Ruh-ul-Quran - Al-Furqaan : 54
وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا فَجَعَلَهٗ نَسَبًا وَّ صِهْرًا١ؕ وَ كَانَ رَبُّكَ قَدِیْرًا
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْ : جس نے خَلَقَ : پیدا کیا مِنَ الْمَآءِ : پانی سے بَشَرًا : بشر فَجَعَلَهٗ : پھر بنائے اس کے نَسَبًا : نسب وَّصِهْرًا : اور سسرال وَكَانَ : اور ہے رَبُّكَ : تیرا رب قَدِيْرًا : قدرت والا
اور وہی ہے جس نے انسان کو پانی (کی بوند) سے پیدا کیا، پھر اس کو نسب والا اور سسرال والا بنادیا اور آپ کا رب بڑی قدرت والا ہے
وَھُوَالَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَـآئِ بَشَرًا فَجَعَلَـہٗ نَسَبًا وَّصِھْرًا ط وَکَانَ رَبُّـکَ قَدِیْرًا۔ (الفرقان : 54) (اور وہی ہے جس نے انسان کو پانی (کی بوند) سے پیدا کیا، پھر اس کو نسب والا اور سسرال والا بنادیا اور آپ کا رب بڑی قدرت والا ہے۔ ) سابقہ آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید اور اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ پر آفاقی دلائل ذکر فرمائے۔ اب ان انفسی دلائل کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے جو انسان کی اپنی ذات میں موجود ہیں۔ اضداد میں تو افق کی ایک انفسی دلیل بلاشبہ انسان اس کائنات کا گل سرسبد ہے اور اس زمین پر انسان کے وجود اور اس کے عقل و خرد کے معرکوں سے زمین کی سرسبزی و شادابی و درخشندگی و جہاں تابی ہے۔ اس نے اگر ایک طرف سیرت و کردار اور روحانی بالیدگی کی حیرت انگیز مثالیں قائم کی ہیں تو دوسری طرف اس سرزمین کو حیرت انگیز ایجادات سے مالامال کردیا ہے لیکن ان تمام کمالات کے پیچھے اپنی کوئی ذاتی صلاحیت کارفرما نہیں، سب اللہ تعالیٰ کی دین اور اس کی قدرت کا ظہور ہے۔ اسے روحانی احساسات اور سوز و گداز کی دولت اللہ تعالیٰ ہی نے عطا کی ہے۔ اور اس کی حیرت انگیز ایجادات اس عقل کی فتوحات ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف انسانوں کو عطا ہوئی ہے۔ ورنہ انسان کی اپنی حقیقت اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ پانی کی ایک حقیر بوند سے پیدا ہوا۔ اور ماں کے پیٹ میں خون اس کی غذا بنتا رہا۔ لیکن پانی کی بوند سے بننے والا وجود اور لہو سے پلنے والی ذات جب دنیا میں آتی ہے تو اس کی طلعت زیبا اور گلگوں رخسار کو دیکھ کر ماں باپ نہال ہوتے جاتے ہیں۔ جو من موہنے چہرے کو دیکھتا ہے، دل تھام کے رہ جاتا ہے۔ اور پھر یہ جیسے جیسے زندگی کی منزلیں طے کرتا جاتا ہے اس کے حسن و رعنائی میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے اور اس کی انسانیت بھی درجہ کمال کی طرف بڑھتی جاتی ہے۔ لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس میں سے ہر خوبی اور ہر تغیر کے پیچھے صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت جھلکتی دکھائی دیتی ہے۔ اور پھر اسی پر بس نہیں اللہ تعالیٰ نے پانی کی بوند سے جس بشر کو پیدا کیا ہے وہ کبھی مرد کی صورت میں پیدا ہوتا ہے اور کبھی عورت کی شکل میں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ دونوں کی تخلیق ایک پانی سے ہے، لیکن دونوں کے ظاہری اعضاء میں بھی اختلاف ہے اور ذہنی رجحانات اور قلبی احساسات اور جذبات میں بھی زمین و آسمان کا فرق ہے۔ دونوں کے فطری داعیات ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ لیکن مزید حیران کن بات یہ ہے کہ اس بین تفاوت کے باوجود دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ مرد اپنی ساری قوتوں کے باوجود نامکمل ہے۔ عورت اپنی تمام تر لطافتوں کے باوجود ادھوری ہے۔ دونوں مل کر ایک مکمل وحدت بنتے ہیں۔ اور پھر عقل کی حیرانی کا سفر ابھی ختم نہیں ہوتا بلکہ وہ یہ دیکھ کر دنگ رہ جاتی ہے کہ یہ وحدت جو مرد و عورت کی ترکیب سے وجود میں آتی ہے کثیرالتعداد وحدتوں کا سرچشمہ بنتی ہے۔ ان کے یہاں بچیاں بھی پیدا ہوتی ہیں اور بچے بھی۔ کسی کے یہ سسرال بنیں گے اور کوئی ان کے بچوں کے سسرال ہوں گے۔ باہمی رشتے ہوں گے، قرابتیں بڑھیں گی۔ اس طرح ایک انسانی معاشرہ معرض وجود میں آئے گا جس میں نسبی اور سسرالی رشتے دو خاندانوں کی صورت میں جب باہمی رشتوں کی لڑی میں پروئے جائیں گے تو خاندان، خاندان سے جڑ کر ایک ملک، ایک نسل اور ایک تمدن سے وابستہ ہوجائیں گے۔ اس پروردگارِ عالم کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کا کون اندازہ کرسکتا ہے کہ جو پانی کی ایک بوند سے مرد اور عورت کو پیدا کرتا ہے اور پھر محض اپنی قدرت کے اظہار سے ایک مرد اور ایک عورت کو درجہ بدرجہ آگے بڑھاتا ہے حتیٰ کہ اس سے خاندان وجود میں آتے ہیں اور پھر خاندان آپس میں ملتے ہیں۔ ایک نسل اور ایک تمدن کی تعمیر ہوتی ہے۔ آج یہ تجربہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے تو ہمیں اس پر تعجب نہیں ہوتا، لیکن اگر صرف اس کی روایت پہنچتی تو شاید اس پر یقین کرنا آسان نہ ہوتا۔
Top