Ahsan-ut-Tafaseer - Al-An'aam : 147
فَاِنْ كَذَّبُوْكَ فَقُلْ رَّبُّكُمْ ذُوْ رَحْمَةٍ وَّاسِعَةٍ١ۚ وَ لَا یُرَدُّ بَاْسُهٗ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ
فَاِنْ : پس اگر كَذَّبُوْكَ : آپ کو جھٹلائیں فَقُلْ : تو کہ دیں آپ رَّبُّكُمْ : تمہارا رب ذُوْ رَحْمَةٍ : رحمت والا وَّاسِعَةٍ : وسیع وَلَا يُرَدُّ : اور ٹالا نہیں جاتا بَاْسُهٗ : اس کا عذاب عَنِ : سے الْقَوْمِ الْمُجْرِمِيْنَ : مجرموں کی قوم
اور اگر یہ لوگ تمہاری تکذیب کریں تو کہہ دو تمہارا پروردگار صاحب رحمت وسیع ہے۔ مگر اس کا عذاب گنہگار لوگوں سے نہیں ٹلے گا۔
اوپر کی آیت میں فرمایا تھا بعض حلال چیزیں یہود پر جو حرام ہوگئی ہیں وہ ان لوگوں کی سرکشی کی سزا میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے حرام ہوئی ہیں یعقوب (علیہ السلام) کے حرام ٹھہرانے سے حرام نہیں ہوئی اس آیت میں فرمایا اے رسول اللہ ﷺ کے ان لوگوں کے دل جانتے ہیں کہ جو بات اللہ تعالیٰ نے فرمائی وہی سچی ہے اس پر ضد سے یہ لوگ تم کو جھٹلاویں تو ان سے کہہ دیا جاوے کہ یہ اللہ کی مہربانی کی سمائی کا سبب ہے جو تم لوگ باوجود سرکشی اور طرح طرح کے گناہوں کے اب تک عذاب الٰہی سے بچے ہوئے ہو لیکن یہ عادت الٰہی ہے کہ کثرت گناہوں کے سبب سے جب کسی گنہگار قوم پر عذاب آجاتا ہے تو پھر وہ نہیں ملتا صحیح مسلم میں ابوہریرہ ؓ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ذرہ ذرہ سی بات پر جو عذاب الٰہی ہونے والا ہے اگر اس کا پورا حال لوگوں کو معلوم ہوجاوے تو پھر کوئی شخص اس کی رحمت سے ناامید نہ ہو آیت میں اللہ کی رحمت اور عذاب کا جو ذکر ہے یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے مطلب یہ ہے کہ اگر اب بھی یہ لوگ اپنی سرکشی سے باز آن کر راہ راست پر آنے کا قصد کریں تو اللہ کی رحمت بہت بڑی ہے ورنہ اس کا عذاب بھی بہت سخت ہے کہ جس کی سختی کو کوئی کم کرسکتا ہے نہ اس کو کوئی ٹال سکتا ہے۔ اس مکی آیت میں قرآن کی پیشین گوئی کا یہ ایک معجزہ ہے جس کا ظہور ہجرت کے بعد ہوا کہ یہود کے تین قبیلے بنی قینقاع۔ بنی نضیر۔ بنی قریظہ جو مدینہ کے گرد و نواح میں رہتے تھے ان میں سے بنی قینقاع اور بنی نضیر کا اخراج ہوا اور بنی قریظہ کا قتل۔
Top