Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 147
فَاِنْ كَذَّبُوْكَ فَقُلْ رَّبُّكُمْ ذُوْ رَحْمَةٍ وَّاسِعَةٍ١ۚ وَ لَا یُرَدُّ بَاْسُهٗ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ
فَاِنْ : پس اگر كَذَّبُوْكَ : آپ کو جھٹلائیں فَقُلْ : تو کہ دیں آپ رَّبُّكُمْ : تمہارا رب ذُوْ رَحْمَةٍ : رحمت والا وَّاسِعَةٍ : وسیع وَلَا يُرَدُّ : اور ٹالا نہیں جاتا بَاْسُهٗ : اس کا عذاب عَنِ : سے الْقَوْمِ الْمُجْرِمِيْنَ : مجرموں کی قوم
پھر یہ لوگ تمہیں جھٹلائیں تو ان سے کہہ دو تمہارا پروردگار بڑی ہی وسیع رحمت رکھنے والا ہے مگر مجرموں پر سے اس کا عذاب کبھی ٹلنے والا نہیں
اللہ کی رحمت بلاشبہ بےپایاں ہے لیکن مجرموں کو عذاب دینے کا فیصلہ بھی اسی کا ہے : 227: رحمت الٰہی کو حاصل کرنے کے لئے جو قانون اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے وہ تو یہی ہے کہ جو شخص اپنی نافرمانی کی روش سے باز آجائے اللہ تعالیٰ کی رحمت فوراً اس کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے لیکن جو لوگ اپنی اس مجرمانہ وباغیانہ روش پر اڑے رہیں گے تو وہ بھی کان کھول کر سن لیں کہ ان کو اس کے غضب سے کوئی بچانے والا نہیں۔ رحمت الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ہٹ دھرموں اور حلت و حرمت میں بےجا دخل اندازی کرنے والوں کو فوراً دھر نہیں لیتا بلکہ اپنے قانون امہال کے تحت ان کو ڈھیل دیتا رہتا ہے جس کا اصل مدعا تو یہ ہوتا ہے کہ لوگ سنبھل کر اپنے بگاڑ کا علاج کرلیں اور یہ ڈھیل ان کے لئے رحمت کا باعث ہو لیکن جو لوگ اس قدر اکھڑ ہوتے ہیں کہ وہ ڈھیل سے فائدہ حاصل کرنے کی بجائے الٹا تمسخر کرنا شروع کردیتے ہیں آخر ایسے مجرموں کی پکڑ کا وقت بھی آ ہی جاتا ہے اور ان کو عذاب کی لپیٹ میں لپیٹ کر رکھ دیا جاتا ہے اور پھر وہ کسی کے ٹالے سے بھی نہیں ٹلتا۔
Top