Al-Qurtubi - Al-Furqaan : 54
وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا فَجَعَلَهٗ نَسَبًا وَّ صِهْرًا١ؕ وَ كَانَ رَبُّكَ قَدِیْرًا
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْ : جس نے خَلَقَ : پیدا کیا مِنَ الْمَآءِ : پانی سے بَشَرًا : بشر فَجَعَلَهٗ : پھر بنائے اس کے نَسَبًا : نسب وَّصِهْرًا : اور سسرال وَكَانَ : اور ہے رَبُّكَ : تیرا رب قَدِيْرًا : قدرت والا
اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا پھر اس کو صاحب نسب اور صاحب قرابت دامادی بنایا اور تمہارا پروردگار (ہر طرح کی) قدرت رکھتا ہے
(وھو الذی خلق۔۔۔۔۔۔ ) مسئلہ نمبر 1 :۔ وھو الذی خلق من الماء بشر یعنی نطفہ سے انسان کو پیدا کیا۔ فجلہ نسبتا و صھرا، ہ ضمیر سے مراد انسان ہے یعنی انسان کو نسب اور سسرال والا بنا دیا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : من الماء سے خلقت کی اصل کی طرف اشارہ ہے کہ یہ زندہ پانی سے پیدا کیا گیا ہے۔ اس آیت میں ان نعمتوں کا شمار ہے جو اس کے عدم کے بعد اس کے ایجاد کی صورت میں کی گئیں اور اس میں عبرت پر تنبیہ ہے۔ مسئلہ نمبر 2 :۔ فجلہ نسبا و صھرتا نسب اور صہر دو ایسے معانی ہیں جو ہر رشتہ کو عام ہیں جو دو آدمیوں کے درمیان موجودہوتے ہیں۔ ابن عربی نے کہا : نسب سے مراد مذکر اور مؤنث کے پانی کا شرعی طریقہ سے خلط ملط ہونا ہے۔ اگر وہ ملاپ معصیت کی صورت میں ہو تو وہ مطلق خلق ہوگا وہ محقق نسب نہ ہوگا، اسی وجہ سے زنا سے جنم لینے والی بیٹی حرمت علیکم امھتکم وبنتکم ( النسائ : 23) کے تحت داخل نہ ہوگی، کیونکہ ہمارے علماء کے دو قولوں میں سے اصح قول کے نزدیک اور دین میں دو قولوں میں سے اصح قول کے نزدیک بیٹی نہیں۔ جب وہ شرعی طور پر نسب نہیں تو وہ شرعی طور پر صہر بھی نہیں تو فعل زنا بنت ام ( ماں کی بیٹی) اور ام بنت ( بیٹی کی ماں) کو حرام نہ کرے گی جو چیز حلال فعل سے حرام ہوتی ہے وہ حرام فعل سے حرام نہ ہوگی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر نسب اور صہر کے ساتھ احسان جتلایا ہے ان کی قدر و منزلت کو بلند کیا ہے حلت اور حرمت میں ان دونوں پر احکام کو متعلق کیا ہے تو باطل کو ان دونوں کے ساتھ لا حق نہ کیا جائے گا اور نہ ہی ان کے ہم پلہ قرار دیا جائے گا۔ میں کہتا ہوں : کسی بھی مرد کے اپنے زنا سے پیدا ہونے والی بیٹی، اس کی بہن، اور زنا سے جنم لینے والی پوتی سے نکاح میں اختلاف کیا گیا ہے، ایک قوم نے اسے حرام کہا ہے، ان میں حضرت ابن قاسم ہیں، یہ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کا قول ہے۔ فقہاء میں سے دوسروں نے اسے جائز قرار دیا ہے ان میں عبد الملک بن ماجشون ہیں، یہی امام شافعی کا قول ہے۔ سورة النساء میں یہ بحث مفصل گزر چکی ہے۔ فراء نے کہا : نسب سے مراد ہے جس کے ساتھ نکاح حلال نہ ہو اور صبر سے مراد ہے جس کے ساتھ نکاح حلال ہو، یہ زجاج کا قول ہے، یہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ کا قول ہے۔ صھر کا اشتقاق صھرت الثی سے ہے یہ جملہ بولا جاتا ہے جب تو اسے خلط ملط کر دے دونوں صہروں میں سے ہر ایک اپنے صاحب سے خلط ملط ہوگیا۔ مناکح کو صبر کہتے ہیں کیونکہ اس کے ساتھ لوگ خلط ملط ہوجاتے ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : صبر سے مراد نکاح کی قرابت ہے زوجہ کی قرابت اختان ہیں اور خاوند کی قرابت سسرال ہیں۔ اصبہار کا لفظ ان سب پر واقع ہوتا ہے، یہ اصمی کا قول ہے۔ اختان سے مراد بیوی کا باپ، اس کا بھائی اور اس کا چچا ہے جس طرح اصمعی نے کہا : صہر سے مراد مرد کی بیٹی کا خاوند اس کا بھائی اس کا والد اور اس کا چچا ہے۔ محمد بن حسن نے ابو سلیمان جو زجانی کی روایت میں کہا : مرد کے اختان سے مراد اس کی بیٹیوں کے خاوند، اس کی بہنوں کے خاوند، اس کی پھوپھیوں کے خاوند اور اس کے خالائوں کے خاوند ہیں اسی طرح ہر ذی رحم محرم کے خاوند ہیں اور اصبہار سے مراد ان کی بیوی کے ذی رحم محرم رشتہ دار ہیں۔ نحاس نے کہا : بہتر یہ ہے کہ اصہار میں وہ قول کیا جائے جو اصمعی نے کیا ہے ان سب سے قبل جو قول کیا گیا ہے۔ یہ جملہ بولا جاتا ہے : صھرت الثی یعنی تو نے اسے خلط ملط کیا۔ میاں بیوی میں سے ہر ایک دوسرے سے خلط ملط ہوجاتا ہے۔ اختان میں وہ قول بہتر ہے جو محمد بن حسین نے کیا ہے یہ دو وجوہ سے بہتر ہے (1) حدیث مرفوع ہے محمد بن اسحاق، یزید بن عبد اللہ بن قسیط سے وہ محمد بن اسامہ بن زید سے وہ اپنے باپ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اما انت یاعلی فختنی و ابو ولدی وانت منی وانا منک یہ حدیث اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ بیٹی کا خاوند ختن ہے دوسری صورت میں یہ ختن کا اشتقاق ” ختنہ “ ہے جب وہ اسے کاٹے گویا خاوند اپنے اہل سے کٹ گیا اور اپنی بیوی کے اس کے اہل سے کاٹ دیا۔ ضحاک نے کہا : صہر سے مراد رضاعت ( دودھ پینا) کی قرابت ہے۔ ابن عطیہ نے کہا : میرے نزدیک یہ وہم ہے اس وہم کو حضرت ابن عباس کے قول نے ثابت کیا ہے۔ فرمایا : نسب سے سات چیزیں حرام ہیں اور صہر سے پانچ رشتے حرام ہیں۔ ایک دوسری روایت میں ہے : صہر سے سات رشتے حرام ہیں اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :” حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اُمَّھٰتُکُمْ وَبَنٰـتُکُمْ وَاَخَوٰتُکُمْ وَعَمّٰتُکُمْ وَخٰلٰـتُکُمْ وَبَنٰتُ الْاَخِ وَبَنٰتُ الْاُخْت “ ( النسائ : 23) تم پر تمہاری مائیں، تمہاری بیٹیاں، تمہاری بہنیں، تمہاری پھوپھیاں، تمہاری خالائیں، تمہاری بھتیجیاں اور تمہاری بھانجیاں حرام کردی گئی ہیں، یہی نسب ہے، پھر صہر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا ارادہ کیا ہے :” وَاُمَّھٰتُکُمُ الّٰتِیْٓ اَرْضَعْنَکُمْ وَاَخَوٰ تُکُمْ مِّنَ الرَّضَاعَۃِ وَاُمَّھٰتُ نِسَآئِکُمْ وَرَبَآئِبُکُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِکُمْ مِّنْ نِّسَآئِکُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِھِنَّز فَاِنْ لَّمْ تَکُوْنُوْا دخَلْتُمْ بِھِنَّ فَـلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْز وَحَـلَآئِلُ اَبْـنَـآئِکُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِکُمْلا وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْن ِ اِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَط اِنَّ اللہ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۔ “ (النسا : 23) پھر محصنات کا ذکر کیا اس کلام کا محل یہ ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے صہر سے ان حرمتوں کا ارادہ کیا جو اس کے ساتھ مذکور ہیں اور جو ذکر کیا گیا ان میں سے اکثر کی طرف اشارہ کیا وہ صہر ہے نہ کہ یہ ارادہ کیا کہ رضاع صہر ہے رضاع تو نسب کا ہم پلہ ہے اس کے ساتھ وہ تمام رشتے حرام ہوجاتے ہیں جو نسب کے ساتھ حرام ہوجاتے ہیں کیونکہ اس بارے میں حدیث ماثور موجود ہے۔ جس نے یہ روایت کی کہ صہر سے پانچ رشتے حرام ہوتے ہیں اس نے دونوں آیتوں سے دو بہنوں اور محصنات یعنی خاوندوں والی عورتوں کو خارج کیا۔ میں کہتا ہوں : ابن عطیہ نے رصناع کو نسب قرار دیا ہے جس طرح پہلے گزرا ہے : یہ زجاج کا قول ہے۔ ابو اسحاق نے کہا : نسب صبر نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :” وَاُمَّھٰتُکُمُ الّٰتِیْٓ اَرْضَعْنَکُمْ وَاَخَوٰ تُکُمْ مِّنَ الرَّضَاعَۃِ وَاُمَّھٰتُ نِسَآئِکُمْ وَرَبَآئِبُکُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِکُمْ مِّنْ نِّسَآئِکُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِھِنَّز فَاِنْ لَّمْ تَکُوْنُوْا دخَلْتُمْ بِھِنَّ فَـلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْز وَحَـلَآئِلُ اَبْـنَـآئِکُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِکُمْلا وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ “ صبر تو وہ ہوتا ہے جس میں ازدواج کا رشتہ ہو۔ ابن عطیہ نے کہا : زہراوی نے ایک قول کی حکایت بیان کی ہے کہ نسب بیٹوں کی جانب سے ہوتا ہے اور صہر بیٹیوں کی جانب سے ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں : نحاس نے اس قول کو ذکر کیا ہے اور کہا : مصاہرت دونوں جہتوں سے ہوتی ہے۔ ابن سیرین نے کہا : یہ آیت نبی کریم ﷺ اور حضرت علی ؓ شیراخدا کے بارے میں نازل ہوئی، کیونکہ حضور ﷺ نے حضرت علی ؓ کو نسب اور صہر میں جمع کیا۔ ابن عطیہ نے کہا : ان دونوں کا اجتماع قیامت تک حرمت کی تاکید ہے۔ وکان ربک قدیرا یعنی جس کا ارادہ کرتا ہے اسے پیدا فرما دیتا ہے۔
Top