں نے نبی کو کنویں سے نکالا ہو اور ان نبی پر ایمان لائے ہوں تو اس صورت میں یہی قصہ آیت کی تفسیر قرار پاسکتا ہے ‘ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ رسولوں کے جھٹلانے سے جس طرح قوم نوح اور قوم فرعون کے لوگ دنیا اور آخرت کے عذاب میں پکڑے گئے ‘ وہی حال عاد ‘ ثمود اور کنویں والوں کا اور بہت سی بستی والوں کا ہوا کہ پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول بھیج کر ان لوگوں کو طرح طرح سے سمجھایا ‘ جب یہ لوگ اپنی عادت سے باز نہ آئے تو طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک ہوگئے۔ چناچہ ملک شام کے سفر میں قوم لوط کی الٹی ہوئی اور پتھروں کے مینہ سے اجڑی ہوئی بستی ان مشرکین مکہ کو نظر آتی ہوگی ‘ پھر فرمایا یہ لوگ کچھ اس لئے اللہ کے رسول کو نہیں جھٹلاتے کہ قوم لوط کی اجڑی ہوئی بستی ان لوگوں کی نظر سے نہیں گزری بلکہ یہ لوگ تو اس لیے اللہ کے رسول کو مسخراپن میں اڑاتے ہیں کہ ان لوگوں کو ایک دن اللہ کے روبرو کھڑے ہونے کا اور جزا وسزا کا یقین نہیں ہے اسی واسطے ان لوگوں نے بت پرستی کے وبال کو دل سے بھلا رکھا ہے مگر وقت مقررہ پر ان کو معلوم ہوجاوے گا کہ اللہ کے رسول ان کو جو طریقہ بتاتے تھے ‘ وہ اچھا تھا یا بت پرستی کا طریقہ اچھا تھا ‘ پھر فرمایا اے رسول اللہ کے تم نے ان لوگوں کی نادانی دیکھی کہ جس بت کی پوجا کو ان کا جی چاہتا ہے اس کی پوجا کرنے لگتے ہیں اور جس کی پوجا کیا کرتے تھے اس کی پوجا جھوڑ دیتے ہیں ‘ اس لیے جب تک اللہ تعالیٰ کی مدد نہ ہو تم ایسے نادان لوگوں کی ہدایت کے ذمہ دار نہیں قرار پاسکتے ‘ پھر فرمایا اے رسول اللہ کے کیا تم اپنے جی میں یہ خیال کرتے ہو کہ یہ لوگ قرآن سنتے اور اس کی نصیحت کو سمجھتے ہیں ‘ نہیں یہ لوگ تو اپنی نادانی کے سبب سے بالکل چوپایوں کی طرح کسی بات کو نہیں سمجھتے بلکہ یہ لوگ چوپایوں سے بھی بدتر ہیں کیونکہ چوپائے اپنے پرورش کرنے والے کو خوب پہچانتے ہیں اور یہ لوگ اپنے پیدا کرنے والے اور پرورش کرنے والے کو نہیں پہچانتے ہیں ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے عبداللہ مسعود کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے ‘ جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ‘ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ‘ اس پر بھی جو لوگ اپنے پیدا کرنے والے کی تعظیم میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں ان سے بڑھ کر دنیا میں کوئی گنہگار نہیں ‘ مشرکوں کی چوپایوں سے بدتر ہونے کی حالت اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے کیونکہ چوپائے اپنے شیطان کی فرمانبرداری کو برابر جانتے ہیں ‘ سوائے شرک کے اور باقی کے گناہوں کے کرنے میں شیطان کی فرمانبرداری سے شیطان کی پوجا نہیں آتی اس واسطے شرک سب گناہوں سے بڑا ہے ‘ سورة السبا میں آوے گا کہ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ فرشتوں سے خفگی کے طور پر دریافت فرماوے گا کہ کیا یہ بت پرست لوگ دنیا میں تمہاری مورتوں کو پوجا کرتے تھے تو اللہ کے فرشتے بہت ڈریں گے اور صاف کہہ دیں گے کہ شیطان نے ان لوگوں کے دل میں ہمارے نام کی مورتوں کی پوجا کا وسوسہ ڈال دیا تھا اس لیے شیطان کے بہکانے سے یہ لوگ شیطان کی پوجا کرتے تھے۔ ہماری مرضی کا اس میں ہرگز کوئی دخل نہیں تھا ‘ اوپر یہ جو بیان کیا گیا تھا کہ بت پرستی میں شیطان کی پوجا لازم آتی ہے ‘ اس کا مطلب سورة السبا کی ان آیتوں سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے۔ (1 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 71 ج 5 ) (2 ؎ ص 5 ا ج 19 طبع جدید ) (3 ؎ یہ حافظ ابن کثیر کا جواب نہیں بلکہ ابن جریر کے اپنے اشکال کے حل کی ان کی اپنی ایک توجیہ نقل کی ہے اور خود اس اثر پر فنی جرح کی ہے وفیہ غرابۃ ونکارۃ شدیدۃ ولعل فیہ ادر اجا (ص 319 ج 3) (ع۔ ح )
Top