Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 255
اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ١ۚ۬ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌ١ؕ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖ١ؕ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ١ۚ وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ١ۚ وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ١ۚ وَ لَا یَئُوْدُهٗ حِفْظُهُمَا١ۚ وَ هُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ
اَللّٰهُ
: اللہ
لَآ اِلٰهَ
: نہیں معبود
اِلَّا ھُوَ
: سوائے اس کے
اَلْحَيُّ
: زندہ
الْقَيُّوْمُ
: تھامنے والا
لَا تَاْخُذُهٗ
: نہ اسے آتی ہے
سِنَةٌ
: اونگھ
وَّلَا
: اور نہ
نَوْمٌ
: نیند
لَهٗ
: اسی کا ہے
مَا
: جو
فِي السَّمٰوٰتِ
: آسمانوں میں
وَمَا
: اور جو
فِي الْاَرْضِ
: زمین میں
مَنْ ذَا
: کون جو
الَّذِيْ
: وہ جو
يَشْفَعُ
: سفارش کرے
عِنْدَهٗٓ
: اس کے پاس
اِلَّا
: مگر (بغیر)
بِاِذْنِهٖ
: اس کی اجازت سے
يَعْلَمُ
: وہ جانتا ہے
مَا
: جو
بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ
: ان کے سامنے
وَمَا
: اور جو
خَلْفَھُمْ
: ان کے پیچھے
وَلَا
: اور نہیں
يُحِيْطُوْنَ
: وہ احاطہ کرتے ہیں
بِشَيْءٍ
: کس چیز کا
مِّنْ
: سے
عِلْمِهٖٓ
: اس کا علم
اِلَّا
: مگر
بِمَا شَآءَ
: جتنا وہ چاہے
وَسِعَ
: سما لیا
كُرْسِيُّهُ
: اس کی کرسی
السَّمٰوٰتِ
: آسمان (جمع)
وَ
: اور
الْاَرْضَ
: زمین
وَلَا
: اور نہیں
يَئُوْدُهٗ
: تھکاتی اس کو
حِفْظُهُمَا
: ان کی حفاظت
وَھُوَ
: اور وہ
الْعَلِيُّ
: بلند مرتبہ
الْعَظِيْمُ
: عظمت والا
اللہ اس کے سوا کوئی معبود
500
نہیں زندہ ہے سب کا تھامنے والا نہیں پکڑ سکتی اس کو اونگھ اور نہ نیند اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے
501
ایسا کون ہے جو سفارش کرے اسکے پاس مگر اجازت سے جانتا ہے جو کچھ خلقت کے رو برو ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے
502
اور وہ سب احاطہ نہیں کرسکتے کسی چیز کا اسکی معلومات میں سے مگر جتنا کہ وہی چاہے گنجائش ہے اس کی کرسی میں تمام آسمانوں اور زمین کو اور گراں نہیں اس کو تھامنا ان کا اور وہی ہے سب سے برتر عظمت والا
500
یہاں دعوی توحید کا دوبارہ اعادہ کیا گیا ہے اور جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے یہاں اعادہ دعویٰ سے مقصد شفاعت قہری کی نفی ہے جیسا کہ یہود ونصاریٰ کا خیال تھا کہ ہمارے آباء و اجداد جو اللہ کے پیارے اور برگزیدہ پیغمبر تھے وہ ہمیں خدا کو ان کی سفارش ماننی پڑے گی تو مطلب یہ ہوا کہ جس طرح اللہ کے سوا کوئی کارساز اور اور فریاد رس نہیں۔ جس کو پکارا جائے یا جس کی تعظیم اور رضا جوئی کے لیے نذریں نیازیں دی جائیں اسی طرح اس کے سامنے کوئی شفیع غالب بھی نہیں کہ دنیا وآخرت میں مصیبت کے وقت اس کی پناہ ڈھونڈی جائے اور اسے سفارشی بنایا جائے۔ لہذا کسی کو شفیع غالب سمجھ کر نہ پکارا جائے۔ اس جگہ دعویٰ توحید کا اعادہ ماقبل کی دلیل بھی ہے۔ یعنی کافروں کے اصل ظالم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ شرک کرتے ہیں۔ حالانکہ اللہ کا کوئی شریک نہیں۔ دعوی توحید پر یہاں چھ عقلی دلیلیں بیان فرمائی ہیں۔ پہلی دلیل اَلْـحَيُّ وہ زندہ ہے ایسا زندہ کہ زندگی اس کی صفت ذاتی ہے وہ ازل سے ہے اور ابد تک رہیگاجس پر کبھی عدم نہیں آیا اور نہ ہی کبھی اس پر موت آئیگی جیسا کہ سورة فرقان میں ہے۔ وَتَوَکَّلْ عَلَی الْحَیِّ الَّذِیْ لَايَمُوْتُ ۔ دوسری دلیل اَلْقَیُّوْمُ ۔ وہ خود بھی قائم ودائم ہے۔ اور ہر چیز کو بھی اس نے سہارا دے رکھا اور قائم کر رکھا ہے وہ سب کا رازق اور نگہبان ہے۔ القائم الحافظ لکل شیئ والمعطی لہ ما بہ قوامہ۔ (روح ص
8
ج
3
) تیسری دلیل لا تاخذہ سنۃ ولا نوم۔ وہ ہر وقت خبردار اور بیدار رہتا ہے اور اپنی مخلوق سے کبھی غافل نہیں ہوتا اسے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند۔ نوم انبیاء (علیہم السلام) کے بارے میں محدثین کرام (رح) کا مسلک یہ ہے کہ وہ ناقض وضو نہیں۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے رات اپنی خالہ ام المؤمنین حضرت میمونہ کے گھر میں بسر کی۔ آنحضرت ﷺ نماز عشا ادا کر کے حضرت میمونہ کے گھر تشریف لائے اور چار رکعت نماز ادا فرمائی اور پھر سو گئے۔ رات کے آخری حصہ میں آپ بیدار ہوئے اور وضو فرما کر نماز تہجد۔ وتر اور فجر کی سنتیں ادا کین۔ اس کے بعد پھر سو گئے۔ یہاں تک کہ مؤذن نے آپ کو اطلاع دی اور آپ نے جا کر نماز فجر ادا کی۔ لیکن وضو نہیں فرمایا۔ اس موقع پر روایت کے الفاظ حسب ذیل ہیں۔ فصلی فی تلک اللیلۃ ثلث عشرۃ رکعۃ ثم نام رسول اللہ ﷺ حتی نفخ وکان اذا نام نفخ ثم اتاہ المؤذن فخرج فصلی ولم یتوضا اور بعض روایتوں میں ہے ثم نام حتی سمعت غطیطہ (صحیح مسلم ص
260
ج
1
) اس یط رح حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی ایک روایت میں ہے قالت عائشۃ فقلت یا رسول اللہ اتنام قبل ان توتر فقال یا عائشۃ ان عینی تنامان ولا نیام قلبی (جامع ترمذی وغیرہ) حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ میری صرف آنکھیں سوتی ہیں دل جاگتا رہتا ہے۔ لیکن حضرت شیخ (رح) نے فرمایا کہ حضرت ابن عباس کا یہ واقعہ کوئی راویوں نے بیان کیا ہے اور اس ایک ہی واقعہ کی تفصیلات بیان کرنے میں راویوں کے درمیان شدید اختلاف ہے۔ حضرت شیخ نے اس واقعہ کے اکثر طرق نقل کر کے ان کے باہمی اختلافات کی نشاندہی فرما دی ہے۔ ملاحظہ ہو آپ کی نصنیف تحریرات حدیث از ص
64
تا ص
66
مثلاً ایک روایت میں ہے کہ نماز عشا کے بعدحضور ﷺ نے حضرت میمونہ کے گھر چار رکعت نماز ادا کی اور پھر آپ سو گئے۔ یہاں تک کہ خراٹوں کی آواز آنے لگی ایک روایت میں سونے اور خراٹوں کا ذکر نماز تہجد اور صبح کی سنتوں کے درمیان کیا گیا ہے اور ایک دوسری روایت میں یہ دونوں چیزیں صبح کی سنتوں اور فرضوں کے درمیان مذکور ہیں۔ اسی طرح بعض روایتوں میں آتا ہے کہ اس رات آپ تہجد کی نماز میں ہر دو رکعت کے بعد سوئے اور پھر اٹھ کر وضو فرمایا۔ لیکن دوسری روایتوں میں ہر دو رکعتوں کے بعد نین اور وضو کا ذکر ندارد ہے۔ ایک اختلاف یہ بھی ہے کہ بعض روایتوں میں فجر کی سنتوں کے بعد مطلق نیند اور خراٹوں کا ذکر ہے۔ بعض میں اضطجاع (یعنی پہلو کے بل لیٹنا) اور بعض میں احتباء (یعنی گھٹنوں کو کھڑے کر کے دونوں ہاتھوں کا دائرہ بنا کر ان کے سہارے بیٹھنا) کا ذکر ہے۔ یہ واقعہ چوں کہ ایک ہی دفعہ پیش آیا ہے اس لیے اس کی تفصیلات میں اس قدر متضاد اختلافات کا وجود ناممکن ہے۔ لیکن مختلف طرق میں غور وفکر سے تطبیق و ترجیح کی حسب ذیل صورت نظر آتی ہے۔ اصل روایت میں نیند اور خراٹوں کا ذکر صرف ان چار رکعتوں کے بعد ہے۔ جو نماز عشاء کے بعد آپ ﷺ نے حضرت میمونہ ؓ کے گھر ادا کی تھیں۔ لیکن بعض راویوں نے تہجد کے بعد یا فجر کی سنتوں کے بعد بھی اس کا ذکر کردیا۔ اسی طرح اصل واقعہ میں یہ ہے کہ فجر کی سنتوں کے بعد حضور ﷺ نے احتباء فرمایا اور اسی حالت میں آپ کو خفیف سی نیند آگئی اور سانس نکلنے کی آواز سنائی دینے لگی۔ جس کر اوی نے نفخ سے تعبیر کیا ہے۔ اور نفخ ہی کو بعض راویوں نے غطیط یا خطیط (خراٹے) سے تعبیر کر ڈالا ہے۔ جیسا کہ حافظ بدر الدین عینی فرماتے ہیں۔ نفخ بالخاء المعجمۃ ای من خیشومہ وھو المجمر عنہ بعض راویوں نے روایت بالمعنی کر کے ثم اضطجع فنام سے ادا کردیا۔ باقی رہی حضرت عائشہ صدیقہ ؓ والی روایت تو اس کے الفاظ تو بظاہر قاعدہ کلیہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ بحالت خواب نیند سے صرف آپ ﷺ کی آنکھیں بند ہوجاتی تھیں۔ لیکن آپ کا دل ہمیشہ بیدار رہتا تھا۔ لیکن درحقیقت یہ قاعدہ کلیہ نہیں تھا۔ بلکہ بعض اوقات ایسا ہوتا تھا کہ آپ ﷺ کی آنکھیں اور قلب مبارک دونوں چیزیں نیند سے متاثر ہوجاتی تھیں اور بعض اوقات ایسا ہوتا کہ صرف آنکھیں نیند سے بند ہوجاتیں لیکن دل بیدار رہتا۔ چنانچلہ لیلۃ التجریس میں جس طرف پہلے اشارہ گزر چکا ہے۔ جب نیند کی وجہ سے آپ کی اور آپ کے ہم سفر صحابہ کی نماز فجر فوت ہوگئی۔ تو آپ نے از سر نو وضو کر کے نماز ادا فرمائی۔ اس واقعہ کی توجیہہ کرتے ہوئے بعض محدثین نے فرمایا ہے کہ اس موقع پر آپ کی آنکھوں کے ساتھ دل پر بھی نیند طاری ہوگئی تھی۔ اس لیے آپ وقت پر بیدارنہ ہس کے اور اسی لیے آپ نے وضو کی تجدید فرمائی جیسا کہ اوجز المسالک شرح موطا امام مالک ص
418
ج
1
میں ہے۔ انہ کان فی وقت ینام وفی وقت لاینام وفی وقت لا ینام فصادف الوادی نومہ۔
501
یہ چوتھی دلیل ہے زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے سب کو اسی نے پیدا کی اور سب کچھ اسی کے قبضہ اور اختیار و تصرف میں ہے۔ پھر کون ہے جو اس پر جبر کرسکے اور اس سے اپنی بات منوا سکے۔ مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۔ یہ پانچویں دلیل ہے۔ استفہام انکاری ہے۔ مطلب یہ کہ اس کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے سامنے دم نہیں مار سکتا اور نہ ہی اس کی مرضی کے خلاف کسی مجرم کو سفارش کر کے سزا سے بچا سکتا ہے جیسا کہ عام مشرکوں کا خیال تھا کہ جن بزرگوں کو ہم پکارتے ہیں وہ ہمیں بخشوا لیں گے۔ اور خدا سے ہمارے تمام کام بھی کرا دیں گے۔ وفی ذلک تاییس الکفار حیث زعموا ان الھتھم شفعاء لھم عند اللہ تعالیٰ (روح ص
9
ج
3
) حضرت شیخ (رح) نے فرمایا کہ شفاعت کا مسئلہ قرآن مجید میں مختلف عنوانات سے بیان کیا گیا ہے۔ کہیں فرمایا مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ (بقرہ رکوع
34
) کہیں فرمایا لَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَرَضِیَ لَهُ قَوْلاً (طہ رکوع
6
) کہیں ارشاد ہے اِلَّا لِمَنِ ارْتَضیٰ (انبیاء رکوع
2
) کہیں فرمایا اِلَّا مَنْ شَھِدَ بِالْحَقِّ (زخرف رکوع
7
) کہیں ارشاد ہے۔ لَايَتَکَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَاباً (نبا رکوع
2
) ان کے علاوہ اور بہت سی آیتوں میں مسئلہ شفاعت مذکور ہے۔ ان تمام آیتون کا مشترک مفہوم یہ ہے کہ ان میں شفاعت قہری کی نفی کی گئی ہے۔ جس کے مشرکین معتقد تھے اور اس کے سوا شفاعت کی ایک اور قسم کا اثبات کیا گیا ہے۔ یعنی شفاعت بالاذن۔ پھر اس جائز شفاعت کی دو قسمیں ہیں ایک شفاعت فی الدنیا اور دوم شفاعت فی الاخرت۔ شفاعت فی الدنیا یعنی دنیا میں شفاعت مومن اور کافر دونوں کے لیے جائز ہے۔ مومن کے لیے دنیا میں شفاعت یہ ہے کہ اس کے گناہوں کی بخشش اور حق پر اس کی استقامت کے لیے دعا کرے۔ جیسا کہ آنحضرت ﷺ کو امر ہوا۔ وَصَلِّ عَلَیْھِْ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ وَاسْتَغْفِرْلَھُمُ اللّٰه (توبہ ع
12
) اور کافر کے لیے شفاعت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کے راہ راست پر آجانے کی دعا کرے۔ لیکن یہ صرف اسی وقت تک جائز ہے جب تک اس کے دل پر مہرجباریت نہ لگ جائے اور جب یہ معلوم ہوجائے کہ اس کے دل پر مہر جباریت لگ چکی ہے۔ اس وقت اس کے حق میں دنیا میں شفاعت نہ کی جائے۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں وارد ہے۔ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهُ اَنَّهُ عَدُوٌّ لِلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْه۔ باقی رہی آخرت میں شفاعت تو وہ قبل العلم مومنوں اور کافروں دونوں کے لیے جائز ہے۔ لیکن بعد العلم صرف مومنوں کے لیے جائز ہے اور کافروں کے لیے جائز نہیں۔ اور علم سے مراد یہ ہے کہ یہ معلوم ہوجائے کہ مشفوع لہ مومن ہے یا کافر۔ چناچہ حدیث میں آیا ہے۔ آنحضور ﷺ قیامت کے دن قبل العلم کافروں کے لیے شفاعت فرمائیں گے۔ قیامت کے دن کچھ لوگوں کو فرشتے جہنم کی طرف لے جائیں گے۔ تو آنحضرت ﷺ اصحابی اصحابی پکار کر ان کی شفاعت فرمائیں گے۔ اس پر اللہ کی طرف سے آپ کو جواب ملے گا کہ آپ کو معلوم نہیں۔ آپ کے بعد ان لوگوں نے کیا کچھ کیا ہے۔ اس پر آپ خاموش ہوجائیں گے اور پھر ان کی شفاعت نہیں کرینگے۔ ان آیتوں کے الفاظ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا اور آخرت میں پہلے شفاعت کرنے والوں کو باقاعدہ اذن دیا جائے گا کہ فلاں فلاں کے لیے شفاعت کرو تو قبول ہوگی۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے (صرف آنحضرت ﷺ کے لیے آخرت میں شفاعت کبری کا اذن ملنا ثابت ہے) اس لیے من اذن لہ اور لمن اذن لہ وغیرہ سے اذن کا متبادر مفہوم یعنی اجازت مراد نہیں ہے۔ بلکہ دوسری آیتوں کی روشنی میں اس آیت میں مشفوع لہ سے مراد مومن ہے۔ چناچہ ایک جگہ ارشاد ہے۔ اِلَّا مَنْ شَھِدَ بِالْحَقِّ ۔ جس نے حق کی شہادت دی یعنی مومن۔ اس کی تائید ایک دوسری آیت سے ہوتی ہے اِلَّا لِمَنِ ارْتَضیٰجس کو خدا پسند کرے اور وہ صرف مومن ہی ہوسکتا ہے جن آیتوں میں بلا اجازت کلام کی نفی ہے۔ وہاں آخرت کی شفاعت مراد ہے۔ اور مشفوع لہ صرف ایمان والے ہیں اور جن آیتوں میں کلام کی نفی کی گئی ہے ان میں دنیا کی شفاعت سے متعلق ہیں اور بعض آخرت سے اور بعض دونوں کی محتمل ہیں مسئلہ شفاعت کی پوری تحقیق سورة یونس کی تفسیر میں آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ ۔ یہ چھٹی دلیل ہے اور یہ محاورہ ہے۔ جس سے اللہ تعالیٰ کے احاطہ علمی کا بیان مقصود ہے۔ یعنی وہ زمین و آسمان کی تمام مخلوقات کے تمام ظاہر و باطن اور گذشتہ وآئندہ حالات وواقعات کو خوب جانتا ہے۔ دلیل علی احاطة علمہ بجمیع الکائنات ماضیھا حاضرھا ومستقبلھا (ابن کثیر ص
309
ج
1
۔ حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَھُمْمیں ضمیر غائب مَنْ ذَ الَّذِیْ کی طرف راجع ہے۔ یعنی وہ لوگ جن کو مشرکین اپنے شفعاء غالب سمجھتے تھے۔ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اور اس کی مخلوق میں سے کوئی جن وبشر، کوئی پیغمبر یا کوئی فرشتہ اللہ کے معلومات میں سے کسی ایک چیز کی حقیقت اور کنہ کو بھی نہیں جانتا۔ ہاں جو تھوڑا بہت علم اللہ نے ان کو دیدیا ہے۔ اس سے آگے ان کے علم کی حدود نہیں بڑھ سکتیں۔ وَسِعَ كُرْسِـيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۔ کرسی سے یا تو اس کا حقیقی معنی مراد ہے۔ لیکن اس کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا یا اس سے مراد علم ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس سے منقول ہے یا یہ قدرت اور سلطنت سے کنایہ ہے۔ (معالم ص
227
ج
1
) المراد من الکرسی السلطان والقدرة والملک (کبیر ص
470
ج
2
) مطلب یہ ہے کہ اس کی قدرت اور حکومت پوری کائنات پر حاوی ہے۔ سب اس کے محکوم ومملوک ہیں اور کوئی اس کا شریک اور ہمسر نہیں۔ وَلَا يَـــــُٔـــوْدُهٗ حِفْظُهُمَا۔ زمین و آسمان کی حفاظت اور نگہبانی سے وہ تھکتا اور اکتاتا نہیں۔ یہ ساتویں دلیل ہے۔ وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ ۔ وہ ہر چیز سے بلند تر اور بزرگ تر، ہر چیز اس کے سامنے ہیچ اور حقیر ہے۔ یہ آیت کریمہ آیة الکرسی کے نام سے مشہور ہے اور قرآن مجید کی تمام آیتوں سے افضل ہے اس لیے کہ اس میں اللہ کی توحید اور اس کی صفات کا کامل اور جامع بیان ہے۔ آیت الکرسی کی ابتدا میں بھی حصر ہے۔ یعنی ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ میں اور آخر میں بھی یعنی ھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُمیں۔ کیونکہ دونوں جگہوں میں خبریں معرفہ ہیں اس لیے آیت کے باقی تمام حصے بھی حصر پر ہی محمول ہوں گے۔ کیونکہ یہ قانون ہے کہ کلام کے کسی ایک حصہ میں جب حصر ہو تو اس کے باقی حصے بھی حصر پر ہی محمول ہوتے ہیں۔
Top