Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Quran-al-Kareem - Al-Baqara : 255
اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ١ۚ۬ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌ١ؕ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖ١ؕ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ١ۚ وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ١ۚ وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ١ۚ وَ لَا یَئُوْدُهٗ حِفْظُهُمَا١ۚ وَ هُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ
اَللّٰهُ
: اللہ
لَآ اِلٰهَ
: نہیں معبود
اِلَّا ھُوَ
: سوائے اس کے
اَلْحَيُّ
: زندہ
الْقَيُّوْمُ
: تھامنے والا
لَا تَاْخُذُهٗ
: نہ اسے آتی ہے
سِنَةٌ
: اونگھ
وَّلَا
: اور نہ
نَوْمٌ
: نیند
لَهٗ
: اسی کا ہے
مَا
: جو
فِي السَّمٰوٰتِ
: آسمانوں میں
وَمَا
: اور جو
فِي الْاَرْضِ
: زمین میں
مَنْ ذَا
: کون جو
الَّذِيْ
: وہ جو
يَشْفَعُ
: سفارش کرے
عِنْدَهٗٓ
: اس کے پاس
اِلَّا
: مگر (بغیر)
بِاِذْنِهٖ
: اس کی اجازت سے
يَعْلَمُ
: وہ جانتا ہے
مَا
: جو
بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ
: ان کے سامنے
وَمَا
: اور جو
خَلْفَھُمْ
: ان کے پیچھے
وَلَا
: اور نہیں
يُحِيْطُوْنَ
: وہ احاطہ کرتے ہیں
بِشَيْءٍ
: کس چیز کا
مِّنْ
: سے
عِلْمِهٖٓ
: اس کا علم
اِلَّا
: مگر
بِمَا شَآءَ
: جتنا وہ چاہے
وَسِعَ
: سما لیا
كُرْسِيُّهُ
: اس کی کرسی
السَّمٰوٰتِ
: آسمان (جمع)
وَ
: اور
الْاَرْضَ
: زمین
وَلَا
: اور نہیں
يَئُوْدُهٗ
: تھکاتی اس کو
حِفْظُهُمَا
: ان کی حفاظت
وَھُوَ
: اور وہ
الْعَلِيُّ
: بلند مرتبہ
الْعَظِيْمُ
: عظمت والا
اللہ (وہ ہے کہ) اس کے سوا کوئی معبود نہیں، زندہ ہے، ہر چیز کو قائم رکھنے والا ہے، نہ اسے کچھ اونگھ پکڑتی ہے اور نہ کوئی نیند، اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے، کون ہے وہ جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے، جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے اور جو ان کے پیچھے ہے اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرتے مگر جتنا وہ چاہے۔ اس کی کرسی آسمانوں اور زمین کو سمائے ہوئے ہے اور اسے ان دونوں کی حفاظت نہیں تھکاتی اور وہی سب سے بلند، سب سے بڑا ہے۔
یہ آیت الکرسی ہے جو قرآن مجید کی تمام آیات سے عظیم آیت ہے۔ ابی بن کعب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”اے ابو منذر ! کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے پاس اللہ کی کتاب میں سے کون سی آیت سب سے بڑی ہے ؟“ فرماتے ہیں، میں نے کہا، اللہ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”اے ابو منذر ! کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے پاس اللہ کی کتاب میں سے کون سی آیت سب سے بڑی ہے ؟“ کہتے ہیں، میں نے عرض کیا : (اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ) (ابی بن کعب ؓ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا : ”اللہ کی قسم ! (تم نے درست کہا) اے ابو منذر ! تمہیں یہ علم مبارک ہو۔“ [ مسلم، صلوٰۃ المسافرین، باب فضل سورة الکہف و آیۃ الکرسی : 810 ] ابوہریرہ ؓ سے مروی ایک لمبی حدیث ہے، اس میں ان کا زکوٰۃ الفطر کی حفاظت پر مامور ہونا اور ایک شخص کا تین دن آ کر چوری کی کوشش کرنا، روزانہ گرفتار ہو کر منتیں کرکے چھوٹنا اور تیسری دفعہ گرفتار ہونے پر انھیں یہ بتانا مذکور ہے کہ جب تم بستر پر آؤ تو آیت الکرسی پڑھ لیا کرو، تو لازماً اللہ کی طرف سے تم پر ایک حفاظت کرنے والا مقرر ہوگا اور تمہارے صبح کرنے تک کوئی شیطان تمہارے قریب نہیں آئے گا۔ ابوہریرہ ؓ نے اس مرتبہ بھی اسے چھوڑ دیا، صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا : ”تمہارے قیدی کا کیا بنا ؟“ میں نے سارا قصہ سنایا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ”یاد رکھو ! اس نے تمہیں سچ بتایا، حالانکہ وہ بہت جھوٹا تھا۔“ پھر آپ ﷺ نے بتایا :”وہ شیطان تھا۔“ [ بخاری، الوکالۃ، باب إذا وکل رجلا فترک ۔۔ : 2311۔ 5010 ] اس حدیث سے آیت الکرسی کی فضیلت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ سے اس آیت کا نام آیت الکرسی ہونے کی تصدیق بھی معلوم ہوئی۔ ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھے اسے جنت میں داخلے سے سوائے موت کے کوئی اور چیز نہیں روکے گی۔“ [ الیوم واللیلۃ للنسائی، ص : 183۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : 972۔ ابن کثیر اور البانی ؓ نے اسے صحیح کہا ہے ] قرآن مجید کی سب سے لمبی آیت : (اِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ) [ البقرۃ : 282 ] ہے، مگر سب سے زیادہ عظمت والی آیت، آیت الکرسی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس آیت کا موضوع توحید ہے، جو اس میں کئی دلیلوں سے ثابت کیا گیا ہے۔ موضوع اور دلیلوں کی وجہ سے یہ سب سے بڑی آیت ہے۔ سورة اخلاص چھوٹی سی سورت ہونے کے باوجود قرآن کے ثلث (تہائی حصے) کے برابر ہے۔ [ بخاری، فضائل القرآن، باب فضل : (قل ھو اللہ أحد) : 5013 ] اس کی وجہ بھی موضوع توحید کی عظمت ہے۔ نکتہ : آیت الکرسی میں اللہ تعالیٰ کا ذکر اس کے اسماء اور ضمائر کی صورت میں انیس دفعہ آیا ہے۔ ”يَعْلَمُ“ اور ”شَاۗءَ“ میں بھی ضمیریں موجود ہیں۔ آیت الکرسی ایک دعویٰ اور اس کی گیارہ دلیلوں پر مشتمل آیت ہے۔ دعویٰ یہ ہے : (اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ) یعنی اللہ وہ ہے جس کے سوا کسی کی عبادت جائز نہیں۔ پہلی دلیل : وہ ”اَلْـحَيُّ“ ہے، یعنی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، نہ اس کی ابتدا ہے نہ انتہا۔ عمران بن حصین ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (کَان اللّٰہُ وَلَمْ یَکُنْ شَیْءٌ قَبْلَہُ)”اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے تھا اور اس سے پہلے کوئی چیز نہیں تھی۔“ [ بخاری، التوحید، باب (و کان عرشہ علی الماء) : 7418 ] اس کے سوا کسی ہستی میں یہ خوبی نہیں۔ چناچہ فرمایا : (هُوَ الْـحَيُّ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ) [ المؤمن : 65 ] ”وہی زندہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔“ اس کے سوا جس چیز کی عبادت بھی کی جاتی ہے وہ نہ ہمیشہ سے ہے نہ ہمیشہ رہے گی، ہر چیز موت کی آغوش سے نکلی ہے اور اسی کی آغوش میں جانے والی ہے، فرمایا : (كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ باللّٰهِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا) [ البقرۃ : 28 ] ”تم کیسے اللہ کے ساتھ کفر کرتے ہو، حالانکہ تم بےجان تھے۔“ اور فرمایا : (وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا يَخْلُقُوْنَ شَيْـــًٔـا وَّهُمْ يُخْلَقُوْنَ۔ اَمْوَاتٌ غَيْرُ اَحْيَاۗءٍ ۚ) [ النحل : 20، 21 ]”اور وہ لوگ جنھیں وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں، وہ کچھ بھی پیدا نہیں کرتے اور وہ خود پیدا کیے جاتے ہیں۔ مردے ہیں، زندہ نہیں ہیں۔“ وہی ایک ہے جس کو دائم بقا ہے جہاں کی وراثت اسی کو سزا ہے سوا اس کے انجام سب کا فنا ہے نہ کوئی رہے گا نہ کوئی رہا ہے مسافر یہاں ہیں فقیر اور غنی سب غلام اور آزاد ہیں رفتنی سب دوسری دلیل : ”الْقَيُّوْمُ“ یہ ”قَامَ یَقُوْمُ“ سے ”فَیْعُوْلٌ“ کے وزن پر ہے، اصل میں ”قَیْوُوْمٌ“ تھا، پہلی واؤ کو یاء سے بدل دیا، پھر پہلی یاء کو دوسری میں ادغام کردیا، یاء کے اضافے سے مزید مبالغہ پیدا ہوگیا، یعنی وہ کسی سہارے کے بغیر خود قائم ہے اور دوسروں کو قائم رکھنے والا، تھامنے والا ہے۔ انسان جو ”انا ربک الاعلی“ کا دعویٰ کر بیٹھتا ہے، ایک لمحہ بھی اللہ تعالیٰ کے تھامنے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ خود اس کے دل کی دھڑکن، سانس کی آمدورفت، پیشاب و پاخانے کا نظام، خون کی گردش، نیند اور بیداری حتیٰ کہ زندگی اور موت کچھ بھی اس کے ہاتھ میں نہیں، تو دوسروں کو، کیا تھامے گا۔ ہمارے رسول ﷺ کی زندگی، آپ پر آنے والی تکلیفیں، یعنی آپ کا زخمی ہونا، گھوڑے سے گر کر موچ آنا، بیمار ہونا، بھوک، پیاس، غرض پوری زندگی اس کی شاہد ہے، پھر اتنی وسیع کائنات اور لاتعداد مخلوقات کو اللہ کے سوا کون ہے جو تھامے ہوئے ہے کہ اسے مشکل کشا، داتا یا دستگیر یا جھولی بھرنے والا سمجھا جائے۔ آسمان و زمین سے متعلق فرمایا : (اِنَّ اللّٰهَ يُمْسِكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَا) [ فاطر : 41 ] ”بیشک اللہ ہی آسمانوں کو اور زمین کو تھامے رکھتا ہے، اس سے کہ وہ اپنی جگہ سے ہٹیں۔“ اڑتے پرندوں کے متعلق فرمایا : (مَا يُمْسِكُـهُنَّ اِلَّا الرَّحْمٰنُ ۭ) [ الملک : 19 ] ”رحمٰن کے سوا انھیں کوئی تھام نہیں رہا ہوتا۔“ تیسری دلیل : ”لَا تَاْخُذُهٗ سِـنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ“ ”نَوْمٌ“ اصل میں ”وَسَنٌ“ تھا، جیسے : ”وَعْدٌ“ سے ”عِدَۃٌ“ ہے، شروع سے ”واؤ“ حذف کرکے آخر میں ”تاء“ لے آئے۔ معنی ہے نیند سے پہلے آنے والی اونگھ، جب آدمی سونے اور جاگنے کے درمیان ہوتا ہے۔ ”سِـنَةٌ“ اور ”نَوْمٌ“ کی تنوین کی وجہ سے ترجمہ کیا ہے : ”اسے نہ کچھ اونگھ پکڑتی ہے نہ کوئی نیند“ یعنی اللہ تعالیٰ کو ذرا برابر اونگھ یا نیند اپنی گرفت میں نہیں لے سکتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اونگھ اور نیند اتنی زبردست چیزیں ہیں کہ جس پر آتی ہیں اسے پکڑ لیتی ہیں، انسان ان کے سامنے بےبس ہوجاتا ہے۔ ہمارے رسول ﷺ ایک دفعہ صبح کی نماز کے لیے طلوع آفتاب کے بعد بیدار ہوئے۔ اللہ تعالیٰ اونگھ اور نیند دونوں سے پاک ہے، کیونکہ اگر اسے اونگھ یا نیند آجائے تو کائنات آپس میں ٹکرا کر فنا ہوجائے، اگر تجربہ کرنا ہو تو ہوشیار سے ہوشیار شخص کے دونوں ہاتھوں میں شیشے کا ایک ایک گلاس دے کر اسے ایک دو راتیں جگا کر تجربہ کرلیں۔ چوتھی دلیل : ”لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ“ یعنی جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، اسی کا ہے۔ (مزید دیکھیے مریم : 93 تا 95) جب مالک وہ ہے تو عبادت بھی اسی کا حق ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”یحییٰ ؑ نے اللہ کے حکم سے بنی اسرائیل کو یہ بات سمجھائی کہ صرف اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ شریک نہ بناؤ۔ اس کی مثال اس طرح ہے کہ ایک شخص نے اپنے خالص مال سونے یا چاندی کے ساتھ ایک غلام خریدا اور غلام سے کہا کہ یہ میرا گھر ہے اور یہ میرا کام ہے، اس میں کام کرو اور اس کی آمدنی مجھے دیا کرو۔ غلام سارا دن کام کرتا اور شام کو آمدنی مالک کے سوا کسی اور کو دے دیتا، تو تم میں سے کون ہے جو ایسے غلام کو پسند کرے ؟“ [ ترمذی، الأدب، باب ما جاء فی مثل الصلوٰۃ۔۔ : 2863، و صححہ الألبانی ] پانچویں دلیل : ”مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ“ یعنی کون ہے وہ جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے۔ آیت الکرسی سے پہلی آیت میں قیامت کے دن کسی بھی قسم کی سفارش کی نفی فرمائی ہے اور یہاں اللہ تعالیٰ کی اجازت کے ساتھ سفارش ممکن بتائی ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی انسان یا جن یا فرشتہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کی جرأت کرے۔ ہمارے نبی ﷺ بھی جب سفارش کے لیے جائیں گے تو عرش کے نیچے سجدے میں گر کر اللہ تعالیٰ کی تعریفیں کریں گے، جو اللہ تعالیٰ اس وقت آپ کو سکھائے گا، پھر اللہ تعالیٰ سر اٹھانے کا حکم دے گا اور ایک حد مقرر کرکے فرمائے گا کہ ان لوگوں کو جہنم سے نکال لو۔ [ بخاری، التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ : (لما خلقت بیدی) : 7410 ] قیامت کے دن سفارش تو کجا اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی بات کرنے کی جرأت بھی نہیں کرے گا، جیسا کہ فرمایا : (يَوْمَ يَقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ صَفًّا ٷ لَّا يَتَكَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا) [ النبا : 38 ] ”جس دن روح اور فرشتے صف بنا کر کھڑے ہوں گے، وہ کلام نہیں کریں گے، مگر وہی جسے رحمٰن اجازت دے گا اور وہ درست بات کہے گا۔“ یہ عقیدہ کہ کوئی زبردستی اللہ تعالیٰ سے بات منوا سکتا ہے، یا اللہ تعالیٰ کسی کی محبت کے ہاتھوں اس کی سفارش ماننے پر مجبور ہوگا، خالص جاہلانہ عقیدہ ہے اور مکہ کے مشرکوں کا بھی یہی عقیدہ تھا، اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة زمر (3) اور سورة یونس (18) وہاں عجز و نیاز کے سوا اور خود اس کی مہربانی سے اجازت کے بغیر کسی کی کچھ پیش نہیں جاتی۔ شفاعت کا مضمون اچھی طرح سمجھنے کے لیے شاہ اسماعیل دہلوی ؓ کی کتاب ”تقویۃ الایمان“ کی تیسری فصل کا مطالعہ کریں۔ چھٹی دلیل : ”يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ ۚ“ یعنی وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے اور جو ان کے پیچھے ہے۔ سامنے سے مراد حاضر چیزیں اور پیچھے سے مراد غائب چیزیں ہیں۔ اس میں ماضی، حال اور استقبال سب کا علم آگیا۔ اس کے سوا کسی ہستی میں یہ صفت موجود نہیں، فرمایا : (قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّٰهُ ۭ وَمَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ) [ النمل : 65 ] ”کہہ دے اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہے غیب نہیں جانتا اور وہ شعور نہیں رکھتے کہ کب اٹھائے جائیں گے۔“ جب اللہ تعالیٰ ہمارے اور پوری کائنات کے تمام گزشتہ، موجودہ اور آئندہ حالات سے واقف ہے تو عبادت بھی اسی کا حق ہے۔ ساتویں دلیل : ”وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ“ یعنی کوئی شخص اللہ کے علم یعنی معلومات میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتا مگر جتنا وہ چاہے، جیسا کہ فرمایا : (عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰي غَيْبِهٖٓ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ) [ الجن : 26، 27 ] ”(وہ) غیب کو جاننے والا ہے، پس اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔ مگر کوئی رسول، جسے وہ پسند کرلے تو بیشک وہ اس کے آگے اور اس کے پیچھے پہرا لگا دیتا ہے۔“ حافظ ابن کثیر ؓ نے ایک اور معنی کا احتمال بھی ذکر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا جو بھی ہے وہ اللہ کی ذات وصفات کے علم میں سے کسی بات پر مطلع نہیں ہوسکتا مگر جتنا وہ خود چاہے اور بتادے، گویا یہ اس آیت کی ہم معنی ہے : (وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِهٖ عِلْمًا) [ طٰہٰ : 110 ] ”اور وہ علم سے اس کا احاطہ نہیں کرسکتے۔“ موسیٰ اور خضر ؑ کے واقعہ میں مذکور ہے کہ ایک چڑیا نے سمندر میں ایک یا دو ٹھونگے مارے تو خضر ؑ نے موسیٰ ؑ سے کہا : ”میرے اور آپ کے علم نے اللہ کے علم سے کم نہیں کیا مگر جتنا اس چڑیا کے ٹھونگے نے سمندر سے کم کیا ہے۔“ [ بخاری، العلم، باب ما یستحب للعالم۔۔ : 122 ] اب خود سوچ لو کہ عبادت کے لائق اللہ تعالیٰ ہے یا یہ بےبس مخلوق۔ آٹھویں دلیل : ”وَسِعَ كُرْسِـيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ“ کرسی کا معنی سب لوگوں کے ہاں معروف ہے، یعنی وہ چیز جس پر بیٹھا جاتا ہے۔ سلف صالحین کے نزدیک اس کا معنی کرسی ہی ہے۔ ان کے مطابق اللہ تعالیٰ کی کرسی موجود ہے اور ہمارا اس کے وجود پر ایمان ہے، اگرچہ ہم نہیں جانتے کہ وہ کیسی ہے، کیونکہ یہ انسان کے بس کی بات نہیں، البتہ قرآن مجید میں جو آیا ہے اس کے مطابق اس کی کرسی آسمانوں اور زمین سے زیادہ وسیع ہے، اس پر ہمارا ایمان ہے۔ بعد میں آنے والے مفسرین میں سے بعض نے سلف کا مسلک ہی اختیار کیا ہے، البتہ بعض نے کہا کہ کرسی سے مراد اللہ تعالیٰ کی سلطنت ہے اور بعض نے کہا، اس سے مراد علم ہے۔ عموماً یہ وہ لوگ ہیں جو عرش کے بھی منکر ہیں، چناچہ وہ صاف کہہ دیتے ہیں کہ نہ کوئی عرش ہے نہ کرسی، بلکہ مراد اللہ تعالیٰ کی سلطنت اور حکومت ہے۔ مگر کرسی کا یہ معنی حقیقی نہیں مجازی ہے، جو اس وقت کیا جاتا ہے جب حقیقت ناممکن ہو، حالانکہ اللہ کے عرش اور کرسی کو حقیقی معنوں میں لینے سے کچھ خرابی لازم نہیں آتی۔ رہا یہ خیال کہ پھر تو اللہ تعالیٰ آدمیوں کے مشابہ ہوگیا جبکہ اس کی مثل کوئی چیز نہیں تو سلف کے فرمان کے مطابق ہم یہ کہتے ہی نہیں کہ وہ کرسی ہماری کرسیوں جیسی ہے، نہیں بلکہ وہ اس طرح ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق ہے۔ انسان علیم ہے جیسا کہ فرمایا : (وَبَشَّرُوْهُ بِغُلٰمٍ عَلِيْمٍ) [ الذاریات : 28 ] ”اور انھوں نے اسے ایک بہت علیم بیٹے کی خوش خبری دی“ اور اللہ تعالیٰ بھی علیم ہے، تو کیا ہم اللہ تعالیٰ کے علیم ہونے کا انکار کردیں کہ اس سے مشابہت لازم آتی ہے، نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ علیم ہے اپنی شان کے مطابق۔ اس سے بھی بڑھ کر مثال لے لیں، انسان موجود ہے تو کیا ہم اللہ تعالیٰ کے موجود ہونے کا انکار کردیں گے کہ اس سے انسان کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے۔ نہیں، ہرگز نہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی صفات جس طرح آئی ہیں اسی طرح ماننا پڑیں گی۔ ہاں، وہ صفات مخلوق کی صفات کے مشابہ نہیں۔ آیت میں یہ جملہ بھی توحید کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کرسی کی وسعت اس کے ایک معبود ہونے کی دلیل ہے۔ نویں دلیل : ”وَلَا يَـــــُٔـــوْدُهٗ حِفْظُهُمَا ۚ“ ”آدَ یَؤُوْدُ“ کا معنی کسی چیز کا بھاری بوجھ بننا، مشقت میں ڈال دینا ہے۔ مخلوق کتنی بھی بڑی ہو خود اپنی حفاظت نہیں کرسکتی جب کہ اللہ تعالیٰ کے لیے زمین و آسمان کی حفاظت کچھ بوجھ نہیں۔ دسویں اور گیا رھویں دلیل : ”وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ“ بلندی اور عظمت اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں، مخلوق اللہ تعالیٰ کی بلندی اور عظمت کے مقابلے میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتی، اس لیے عبادت کے لائق صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ آخر میں اس آیت میں موجود ایک اور نکتہ کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری ہے کہ یہ آیت باری تعالیٰ کے نام ”اللہ“ سے شروع ہوئی ہے، یہ نام تمام صفات کا جامع ہے، مخلوق میں سے کسی پر یہ نام نہیں بولا جاسکتا ہے۔ تمام مذاہب میں مذکور خداؤں کی تثنیہ و جمع بن سکتی ہے، مثلاً دیویوں، دیوتاؤں اور Gods وغیرہ مگر لفظ ”اللہ“ واحد ہی رہے گا، اس کی نہ جمع بن سکتی ہے نہ تثنیہ۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی توحید کی زبردست دلیل ہے، اگر اس نکتہ کو بھی شامل کرلیں تو آیت میں توحید کی بارہ دلیلیں موجود ہیں۔
Top