Anwar-ul-Bayan - Al-Furqaan : 54
وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا فَجَعَلَهٗ نَسَبًا وَّ صِهْرًا١ؕ وَ كَانَ رَبُّكَ قَدِیْرًا
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْ : جس نے خَلَقَ : پیدا کیا مِنَ الْمَآءِ : پانی سے بَشَرًا : بشر فَجَعَلَهٗ : پھر بنائے اس کے نَسَبًا : نسب وَّصِهْرًا : اور سسرال وَكَانَ : اور ہے رَبُّكَ : تیرا رب قَدِيْرًا : قدرت والا
اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا پھر اس کو صاحب نسب اور صاحب قرابت دامادی بنایا اور تمہارا پروردگار (ہر طرح کی) قدرت رکھتا ہے
(25:54) الماء سے عام پانی مراد ہوسکتا ہے جو کہ حضرت آدم (علیہ السلام) لا خمیر اٹھانے میں استعمال ہوا ۔ یا اس سے مراد مادہ منویہ ہے۔ بشرا۔ سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) بھی ہوسکتے ہیں اور اس صورت میں تنوین تعظیم کے لئے ہے۔ یا یہ جنس بشر کے لئے ہے یعنی آدم و اولاد آدم علیہ السلام۔ فجعلہ نسبا وصھرا : ای قسمۃ قسمین ذوی نسب : ای ذکورا۔ ینسب الیہم وذوات صھر۔ یعنی پھر اس بشر کو دو قسموں میں تقسیم کیا :۔ (1) ذوی نسب ۔ یعنی مرد کہ جن سے نسب چلتا ہے اور کہا جاتا ہے فلاں بن فلاں ۔ (2) ذوات صبر۔ (یعنی عورتیں کہ جن سے سسرالی رشتہ، دامادی رشتہ) ۔ مطلب یہ کہ ایک ناپاک، ناچیز قطرہ آب (نطفہ) سے مردوں اور عورتوں کو پیدا کرکے باہمی قرابتوں اور رشتہ داریوں کا ایک وسیع چال پھیلا دیا۔ جس میں تمام انسانی معاشرہ باہمی محبت و احترام کے جذبات کے ساتھ منسلک ہے۔ قدیرا۔ صفت مشبہ کا صیغہ ہے اور بوجہ خبر کان منصوب سے۔ قدیر اس کو کہتے ہیں کہ جو اپنی حکمت کے موافق جیسا چاہے کرے۔ یہ صفت سوائے خدا وتعالیٰ کے کسی میں نہیں ہے۔ اس نے قدیر سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو نہیں کہہ سکتے۔
Top