Urwatul-Wusqaa - Al-Furqaan : 54
وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا فَجَعَلَهٗ نَسَبًا وَّ صِهْرًا١ؕ وَ كَانَ رَبُّكَ قَدِیْرًا
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْ : جس نے خَلَقَ : پیدا کیا مِنَ الْمَآءِ : پانی سے بَشَرًا : بشر فَجَعَلَهٗ : پھر بنائے اس کے نَسَبًا : نسب وَّصِهْرًا : اور سسرال وَكَانَ : اور ہے رَبُّكَ : تیرا رب قَدِيْرًا : قدرت والا
اور وہی ہے جس نے انسان کو پانی (کی ایک بوند) سے پیدا کیا پھر اس کو خاندان والا اور سسرال والا بنا دیا اور تیرا رب بڑا قدرت والا ہے
آفاق دلائل کے بعد توحید الہی کے انفسی دلائل اور نئے خدشات کا ازالہ : 54۔ نسب کیا ہے اور صہر کیا ؟ نسب بھی قرابت ہے اور صہر بھی قرابت ہے لیکن ” نسب “ آباء یعنی مرد کی طرف سے ہے اور ” صھر “ عورت کی طرف سے ہے ۔ زیر نظر آیت میں گویا دلائل آفاقی سے دلائل انفس کی طرف مضمون کو منتقل کیا گیا ہے تاکہ توحید الہی کو مختلف دلائل سے ذہن نشین کرایا جائے ، اسی طرح اب انفسی دلائل کی طرف توجہ مبذول کرائی جا رہی ہے جو انسان کی اپنی ذات میں موجود ہیں فرمایا جا رہا ہے کہ اسے انسان ! اپنی چال ڈھال ‘ اپنی نخوت وتکبر ‘ اپنے اکڑنے اور اترانے والے ‘ ذرا دیکھو کہ ہم نے کس حقیر پانی سے تیری پیدائش کردی کہاں وہ قطرہ ناپاک اور کہاں یہ تیرا حسین و جمیل چہرہ اور خوبصورت جسمانی ساخت ذرا غور کرو کہ یہ تیری تبدیلی اور یہ تدریجی ارتقاء کس کی حکمت کاملہ کی شہادت دے رہا ہے ، پھر غور کرو کہ اللہ تعالیٰ نے تجھ کو صرف ایک صنف میں پیدا نہیں کیا بلکہ دو صنفوں میں پیدا کیا اور دونوں کے ظاہری اعضاء میں کتنا واضح اختلاف ہے پھر جس طرح ان ظاہری اعضاء میں فرق ہے بالکل اسی طرح ان کے ذہنی رجحانات اور قلبی احساسات وجذبات میں بھی فرق رکھا گیا ہے لیکن اس واضح اختلاف کے باوجود دونوں ایک دوسرے کے لئے جزولاینفک ہیں گویا ہر ایک کی انسانیت کی تکمیل دوسرے کے بغیر ادھوری ہے ۔ مرد اپنی ساری قوتوں کے باوجود نامکمل ہے اور عورت بھی اپنی ساری لطافت ونزاکت کے باوجود غیر مکمل ہے دونوں مل کر ایک مکمل انسان بنتے ہیں ہاں ! بلاشبہ دونوں مل کر ہی مکمل ہوتے ہیں اور اسی طرح دونوں ہی اپنی اپنی جگہ مکمل ہوجاتے ہیں پھر اس تکمیل انسانیت کے بعد نسل انسانی کی نعمت کو اللہ تعالیٰ نے رکھ دیا ہے اور اسی طرح نسب وصہر کا ایک غیر مبہم سلسلہ جاری کردیا ہے کہ ہر مرد کی طرف سے نسب ہے اور ہر عورت کی طرف سے صہر ہے اور اسی طرح یہ رشتہ داریوں کا سلسلہ قائم ہے اور قائم رہے گا جب تک اس دنیا کا نظام قائم ہے ، خیال رہے کہ ان دونوں صنفوں کے اندر دونوں طرح کے جرثومے موجود ہیں جن سے نوع انسانی کا سلسلہ آگے بڑھتا ہے لیکن ان دونوں کے فطری ملاپ ہی سے ان کا جوڑ جڑتا ہے ۔ اگر اس جوڑ کے لئے کوئی مصنوعی طریقہ ایجاد کرلیا گیا یعنی ایک صنف کے دونوں جرثوموں کو آپس میں جوڑ دیا گیا تو وہ بھی بہرحال جوڑ لگانا ہی کہلائے گا جوڑ لگنا نہیں پھر یہ بھی کہ اس طرح کے مصنوع جوڑ سے جوڑی گئی پیدائش کا نیا جوڑ ممکن نہیں ہوگا اور نہ ہی اس جوڑ میں وہ تسکین میسر آئے گی جو قدرت نے اس جوڑ میں رکھ دی ہے ، اس سلسلہ میں انسان جو کوشش بھی کرے گا اس کے لئے بجائے نفع کے نقصان دہ ہی ثابت ہوگی ، اس سلسلہ میں جو تجربات کئے جا رہے ہیں ان کی کامیابی کے فوائد کم اور نقصانات زیادہ ہوں گے اور بلاشبہ اس سے انسان کمال کو نہیں بلکہ زوال کی طرف منتقل ہوگا کیونکہ نسب وصہر کے علاوہ نسل انسانی کا سلسلہ مکمل طور پر رک جائے گا لیکن اس بات کو اللہ جانتا ہے کہ شاید اس سلسلہ کا اختتام وہ اس طرح کرنا چاہتا ہو کیونکہ جو سلسلہ شروع ہوا ہے بہرحال اس کو ختم بھی ہونا ہے پھر نئے سلسلہ کا اعلان آج نہیں جب سے اس نظام کو شروع کیا گیا تھا اسی وقت کردیا گیا تھا کہ آج اس نظام کو شروع کیا جارہا ہے تو کل اس کا اختتام بھی ہوگا کیونکہ یہ دار فانی ہے لیکن اس کے بعد نقشہ ثانیہ کا دور ابدی دور ہوگا اس لئے اس سارے نظام کو بدل دیا جائے گا ، خیال رہے کہ قرآن کریم کے نزدیک اتحاد وتناسل کا طریقہ ایک اور صرف ایک ہی ہے اور ایک ہی رہے گا کیونکہ یہی طریقہ اسلام میں جائز طریقہ متعارف ہے اور بلاشبہ وہ ازدواج کا طریقہ ہے علاوہ ازیں جو طریقہ بھی اختیار کیا جائے گا وہ ناجائز اور حرام ہوگا خواہ کسی شکل اور کسی نوعت کا ہو ۔ آج کل فی زماننا مختلف طریقوں سے کوششیں جاری ہیں کہ پیدائش کا کوئی نیا طریقہ وضع کیا جائے اور کسی حد تک نباتات اور غیر ناطق حیوانات میں ان تجربات نے حیرت انگیز ترقی بھی کی ہے جس کے نتیجہ اجناس کی نئی نئی قسمیں معرض وجود میں آچکی ہیں جس کے باعث اجناس کی پیداوار میں خاصہ اضافہ بھی ہوا ہے گویا فصلوں کا جھاڑ کافی حد تک پہلے کی نسبت بڑھ گیا ہے جس میں بیج کا بھی حصہ ہے اور اس کے ماحول کا بھی یعنی بیج کے علاوہ زمین کو کھاد وغیرہ ڈال کر اس کی قوت نمو میں اضافہ کردینا بھی شامل ہے اور ابھی مزید ترقی کے امکان بھی موجود ہیں لیکن جہاں اس کے فوائد ہیں وہاں اس کے نقصانات بھی لیکن یہ بحث ایک الگ بحث ہے اور اسی طرح غیر ناطق حیوانوں میں بھی ان تجربات سے مفید نتائج سامنے آئے ہیں کہ فطری طریقہ پیدائش سے ہٹ کر جب غیر فطری طریقہ اپنایا گیا تو اس کی افزائش میں بہت حد تک اضافہ ہوا جس کی مثال ان پولٹری فارموں سے دی جاسکتی ہے اور اس طریقہ سے اب حیوانات کی دوسری اقسام میں بھی روز بروز ان تجربات سے فوائد حاصل کئے جا رہے ہیں اور ان کی مقدار بھی یقینا بڑھی ہے اور ابھی مزید امکان بھی موجود ہیں چونکہ انسان بھی بہرحال ایک حیوان ہے اور اس پر بھی اس طرح کے تجربات اب جاری ہیں جس سے ایک نیاباب کھلتا نظر آتا ہے جو آج نہیں تو کل بہرحال مکمل طور پر کھلے گا لیکن طریق تخلیق کے ان مصنوعی طریقوں میں اصولی تخلیق سے آج تک انحراف ممکن نہیں ہو سکتا اور جب تک اس کائنات کا یہ انتظام موجود ہے ممکن بھی نہیں۔ بحث جتنی ہوگی وہ سب کی سب حرام و حلال کی ہوگی مثلا فطری طریقہ میں فحل کے میلان نے صنف نازک میں ایک تہیج پیدا کی اور صنف نازک کی فطری طلب کو فحل نے پورا کردیا جو ایک فطری طریقہ ہے کہ اس میں کسی مصنوعی کوشش کا کوئی عمل دخل نہیں ہے بلکہ خالصتا ایک فطری طلب کو پورا کیا جاتا ہے ، اسلام نے اس کے لئے ایک خاص طریقہ نکاح ‘ خاص رشتوں کی قید کے ساتھ جائز رکھا اور باقی طریقوں کو حرام قرار دے دیا اور یہ بات صرف مکلفین کی حد تک تھی یعنی انسانوں تک ان کے باہر اس طرح کی کوئی بحث نہ تھی یہی وجہ ہے کہ سائنس نے جب ترقی کی تو اس نے بھی ان تجربات کو نباتات اور نباتات کے بعد زیادہ تر غیر ناطق حیوانات تک محدود رکھا لیکن انسان کی طلب جستجو اس کو اس جگہ کب رکھنے دے گی وہ یقینا اس سے آگے بڑھے گا اور حیوان ناطق یعنی انسانوں کو بھی ان تجربات میں شامل کرے گا اور ماحول میں جو تبدیلیاں ہو رہی ہیں یقینا ان کا مکمل طور پر رجحان اس طرف بڑھ رہا ہے اگر آج یورپ کے لوگ ہی یورپ تک محدود ہوتے غیر یورپین وہاں داخل نہ ہوتے تو یقینا اب تک دنیا کا وہ حصہ خاص حد تک اسی مصنوعی طریقہ کے انسانوں سے آباد ہوتا ۔ اس وقت جب کہ نئے طریقہ ایجاد کئے گئے تو اس میں بھی اصول رہی رہا کہ تہیج کا ایک مصنوعی طریقہ اپنایا گیا اور پھر جب مصنوعی تہیج پیدا ہوئی تو اس کی طلب کو پورا کرنے لئے مصنوعی طریقہ سے حاصل شدہ بیج مصنوعی طریقہ سے اس میں رکھ دیا گیا ۔ ذرا غور کرو کہ نتیجہ کیا رہا ؟ وہی جو پہلے تھا فرق صرف یہ رہا کہ وہ فطری طلب کو فطری طریقہ سے پورا کرنا تھا یہ مصنوع طلب کو مصنوع طریقہ سے پورا کیا گیا گویا بات وہی رہی صرف اس کے لئے طریقہ کار بدل دیا گیا اور اس وقت تک جو ہیجان اجسام میں سمجھا گیا تھا اور جو طلب اجسام میں بیان کی جاتی تھی اس لئے متعلق یہ اضافہ ہوا کہ بلاشبہ اجسام کی تسکین اس میں ضرور ہے لیکن اصل طلب اجسام کی نہیں تھی بلکہ اس بیج کی تھی جو اجسام کے اندر پایا جاتا تھا اور جب اس بیج اور تخم کو جسم سے الگ کر کے دیکھا گیا تو بات واضح ہوگئی کہ اصل طلب اس بیج اور تخم کی تھی جیسا کہ نباتات کے بیج میں بھی شروع سے موجود چلی آرہی ہے گویا اس طرح انسان نے جو دریافت کیا جس نے لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا وہ صرف انسانی سوچ کی کمزوری تھی جو کچھ اس نے دریافت کیا وہ کوئی گم شدہ چیز نہیں تھی بلکہ اس کی اپنی حالت ہی یہ تھی کہ ” لڑکا بغل میں اور ڈھنڈورا شہر میں “ جو کچھ ہے وہ تو اس کے اپنے ہاتھوں میں موجود ہے جس کو ہر وقت وہ دیکھتا ہے اور ہر وقت اس پر عمل پیرا ہے واہ رہے انسان کیا تو اور کیا تیر دریافت ‘ سبحان اللہ ۔ اس طرح وہ پردہ جو دراصل اس کی آنکھوں اور ہاتھوں کے درمیان حائل تھا اس ہوا کے جھونکے سے ذرا سرکا تو اس کو حقیقت حال معلوم ہوئی کہ ابھی تو ا میں اس جگہ کھڑا ہوں جہاں سے میں چلا تھا تو اس نے مزید کوشش کردی اور بلاشبہ یہ وہی چیز ہے جو اس کے جسم کے اندر داخل ہے اور جس کو ہم جسم کہہ رہے ہیں بلاشبہ وہ اس کے جسم کے ایک حصہ دماغ کے پردوں میں سے کوئی خاص پردہ ہی ہو جس کو کوئی انسانی آنکھ دیکھ بھی نہ سکتی ہو جب تک کوئی مصنوعی آنکھ استعمال نہ کی جائے ، بہرحال اس نے جب اپنی حالت پر غور کیا تو اس کو معلوم ہوا کہ میں ابھی وہیں کا وہیں ہوں تو اس نے مزید جو ترقی کی طرف قدم اٹھا تو اس کو معلوم ہوا کہ جو تڑپ وطلب ہم نے بیج میں سمجھی تھی وہ بھی دراصل بات صحیح نہیں تھی بلکہ یہ طلب تو بیج بننے سے بہت پہلے کے خلیوں میں موجود ہے حالانکہ ان خلیوں پر ایک خاص مدت تک عمل ہونے کے بعد یہ بیج کا نام حاصل کرتے ہیں ، ان خلیوں کی دریافت کے بعد اب وہ پھولا نہیں سما رہا اور وہ سمجھتا ہے کہ میں نے وہ کام کر دکھایا جو شاید اللہ میاں بھی نہ کرسکا اور پوری دنیا کے اخباروں نے اس کو اس قدر پذیرائی بخشی کہ آسمان سر پر اٹھا لیا کہ ” لیجئے جناب کلوننگ ٹیکنا لوجی نے مادہ تولید کی ضرورت ختم کردی “ اس ہا۔۔۔۔ ہا ۔۔۔ ہو۔۔ ہونے اتنا شور مچایا کہ الامان والحفیظ ۔ اس اخباری اعلان کے بعد ہر آنے والے دن نے کتنے کتنے جھوٹ گھڑے اور کیسے کیسے ان کو لباس پہنایا گیا نتیجہ یہ رہا کہ ہر ایک طبقہ کے لوگوں نے اس میں بقدر ہمت حصہ لیا ، اہل دانش ‘ قانونی ماہرین اور اخلاقیات کے علمبردار غرض ہر طبقہ کے لوگوں نے طبع آزمائی کی یہاں تک کہ علمائے کرام نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا ، وہ خبر کیا تھی جس پر اس طرح سارے لوگوں نے طبع آزمائی کی ؟ معلوم ہوا کہ اسکاٹ لینڈ کی ایک لیبارٹری میں سائنس دانوں نے ایک کامیاب تجربہ کے بعد ایک بھیڑ سے دوسری بھیڑ ” ڈولی “ بنا لی ہے اور ملکی اور غیر ملکی اخبارات میں اس کی تصویریں اور وضاحت پیش کی جس کا نتیجہ یہ بتایا گیا کہ اس طرح مادہ جانور سے سیل لے کر اس پر عمل کیا گیا تو بیسیوں سیل ایک جیسے بن جائیں گے اور پھر ایک جیسے جانور ان سے حاصل کر لئے جائیں گے پھر صورت حال کو انسان پر لا کر بہت سے فرضی خطرات کا اظہار کیا گیا حالانکہ اس میں نہ تو کوئی خطرہ کی بات ہے اور نہ ہی اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت ہے کہ ہمارے فتوارائیں نے ایک درخت بیری کو اوپر سے کاٹ کر اس کی ایک آنکھ سے ڈیڑھ انچ مربع کی جلد کو اتارا ایک دوسری بہت بڑے بیر کی بیری کا اتنا ہی ٹکڑا عین اسی سائز کا کاٹ کر صرف آنکھ پر آنکھ رکھ کر جوڑ دیا اور اس کے اوپر آنکھ کی جگہ خالی چھوڑ کر پٹی باندھ دی ۔ دس بارہ روز کے بعد جب بیری کی وہ آنکھ پھوٹ نکلی تو اس کا سارا رنگ ڈھنگ اس بیری کا تھا جو بہت بڑے بیر کی تھی جب یہ بڑھکر تیار ہوئی اور بار آور ہونے پر دیکھا تو اسی بیری کے سائز کے بیر تھے اور سارے کے سارے ایک ہی جسم وحجم کے جس کی جلد لے کر پیوند کاری کی گئی تھی ، سائنس دانوں نے جو کام ایک مدت تک لیبارٹریوں کی خدمات حاصل کرنے کے بعد اور کروڑوں روپے برباد کرنے کے بعد بتایا ہمارے فتو آرائیں نے صرف ہاتھ کی صفائی اور ایک چھری کی مدد سے کر دکھایا فرق تھا تو صرف یہ کہ سائنس دانوں نے بھیڑ کے ایک سیل سے اس کی ” ڈولی “ تیار کی اور فتو آرائیں نے یہ عمل بھیڑ پر نہیں بلکہ ایک بیری کے درخت پر کیا جاندار ہونے میں درخت اور بھیڑ میں کوئی فرق نہیں ہاں ! قسم حیوانی میں ضرور فرق ہے ، یاد رہے کہ سائنس دانوں کے سارے خطرات دور ہوجائیں گے اور ایک بھی باقی نہیں رہے گا جب اس نئی تخلیق کے جانوروں اور انسانوں سے کوئی نسل بھی آگے نہیں چلے گی اور نہ ہی وہ چلا سکیں گے اور نہ ہی انسانوں سے کوئی اس طرح کا فعل سرزد ہوگا جن افعال کا خطرہ انہوں نے محسوس کیا ، کیونکہ یہ سارے خطرات اس سیل کے باعث پیدا ہوئے جس سیل سے جنس حاصل کی جاتی ہے اور جب ایک جانور کے سیل سے دوسرا جانور پیدا ہوگیا اور اس کی دوسری صنف کا عمل دخل بھی نہ رہا تو چاہے آپ جتنے جانور ان سے پیدا کرتے رہیں ان کے وہ افعال ختم ہوجائیں گے جن افعال کے باعث اس طرح کے خطرات پیدا ہوتے ہیں ۔ رہی یہ بات کہ اس طرح کی تخلیق کے توالد وتناسل اور تو ارث کی کیا صورت ہوگی ؟ تو اس تخلیق کو صرف تخلیق تک محدود رہنا ہے اس سے توالد وتناسل اور تو ارث کا کوئی خطرہ ہی نہیں ہوگا کیونکہ ایسی تخلیق والدہ ‘ والدہ اور ولد کی بحث سے بالکل آزاد ہوگی ۔ اس دھرتی پر ایسے حیوانات کی قبل ازیں ہزاروں کی تعداد میں ایسی مخلوقات موجود ہیں اور پھر اگر ہزاروں کی تعداد میں ایک تخلیق کا اور اضافہ ہوجائے گا تو اس سے کونسا خطرہ ہے جو بڑھ جائے گا جس طرح ان ہزاروں کی تعداد میں ایک تخلیق کا اور اضافہ ہوجائے گا تو اس سے کونسا خطرہ ہے جو بڑھ جائے گا جس طرح ان ہزاروں کی تعداد مخلوقات میں نہ توالد وتناسل ہے اور نہ ہی والدہ ‘ والد اور ولد کی کوئی بحث موجود ہے تو ان میں ایک مزید مخلوق کے اضافہ سے کیا ہوگا ؟ کچھ بھی نہیں آپ ان خطرات کو خطرات سمجھ کر خواہ مخواہ پریشان نہ ہو اللہ رب ذوالجلال والاکرام نے جب کوئی تخلیق کرنی ہے تو یہ نہیں ہو سکتا کہ اس کا انتظام نہ کیا گیا ہو۔ اس طرح کی انسانی تخلیق اگر معرض وجود میں آگئی تو بلاشبہ وہ مخلوق خداوندی ہی کہلائے گی اور اس مخلوق کو مکلف قرار نہیں دیا جائے گا لیکن بلاشبہ وہ مکلف مخلوق کے مشابہ ہی ہوگی اور اس مخلوق پر مسلمانوں کا ایمان آج سے نہیں بلکہ اسی وقت سے ہے جب سے اسلام کو اللہ نے دین بنایا کیونکہ دین اسلام کا یہ ایک طے شدہ مسلمہ مسئلہ ہے جس کو آج تک بالغیب کے طور پر تسلیم کیا جا رہا ہے لیکن خیال رہے کہ اس کے ساتھ ساتھ اور تبدیلیاں ہونا بھی ضروری ہیں جن کے متعلق انسان فی الوقت غفلت میں ہے اگر ان میں سے سب سے بڑی تبدیلی کی طرف پیش رفت ممکن ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ دوسری تبدیلیاں نہ ہوں ، سائنس دان اس ایک تبدیلی کی خبر ہم کو دے رہے ہیں اور ہم ان کو اسی طرح کی ہزاروں تبدیلیوں کی خبر دیتے ہیں وہ اس ایک کے لئے کوشاں ہیں لیکن قدرت الہی اس ایک ہی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ہزاروں تبدیلیاں کر رہی ہے تعجب کی بات ہے کہ اپنی معلوم شدہ تبدیلی پر ناز ہے اور باقی ہزاروں تبدیلیوں سے وہ فی الحال مکمل طور پر غفلت میں ہیں اور اس غفلت میں وہ سب تبدیلیاں بھی رونما ہوجائیں گی وہ اس ایک تبدیلی کے لئے دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کریں اللہ ان کی محنت کو یقینا پھل لائے گا ۔ رہی یہ بات جو ہمارے اخبارات نے بڑی بڑی سرخیوں سے شائع کی تھی کہ ” حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بغیر باپ کے پیدا ہوئے “ سائنس سے اس کا جواز مل گیا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے اس بات پر عیسائیوں کا ایمان تھا اور عیسائیوں سے مسلمانوں کو مفت میں مل گیا بلکہ عیسائیوں کے پروپیگنڈے نے مسلمانوں کو بھی منوا لیا لیکن جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے کہ ایسی مخلوق پر ہم کو یقین ہے بلکہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے جو بغیر ماں باپ کے ہوگئی بلکہ وہی رہی ہے لیکن اس مخلوق میں توالد وتناسل کی کوئی بحث نہیں اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو قرآن کریم نے ولدقرار دیا ہے اور مکلف ثابت کیا ہے بلکہ مکلفین کا رسول بتایا ہے اس لئے عیسیٰ (علیہ السلام) ان کی اس بحث سے مستثنی ہیں اور مسلمانوں کی حمیت کا جنازہ کیوں نکل گیا کہ انہوں نے مسیح (علیہ السلام) کو انسانوں کی صف اول سے اٹھا کر بھیڑ بکریوں اور حشرات الارض کی صفت میں لے جا کھڑا کردیا کیونکہ ان کی پیدائش اس نظام کے تحت ہوئی جس نظام کے تحت انسانوں کی پیدائش ہو رہی ہے اور جس پیدائش کے ضابطہ الہی میں لاکھوں کی تعداد میں انبیاء کرام (علیہ السلام) اور رسل عظام پیدا ہوئے اور وہ اس مخلوق ثانیہ کے ایک فرد تھے نہ تو ان کا تعلق مخلوق اول سے تھا اور نہ ہی ان کا تعلق مخلوق بعث بعد الموت کے ساتھ ہے تاہم مخلوق اول بھی ہمارے ایمان کا جزو ہے اور مخلوق ثانیہ کے دور میں ہم خود موجود ہیں اور اس کو آنکھوں سے دیکھ بھی رہے ہیں اور سارے نبیوں اور رسولوں کا بھی مع عیسیٰ (علیہ السلام) اس مخلوق ثانیہ کے افراد سے تعلق ہے اور مخلوق بعث بعد از موت بھی ہمارے ایمان کا ایک جزو اور اہم حصہ ہے اگر سائنس دان اس کے معلوم کرنے کے لئے کوشاں ہیں تو ہمارے لئے اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ وہ سارے سائنس دن خود مانیں یا نہ مانیں اس ہمارے اللہ کی مخلوق سے ہیں اور وہ ہماری جنس کے افراد ہیں اگرچہ وہ اس قدر محو ہوگئے ہیں کہ ان کو اپنی بھی خبر نہیں رہی تاہم ہمیں اس سے کوئی انکار نہیں اور ہم اس ترقی اور ان کی معلومات کے لئے اپنے پروردگار کے شکر گزار ہو کر اس کے سامنے سجدہ ریز ہیں اور ہمارے ایمان میں اس سے تازگی آئے گی لیکن ابھی ان کو کہاں کہاں دھکے اور ٹھوکریں کھانی ہیں اس کو ہم نہیں جانتے لیکن یقینا ہمارے پروردگار اللہ رب ذوالجلال والاکرام کے علم میں موجود ہے ۔ غور کیجئے کہ انسان ہو یا حیوان جو کچھ وہ خوراک میں کھاتا ہے کہیں اس میں اس زندگی کے آثار بھی موجود نظر آتے ہیں جس زندگی سے اس کی نسل کے نئے انسان اور حیوان پیدا ہونا ممکنات میں سے ہو ؟ خوراک کی ایک ایک چیز پر غور کرتے جاؤ لیکن اس کے باوجود جب وہ انسانی یا حیوانی جسم کے اندر جاتی ہے تو وہاں اس پر کیا کیا کیمیاوی عمل ہوتے ہیں اور وہ کونسی لیبارٹریاں اللہ نے اس ساڑھے پانچ فٹ کے جسم کے اندر فٹ کردی ہیں کہ وہ اپنا اپنا کام کر رہی ہیں اور اس خوراک کے اجزاء سے فضلات کو چھوڑ کر آنکھ اور کان کی میل سے لے کر بیسیوں اقسام کے وہ فضلات بھی تیار ہوتے ہیں جن کا اخراج قولون کے ذریعہ سے نہیں بلکہ دوسرے ذرائع سے ہو رہا ہے اور پھر صرف خون کے اجزاء ترکیب میں بیسیوں سے متجاوز کیمیاوی چیزوں کی افزائش ہو رہی ہے اور اس افزائش میں ایک جنسی خلیوں کی افزائش بھی موجود ہے اگر اس خون کے اندر موجود خلیوں ہی کو حاصل کرکے ان پر کوئی عمل جو تجربات سے ثابت ہوگا شروع کریں اور پھر ان میں وہ سیلز موجود نکل آئیں جن سے انسانی نسل کی افزائش ہوتی ہے تو اس میں کمال کس کا ہے اس نظام کے پیدا کرنے والے خدا کا یا فقط معلوم کرنے والوں کا ؟ تعجب ہے کہ جن لوگوں نے اس کو معلوم کیا ان کو داد دینے کے لئے تو دنیا جہان کے اخبارات اور دنیا جہان کے انسان اٹھ کھڑے ہوئے لیکن جس پروردگار حقیقی نے یہ سارا نظام قائم کیا ان خلیوں اور جینز کو پیدا کیا اور ان میں زندگی ونمو کی طاقت رکھی وہ سب کو بھول گیا اور کسی ایک کو بھی یاد نہ آیا کہ یہ کمال ان سائنس دانوں کا ہے تو صرف اس قدر کہ انہوں نے ایک چیز کو دریافت کرلیا ہے بلاشبہ یہ ان کا کمال ہے لیکن کمال اس اللہ رب ذوالجلال والاکرام ہی کا ہے جس نے اس سارے نظام کو چلایا اور ان سائنس دانوں کو پیدا کیا ‘ ان کو عقل عطا کی اور ایسے تجربوں کے لئے جان کھپانے کے لئے ان کو خاص کردیا جو ان کی اختیاری چیز نہیں ہے بلکہ وہ ان تجربوں ہی پر جان کھپانے کے لئے مجبور ہیں ۔ ہمیں معلوم ہے کہ انسان ہو یا حیوان اس کی دونوں اصناف کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے دونوں ہی اصناف کی افزائش وپیدائش کا بندوبست کیا ہے جو فطرت کے مطابق ہے اور نبی اعظم وآخر ﷺ کی زبان اقدس سے جو بات ہمیں معلوم ہوئی وہ بھی یہی ہے کہ اس وجہ سے بچہ کی شکل کبھی ننھیال کی طرف مائل ہوتی ہے اور کبھی ددھیال کی طرف ، گویا ایک ہی صنف کے دونوں سیلز کاملاپ بھی ممکن ہے لیکن یہ ملاپ اس تہیج کے نتیجہ میں ہوتا ہے جو دونوں اصناف کے ملنے کے نتیجہ میں معرض وجود میں آتی ہے لیکن سائنس نے وہ تہیج مصنوعی طریقہ سے پیدا کی اور مصنوعی طریقہ سے ان سیلز کو حاصل کرلیا ۔ غور کرو کہ یہ مصنوعی طریقہ کیا ہے ؟ اس فطری طریقہ کا بدل ۔ اخبار نے یہ لکھا کہ ” حقیقتا اس میں صرف مادہ بھیڑ کا میمیری سیل اور انڈہ لیا گیا اور نر بھیڑ کا پورے پیدائشی عمل میں کوئی رول نہیں تھا “ حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے کیوں ؟ اس لئے کہ جس بھیڑ کو تجربہ کے لئے مختص کیا گیا وہ بھیڑ اس فطری یا مصنوعی طریقہ کی پیدائش تھی جس میں جنس کی دونوں اصناف کا تعلق موجود تھا لہذا اس بھیڑ کے اندر نر بھیڑ کا عمل داخل موجود ہے ہاں ! اس سے جو پیدائش ہوئی وہ اس عمل سے مستثنی قرار پائی اور اس مادہ بھیڑ سے اب ممیری سیل لیا گیا اور اس سے پیدئش کی گئی تو وہ بات صادق آئے گی جو اخبار نویسوں نے تحریر کی حالانکہ نہ تو ایسا ہوا نہ ہی ایسا ہونا ممکن ہے ۔ مزید غور کرو کہ وہ بھیڑ جس پر تجربہ کیا وہ کس کی تخلیق ہے ؟ اس بھیڑ کے اندر جو ایک باقاعدہ نظام چل رہا ہے جس سے وہ خوراک جو وہ کھاتی ہے اس پر عمل ہو کر مختلف قسم کی چیزیں جو اس کے جسم کے لئے ضروری ہیں تیار ہو رہی ہیں وہ کس نے تیار کی ہیں ؟ انہی ضروری چیزوں میں وہ سیلز اور انڈے بھی ہیں جن سے اس جنس کی پیدائش ہوتی ہے تو یہ سیلز اور انڈے کس نے تیار کئے ؟ پھر وہ عضو جو بھیڑ کے اندر پیدا کیا گیا جس کا نام او وری رکھا گیا وہ کس نے فٹ کیا ؟ پھر اس کا وہ عمل جس کو ایمبریو کے نام سے یاد کیا گیا وہ عمل کس نے اس میں رکھا ؟ جب کہ اور بھی بہت سے اعضاء اس بھیڑ کے اندر موجود تھے جو اپنا اپنا کام کر رہے ہیں ؟ اسلام کے پاس ان سارے سوالوں کا جواب مع شے زائد ایک اور صرف ایک ہے اور وہ ہے ” اللہ “ کہ اس نے یہ سب کچھ کیا۔ اس میں اگر سائنس دانوں کا کوئی کمال ہے تو فقط یہ کہ انہوں نے تجربات سے یہ معلوم کرلیا کہ اس بھڑکے کون کون سے عضو کا کیا کیا کام ہے جبکہ ان سائنس دانوں کا خالق بھی اللہ ہی ہے اور ان کو یہ عقل عطا کرنے والا بھی اللہ ہی ہے جس نے اس میں ان تجربات کی صلاحیت رکھی اور اس سارے کام میں غیر اللہ کی ایک چیز بھی موجود نہیں ہے ۔ افسوس کہ انسانوں نے اور خصوصا مسلمانوں نے اس مسئلہ کو اس طرح کیوں اچھالا اور قوم کو کیوں سیدھی راہ نہ دکھائی کہ اس میں اصل کمال کس کا ہے حالانکہ جہاں دوسری اقوام کے لوگ موجود ہیں وہاں مسلم قوم کے لوگ بھی تو آخر موجود ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کام یعنی اس کائنات کی ایک ایک چیز کی ٹوہ اور کہنہ معلوم کرنے اصل حق تو مسلمانوں کا تھا لیکن بدقسمتی سے انہوں اس سے ایسا منہ موڑا کہ اس کی طرف بھول کر بھی دھیان نہ دیا لیکن بدقسمتی سے جس قوم نے اس کی ٹوہ اور کہنہ معلوم کرنے کی کوشش کی وہ اس نظریہ کی حامل نہ تھی کہ اس کائنات کے نظام کو کوئی باقاعدہ چلانے والا بھی ہے ‘ انہوں نے یہ سب کچھ اتفاق قرار دے کر اپنے علم کی بنیاد اتفاق پر رکھی گویا جن کے پاس صحیح نظریہ تھا ان کے پاس صحیح عمل نہ تھا اور جنہوں نے صحیح عمل کر دکھایا ان کے پاس اتفاق کے سوا کوئی نظریہ موجود نہ تھا ۔ اس لئے گویا کام جاری ہے لیکن جس انداز سے جاری ہے وہ انداز بلاشبہ اسلامی نہیں اگر وہ انداز بھی اسلامی ہوتا تو آج دنیا کی حالت یقینا اس سے مختلف ہوتی اور جو لوگ اس وقت شیر بنے ہوئے ہیں وہ یقینا بلیاں بھی نہ یقینا اس نظام کو تبدیل ہونا ہے اور ہم اس تبدیلی کی طرف رواں دواں ہیں فرق ہے تو یہ کہ یہ تبدیلی جزو نہیں اس لئے وہ نازاں ہیں کہ ہم نے یہ کردیا حالانکہ انہوں نے کچھ بھی نہیں کیا مگر یہ کہ جو کچھ کیا وہ ہونے والے کام کی دریافت ہے کہ ہاں ! فی الواقع وہ ہو رہا ہے ، مسلمان قوم کو غیر مسلموں کی اس للکار کا دندان شکن جواب دینا چاہئے اور اس کائنات میں آگے بڑھ کر حصہ لینا چاہئے تاکہ اللہ رب ذوالجلال والاکرام کے اس تخلیق کردہ نظام کی حقیقت کو وہ معلوم کر کے غیب سے استشہاد کی طرف لانے میں اپنا اہم رول ادا کریں اور اپنے فرض سے تساہل برت کر وہ اپنے آپ کو نکمے ثابت نہ ہونے دیں ۔ اللہ ہمسب کو صحیح معنوں میں سچے مسلمان بننے کی توفیق دے اور پالیا پالیا کی ہماری صداؤں کی باز گشت بھی اس دنیا میں سنائی دے ۔ تخلیق کے فطری طریقہ کی وضاحت عروۃ الوثقی میں ( سورة الحج) اور (سورۃ المؤمنون) میں گزر چکی ہے وہاں سے ملاحظہ کریں ۔ موجودہ خبروں میں کتنی صداقت اور کتنی حقیقت ہے ابھی اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ ہاں ! ہم یہ تحدی کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ جن خطرات کا اظہار کیا گیا ہے اور جس طرح قرآن کریم کی آیات کو مذاق کانشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے ایسا یقینا نہیں ہو سکتا اس لئے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جس میں لاریب ایک ذرہ برابر بھی شک نہیں اور اس کائنات کا نظام بھی چلانے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے ، جو اعلانات سائنس دانوں نے کئے ہیں وہ بھی اسی نظام کا حصہ ہے کیونکہ نہ تو یہ سائنس دان اس نظام سے باہر ہیں اور نہ ہی ان کے تجربات اس لئے جو نتائج بھی نکلیں گے وہ قرآن کریم کی راہنمائی کے خلاف نہیں ہوسکتے ، بلاشبہ نہیں ہوسکتے ، قرآن کریم کے نزول کے بعد آج تک زمانہ میں کتنی ترقیاں ہوئیں اور زمانہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا لیکن ایک بھی ایسی چیز نہیں ہے جس نے قرآن کریم کے کسی ایک بنائے ہوئے طریقہ کو غلط ثابت کیا ہو ہاں ! مفسرین کی سمجھ میں ایک بات نہ آئی ہو اس لئے ان کی بیان کی تردید ہوجائے تو وہ قرآن کریم کی تردید نہیں بلکہ مفسرین کی تفہیم کی کمزوری تھی اور ایسی کمزوری اب بھی ثابت کی جاسکتی ہے لیکن قرآن کریم کے اصولوں کے خلاف کوئی چیز ثابث ہوجائے یہ ناممکنات ہی سے نہیں بلکہ قمسنعات سے ہے ، آپ آگے بڑھیں اور اپنے تجربات کو جتنا بڑھا سکتے ہیں بڑھائیں اسلام کی طرف سے کسی پر اس سلسلہ میں کوئی قدغن نہیں لگائی جائے گی ، ایک سچے مسلمان کو ان اخباری خبروں سے اتنا متاثر نہیں ہونا چاہئے بلکہ پورے اطمینان کے ساتھ غور وفکر کرنا چاہئے ، ہاں ! مسلمان سائنس دانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی جگہ غیر مسلم سائنس دانوں کے تجربات کے چیلنج کو قبول کرتے ہوئے خود تجربات سے ان باتوں کا دفاع کریں جن کی حقیقت افواہ کے علاوہ کچھ نہیں اور وہ اس ایمان وایقان سے کام کریں کہ یہ نظام اللہ رب ذوالجلال والاکرام کا ہے اور اس کائنات میں جو کچھ ہوا ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے اور جو ہوگا وہ اس کی مرضی کے خلاف نہیں ہوسکتا اور قرآن کریم اللہ کا کلام ہے اندریں وجہ ورڈ آف گارڈ (Word Of God) اور ورک آف گاڑد (Work Of God) میں اختلاف ممکن نہیں ہمیں ان خبروں کی صداقت اور اظہار کئے گئے سارے خدشات پر مشکوک نہیں ہونا چاہئے ۔ ہم کو درون خانہ کی کیونکر ہو اطلاع جب ان کی انجمن سے ہمارا گزر نہیں ۔ ہر شخص لا رہا ہے وہاں سے نئی خبر صحت ہے کس خبر میں کسی کو خبر نہیں۔
Top