Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 147
فَاِنْ كَذَّبُوْكَ فَقُلْ رَّبُّكُمْ ذُوْ رَحْمَةٍ وَّاسِعَةٍ١ۚ وَ لَا یُرَدُّ بَاْسُهٗ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ
فَاِنْ : پس اگر كَذَّبُوْكَ : آپ کو جھٹلائیں فَقُلْ : تو کہ دیں آپ رَّبُّكُمْ : تمہارا رب ذُوْ رَحْمَةٍ : رحمت والا وَّاسِعَةٍ : وسیع وَلَا يُرَدُّ : اور ٹالا نہیں جاتا بَاْسُهٗ : اس کا عذاب عَنِ : سے الْقَوْمِ الْمُجْرِمِيْنَ : مجرموں کی قوم
سو اگر یہ آپ کو جھٹلائیں تو آپ کہہ دیجیے کہ تمہارا پروردگار بڑی وسیع رحمت والا ہے، اور اس کا عذاب مجرم لوگوں سے ٹل نہیں سکتا،225 ۔
225 ۔ (جب اس عذاب کا وقت حکمت الہی اور مصلحت تکوینی کے ماتحت آجاتا ہے) توریت وانجیل کے حوالوں کے لیے ملاحظہ ہو انگریزی کی تفسیر القرآن کے حاشیے۔ (آیت) ” فان کذبوک “۔ یہ اشارہ کن لوگوں کی طرف ہے ؟ سیاق سے تو یہود ہی مراد معلوم ہوتے ہیں۔ اور اکثر محققین بھی اسی طرف گئے ہیں۔ ای الیھود کما قال مجاھد والسدی وھو الذی یقتضیہ الظاہر (روح) الظاھر عود الضمیر علی اقرب مذکور وھم الیھود (بحر) لیکن اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ اشارہ تمام مخالفین ومعاندین کے حق میں جامع سمجھا جائے۔ اور یہود ومشرکین اور ان کے اشباہ وامثال سب ہی مراد لیے جائیں۔ ای فان کذبوک یا محمد مخالفوک من المشرکین والیھود ومن شابھھم (ابن کثیر) (آیت) ” فقل ربکم ذورحمۃ واسعۃ “۔ اور اسی رحمت وسیع کے اقتضاء سے وہ مہلت اور گنجائش بھی بہت زیادہ دیتا رہتا ہے۔ یہ جواب یہود کے اس اعتراض کا معلوم ہوتا ہے کہ آپ سچے ہیں تو ہم پر عذاب کیوں نہیں آتا ہے ؟
Top