Al-Quran-al-Kareem - Al-Baqara : 255
اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ١ۚ۬ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌ١ؕ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖ١ؕ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ١ۚ وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ١ۚ وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ١ۚ وَ لَا یَئُوْدُهٗ حِفْظُهُمَا١ۚ وَ هُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ
اَللّٰهُ : اللہ لَآ اِلٰهَ : نہیں معبود اِلَّا ھُوَ : سوائے اس کے اَلْحَيُّ : زندہ الْقَيُّوْمُ : تھامنے والا لَا تَاْخُذُهٗ : نہ اسے آتی ہے سِنَةٌ : اونگھ وَّلَا : اور نہ نَوْمٌ : نیند لَهٗ : اسی کا ہے مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں مَنْ ذَا : کون جو الَّذِيْ : وہ جو يَشْفَعُ : سفارش کرے عِنْدَهٗٓ : اس کے پاس اِلَّا : مگر (بغیر) بِاِذْنِهٖ : اس کی اجازت سے يَعْلَمُ : وہ جانتا ہے مَا : جو بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ : ان کے سامنے وَمَا : اور جو خَلْفَھُمْ : ان کے پیچھے وَلَا : اور نہیں يُحِيْطُوْنَ : وہ احاطہ کرتے ہیں بِشَيْءٍ : کس چیز کا مِّنْ : سے عِلْمِهٖٓ : اس کا علم اِلَّا : مگر بِمَا شَآءَ : جتنا وہ چاہے وَسِعَ : سما لیا كُرْسِيُّهُ : اس کی کرسی السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَ : اور الْاَرْضَ : زمین وَلَا : اور نہیں يَئُوْدُهٗ : تھکاتی اس کو حِفْظُهُمَا : ان کی حفاظت وَھُوَ : اور وہ الْعَلِيُّ : بلند مرتبہ الْعَظِيْمُ : عظمت والا
اللہ (وہ ہے کہ) اس کے سوا کوئی معبود نہیں، زندہ ہے، ہر چیز کو قائم رکھنے والا ہے، نہ اسے کچھ اونگھ پکڑتی ہے اور نہ کوئی نیند، اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے، کون ہے وہ جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے، جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے اور جو ان کے پیچھے ہے اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرتے مگر جتنا وہ چاہے۔ اس کی کرسی آسمانوں اور زمین کو سمائے ہوئے ہے اور اسے ان دونوں کی حفاظت نہیں تھکاتی اور وہی سب سے بلند، سب سے بڑا ہے۔
یہ آیت الکرسی ہے جو قرآن مجید کی تمام آیات سے عظیم آیت ہے۔ ابی بن کعب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”اے ابو منذر ! کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے پاس اللہ کی کتاب میں سے کون سی آیت سب سے بڑی ہے ؟“ فرماتے ہیں، میں نے کہا، اللہ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”اے ابو منذر ! کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے پاس اللہ کی کتاب میں سے کون سی آیت سب سے بڑی ہے ؟“ کہتے ہیں، میں نے عرض کیا : (اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ) (ابی بن کعب ؓ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا : ”اللہ کی قسم ! (تم نے درست کہا) اے ابو منذر ! تمہیں یہ علم مبارک ہو۔“ [ مسلم، صلوٰۃ المسافرین، باب فضل سورة الکہف و آیۃ الکرسی : 810 ] ابوہریرہ ؓ سے مروی ایک لمبی حدیث ہے، اس میں ان کا زکوٰۃ الفطر کی حفاظت پر مامور ہونا اور ایک شخص کا تین دن آ کر چوری کی کوشش کرنا، روزانہ گرفتار ہو کر منتیں کرکے چھوٹنا اور تیسری دفعہ گرفتار ہونے پر انھیں یہ بتانا مذکور ہے کہ جب تم بستر پر آؤ تو آیت الکرسی پڑھ لیا کرو، تو لازماً اللہ کی طرف سے تم پر ایک حفاظت کرنے والا مقرر ہوگا اور تمہارے صبح کرنے تک کوئی شیطان تمہارے قریب نہیں آئے گا۔ ابوہریرہ ؓ نے اس مرتبہ بھی اسے چھوڑ دیا، صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا : ”تمہارے قیدی کا کیا بنا ؟“ میں نے سارا قصہ سنایا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ”یاد رکھو ! اس نے تمہیں سچ بتایا، حالانکہ وہ بہت جھوٹا تھا۔“ پھر آپ ﷺ نے بتایا :”وہ شیطان تھا۔“ [ بخاری، الوکالۃ، باب إذا وکل رجلا فترک ۔۔ : 2311۔ 5010 ] اس حدیث سے آیت الکرسی کی فضیلت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ سے اس آیت کا نام آیت الکرسی ہونے کی تصدیق بھی معلوم ہوئی۔ ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھے اسے جنت میں داخلے سے سوائے موت کے کوئی اور چیز نہیں روکے گی۔“ [ الیوم واللیلۃ للنسائی، ص : 183۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : 972۔ ابن کثیر اور البانی ؓ نے اسے صحیح کہا ہے ] قرآن مجید کی سب سے لمبی آیت : (اِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ) [ البقرۃ : 282 ] ہے، مگر سب سے زیادہ عظمت والی آیت، آیت الکرسی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس آیت کا موضوع توحید ہے، جو اس میں کئی دلیلوں سے ثابت کیا گیا ہے۔ موضوع اور دلیلوں کی وجہ سے یہ سب سے بڑی آیت ہے۔ سورة اخلاص چھوٹی سی سورت ہونے کے باوجود قرآن کے ثلث (تہائی حصے) کے برابر ہے۔ [ بخاری، فضائل القرآن، باب فضل : (قل ھو اللہ أحد) : 5013 ] اس کی وجہ بھی موضوع توحید کی عظمت ہے۔ نکتہ : آیت الکرسی میں اللہ تعالیٰ کا ذکر اس کے اسماء اور ضمائر کی صورت میں انیس دفعہ آیا ہے۔ ”يَعْلَمُ“ اور ”شَاۗءَ“ میں بھی ضمیریں موجود ہیں۔ آیت الکرسی ایک دعویٰ اور اس کی گیارہ دلیلوں پر مشتمل آیت ہے۔ دعویٰ یہ ہے : (اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ) یعنی اللہ وہ ہے جس کے سوا کسی کی عبادت جائز نہیں۔ پہلی دلیل : وہ ”اَلْـحَيُّ“ ہے، یعنی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، نہ اس کی ابتدا ہے نہ انتہا۔ عمران بن حصین ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (کَان اللّٰہُ وَلَمْ یَکُنْ شَیْءٌ قَبْلَہُ)”اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے تھا اور اس سے پہلے کوئی چیز نہیں تھی۔“ [ بخاری، التوحید، باب (و کان عرشہ علی الماء) : 7418 ] اس کے سوا کسی ہستی میں یہ خوبی نہیں۔ چناچہ فرمایا : (هُوَ الْـحَيُّ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ) [ المؤمن : 65 ] ”وہی زندہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔“ اس کے سوا جس چیز کی عبادت بھی کی جاتی ہے وہ نہ ہمیشہ سے ہے نہ ہمیشہ رہے گی، ہر چیز موت کی آغوش سے نکلی ہے اور اسی کی آغوش میں جانے والی ہے، فرمایا : (كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ باللّٰهِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا) [ البقرۃ : 28 ] ”تم کیسے اللہ کے ساتھ کفر کرتے ہو، حالانکہ تم بےجان تھے۔“ اور فرمایا : (وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا يَخْلُقُوْنَ شَيْـــًٔـا وَّهُمْ يُخْلَقُوْنَ۔ اَمْوَاتٌ غَيْرُ اَحْيَاۗءٍ ۚ) [ النحل : 20، 21 ]”اور وہ لوگ جنھیں وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں، وہ کچھ بھی پیدا نہیں کرتے اور وہ خود پیدا کیے جاتے ہیں۔ مردے ہیں، زندہ نہیں ہیں۔“ وہی ایک ہے جس کو دائم بقا ہے جہاں کی وراثت اسی کو سزا ہے سوا اس کے انجام سب کا فنا ہے نہ کوئی رہے گا نہ کوئی رہا ہے مسافر یہاں ہیں فقیر اور غنی سب غلام اور آزاد ہیں رفتنی سب دوسری دلیل : ”الْقَيُّوْمُ“ یہ ”قَامَ یَقُوْمُ“ سے ”فَیْعُوْلٌ“ کے وزن پر ہے، اصل میں ”قَیْوُوْمٌ“ تھا، پہلی واؤ کو یاء سے بدل دیا، پھر پہلی یاء کو دوسری میں ادغام کردیا، یاء کے اضافے سے مزید مبالغہ پیدا ہوگیا، یعنی وہ کسی سہارے کے بغیر خود قائم ہے اور دوسروں کو قائم رکھنے والا، تھامنے والا ہے۔ انسان جو ”انا ربک الاعلی“ کا دعویٰ کر بیٹھتا ہے، ایک لمحہ بھی اللہ تعالیٰ کے تھامنے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ خود اس کے دل کی دھڑکن، سانس کی آمدورفت، پیشاب و پاخانے کا نظام، خون کی گردش، نیند اور بیداری حتیٰ کہ زندگی اور موت کچھ بھی اس کے ہاتھ میں نہیں، تو دوسروں کو، کیا تھامے گا۔ ہمارے رسول ﷺ کی زندگی، آپ پر آنے والی تکلیفیں، یعنی آپ کا زخمی ہونا، گھوڑے سے گر کر موچ آنا، بیمار ہونا، بھوک، پیاس، غرض پوری زندگی اس کی شاہد ہے، پھر اتنی وسیع کائنات اور لاتعداد مخلوقات کو اللہ کے سوا کون ہے جو تھامے ہوئے ہے کہ اسے مشکل کشا، داتا یا دستگیر یا جھولی بھرنے والا سمجھا جائے۔ آسمان و زمین سے متعلق فرمایا : (اِنَّ اللّٰهَ يُمْسِكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَا) [ فاطر : 41 ] ”بیشک اللہ ہی آسمانوں کو اور زمین کو تھامے رکھتا ہے، اس سے کہ وہ اپنی جگہ سے ہٹیں۔“ اڑتے پرندوں کے متعلق فرمایا : (مَا يُمْسِكُـهُنَّ اِلَّا الرَّحْمٰنُ ۭ) [ الملک : 19 ] ”رحمٰن کے سوا انھیں کوئی تھام نہیں رہا ہوتا۔“ تیسری دلیل : ”لَا تَاْخُذُهٗ سِـنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ“ ”نَوْمٌ“ اصل میں ”وَسَنٌ“ تھا، جیسے : ”وَعْدٌ“ سے ”عِدَۃٌ“ ہے، شروع سے ”واؤ“ حذف کرکے آخر میں ”تاء“ لے آئے۔ معنی ہے نیند سے پہلے آنے والی اونگھ، جب آدمی سونے اور جاگنے کے درمیان ہوتا ہے۔ ”سِـنَةٌ“ اور ”نَوْمٌ“ کی تنوین کی وجہ سے ترجمہ کیا ہے : ”اسے نہ کچھ اونگھ پکڑتی ہے نہ کوئی نیند“ یعنی اللہ تعالیٰ کو ذرا برابر اونگھ یا نیند اپنی گرفت میں نہیں لے سکتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اونگھ اور نیند اتنی زبردست چیزیں ہیں کہ جس پر آتی ہیں اسے پکڑ لیتی ہیں، انسان ان کے سامنے بےبس ہوجاتا ہے۔ ہمارے رسول ﷺ ایک دفعہ صبح کی نماز کے لیے طلوع آفتاب کے بعد بیدار ہوئے۔ اللہ تعالیٰ اونگھ اور نیند دونوں سے پاک ہے، کیونکہ اگر اسے اونگھ یا نیند آجائے تو کائنات آپس میں ٹکرا کر فنا ہوجائے، اگر تجربہ کرنا ہو تو ہوشیار سے ہوشیار شخص کے دونوں ہاتھوں میں شیشے کا ایک ایک گلاس دے کر اسے ایک دو راتیں جگا کر تجربہ کرلیں۔ چوتھی دلیل : ”لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ“ یعنی جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، اسی کا ہے۔ (مزید دیکھیے مریم : 93 تا 95) جب مالک وہ ہے تو عبادت بھی اسی کا حق ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”یحییٰ ؑ نے اللہ کے حکم سے بنی اسرائیل کو یہ بات سمجھائی کہ صرف اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ شریک نہ بناؤ۔ اس کی مثال اس طرح ہے کہ ایک شخص نے اپنے خالص مال سونے یا چاندی کے ساتھ ایک غلام خریدا اور غلام سے کہا کہ یہ میرا گھر ہے اور یہ میرا کام ہے، اس میں کام کرو اور اس کی آمدنی مجھے دیا کرو۔ غلام سارا دن کام کرتا اور شام کو آمدنی مالک کے سوا کسی اور کو دے دیتا، تو تم میں سے کون ہے جو ایسے غلام کو پسند کرے ؟“ [ ترمذی، الأدب، باب ما جاء فی مثل الصلوٰۃ۔۔ : 2863، و صححہ الألبانی ] پانچویں دلیل : ”مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ“ یعنی کون ہے وہ جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے۔ آیت الکرسی سے پہلی آیت میں قیامت کے دن کسی بھی قسم کی سفارش کی نفی فرمائی ہے اور یہاں اللہ تعالیٰ کی اجازت کے ساتھ سفارش ممکن بتائی ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی انسان یا جن یا فرشتہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کی جرأت کرے۔ ہمارے نبی ﷺ بھی جب سفارش کے لیے جائیں گے تو عرش کے نیچے سجدے میں گر کر اللہ تعالیٰ کی تعریفیں کریں گے، جو اللہ تعالیٰ اس وقت آپ کو سکھائے گا، پھر اللہ تعالیٰ سر اٹھانے کا حکم دے گا اور ایک حد مقرر کرکے فرمائے گا کہ ان لوگوں کو جہنم سے نکال لو۔ [ بخاری، التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ : (لما خلقت بیدی) : 7410 ] قیامت کے دن سفارش تو کجا اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی بات کرنے کی جرأت بھی نہیں کرے گا، جیسا کہ فرمایا : (يَوْمَ يَقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ صَفًّا ٷ لَّا يَتَكَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا) [ النبا : 38 ] ”جس دن روح اور فرشتے صف بنا کر کھڑے ہوں گے، وہ کلام نہیں کریں گے، مگر وہی جسے رحمٰن اجازت دے گا اور وہ درست بات کہے گا۔“ یہ عقیدہ کہ کوئی زبردستی اللہ تعالیٰ سے بات منوا سکتا ہے، یا اللہ تعالیٰ کسی کی محبت کے ہاتھوں اس کی سفارش ماننے پر مجبور ہوگا، خالص جاہلانہ عقیدہ ہے اور مکہ کے مشرکوں کا بھی یہی عقیدہ تھا، اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة زمر (3) اور سورة یونس (18) وہاں عجز و نیاز کے سوا اور خود اس کی مہربانی سے اجازت کے بغیر کسی کی کچھ پیش نہیں جاتی۔ شفاعت کا مضمون اچھی طرح سمجھنے کے لیے شاہ اسماعیل دہلوی ؓ کی کتاب ”تقویۃ الایمان“ کی تیسری فصل کا مطالعہ کریں۔ چھٹی دلیل : ”يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ ۚ“ یعنی وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے اور جو ان کے پیچھے ہے۔ سامنے سے مراد حاضر چیزیں اور پیچھے سے مراد غائب چیزیں ہیں۔ اس میں ماضی، حال اور استقبال سب کا علم آگیا۔ اس کے سوا کسی ہستی میں یہ صفت موجود نہیں، فرمایا : (قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّٰهُ ۭ وَمَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ) [ النمل : 65 ] ”کہہ دے اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہے غیب نہیں جانتا اور وہ شعور نہیں رکھتے کہ کب اٹھائے جائیں گے۔“ جب اللہ تعالیٰ ہمارے اور پوری کائنات کے تمام گزشتہ، موجودہ اور آئندہ حالات سے واقف ہے تو عبادت بھی اسی کا حق ہے۔ ساتویں دلیل : ”وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ“ یعنی کوئی شخص اللہ کے علم یعنی معلومات میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتا مگر جتنا وہ چاہے، جیسا کہ فرمایا : (عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰي غَيْبِهٖٓ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ) [ الجن : 26، 27 ] ”(وہ) غیب کو جاننے والا ہے، پس اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔ مگر کوئی رسول، جسے وہ پسند کرلے تو بیشک وہ اس کے آگے اور اس کے پیچھے پہرا لگا دیتا ہے۔“ حافظ ابن کثیر ؓ نے ایک اور معنی کا احتمال بھی ذکر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا جو بھی ہے وہ اللہ کی ذات وصفات کے علم میں سے کسی بات پر مطلع نہیں ہوسکتا مگر جتنا وہ خود چاہے اور بتادے، گویا یہ اس آیت کی ہم معنی ہے : (وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِهٖ عِلْمًا) [ طٰہٰ : 110 ] ”اور وہ علم سے اس کا احاطہ نہیں کرسکتے۔“ موسیٰ اور خضر ؑ کے واقعہ میں مذکور ہے کہ ایک چڑیا نے سمندر میں ایک یا دو ٹھونگے مارے تو خضر ؑ نے موسیٰ ؑ سے کہا : ”میرے اور آپ کے علم نے اللہ کے علم سے کم نہیں کیا مگر جتنا اس چڑیا کے ٹھونگے نے سمندر سے کم کیا ہے۔“ [ بخاری، العلم، باب ما یستحب للعالم۔۔ : 122 ] اب خود سوچ لو کہ عبادت کے لائق اللہ تعالیٰ ہے یا یہ بےبس مخلوق۔ آٹھویں دلیل : ”وَسِعَ كُرْسِـيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ“ کرسی کا معنی سب لوگوں کے ہاں معروف ہے، یعنی وہ چیز جس پر بیٹھا جاتا ہے۔ سلف صالحین کے نزدیک اس کا معنی کرسی ہی ہے۔ ان کے مطابق اللہ تعالیٰ کی کرسی موجود ہے اور ہمارا اس کے وجود پر ایمان ہے، اگرچہ ہم نہیں جانتے کہ وہ کیسی ہے، کیونکہ یہ انسان کے بس کی بات نہیں، البتہ قرآن مجید میں جو آیا ہے اس کے مطابق اس کی کرسی آسمانوں اور زمین سے زیادہ وسیع ہے، اس پر ہمارا ایمان ہے۔ بعد میں آنے والے مفسرین میں سے بعض نے سلف کا مسلک ہی اختیار کیا ہے، البتہ بعض نے کہا کہ کرسی سے مراد اللہ تعالیٰ کی سلطنت ہے اور بعض نے کہا، اس سے مراد علم ہے۔ عموماً یہ وہ لوگ ہیں جو عرش کے بھی منکر ہیں، چناچہ وہ صاف کہہ دیتے ہیں کہ نہ کوئی عرش ہے نہ کرسی، بلکہ مراد اللہ تعالیٰ کی سلطنت اور حکومت ہے۔ مگر کرسی کا یہ معنی حقیقی نہیں مجازی ہے، جو اس وقت کیا جاتا ہے جب حقیقت ناممکن ہو، حالانکہ اللہ کے عرش اور کرسی کو حقیقی معنوں میں لینے سے کچھ خرابی لازم نہیں آتی۔ رہا یہ خیال کہ پھر تو اللہ تعالیٰ آدمیوں کے مشابہ ہوگیا جبکہ اس کی مثل کوئی چیز نہیں تو سلف کے فرمان کے مطابق ہم یہ کہتے ہی نہیں کہ وہ کرسی ہماری کرسیوں جیسی ہے، نہیں بلکہ وہ اس طرح ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق ہے۔ انسان علیم ہے جیسا کہ فرمایا : (وَبَشَّرُوْهُ بِغُلٰمٍ عَلِيْمٍ) [ الذاریات : 28 ] ”اور انھوں نے اسے ایک بہت علیم بیٹے کی خوش خبری دی“ اور اللہ تعالیٰ بھی علیم ہے، تو کیا ہم اللہ تعالیٰ کے علیم ہونے کا انکار کردیں کہ اس سے مشابہت لازم آتی ہے، نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ علیم ہے اپنی شان کے مطابق۔ اس سے بھی بڑھ کر مثال لے لیں، انسان موجود ہے تو کیا ہم اللہ تعالیٰ کے موجود ہونے کا انکار کردیں گے کہ اس سے انسان کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے۔ نہیں، ہرگز نہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی صفات جس طرح آئی ہیں اسی طرح ماننا پڑیں گی۔ ہاں، وہ صفات مخلوق کی صفات کے مشابہ نہیں۔ آیت میں یہ جملہ بھی توحید کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کرسی کی وسعت اس کے ایک معبود ہونے کی دلیل ہے۔ نویں دلیل : ”وَلَا يَـــــُٔـــوْدُهٗ حِفْظُهُمَا ۚ“ ”آدَ یَؤُوْدُ“ کا معنی کسی چیز کا بھاری بوجھ بننا، مشقت میں ڈال دینا ہے۔ مخلوق کتنی بھی بڑی ہو خود اپنی حفاظت نہیں کرسکتی جب کہ اللہ تعالیٰ کے لیے زمین و آسمان کی حفاظت کچھ بوجھ نہیں۔ دسویں اور گیا رھویں دلیل : ”وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ“ بلندی اور عظمت اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں، مخلوق اللہ تعالیٰ کی بلندی اور عظمت کے مقابلے میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتی، اس لیے عبادت کے لائق صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ آخر میں اس آیت میں موجود ایک اور نکتہ کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری ہے کہ یہ آیت باری تعالیٰ کے نام ”اللہ“ سے شروع ہوئی ہے، یہ نام تمام صفات کا جامع ہے، مخلوق میں سے کسی پر یہ نام نہیں بولا جاسکتا ہے۔ تمام مذاہب میں مذکور خداؤں کی تثنیہ و جمع بن سکتی ہے، مثلاً دیویوں، دیوتاؤں اور Gods وغیرہ مگر لفظ ”اللہ“ واحد ہی رہے گا، اس کی نہ جمع بن سکتی ہے نہ تثنیہ۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی توحید کی زبردست دلیل ہے، اگر اس نکتہ کو بھی شامل کرلیں تو آیت میں توحید کی بارہ دلیلیں موجود ہیں۔
Top