Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 255
اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ١ۚ۬ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌ١ؕ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖ١ؕ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ١ۚ وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ١ۚ وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ١ۚ وَ لَا یَئُوْدُهٗ حِفْظُهُمَا١ۚ وَ هُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ
اَللّٰهُ : اللہ لَآ اِلٰهَ : نہیں معبود اِلَّا ھُوَ : سوائے اس کے اَلْحَيُّ : زندہ الْقَيُّوْمُ : تھامنے والا لَا تَاْخُذُهٗ : نہ اسے آتی ہے سِنَةٌ : اونگھ وَّلَا : اور نہ نَوْمٌ : نیند لَهٗ : اسی کا ہے مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں مَنْ ذَا : کون جو الَّذِيْ : وہ جو يَشْفَعُ : سفارش کرے عِنْدَهٗٓ : اس کے پاس اِلَّا : مگر (بغیر) بِاِذْنِهٖ : اس کی اجازت سے يَعْلَمُ : وہ جانتا ہے مَا : جو بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ : ان کے سامنے وَمَا : اور جو خَلْفَھُمْ : ان کے پیچھے وَلَا : اور نہیں يُحِيْطُوْنَ : وہ احاطہ کرتے ہیں بِشَيْءٍ : کس چیز کا مِّنْ : سے عِلْمِهٖٓ : اس کا علم اِلَّا : مگر بِمَا شَآءَ : جتنا وہ چاہے وَسِعَ : سما لیا كُرْسِيُّهُ : اس کی کرسی السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَ : اور الْاَرْضَ : زمین وَلَا : اور نہیں يَئُوْدُهٗ : تھکاتی اس کو حِفْظُهُمَا : ان کی حفاظت وَھُوَ : اور وہ الْعَلِيُّ : بلند مرتبہ الْعَظِيْمُ : عظمت والا
اللہ ہی معبود ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ زندہ ہے سب کا قائم رکھنے والا ہے۔ نہ اسے اونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔ اسی کی ملکیت ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ کون ہے جو سفارش کرے اس کے حضور اس کی اجازت کے بغیر ؟ وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے۔ اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے مگر جو وہ چاہے۔ حاوی ہے اس کا اقتدار آسمانوں پر اور زمین پر۔ اور نہیں تھکاتی ہے اسے ان دونوں کی حفاظت۔ اور وہ بلند ہے اور عظیم ہے
اَللّٰہُ لَآ اِلٰـہَ اِلَّاھُوَ ج اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ 5 ج لاَ تَاْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّلَا نَوْمٌ ط لَـہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ط مَنْ ذَاالَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖط یَعْلَمُ مَابَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ ج وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَآئَ وَسِعَ کُرْسِیُّـہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ج وَلَا یَــُٔوْدُہٗ حِفْظُہُمَاج وَھُوَالْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ ۔ (اللہ ہی معبود ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ زندہ ہے سب کا قائم رکھنے والا ہے، نہ اسے اونگھ آتی ہے اور نہ نیند، اسی کی ملکیت ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، کون ہے جو سفارش کرے اس کے حضور اس کی اجازت کے بغیر ؟ وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے، اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے مگر جو وہ چاہے، حاوی ہے اس کا اقتدار آسمانوں پر اور زمین پر، اور نہیں تھکاتی ہے اسے ان دونوں کی حفاظت، اور وہ بلند ہے اور عظیم ہے) (255) سب سے پہلی بات جو اس آیت کریمہ میں فرمائی گئی ہے وہ اللہ کا تعارف اور اس کی اصل حیثیت کی وضاحت ہے۔ مشرکین عرب اپنی ساری گمراہیوں کے باوجود اللہ کو تسلیم کرتے تھے اور اہل کتاب تو اللہ اور اس کے رسولوں پر بھی ایمان رکھتے تھے اس لیے اللہ کا اقرار اور اس کا ایمان دنیا کی ایک مسلمہ بات تھی۔ البتہ گمراہی کی ابتدا اس بات سے ہوتی تھی کہ کیا اللہ کے سوا کوئی اور اِلٰہ ہے یا نہیں ؟ یہود نے اللہ کو اِلٰہ قرار دینے کے باوجود شرک کی مختلف صورتیں پیدا کر رکھی تھیں اور نصاریٰ نے تو اس قدر غلو سے کام لیا کہ انھوں نے عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کو اللہ بنا ڈالا۔ یہ اگرچہ تمام نصاریٰ کا عقیدہ نہ تھا البتہ ان میں ایک قابل ذکر تعداد لوگوں کی ایسی موجود تھی جن کے بارے میں قرآن کریم نے کہا لقد کفرالذین قالوا ان اللہ ھوالمسیح ابن مریم (تحقیق ان لوگوں نے کفر کیا جنھوں نے کہا مسیح ابن مریم اللہ ہے) لیکن مشرکین عرب اللہ کو ایک ماننے کے ساتھ ساتھ اس کی الوہیت میں نہ جانے کس کس کو شریک بناتے تھے۔ قرآن کریم نے مختلف جگہوں میں الوہیت کے مفہوم کی وضاحت کی ہے۔ اور سورة الفاتحہ کی پہلی آیت کی وضاحت کے سلسلے میں ہم اس پر معروضات پیش کرچکے ہیں۔ اس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ الٰہ ‘ معبود کو بھی کہتے ہیں اور حاکم حقیقی کو بھی۔ اور وہ ذات بھی اِلٰہ ہے جس کی محبت عبودیت کا عنوان بن جائے۔ اور وہ بھی اِلٰہ ہے جسے حضور و غیاب میں پکارا جائے اور استمداد کی جائے۔ لیکن قرآن کریم نے ان تمام حوالوں سے صرف اللہ ہی کو الٰہ قرار دیا کہ ” وہی تمہارا معبود ہے ‘ وہی تمہارا حاکم حقیقی ہے ‘ وہی ہے جس کی محبت سے دل آباد رہنا چاہیے ‘ وہی ہے جس کا خوف اور جس کی ناراضگی کا اندیشہ زندگی میں سب سے موثر عامل ہونا چاہیے ‘ وہی ہے جس کے سامنے دست سوال پھیلنا چاہیے اور وہی ہے جس سے تنہائیوں میں عجز و نیاز کی مناجات ہونی چاہیے۔ مولانا حالی نے بڑی خوبصورتی سے بعض احادیث کا ترجمہ کرتے ہوئے اس کی وضاحت کی ہے۔ ؎ کہ ہے ذات واحد عبادت کے لائق زباں اور دل کی شہادت کے لائق اسی کے ہیں فرمان اطاعت کے لائق اسی کی ہے سرکار خدمت کے لائق لگائو تو لو اپنی اس سے لگائو جھکائو تو سر اس کے آگے جھکائو اسی پر ہمیشہ بھروسہ کرو تم اسی کے سدا عشق کا دم بھرو تم اسی کے غضب سے ڈرو گر ڈرو تم اسی کی طلب میں مرو جب مرو تم مبرا ہے شرکت سے اس کی خدائی نہیں اس کے آگے کسی کو بڑائی بنائے نزاع یہ بنیادی حقیقت ہے کہ دنیا میں تمام عظمتوں کا حقیقی مالک کون ہے ؟ کون ہے جس کے سامنے سر بھی جھکنے چاہئیں اور اسی کی غیر مشروط اطاعت بھی ہونی چاہیے ؟ اسی کو غیر مشروط طور پر آئین اور قانون دینے کا حق ہے ؟ وہی ہے جس کی عظمت تمام عظمتوں کا آستانہ ہے۔ اسی پر دنیا ہمیشہ آپس میں اختلاف کرتی رہی۔ جو لوگ یہ تمام حقوق اللہ کے لیے سمجھتے ہیں ان کے لیے کسی طرح ممکن نہیں کہ وہ کسی بادشاہ ‘ کسی آمر مطلق کے سامنے سر جھکادیں۔ وہ کسی پارلیمنٹ کے بارے میں بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ اس کا دیا ہوا آئین و قانون اس صورت میں بھی واجب الاطاعت ہے جبکہ وہ اللہ کے آئین کے توڑ پر تیار کیا گیا ہو۔ اللہ ہی کی الوہیت کا یہ لازمی نقطہ ہے کہ حکم صرف اسی کو زیب دیتا ہے۔ اسی کی بات حرف آخر ہوتی ہے ‘ وہی ہے جس کی کسی بات کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا میں ہر اس حاکم کی حکومت قابل تسلیم ہوگی اور اس پارلیمنٹ کے فیصلے احترام کی نگاہ سے دیکھے جائیں گے جس میں اللہ کے احکام کی اطاعت کو اولین حیثیت دی گئی ہو ‘ جن کی تمام ترقانون سازی صرف اس دائرے میں ہو جہاں اللہ کی شریعت خاموش ہو اور جن کی سوچ کے تمام دھارے اسلامی شریعت کی سوچ سے ہم آہنگ ہوں۔ جب کوئی شخص ‘ کوئی پارلیمنٹ اللہ کی عظمت کو نظر انداز کر کے اپنی عظمت منوانے لگتی ہے یا اس کے آئین کو بائی پاس کرنے کی کوشش کرتی ہے تو یہیں سے اللہ کے ماننے والوں کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ ایسی ہر کوشش کو ناکام بنادیں یا کم از کم اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیں۔ کیونکہ ؎ سروری زیبا فقط اس ذات ہمتا کو ہے حکمراں ہے اک وہی باقی بتان آذری اَلْحَیُّ الْـقَـیُّـوْمُ اس کے بعد اس آیت کریمہ میں اللہ کی چند بنیادی صفات کو ذکر فرمایا گیا ہے جن میں اللہ کا تعارف بھی ہے اور اس بات کی دلیل بھی کہ اللہ کے سوا کوئی اور اِلٰہ نہیں ہوسکتا۔ سب سے پہلی صفت جو بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ وہ ہے جو اَلْحَیُّ ہے یعنی وہ ازل سے ابد تک زندہ ہے۔ جسے کبھی موت نہیں آسکتی۔ کیونکہ موت کا خالق بھی وہی ہے۔ موت آنا مخلوق کی صفت ہے۔ اللہ مخلوق نہیں خالق ہے۔ اور دوسری صفت بیان فرمائی کہ وہ قیوم ہے قیوم اس ذات کو کہتے ہیں جو خود اپنے بل پر قائم ہو اور دوسروں کے قیام و بقا کا واسطہ و ذریعہ ہو اسے اپنے قیام کے لیے کسی کی احتیاج نہ ہو اور دوسری کائنات کی ہر شے اپنی زندگی اور بقا کے لیے اس کی محتاج ہو۔ جسے وہ وجود دے وہ وجود پائے ‘ جسے وہ ختم کر دے وہ ختم ہوجائے۔ جس کے وجود پانے کے بعد اگر اس کے زندہ رہنے کے امکانات وہ مہیا نہ کرے تو وہ موت کی شکار ہوجائے۔ دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں جو آپ سے آپ وجود میں آسکتی ہو اور پھر وجود میں آنے کے بعد اللہ کے دیے ہوئے امکانات کو نظر انداز کر کے باقی اور قائم رہ سکتی ہو۔ یہ دو بنیادی صفات اللہ کی الوہیت کے لیے دلیل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اور ایک طرح کا چیلنج بھی ہیں کہ دنیا بھر کے مشرکوں نے جن قوتوں کو اللہ کی الوہیت میں شریک کر رکھا ہے وہ بتائیں کہ ان میں کون ہے جو ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا اور کون ایسا ہے جس کی زندگی اپنے بل پر قائم ہے۔ اور ایسا کون ہے کہ پوری کائنات اس کی وجہ سے وجود میں آئی ہو اور اس کی وجہ سے قائم اور باقی ہو۔ دنیا بھر کے مشرکین اس چیلنج کا سامنا نہیں کرسکتے۔ اور جب یہ اعتراف موجود ہے کہ واقعی ایسی کوئی اور ذات نہیں تو پھر کس قدر تعجب کی بات ہے کہ اللہ کی الوہیت میں دوسروں کو شریک کیا جاتا ہے۔ سِنَۃٌ … نَـوْمٌ ان دو مثبت صفات کے بعد کچھ ایسی سلبی صفات یا نقائص بیان کیے جارہے ہیں جن سے اللہ پاک اور منزہ ہے۔ جو متذکرہ بالا صفات کے بالکل برعکس ہیں۔ ان میں سے دو چیزوں کو بیان کیا گیا ہے۔ ایک کو سنـۃ کہا گیا ہے اور دوسری کو نومکا نام دیا گیا ہے۔ سنـۃ اونگھ کو کہتے ہیں اور نوم کے معنی نیند کے ہیں۔ نیند کا آغاز اونگھ سے ہوتا ہے اور اس کی انتہا نومکہلاتی ہے۔ یہ دونوں غفلت کی دو صورتیں ہیں۔ ان دونوں کے ذکر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ غفلت کے تمام اثرات سے منزہ ہے۔ وہ چونکہ اپنی ذات میں حی اور قیوم ہے تو جو ذات حی اور قیوم ہو اور جس کی وجہ سے تمام دنیا زندہ اور قائم ہو اسے اونگھ یا نیند کیسے آسکتی ہے۔ وہ کسی طرح کی غفلت کا کیسے شکار ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اس کے اونگھ جانے کا مطلب یہ ہوگا کہ دنیا کی زندگی جس سے وابستہ ہے وہ سرچشمہ خاموش ہوگیا۔ اور اس کے سو جانے کا معنی یہ ہوگا کہ دنیا اپنی حفاظت سے محروم ہوگئی۔ دنیا میں حشرات الارض سے لے کر بڑے سے بڑے سیارے تک اور معمولی مخلوق سے لے کر حضرت جبریل امین تک اپنی زندگی اور بقا کی بھیک اللہ سے مانگنے پر مجبور ہیں۔ اور ان کی زندگی اس وقت تک باقی ہے جب تک اللہ کی حفاظت میسر ہے۔ تو اگر اسے اونگھ آجائے یا وہ سو جائے تو اندازہ لگایئے کہ کائنات کی ایک ایک مخلوق کی زندگی کی حفاظت کون کرے گا ؟ ہوائی جہاز کا اڑانے والا پائلٹ اور ٹرین یا گاڑی چلانے والا ڈرائیور اگر اونگھ جائے تو سینکڑوں انسانوں کی جان خطرے میں آجاتی ہے۔ کیونکہ جہاز اور گاڑی کے مسافر اس ڈرائیور کی حفاظت میں ہیں تو یہ کائنات کی گاڑی صرف اللہ کی حفاظت میں محفوظ اور اللہ کے حکم سے رواں دواں ہے۔ اسی گاڑی کی حفاظت کسی اور کے بس کی بات نہیں۔ یہ صرف ایک ہی کے قبضے میں اور ایک ہی کی دسترس میں ہے۔ اسے اگر اونگھ آجائے یا نیند آجائے تو اس کائنات کی تباہی اور بربادی میں کوئی تاخیر نہیں ہوسکتی۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ کائنات نہ جانے کب سے اپنے سفر پر رواں ہے۔ اس کا ایک ایک کرہ اپنے محور میں محو گردش ہے۔ ہر کرہ کی حرکت ‘ اس کی رفتار ‘ اس کی منزلیں ‘ اس کا راستہ اربوں سال گزرنے پر بھی کسی تغیر کا شکار نہیں ہوا ‘ آسمان کی وسعتوں میں بیشمار سیارے ثوابت اور ستارے ہر طرح کے خلل سے محفوظ ہیں۔ ان کی حفاظت اور ان کا ہر خلل سے محفوظ رہنا یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ اس کائنات کا الٰہ ایک ہے ‘ وہ حی وقیوم ہے اور اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند آتی ہے۔ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ (اسی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے) وہ ذات کبریا اور خالق ارض و سما ‘ جس کا حکم ساری کائنات پر جاری وساری ہے اور جس کی حفاظت اور نگرانی کی وجہ سے تمام کائنات زندگی کے مزے لوٹ رہی ہے اور بےدریغ اپنے معمولات انجام دے رہی ہے ‘ اسی کو یہ بات زیب دیتی ہے اور اس صورت حال کا منطقی تقاضا بھی ہے کہ کائنات کی ایک ایک مخلوق اسی کی مملوک ہو۔ وہی سب کا مالک ‘ سب کا آقا ‘ سب کا حکمران ‘ سب کا ملجا و ماویٰ ‘ سب کا محبوب ‘ سب کا مطلوب اور مرجع و منزل ٹھہرے اور اس عظیم و جلیل ذات کے سامنے کسی کو دم مارنے کی مجال نہ ہو۔ اس کا فیصلہ قطعی و آخری اور اس کا حکم اٹل اور حرف آخر ہو۔ ان حقائق کو تسلیم کرنے سے بالبداہت دو اور دو چار کی طرح ایک اور حقیقت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ جس ذات عظیم کی شان اور مرتبہ یہ ہے کس طرح ممکن ہے کہ کوئی شخص اپنی مرضی سے اس کا فیصلہ تبدیل کرانے کی جسارت کرے۔ اور لوگ اپنی حماقت سے اس بات کی امید رکھیں کہ جنھیں ہم نے اللہ کا شریک بنا رکھا ہے وہ اگر چاہیں گے تو اللہ سے اپنی بات منوا کر ہمارے حق میں فیصلہ کروا دیں گے۔ اس لیے فرمایا شفاعت کی وضاحت مَنْ ذَاالَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖ (کون ہے جو اس کے حضور اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کرسکے) کیونکہ کائنات کی ایک ایک مخلوق اس کی مملوک و محکوم ہے۔ اور اس کے ہر حکم کو ماننے کی پابند ہے۔ وہ سب کا مطاع مطلق ہے۔ ایسی صورت میں کسی کی کیا مجال ہوسکتی ہے کہ وہ اس کی اجازت کے بغیر اس کے حضور میں کسی کی سفارش کے لیے زبان کھولنے کی جرأت کرے۔ اس سے منطقی انداز میں یہ بات تو بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ کی مرضی کے مقابلے میں کسی کی مرضی نہیں چل سکتی۔ اور اس کی اجازت کے بغیر کوئی زبان کھولنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ بلکہ اگر وہ حوصلہ نہ دے تو کسی کی یہ مجال بھی نہیں کہ اس کا سامنا کرسکے۔ لیکن یہ اس کا کرم ہے کہ اس نے اس اصول سے استثناء کرتے ہوئے الا باذنہ فرمایا۔ یعنی اس کی عظمت اور کبریائی کو دیکھتے ہوئے تو کسی کے لیے شفاعت کی کوئی گنجائش نہیں ‘ لیکن اگر وہ خود چاہے تو کسی کو اس کی اجازت دے سکتا ہے۔ شفاعت کے جس تصور نے قوموں کو تباہ کیا ہے وہ یہی من مرضی کا تصور ہے۔ وہ یہ سمجھتے تھے اور آج بھی کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو نظام زندگی عطا فرمایا ہے اگر کوئی شخص یا کوئی قوم اس کی مخالفت میں زندگی گزارتی ہے ‘ اسے ماننے سے انکار کرتی ہے یا مانتی ہے لیکن عمل کے لیے تیار نہیں اور اپنی خواہشات کے اتباع میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تعمیر پر مصر ہے۔ جب انھیں ان کی اس معصیت اور نافرمانی پر توجہ دلائی جاتی ہے تو ان کے نزدیک شفاعت کا غلط تصور ایک سہارا بن جاتا ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اللہ کے مقابلے میں جن شریکوں کو پوجتے ‘ ان کے نام کی دہائی دیتے ‘ ان کے لیے چڑھاوے چڑھاتے اور ان کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں چاہے وہ مظاہرِ قدرت ہوں یا مظاہرِ فطرت ‘ اجرامِ فلکی ہوں یا اجسامِ ارضی ‘ پتھر کے تراشیدہ ہوئے بت ہوں یا نام نہاد احبارو رہبان ‘ ان کے بھروسے پر وہ ہر برائی کر گزرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ اس خطرناک تصور نے انھیں حسن عمل سے بالکل محروم کردیا ہے۔ آج کے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی ایسی ہی شفاعت کے غلط تصور پر اعتماد کر کے زندگی گزار رہی ہے۔ جو آدمی کسی کا دامن گرفتہ ہے وہ اسی کو اپنا نجات دہندہ سمجھتا ہے۔ بعض لوگوں نے تو خود آنحضرت ﷺ کو ایسا ہی شفیع سمجھ رکھا ہے کہ وہ اللہ کے بڑے سے بڑے نافرمان کو بھی اصرار کر کے چھڑا لیں گے۔ ایسے نادان یہ سمجھتے ہیں کہ جس ایمان و عمل کی دعوت کے لیے آنحضرت ﷺ نے ساری زندگی کھپائی اور زندگی کا ہر دکھ اٹھایا اور جس طرز زندگی اور ضابطہ حیات کو اپنانے پر ہمیشہ زور دیا اور اسی پر آخرت کی نجات کا دارومدار رکھا ‘ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ وہ اس شخص کی شفاعت فرمائیں گے جس نے آنحضرت ﷺ کی زندگی بھر کی کاوشوں کو درخورِ اعتنا سمجھنے کی زحمت نہیں کی۔ وہ اللہ کے ایک ایک حکم کو توڑتا رہا ‘ جس کے لیے حضور ﷺ نے لا متناہی قربانیاں دی تھیں اور آپ ﷺ کی ایک ایک سنت کو پامال کرتا رہا اور پھر آپ ﷺ ہی سے امید رکھتا ہے کہ آپ میری شفاعت فرمائیں گے۔ آپ ﷺ نے ایک موقعہ پر اپنے اعزہ و اقرباء کو سمجھاتے ہوئے اپنی پھوپھی محترمہ اور اپنی لخت جگر کو خطاب کر کے فرمایا تھا کہ ” تم ایمان و عمل کا سرمایہ لے کر ساتھ جانا اور اگر تم نے نافرمانی کی زندگی گزاری تو میں تمہارے لیے کچھ نہیں کرسکوں گا۔ “ لیکن اس غلط تصور کے مقابل قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ نے صحیح تصور بھی عطا فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض مقرب بندوں کو شفاعت کی عزت بخشیں گے ‘ جن میں انبیائِ کرام بھی ہوں گے اور اولیاء کرام بھی اور صالحین عظام بھی۔ لیکن یہ صرف اس شخص کی سفارش کریں گے جس کے لیے اللہ تعالیٰ اجازت عطا فرمائے گا۔ کیونکہ اس کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے سامنے زبان کھولنے کی جرأت نہیں کرے گا۔ مشرکین عرب جیسے پہلے عرض کیا جا چکا کہ وہ فرشتوں سے شفاعت کی امید رکھتے تھے اور انھیں اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے ‘ پروردگار نے اس حوالے سے فرمایا : وَقَالُوا اتَّخَذَالرَّحْمٰنُ وَلَداً سُبْحٰنَـہٗ ط بَلْ عِبَادٌ مُّـکْرَمُوْنَ ۔ لا لاَ یَسْبِقُوْنَـہٗ بِالْقَوْلِ وَہُمْ بِاَمْرِہٖ یَعْمَلُوْنَ (مشرکین کہتے ہیں کہ خدا کی اولاد ہے اللہ ان چیزوں سے پاک اور برتر ہے فرشتے خدا کی اولاد نہیں بلکہ اس کے باعزت بندے ہیں وہ اس کے آگے بات کرنے میں سبقت نہیں کرتے وہ بس اس کے حکم ہی کی تعمیل کرتے ہیں) مزید اس کی وضاحت فرماتے ہوئے قرآن کریم کہتا ہے یَوْمَئِذٍلاَّ تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَـہُ الرَّحْمٰنُ وَرِضٰی لَـہٗ قَـوْلاً (اور اس دن کسی کو کسی کی شفاعت کچھ نفع نہیں پہنچائے گی مگر جس کے لیے خدائے رحمان اجازت دے اور اس کے لیے کوئی بات کہنے کو پسند کرے) اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کو شفاعت کی اجازت تو دے گا لیکن وہ اللہ سے ڈرتے ہوئے وہی بات زبان سے نکالیں گے جو بالکل حق ہوگی۔ اور اسی کے لیے شفاعت فرمائیں گے جس کے لیے اللہ اجازت عطا فرمائیں گے۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شفاعت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آدمی ایمان و عمل سے بےنیاز ہو کر چند بزرگ شخصیتوں پر بھروسہ کر کے بیٹھ جائے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل چیز تو اللہ کی رضا ہے جو ایمان و عمل سے نصیب ہوگی جس آدمی نے اپنے اعمال صالحہ اور اپنی دعائوں سے اپنے رب کو راضی کرلیا اس کے اعمال میں بخشش کے لیے اگر کوئی کمی ہوگی تو پروردگار اپنے کسی برگزیدہ بندے کو اجازت عطا فرمائے گا کہ میرے اس بندے کے لیے سفارش کرو۔ اس سے مقصود اپنے برگزیدہ بندوں کی عزت افزائی ہوگی اور اپنے گناہ گار بندے کی بخشش کا سامان ہوگا۔ شفاعت کے اس تصور سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شفاعت بھی صرف اللہ کی مرضی اور اس کے حکم سے میسر آئے گی۔ اس لیے ایک مومن کو اپنی بخشش کے لیے اللہ کی رضا کا سامان کرنا چاہیے اور آنحضرت ﷺ کی سنت پر عمل اور آپ ﷺ پر کثرت سے درود پڑھنا چاہیے تاکہ آپ ﷺ اللہ کی اجازت سے اپنے گناہ گار امتیوں کی سفارش فرمائیں۔ شفاعتِ کبریٰ شفاعت کے حوالے سے سب سے بڑا مقام شفاعتِ کبریٰ ہے۔ محشر میں جب تمام لوگ حساب کتاب کے انتظار میں کھڑے ہوں گے اور ہر شخص اپنے اعمال کے اعتبار سے پسینے میں ڈوبا ہوا ہوگا ‘ انتہائی ہولناک وقت ‘ سراسیمگی اور بےچینی کی کیفیت اپنے عروج پر ہوگی اور ایک نفسا نفسی کا عالم ہوگا ‘ لوگ اپنے انجام کو جاننے کے لیے بےقرار ہوں گے ‘ لیکن حساب کتاب شروع ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے ہوں گے ‘ لوگ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک اولوالعزم رسولوں کے پاس جائیں گے کہ آپ اللہ سے دعا کریں تاکہ حساب کتاب شروع ہو اور ہم اس ناقابلِ برداشت انتظار کی اذیت سے نکل سکیں۔ لیکن کوئی بڑے سے بڑا رسول بھی اس کے لیے تیار نہ ہوگا۔ سب اللہ کے جلال سے پناہ مانگتے ہوں گے ‘ آخر میں لوگ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پہنچیں گے۔ حضور فرماتے ہیں کہ میں لوگوں کی درخواست مان کر سر سجدے میں رکھ دوں گا اور اللہ کو ان صفات اور کلمات سے پکاروں گا جو اس وقت مجھے عطا کیے جائیں گے۔ میں نہیں جانتا کب تک میں سجدہ ریز رہوں گا ‘ پھر اللہ کی طرف سے آواز آئے گی اے محمد ﷺ اپنا سر سجدے سے اٹھا لو جو مانگو گے دیا جائے گا۔ تب رسول اللہ ﷺ تمام امتوں کا حساب کتاب کرنے کے لیے اللہ سے درخواست کریں گے۔ اس طرح سے لوگوں کا حساب شروع ہوگا اور آنحضرت ﷺ کی شفاعت سے لوگ انتظار کی اذیت سے نجات پائیں گے۔ غور فرمایئے آنحضرت ﷺ تمام لوگوں کے لیے پہلے پروردگار سے شفاعت کی اجازت مانگیں گے۔ اجازت ملے گی تو پھر آپ ﷺ شفاعت فرمائیں گے۔ ایک امتی کو ہمیشہ آنحضرت ﷺ کی شفاعت سے بہرہ ور ہونے کے لیے دعائیں مانگنی چاہئیں لیکن اعمال حسنہ سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہیے۔ مشرکین نے جس طرح شفاعت کا ایک تصور بنا رکھا تھا اس کے ابطال کے لیے ایک ایسی دلیل دی جا رہی ہے جو نہایت سادہ ہے لیکن براہ راست عقل کو اپیل کرتی اور دل میں جا اترتی ہے۔ وہ آیت کا اگلا جملہ ہے۔ شفاعت کا غلط تصور اور اس کی تردید یَعْلَمُ مَابَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَاخَلْفَہُمْ وَلاَ یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَآئَ (وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز کا بھی احاطہ نہیں کرسکتے مگر جو وہ چاہے) اسے سمجھنے کے لیے نہایت سادہ انداز میں لوگوں کے ذہنوں میں شفاعت اور سفارش کا جو تصور ہے وہ سمجھ لیجئے۔ کوئی آدمی یا کوئی ملازم کسی خلاف قانون حرکت پہ پکڑا جاتا ہے یا اس کے خلاف کسی رپورٹ پر اس کی گرفت ہوتی ہے تو وہ سفارشی تلاش کرتا ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ سفارشی ایسا ہونا چاہیے کہ جس افسر کے پاس میرا کیس ہے اس پر وہ اثر رکھتا ہو۔ اولاً تو سفارشی کی حیثیت اس افسر سے بڑی ہو تاکہ وہ اس کی سفارش کو رد نہ کرسکے اور یا پھر اس سے ایسی دوستی ہو کہ وہ اسے ناراض نہ کرسکتا ہو اور یا پھر سفارشی کی ایسی حیثیت ہو کہ افسر کو بھی اس سے کام پڑ سکتے ہوں تو وہ اس کی بات مان لینے پر اس لیے مجبور ہوگا کہ آج میں نے اگر اس کا کام نہ کیا تو کل کو یہ میرا کام بھی نہیں کرے گا۔ اور آخری بات یہ کہ سفارشی اس افسر کے پاس جا کر یہ یقین دلائے کہ جس شخص کو سزا دی جا رہی ہے اسے آپ نہیں جانتے اور میں اسے پوری طرح جانتا ہوں۔ آپ کے علم میں جو باتیں لائی گئی ہیں وہ غلط ہیں اور میں آپ کو صحیح صورت حال سے آگاہ کرتا ہوں کیونکہ آپ کے پاس براہ راست جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں۔ جہاں تک پہلی باتوں کا تعلق ہے وہ تو بالبداہت غلط ہیں۔ کوئی شخص بھی اللہ کی ذات سے بڑھ کر نہیں۔ کسی کی اس سے ایسی دوستی نہیں کہ وہ اس کی ناراضگی سے ڈر جائے ‘ اسے کسی سے کوئی کام نہیں پڑتا تمام مخلوق اس کی محتاج ہے وہ کسی کا محتاج نہیں۔ اور جہاں تک آخری بات کا تعلق ہے اس کے بارے میں اس جملے میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ سفارش کرنے والا اللہ کے علم میں کوئی اضافہ نہیں کرسکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر آدمی کے مالہ وما علیہ سے واقف ہے۔ جو کچھ سامنے ہے وہ اسے بھی جانتا ہے اور جو پیچھے ہے وہ اس سے بھی باخبر ہے۔ یعنی اس کے لیے زمانے کی کوئی تقسیم نہیں۔ اس کی نگاہوں کے سامنے ظاہر و باطن کی کوئی حیثیت نہیں۔ اس لیے کوئی سفارش کرنے والا اسے یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ اس کیس کو پوری طرح نہیں جانتے میں جانتا ہوں اس لیے میں اس کی وضاحت کرنے آیا ہوں۔ ہر شخص کا علم ناقص اور محدود ہے۔ وہ ظاہر کو جانتا ہے باطن سے بیخبر ہے۔ وہ جس کی سفارش کر رہا ہے وہ اگر کوئی بات اس سے چھپالے یا اسے غلط بتائے تو اس کے پاس صحیح جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ‘ لیکن اللہ کا علم کامل ‘ حدود سے ماورا ‘ ہر طرح کی غلطی اور نقص سے پاک۔ تو پھر کس بنیاد پر آخر اس سے سفارش کی جائے۔ میں عرض کرچکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک اور برگزیدہ بندوں کو اس کی اجازت دیں گے۔ اور ہمارے رسول پاک ﷺ کی شفاعت ہمارے لیے بہت بڑے حوصلے کا سامان ہے۔ اور وہ شفاعت برحق ہے۔ لیکن وہ سراسر اللہ کی دین ‘ اس کا عطیہ ‘ اس کی عزت افزائی اور اس کا کرم ہے۔ اس لیے ہمیں آنحضرت ﷺ کی شفاعت سے بہرہ مند ہونے کے لیے بھی اسی سے دعائیں کرنی ہے ‘ اسی پر ہمیشہ بھروسہ رکھنا ہے ‘ کسی دوسرے بھروسے پر ایمان و عمل سے غفلت سے کی کوئی گنجائش نہیں۔ مزید ارشاد فرمایا : وَسِعَ کُرْسِیُّـہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج وَلَا یَئُوْدُہٗ حِفْظُہُمَا ج ( اس کا اقتدار آسمانوں اور زمین سب پر حاوی ہے۔ اور ان کی حفاظت اس پر ذرا بھی گراں نہیں) کرسی کا مفہوم ” الکرسی “ اس کی تفسیر میں متعدد اقوال نقل کیے جاتے ہیں۔ علامہ ابن جریر نے حضرت ابن عباس ( رض) کا یہ قول ترجیح کے لائق سمجھا ہے کہ ” کرسی “ سے مراد اس کا علم ہے۔ اور ابن جریر نے یہ بھی فرمایا کہ اسی سے کراسۃ ماخوذ ہے جس کے معنی اس دفتر کے ہیں جس میں علم منضبط کیا جاتا ہے اور عربی میں علماء کو ” کر اسی “ بھی کہا جاتا ہے۔ لغت میں ” کرس “ کسی چیز کی جمی جمائی تہہ کو کہتے ہیں۔ اسی سے کرسی کا لفظ بنا۔ اس لیے کرسی بیٹھنے کی جگہ یا تخت وغیرہ کے لیے استعمال ہونے لگا۔ اور جب یہ بیٹھنے کی جگہ صاحب اقتدار کے لیے خاص ہو تو وہ اس کے اقتدار کا مرکز ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے اہل علم نے کرسی کا لفظ اقتدار کی تعبیر کے لیے اختیار کیا ہے۔ اس جملے میں بھی یہی معنی ہوگا کہ اللہ کی کرسی سے مرد اس کا اقتدار ہے۔ البتہ یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے کہ یہاں تو یقینا کرسی کا معنی اس کا اقتدار ہی معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اللہ کی جلیل القدر مخلوقات میں سے کرسی بھی اس کی مخلوق ہے۔ جس کے بارے میں آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے : یا اباذر ما السموات السبع مع الکرسی الا کحلقۃ ملقاۃ فی ارض فلاۃ (کرسی کی وسعت و فراخی کے سامنے سات آسمان یوں معلوم ہوتے ہیں جیسے ایک صحرا میں ایک مندری پڑی ہے) جس پروردگارِ عالم نے زمین و آسمان پیدا کیے ہیں اس کے لیے کوئی مشکل نہیں کہ وہ اتنی بڑی کرسی کو پیدا کر دے۔ البتہ یہ بات یاد رہے کہ پروردگار اس کرسی پر فروکش نہیں ہوتا کیونکہ کوئی مقام بھی اللہ کی ذات کو اپنے اندر سما نہیں سکتا۔ مزید یہ بات بھی کہ اللہ تعالیٰ چونکہ جسم سے پاک ہے اس لیے اسے کسی کرسی ‘ کسی تخت یا کسی مکان کی احتیاج نہیں۔ رہی یہ بات کہ یہ کرسی کیوں بنائی گئی تو اللہ کی صفات کی طرح اس کی بعض مخلوقات کی حقیقت کو بھی ہم نہیں جانتے۔ ہم تو آج تک یہ نہیں سمجھ سکے کہ سر کے بال کہاں سے آتے ہیں ؟ ناخن کیسے لمبے ہوتے ہیں ؟ بیلیں کیسے پھیلتی ہیں ؟ مختلف توجیہات کی جاتی ہیں لیکن حقیقت ہم سے کوسوں دور ہے۔ فرشتے غیر مرئی مخلوق ہیں ‘ ہم اللہ کے نبیوں کے بتانے کی وجہ سے ان پر یقین رکھتے ہیں لیکن وہ کیسے ہیں ؟ ہم ان کے بارے میں کیا جانتے ہیں ؟ اسی طرح کرسی بھی ان مخلوقات میں سے ہے جس کا علم ہمیں رسول اللہ ﷺ نے عطا فرمایا ہے لیکن اس کی حقیقت سے ہم بیخبر ہیں اور اس کی حقیقت جاننے کے در پے ہونا بجائے خود ایک گمراہی ہے جس سے روکا گیا ہے۔ اقتدارِ الٰہی کی ہمہ گیری مشرکینِ عرب کا یہ گمان تھا کہ کائنات کی وسعتوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ جس طرح ایک بادشاہ اپنے ملک کے دور دراز گوشوں کا انتظام خود نہیں کرسکتا ‘ اس کے لیے وہ مختلف عہدیدار مقرر کرتا ہے تاکہ ان دور دراز گوشوں کا انتظام درست رکھا جاسکے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ تنہا اتنی بڑی کائنات کا انتظام چلا سکے۔ وہ یقینا اس کا انتظام چلانے میں ایسی قوتوں کا محتاج ہے جنھیں وہ اپنا شریک بنا سکے تاکہ اس کائنات کے نظام چلانے میں وہ اس کے ممد و معاون ہوں۔ ان لوگوں کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے فرمایا گیا ہے کہ اللہ کا اقتدار آسمانوں اور زمین پر حاوی ہے۔ اور وہ زمین و آسمان کے نظام کو چلانے میں اور اس کی نگرانی میں کوئی گرانی اور تھکاوٹ محسوس نہیں کرتا۔ وہ یہود کی طرح یہ نہیں کہتا کہ اللہ تعالیٰ نے چھ دن میں کائنات پیدا کی اور ساتویں دن اس نے آرام کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وما مسنا من لغوب (ہمیں تھکاوٹ نہیں ہوتی) اور یہاں فرمایا کہ ہمیں اس کائنات کی نگرانی گراں نہیں گزرتی۔ ہمارے لیے اس کا انتظام و انصرام چلانا بوجھ ثابت نہیں ہوتا۔ اس لیے ہمیں کسی معاون کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کیونکہ ہمارا علم غیر محدود ‘ ہماری قدرت بےانتہا اور ہماری قوت تصرف تصور و خیال سے بالا ہے۔ وَھُوَالْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ ( وہ بلند ہے اور عظیم ہے) اس کی قدرتوں کی وسعتوں اور اس کے علم کی لا محدودیت کو اپنے محدو دعلم اور عقل کے پیمانوں سے نہ ناپو۔ وہ تمہاری قوت احساس سے بھی بلند ہے اور تمہارے تصور ادراک سے بھی عظیم ہے۔ جب تک اس کی عظمتوں کا صحیح تصور اپنے اندر پیدا نہیں کرو گے اس وقت تک شرک کے کانٹے پھوٹتے رہیں گے۔ جب تک اس کی ذات کو ظن و قیاس اور تشبیہ و تمثیل کی خیال آرائیوں سے بلند نہیں سمجھو گے اس وقت تک کوئی نہ کوئی شیطان تمہیں وسوسوں کی گمراہی میں مبتلا کرتا رہے گا۔
Top