Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 147
فَاِنْ كَذَّبُوْكَ فَقُلْ رَّبُّكُمْ ذُوْ رَحْمَةٍ وَّاسِعَةٍ١ۚ وَ لَا یُرَدُّ بَاْسُهٗ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ
فَاِنْ : پس اگر كَذَّبُوْكَ : آپ کو جھٹلائیں فَقُلْ : تو کہ دیں آپ رَّبُّكُمْ : تمہارا رب ذُوْ رَحْمَةٍ : رحمت والا وَّاسِعَةٍ : وسیع وَلَا يُرَدُّ : اور ٹالا نہیں جاتا بَاْسُهٗ : اس کا عذاب عَنِ : سے الْقَوْمِ الْمُجْرِمِيْنَ : مجرموں کی قوم
بس اگر وہ تمہیں جھٹلائیں تو کہہ دو کہ تمہارا رب بڑی وسیع رحمت والا ہے اور اس کا عذاب مجرموں سے ٹالا نہ جاسکے گا
فَاِنْ كَذَّبُوْكَ فَقُلْ رَّبُّكُمْ ذُوْ رَحْمَةٍ وَّاسِعَةٍ۔ اب یہ قریش اور بنی اسرائیل دونوں کو دھمکی ہے۔ پیغمبر کو خطاب کر کے فرمایا کہ اس ساری وضاحت کے بعد بھی اگر یہ تم پر ایمان نہ لائیں، بدستور تمہارے جھٹلانے ہی پر اڑے رہیں تو ان کو سنا دو کہ اللہ چونکہ بڑی وسیع رحمت والا ہے، وہ سرکشوں اور ہٹ دھرموں کو بڑی دور اور بڑی دیر تک ڈھیل دیتا ہے تاکہ ان کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہا جائے، اس وجہ سے وہ تمہیں ڈھیل پر ڈھیل دے رہا ہے۔ اس ڈھیل سے مغرور نہ ہوجاؤ، ڈھیل بہر حال ڈھیل ہے۔ اس سے اللہ کی پکڑ کچھ پیچھے تو بیشک ہوجاتی ہے لیکن اس سے اس کی وہ سنت باطل نہیں ہوجاتی جو مجرموں کی پکڑ کے لیے اس نے ٹھہرا رکھی ہے۔ جب اس کی سنت کے ظہور کا وقت آجائے گا تو وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکے گی۔ اوپر ملت ابراہیم اور شریعت بنی اسرائیل کی جو حرمتیں بیان ہوئی ہیں اس سے یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہوگئی کہ مشرکین نے بلا سند بہت سی چیزیں جو حرام ٹھہرا رکھی تھیں ان کی حرمت کو ملت ابراہیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسی طرح یہود بہت سی چیزوں کی حرمت کے جو مدعی تھے تو ان کی حرمت اصلاً نہیں بلکہ ان کے فسادِ مزاج کے سبب سے مصلحتاً تھی اور وعدہ الٰہی کے مطابق ان پابندیوں کو آخری بعثت کے ذریعے سے دور ہونا تھا، چناچہ وہ، جیسا کہ سورة مائدہ میں بیان ہوا، خاتم الانبیاء ﷺ کے ذریعے سے دور کردی گئیں۔ اب اس ملت میں حرام وہی چیزیں ہیں جو عقل و فطرت کی رو سے حرام ہونی چاہئیں، مشرکین کی بدعات اور یہود کے تشددات سے اس ملت کا ضابطہ حلت و حرمت پاک ہے۔ اسلام کا ضابطہ حلت و حرمت : ہم اختصار کے ساتھ یہاں اسلام کا وہ ضابطہ حلت و حرمت بھی پیش کیے دیتے ہیں جو قرآن نے بیان فرمایا ہے۔۔ قرآن نے حلت و حرمت کی فطری بنیاد یہ بتائی ہے کہ جو طیبات ہیں وہ حلال ہیں، جو خبائث ہیں وہ حرام ہیں۔ چناچہ قرآن میں آنحضرت ﷺ کی یہ تعریف بیان ہوئی ہے۔ یامرھم بالمعروف و ینھاہم عن المنکر و یحل لہم الطیبات و یحرم علیہم الخبائث ویضع عنہم اصرہم والاغلال التی کا نت علیہم : وہ ان کو حکم دیتا ہے معروف کا اور روکتا ہے منکر سے اور ان کے لیے جائز کرتا ہے پاکیزہ چیزیں اور حرام ٹھہراتا ہے ناپاک چیزیں اور ان سے دور کرتا ہے وہ بوجھ اور وہ پابندیاں جو ان پر اب تک تھیں۔ طیبات سے مراد، ظاہر ہے کہ وہ چیزیں ہیں جو اپنے مزاج، اپنی سرشت اور انسان کے اوپر اپنے اثرات کے اعتبار سے پاکیزہ، معتدل، صحت بخش اور نافع ہیں۔ خبیثات، سے مراد اس کے برعکس وہ چیز ہیں جو اپنے مزاج، اپنی جبلت اور انسان کے مزاج و طبیعت پر اپنے اثرات کے لحاظ سے مضر، انحراف انگیز اور مفسد ہیں۔ ان دونوں چیزوں کے اندر مذکورہ صفات کے اعتبار سے تفاوتِ درجات اور فرق مراتب ہوتا ہے۔ کوئی چیز زیادہ طیب ہوتی ہے، کوئی چیز کم، اسی طرح کوئی چیز زیادہ خبیث ہوتی ہے کوئی کم۔ اس فرق مراتب کا اثر لازماً اس سے متعلق حکم پر بھی پڑتا ہے، مثلا ایک چیز حام کردی جاتی ہے، دوسری چیز کراہت کے درجے ہی میں رہتی ہے۔ اسی طرح بعض حالات میں یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک چیز کے اندر بجائے خود تو کوئی خرابی نہیں ہوتی لیکن کسی خارجی سبب سے اس کو کوئی خرابی لاحق ہوجاتی ہے اور وہ خبیث بن جاتی ہے۔ مثلاً غیر اللہ یا کسی تھان اور استھان کا ذبیحہ، جوئے کے ذریعہ سے حاصل کیا ہوا گوشت یا حالت احرام میں کیا ہوا شکار۔ یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ اشیا کے درمیان خبیث و طیب کا فرق محض ایک امر اضافی ہے۔ اس کی کوئی فطری یا عقلی و اخلاقی بنیاد نہیں ہے۔ ایک ہی چیز ایک قوم کے نزدیک حلال و طیب ہوتی ہے، وہی چیز دوسری قوم کے نزدیک خبیث و حرام قرار پاتی ہے۔ ایسا سمجھنا صریح سو فسطائیت ہے۔ یہ کہا درحقیقت دوسرے الفاظ میں یہ کہنا ہے کہ حق و باطل، عدل و ظلم اور خیر و شر بھی محض اضافی امور ہیں۔ ان کی کوئی عقلی و فطری بنیاد نہیں ہے۔ اس مغالطے پر انشاء اللہ ہم کسی موزوں مقام پر تفصیل کے ساتھ بحث کریں گے۔ اسی طیب و خبیث کو معیار بنا کر اسلام نے چوپایوں میں سے وہ تمام چوپائے حلال ٹھہرائے جو انعام میں سے ہیں یا وحشی جانوروں میں سے انعام کے حکم میں داخل ہیں۔ مائدہ کے شروع میں احلت لکم بھیمۃ الانعام کے الفاظ آئے ہیں اور وہاں ہم واضح کرچکے ہیں کہ انعام کا لفظ اونٹ، گائے، بھیڑ بکری کے لیے معروف تھا۔ اس کی طرف بھیمہ کی اضافت نے اس میں وسعت پیدا کردی اور وہ سارے جانور بھی اس میں شامل ہوگئے جو انعام کی جنس سے تعلق رکھنے والے ہیں عام اس سے کہ وہ پالتو ہیں یا وحشی، مثلاً بھینس چھرے، دنبے، نیل گاؤ، ہرن، چیتل پاڑ ہے وغیرہ۔ البتہ وہ جانور اس سے نکل جائیں گے جو درندوں کے حکم میں داخل ہیں اس لیے کہ وہ بھیمۃ الانعام کے تحت نہیں آتے مثلا شیر، ریچھ بھیڑیے، کتے وغیرہ چناچہ نبی ﷺ نے درندہ جانوروں کو حرام قرار دیا۔ اسی طرح مردار، خنزیر، بہایا ہوا خون اور غیر اللہ کے نام یا تھان اور استھان کا ذبیحہ بھی حرام ہے۔ اسلیے کہ ان میں نجاست و خباثت ہے۔ بعض کے اندر ظاہری نجاست ہے بعض کے اندر عقلی۔۔ یہی ضابطہ پرندوں پر بھی لاگو ہوگا۔ ان میں سے بھی جو درندوں کی نوعیت کے ہیں۔ مثلاً چیل، باز، عقاب، شکرے وغیرہ یا ان کے اندر کوئی اس نوع کی خباثت پائی جاتی ہے جو اوپر مذکور ہوئی وہ حرام ہیں۔ یہ ضابطہ دریائی جانووں اور ہوام و حشرات پر بھی نافذ ہوگا، ان میں سے بھی خبیث و طیب کے اسی اصول کو سامنے رکھ کر فرق کیا جائے گا جو اوپر مذکور ہوا۔ اسی ضابطہ پر وہ چیزیں بھی پرکھی جائیں گی جو نباتات میں سے ہیں یا نباتات میں سے ہیں یا نباتات کی ترکیب و تحلیل سے پیدا ہوتی ہیں۔ مثلا شراب خواہ کسی چیز سے تیار کی جائے حرام ہے اس لیے کہ اس میں عقلی و اخلاقی خباثت ہے۔ اسلام میں حلت و حرمت کا اصل ضابطہ یہی ہے۔ اس ضابطہ کی روشنی میں حلال بین اور حرام بین کا متعین کرلینا کچھ مشکل نہیں ہے لیکن نہ دنیا میں چوپایوں کی کوئی حد ہے، نہ پرندوں کی اور نہ دریائی جانوروں کی۔ اس وجہ سے بہت سی چیزوں کے بارے میں اختلاف فقہ کی کتابوں میں تفصیل سے مذکور ہے۔ بعض لوگ بعض چیزوں کو درندوں میں داخل کرتے ہیں، بعض نہیں داخل کرتے۔ اسی طرح بعض چیزوں کو بعض فقہا خبیث قرار دیتے ہیں بعض ان کو خبیث نہیں قرار دیتے۔ ہمارے نزدیک اس باب میں حنفیہ کا مسلک قرآن کے بیان کردہ اصول حلت و حرمت سے زیادہ اوفق ہے لیکن اس طرح کے مسائل میں، جن کے اندر اختلاف کی گنجائش ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی ان کو متشابہات کے درجہ میں رکھے۔ یعنی ان سے احتراز کرے، اگر اس کے نزدیک احتراز کا پہلو راجح ہے، لیکن دوسرے کو مرتکب حرام قرار نہ دے۔ حدیثوں میں گوہ کے باب میں حضور ﷺ کا جو ارشاد نقل ہے وہ اس طرح کے مسائل میں بہترین رہنمائی دیتا ہے۔ البتہ ایک تنبیہ یہاں ضروری ہے، بعض صحابہ کے متعلق بعض کتابوں میں یہ جو نقل ہوا ہے کہ وہ اسلام میں صرف وہی چار چیزیں حرام مانتے تھے جو اوپر قل لا اجد فی ما اوحی الی والی آیت میں مذکور ہیں، یہ بات کسی طرح بھی صحیح نہیں معلوم ہوتی۔ اس کے نقل میں راویوں سے تسامح ہوا ہے۔ صحابہ میں سے کسی کی طرف اس بات کی نسبت بعدی از عقل ہے۔ ان میں کسی نے اگر کہی ہوگی تو یہ بات کہی ہوگی کہ ملت ابراہیم میں بس یہی چار چیزیں چوپایوں میں سے حرام تھیں۔ یہ بات کہنے کا ایک محل ہے جس کی وضاحت ہم اوپر کرچکے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے اسی بات کو غلط فہمی کی بنا پر راوی نے یہ شکل دے دی کہ وہ اسلام میں بس یہی چار چیزیں حرام مانتے تھے۔
Top