Al-Qurtubi - Al-Baqara : 255
اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ١ۚ۬ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌ١ؕ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖ١ؕ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ١ۚ وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ١ۚ وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ١ۚ وَ لَا یَئُوْدُهٗ حِفْظُهُمَا١ۚ وَ هُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ
اَللّٰهُ : اللہ لَآ اِلٰهَ : نہیں معبود اِلَّا ھُوَ : سوائے اس کے اَلْحَيُّ : زندہ الْقَيُّوْمُ : تھامنے والا لَا تَاْخُذُهٗ : نہ اسے آتی ہے سِنَةٌ : اونگھ وَّلَا : اور نہ نَوْمٌ : نیند لَهٗ : اسی کا ہے مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں مَنْ ذَا : کون جو الَّذِيْ : وہ جو يَشْفَعُ : سفارش کرے عِنْدَهٗٓ : اس کے پاس اِلَّا : مگر (بغیر) بِاِذْنِهٖ : اس کی اجازت سے يَعْلَمُ : وہ جانتا ہے مَا : جو بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ : ان کے سامنے وَمَا : اور جو خَلْفَھُمْ : ان کے پیچھے وَلَا : اور نہیں يُحِيْطُوْنَ : وہ احاطہ کرتے ہیں بِشَيْءٍ : کس چیز کا مِّنْ : سے عِلْمِهٖٓ : اس کا علم اِلَّا : مگر بِمَا شَآءَ : جتنا وہ چاہے وَسِعَ : سما لیا كُرْسِيُّهُ : اس کی کرسی السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَ : اور الْاَرْضَ : زمین وَلَا : اور نہیں يَئُوْدُهٗ : تھکاتی اس کو حِفْظُهُمَا : ان کی حفاظت وَھُوَ : اور وہ الْعَلِيُّ : بلند مرتبہ الْعَظِيْمُ : عظمت والا
خدا (وہ معبود برحق ہے کہ) اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں زندہ ہمیشہ رہنے والا اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند جو کچھ آسمانوں اور زمین میں سے سب اسی کا ہے کون ہے کہ اسکی اجازت کے بغیر اس سے (کسی کی) سفارش کرسکے، جو کچھ لوگوں کے روبرو ہو رہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز پر دسترس حاصل نہیں کرسکتے، ہاں جس قدر وہ چاہتا ہے (اسی قدر معلوم کرا دیتا ہے) اسکی بادشاہی (اور علم) آسمان اور زمین سب پر حاوی ہے اور اسے ان کی حفاظت کچھ بھی دشوار نہیں وہ بڑا عالی رتبہ اور جلیل القدر ہے
آیت نمبر : 255۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم “۔ یہ آیۃ الکرسی ہے، یہ قرآن کی آیات کی سردار ہے اور سب سے بڑی آیت ہے، جیسا کہ سورة الفاتحہ میں اس کا بیان گزر چکا ہے، یہ رات کے وقت نازل ہوئی اور حضور نبی مکرم ﷺ نے حضرت زید ؓ کو بلایا اور یہ آیت لکھوا دی۔ حضرت محمد بن حنیفہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : جب آیۃ الکرسی نازل ہوئی دنیا میں تمام بت گر گئے اور اسی طرح دنیا میں تمام بادشاہ گر پڑے اور ان کے سروں سے تاج گر گئے اور شیاطین بھاگ پڑے، وہ آپس میں ایک دوسرے کو مارنے لگے اور ابلیس کے پاس تمام جمع ہوگئے اور اسے اس کے بارے مطلع کیا، تو اس نے انہیں کہا کہ وہ اس کے بارے تفتیش کریں، چناچہ وہ مدینہ طیبہ کی طرف آئے تو انہیں یہ خبر موصول ہوئی کہ آیت الکرسی نازل ہوئی ہے۔ ائمہ نے حضرت ابی بن کعب ؓ سے روایت بیان کی ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے عرض کی : اللہ ورسولہ اعلم، تو آپ ﷺ نے فرمایا ” اے ابا المنذر ! کیا تو جانتا ہے تیرے پاس کتاب اللہ میں سے کون سی آیت سب سے بڑی ہے ؟ تو میں نے عرض کی : (آیت) ” اللہ لا الہ الا ھو، الحی القیوم “۔ تو آپ ﷺ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا : ” اے ابا المنذر ! تجھے علم مبارک ہو (1) (صحیح مسلم، فضائل القرآن، جلد 1، صفحہ 271، وزارت سنن ابی داؤد، باب ماجاء فی آیۃ الکرسی، حدیث نمبر 1248، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) حکیم ترمذی ابو عبداللہ نے یہ اضافہ ذکر کیا ہے۔ ” قسم ہے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، اس آیت کی ایک زبان ہے اور دو ہونٹ ہیں ساق عرش کے پاس شہنشاہ مطلق کی پاکی بیان کرتی ہے۔ (2) (نوادر الاصول جلد 1، صفحہ 337، 338) ابو عبداللہ نے کہا ہے : یہ آیت اللہ تعالیٰ جل ذکرہ نے اسے نازل فرمایا اور اس کا ثواب اس کے پڑھنے والے کے لئے دنیا اور آخرت میں رکھا ہے، پس دنیا میں تو یہ ہے کہ یہ اپنے پڑھنے والے کی آفات ومصائب سے حفاظت کرتی ہے نوف البکالی سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا : آیت الکرسی تو رات میں ولیۃ اللہ کے نام سے پکاری جاتی ہے اور اس کے پڑھنے والوں کو ملکوت السموات والارض میں عزیز پکارا جاتا ہے۔ فرمایا : حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ جب اپنے گھر میں داخل ہوتے تو وہ اپنے گھر کے چاروں کونوں میں آیۃ الکرسی پڑھتے تھے، اس کا معنی یہ ہے کہ آپ اس کے ذریعے چاروں اطراف سے اپنی حفاظت کا انتظام کرتے تھے اور یہ کہ شیطان آپ کے گھر کے کونوں سے آپ سے دور ہوجائے۔ (3) (نوادر الاصول جلد 1، صفحہ 338) حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ آپ نے ایک جن سے کشتی کی اور حضرت عمر ؓ نے اسے پچھاڑ دیا تو جن نے آپ کو کہا : مجھ سے ذرا ہٹو یہاں تک کہ میں آپ کو وہ بتاتا ہوں جس کے ساتھ تم ہم سے محفوظ رہ سکتے ہو، تو آپ نے اسے چھوڑ دیا اور اس سے پوچھا تو اس نے کہا : بلاشبہ تم ہم سے آیۃ الکرسی کے ساتھ محفوظ رہ سکتے ہو۔ (4) (نوادر الاصول جلد 1، صفحہ، 338) میں (مفسر) کہتا ہوں : یہ صحیح ہے اور حدیث میں ہے : جس نے ہر نماز کے پیچھے آیۃ الکرسی پڑھی تو اس کی روح قبض کرنے کی ذمہ داری رب ذوالجلال لے لیتا ہے اور وہ اس آدمی کی طرح ہے جس نے انبیاء (علیہم السلام) کی معیت میں جنگ لڑی یہاں تک کہ اسے شہید کردیا گیا۔ اور حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ آپ نے کہا : میں نے تمہارے نبی ﷺ کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : جس نے ہر نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھی تو اس کے لئے موت کے سوا کوئی شے جنت میں داخل ہونے کے مانع نہیں ہے اور اس پر صدیق اور عابد ہی مواظبت اختیار کرتا ہے اور جس نے اسے اس وقت پڑھا جب وہ اپنے بستر پر گیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے اس کے پڑوسیوں کو اور اس کے پڑوسیوں کے پڑوسیوں کو اور اس کے اردگرد کے گھروں کو محفوظ فرمایا دیا (1) (مشکوۃ المصابیح، کتاب الذکر بعد الصلوۃ جلد 1، صفحہ 89) اور بخاری میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ نے بیان کیا : رسول اللہ ﷺ نے رمضان المبارک کی زکوۃ (صدقہ فطر) کی حفاظت میرے سپرد کی، آگے پورا قصہ ذکر کیا اور اس میں ہے : تو میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ خیال یہ ہے کہ وہ مجھے ایسے کلمات سکھا دے گا جس کے سبب اللہ تعالیٰ مجھے نفع پہنچائے گا، سو میں نے اس کا راستہ چھوڑ دیا، آپ ﷺ نے فرمایا : ” وہ کیا ہیں “ ؟ میں نے عرض کی : اس نے مجھے کہا ہے : جب تو اپنے بستر میں جائے تو اول سے آخر تک آیۃ الکرسی پڑھا کر (آیت) ” اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم “۔ اور اس نے مجھے کہا ہے : تجھ پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے مسلسل محافظ رہے گا اور صبح ہونے تک کوئی شیطان تیرے قریب نہیں آئے گا اور وہ (صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین) خیر کی چیز لینے کے بہت زیادہ حریص تھے تو حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : بلاشبہ اس نے تجھ سے سچ کہا ہے حالانکہ وہ بہت جھوٹا ہے، اے ابوہریرہ ! کیا تو اسے جانتا ہے جس سے تو تینوں راتیں باتیں کرتا رہا ہے ؟ “ عرض کی نہیں : آپ ﷺ نے فرمایا : ” وہ شیطان ہے (2) مسند داری ابو محمد میں سے شعبی نے کہا ہے : حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا ہے : حضور نبی مکرم ﷺ کے اصحاب میں سے ایک آدمی کا ایک جن سے آمنا سامنا ہوگیا تو وہ آپس میں کشتی کرنے لگے تو اس صحابی نے اسے بچھاڑ دیا۔ تو اس آدمی نے اسے کہا : بلاشبہ میں تجھے کمزور بلند غبار کی مانند دیکھ رہا ہوں گویا تیرے دونوں ہاتھ کتے کے ہاتھوں کی طرح ہیں، کیا تم اسی طرح ہوتے ہو، اے جنوں کے گروہ، ! یا تو ان میں سے اس طرح ہے ؟ اس نے کہا : نہیں قسم بخدا ! بلاشبہ میں ان میں سے مضبوط پسلیوں والا ہوں، البتہ تو دوبارہ میرے ساتھ کشتی کر، اگر تو نے مجھے پچھاڑ لیا تو میں تجھے ایسی شے سکھا دوں گا جو تیرے لئے نفع بخش ہوگی۔ صحابی نے فرمایا : ہاں ٹھیک ہے۔ پھر انہوں نے اسے پچھاڑ دیا، تو اس نے کہا کیا تم آیت الکرسی پڑھتے ہو : (آیت) ” اللہ لا الہ الا ھو، الحی القیوم ؟ انہوں نے کہا : ہاں، تو اس نے کہا کیونکہ تم جب بھی اسے اپنے گھر میں پڑھو گے تو شیطان گدھے کی مثل ہوا خارج کرتے ہوئے اس سے نکل جائے گا اور پھر صبح ہونے تک اس میں داخل نہ ہوگا، اسے ابو نعیم نے ابو عاصم ثقفی سے اور انہوں نے شعبی سے روایت کیا ہے۔ اور ابو عبیدہ نے اسے حضرت عمر ؓ کی غریب حدیث میں ذکر کیا ہے۔ ابو معاویہ نے اس کے بارے ہمیں ابو عاصم ثقفی سے، انہوں شعبی سے اور انہوں نے شعبی سے روایت کیا ہے، اور ابو عبیدہ نے اسے حضرت عمر ؓ کی غریب حدیث میں ذکر کیا ہے، ابو معاویہ نے اس کے بارے میں ہمیں ابو عاصم ثقفی سے، انہوں نے شعبی سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ ؓ سے بیان کیا ہے۔ فرمایا کہ حضرت عبداللہ ﷺ کو کہا گیا : کیا وہ عمر ؓ تھے ؟ تو انہوں نے فرمایا : امکان یہی ہے کہ وہ عمر کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا۔ ابو محمد دارمی نے کہا ہے۔ الفئیل کا معنی ہے : باریک (کمزور) الشخیت کا معنی ہے : انتہائی لاغر کمزور، الضلیع کا معنی ہے : پیٹ سے خارج ہونے والی ہوا، اور یہ لفظ حاء کے ساتھ الحبج بھی ہے۔ اور ترمذی میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” جس نے حم۔ المومن۔ الیہ المصیر “۔ تک اور آیۃ الکرسی صبح کے وقت پڑھیں تو شام ہونے تک وہ ان دونوں کے سبب محفوظ رہے گا اور جس نے ان دونوں کو شام کے وقت پڑھا تو وہ پڑھا تو وہ صبح ہونے تک ان کے محفوظ رہے گا (1) “ فرمایا : یہ حدیث غریب ہے۔ اور ابو عبداللہ الترمذی الحکیم نے کہا ہے : روایت کیا گیا ہے کہ مومنین کے لئے محافظت کی خاطر ہر نماز کے بعد انہیں پڑھنا مستحب ہے۔ حضرت انس ؓ سے مرفوع حدیث مروی ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی فرمائی جس نے ہر نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھنے پر دوام اختیار کیا میں اسے اس سے زیادہ عطا کروں گا جو میں شکر کرنے والوں کو عطا کرتا ہوں اور انبیاء (علیہم السلام) کا اجر اور صدیقین کے اعمال کا اجر اور میں اس پر اپنا دست رحمت پھیلا دیتا ہوں اور اس کے لئے کوئی شے رکاوٹ نہیں ہے کہ میں اسے جنت میں داخل کروں مگر یہ کہ ملک الموت اسے لے آئے “۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کی : اے میرے پروردگار ! جس نے اس کے بارے سنا وہ اس پر دوام اختیار نہیں کرے گا ؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” میں یہ اپنے بندوں میں سے کسی کو عطا نہیں کروں گا سوائے نبی کے یا صدیق کے یا ایسے آدمی کے جس سے میں محبت کرتا ہوں یا ایسے آدمی کے جس کے بارے میں ارادہ کروں کہ وہ میرے راستے میں قتل ہوجائے۔ “ حضرت ابی بن کعب ؓ سے روایت ہے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ” اے موسیٰ جس کسی نے ہر نماز کے بعد آیہ الکرسی پڑھی تو میں اسے انبیاء (علیہم السلام) (کے اعمال) کا ثواب عطا کروں گا، ابو عبداللہ نے کہا ہے : میرے نزدیک اس کا معنی ہے : میں اسے انبیاء (علیہم السلام) کے عمل کا ثواب عطا فرماؤں گا اور جہاں تک نبوت کے ثواب کا تعلق ہے تو وہ سوائے انبیاء (علیہم السلام) کے اور کسی کے لئے نہیں ہے (2) نوارد الاصول، جلد 1، صفحہ 338) یہ آیت توحید اور اعلی صفات کو متضمن ہے۔ اس میں پچاس کلمے ہیں اور ہر کلمے میں پچاس برکتیں ہیں۔ اور یہ تہائی قرآن کریم کے برابر ہے حدیث طبیہ میں اسی طرح وارد ہے۔ ابن عطیہ نے اسے ذکر کیا ہے۔ اور لفظ اللہ مبتدا ہے اور لا الہ “ مبتدا ثانی ہے ار اس کی خبر محذوف ہے اور وہ معبود یا موجود ہے۔ اور ” الا ھو، لا الہ “ کے محل سے بدل ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ (آیت) ” اللہ لا الہ الا ھو “۔ مبتدا اور خبر ہے اور یہ مرفوع ہے اور اس معنی پر محمول ہے یعنی ما الہ الا ھو۔ (سوائے اس کے کوئی الہ نہیں ہے) اور غیر قرآن میں لا الہ الا ایاہ پڑھنا بھی جائز ہے۔ اور استثناء کی بناء پر ضمیر منصوب ہے۔ حضرت ابو ذر ؓ نے اپنی طویل حدیث میں کہا ہے : میں نے رسول اللہ ﷺ نے عرض کیا : اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سے کون سی سب سے بڑی آیت آپ پر نازل فرمائی ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : (آیت) ” اللہ لا الہ الا ھو، الحی القیوم “۔ (3) اور حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : قرآن کریم میں اشرف اور بلند رتبہ آیت آیۃ الکرسی ہے۔ بعض علماء نے کہا ہے : کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کے اسم گرامی کا تکرار مضمرا اور ظاہرا اٹھارہ بار کیا جاتا ہے۔ (اس لئے یہ دوسری آیات سے بلند رتبہ اور اعلی ہے) (آیت) ” الحی القیوم “۔ یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اگر چاہے تو اسے ھو سے بدل بنا لے اور اگر چاہے تو یہ خبر کے بعد خبر بھی ہو سکتی ہے اور اگر چاہے تو اس سے پہلے مبتدا مضمر بھی ہو سکتا ہے اور غیر قرآن میں اسے مدح کی بنا پر منصوب پڑھنا بھی جائز ہے۔ اور ” الحی “ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنی میں سے ایک اسم ہے جس کے ساتھ اسے پکارا جاتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ہے اور یہ قول بھی ہے کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہما السلام) جب مردے کو زندہ کرنے کا ارادہ فرماتے تھے تو وہ انہیں اسماء کے ساتھ مانگتے تھے۔ یا حی یا قیوم۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت آصف بن برخیا نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس تخت بلقیس لانے کا ارادہ فرمایا تو اسی قول کے ساتھ دعا مانگی :۔ یا حی یا قیوم۔ اور یہ قول بھی ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ کے اسم اعظم کے بارے میں پوچھا تو آپ نے انہیں فرمایا : ایاھیا ایاھیا یعنی۔ یا حی یا قیوم۔ اور کہا جاتا ہے : یہی سمندر میں سفر کرنے والوں کی دعا ہے کہ جب انہیں غرق ہونے کا خوف لگتا ہے تو انہی اسماء کے ساتھ دعا مانگتے ہیں (پکارتے ہیں) علامہ طبری نے ایک قوم سے بیان کیا ہے کہ کہا جائے گا : ” حی قیوم “ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا وصف خود بیان کیا ہے اور پھر اس میں کوئی غور وفکر کیے بغیر اسے اس کے سپرد کردیا جائے گا۔ اور یہ قول بھی ہے : اللہ تعالیٰ نے امور کے محل میں تصرف کرنے اور اشیاء کی مقاد پر مقرر کرنے کی وجہ سے اپنا نام حی رکھا ہے اور حضرت قتادہ ؓ نے کہا ہے : حی وہ ہوتا ہے جسے موت نہیں آتی۔ اور سدی نے کہا ہے : الحی سے مراد باقی رہنے والا ہے لبید کا قول ہے : فاما تربینی الیوم اصبحت سالما فلست باحیا من کلاب وجعفر : پس اگر تو آج مجھے دیکھ رہا ہے کہ میں نے صحیح سالم صبح کی ہے تو میں کلاب وجعفر میں سے باقی رہنے والا نہیں ہوں۔ اور کبھی کہ جاتا ہے : بلاشبہ یہی اسم اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ہے ” القیوم “ یہ قام سے ہے : یعنی مخلوق کو تدبیر کے ساتھ قائم رکھنے والا۔ یہ قتادہ سے مروی ہے۔ اور حسن نے کہا ہے : اس کا معنی ہے : ہر نفس کو اس کے ساتھ قائم رکھنے والا جو اس نے کمایا ہے تاکہ وہ اسے اس کے عمل کے مطابق جزا دے، اس حیثیت سے کہ وہ اس کے بارے میں جاننے والا ہے اور ان میں سے کوئی شے اس پر مخفی نہیں ہے اور حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اس کا معنی ہے وہ ذات جو نہ بدلتی ہے نہ ختم ہوتی ہے۔ (یعنی نہ اس کی حالت میں کوئی تغیر و تبدل ہوتا ہے اور نہ وہ زوال پذیر ہے) امیہ بن ابی الصلت نے کہا ہے : لم تخلق السماء والنجوم والشمس معھا قمر یقوم : آسمان اور ستارے، سورج اور اس کے ساتھ قائم ہونے والا چاند نہیں پیدا کئے گئے۔ قدرہ مھین قیوم والعشر والجنۃ والنعیم : جسے نگہبان قیوم نے مقرر کیا ہے اور حشر اور جنت اور تمام نعمتیں (نہیں پیدا کی گئیں) الا لامر شانہ عظیم مگر ایسے امر کے لئے جس کی شان انتہائی عظیم ہے۔ علامہ بیہقی نے بیان کیا ہے : میں نے اسماعیل الضریر کی ” عیون التفسیر “ میں ” القیوم “ کی تفسیر میں دیکھا ہے۔ انہوں نے کہا ہے اور کہا جاتا ہے : وہ وہ ہے جو سوتا نہیں ہے، گویا کہ انہوں نے یہ مفہوم آیۃ الکرسی میں اس کے بعد والے ارشاد گرامی سے لیا ہے : (آیت) ” لاتاخذہ سنۃ ولا نوم “۔ اور کلبی نے کہا ہے : ” القیوم “ وہ ہے جس کی بتداء نہ ہو۔ اسے ابو الانباری نے بیان کیا ہے۔ قیوم کی اصل قیووم ہے، واؤ اور یاء ایک کلمے میں جمع ہیں ان میں سے پہلا حرف ساکن ہے پس واؤ کو یاء سے بدلنے کے بعد پہلی یا کو دوسری میں ادغام کردیا۔ قیوم فعول کے وزن پر نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ واؤ سے ہے تو یہ قو وم ہوجائے گا۔ حضرت ابن مسعود ؓ حضرت علقمہ، حضرت اعمش اور حضرت نخعی رحمۃ اللہ علہیم نے الحی القیام الف کے ساتھ پڑھا ہے اور یہی حضرت عمر ؓ سے مروی ہے۔ اور اہل لغت کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے کہ عربوں کے نزدیک القیوم زیادہ اعرف ہے اور بنا کے اعتبار سے زیادہ صحیح اور علت کے اعتبار سے زیادہ ثابت ہے۔ اور القیام القوام سے القیام کی طرف منقول ہے۔ الفعال کو الفیعال کی طرف پھیرا گیا ہے، جیسا کہ الصواع کو الصواع کو الصیاغ کہا گیا ہے، شاعر نے کہا ہے : ان ذا العرش للذی یرزق الناس وحی علیھم قیوم۔ بلاشبہ صاحب عرش وہ ہے جو لوگوں کو رزق عطا فرماتا ہے اور وہ ان پر حی وقیوم ہے۔ پھر رب العالمین نے اس کی نفی کی ہے کہ اسے اونگھ آئے یا نیند (یعنی نہ اسے اونگھ آتی ہے اور نہ نیند) ” السنۃ “ کا معنی تمام کے قول کے مطابق اونگھ ہے اور اونگھ وہ ہوتی ہے جو آنکھ میں ہوتی ہے اور جب وہ دل میں ہوجائے تو پھر نوم (نیند) ہوجاتی ہے، عدی بن رقاع نے ایک عورت کا فتور نظر کے ساتھ وصف بیان کرتے ہوئے کہا ہے : وسنان اقصدہ النعاس فرنقت فی عینہ سنۃ ولیس بنائم : وسنان کا اونگھ نے ارادہ کر رکھا ہے پس اس کی آنکھوں میں اونگھ داخل ہوچکی ہے اور وہاں نیند نہیں ہے۔ اور مفضل نے ان دونوں کے درمیان فرق کیا ہے اور کہا ہے کہ السنۃ یہ سر کی جانب سے ہوتی ہے اور نعاس آنکھ میں ہوتی ہے اور نوم (نیند) دل میں ہوتی ہے۔ اور ابن زید نے کہا ہے : وسنان وہ ہے جو نیند سے بیدار ہوتا ہے حالانکہ وہ عقل وسمجھ نہیں رکھتا یہاں تک کہ وہ بسا اوقات اپنے گھر والوں پر تلوار ننگی کرلیتا ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : یہ جو کچھ ابن زید نے کہا ہے یہ محل نظر ہے۔ کلام عرب سے اسے نہیں سمجھا جاسکتا (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 341 دارالکتب العلمیہ) اور سدی نے کہا ہے : السنۃ سے مراد اس نیند کی ہوا ہے جو چہرے پر لگتی ہے اور انسان اونگھنے لگتا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : بالجملہ اس سے مراد وہ فتور اور ڈھیلا پن ہے جو انسان کو لاحق ہوجاتا ہے اور اس کے ساتھ اس کی عقل مفقود نہیں ہوتی اور اس آیت سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی بھی خلل واقع نہیں ہوتا اور کسی حال میں بھی اسے کوئی اکتاہٹ اور سستی لاحق نہیں ہوتی۔ سنۃ میں اصل وسنۃ سے اس میں واو کو حذف کردیا گیا ہے جیسا کہ یسن سے حذف کی گئی ہے اور النوم سے مراد وہ ثقل اور بوجھ ہے جس کے ساتھ انسان کے حق میں ذہن زائل ہوجاتا ہے (یعنی عقل کام نہیں کرتی) اس میں واؤ عطف کے لئے ہے اور لا تاکید کے لئے ہے۔ میں کہتا ہوں : لوگ اس باب میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ذکر کرتے ہیں، انہوں نے بیان کیا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو بطور حکایت موسیٰ (علیہ السلام) سے منبر پر بیان کرتے ہوئے سنا ہے : کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دل میں خیال آیا کیا اللہ تعالیٰ جل ثناؤ وہ بھی سوتا ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نین ان کی طرف ایک فرشتہ بھیجا اور اس نے آپ کو تین بار بیدار کیا پھر اس نے آپ کو دو بوتلیں دے دیں، ہر ہاتھ میں ایک بوتل تھی اور آپ کو حکم دیا کہ ان دونوں کی حفاظت کریں، فرمایا : پھر آپ سونے لگے اور قریب تھا کہ آپ کے دونوں ہاتھ آپس میں مل جاتے پھر آپ بیدار ہوجاتے اور آپ انہیں ایک دوسرے سے دور ہٹا لیتے بالآخر آپ گہری نیند سو گئے اور آپ کے دونوں ہاتھ آپس میں ٹکرائے اور دونوں بوتلیں ٹوٹ گئیں، فرمایا۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے یہ مثال بیان فرمائی کہ اگر وہ سوتا رہتا تو پھر یہ آسمان اور زمین (اپنی اپنی جگہ) مضبوطی سے ٹھہرے نہ رہتے (1) (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، کتاب الایمان جلد 1 صفحہ 257، حدیث نمبر 273، دارالفکر) یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ اسے کئی ایک نے ضعیف کہا ہے اور ان میں سے امام بیہقی (رح) بھی ہیں۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” لہ مافی السموت وما فی الارض “۔ (یعنی زمین و آسمان کی ہر شے) اس کی ملکیت ہے۔ اور وہ تمام کا ملک اور رب ہے۔ عبارت میں ماذکر کیا گیا ہے اگرچہ ان میں وہ بھی شامل ہیں جو عقل رکھتے ہیں تو یہ اس حیثیت سے ہے کہ اس میں مراد مجموعی طور پر موجود چیزیں ہیں۔ (چاہے وہ ذوی العقول یا غیر ذوی العقول ہوں) علامہ طبری نے کہا ہے : یہ آیت نازل ہوئی جب کفار نے کہا۔ (آیت) ” مانعبدھم الا لیقربوناالی اللہ زلفی “۔ (زمر : 3) ترجمہ : ہم بتوں کی عبادت نہیں کرتے مگر اس لئے تاکہ وہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے بہت زیادہ نزدیک کردیں۔ ) قولہ تعالیٰ (آیت) ” من ذالذی یشفع عندہ الاباذنہ “۔ اس میں من مبتدا ہونے کے سبب مرفوع ہے اور ذا اس کی خبر ہے، اور ” الذی “ ذا کی صفت ہے اور اگر چاہے تو بدل بنا لے اور یہ جائز نہیں ہے کہ ذا زائدہ ہو جیسا کہ ما کے ساتھ زائد کیا گیا ہے۔ کیونکہ مامبہم ہوتا ہے اور ذا کی اس کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے اس کے ساتھ اسے زائد کردیا گیا ہے۔ اور اس آیت میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اللہ تعالیٰ شفاعت کے بارے میں جسے چاہے گا اذن عطا فرمائے گا اور وہ انبیاء علیہم السلام، علماء مجاہدین، ملائکہ اور ان کے علاوہ وہ لوگ ہیں جنہیں رب العالمین یہ اعزاز واکرام اور شرف عطا فرمائے گا۔ پھر وہ شفاعت نہیں کریں گے مگر انہیں کے لئے جن کے لئے وہ راضی ہوگا۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا : (آیت) ” ولا یشفعون الا لمن ارتضی “۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : جو ظاہر ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ علماء اور صالحین ان کے بارے میں شفاعت کریں گے جو ابھی جہنم تک نہیں پہنچے اور وہ دونوں منزلوں کے درمیان ہوں گے یا وہاں پہنچ چکے ہوں گے لیکن ان کے اعمال صالحہ بھی ہوں گے۔ اور بخاری باب بقیۃ من ابواب الرؤیۃ میں ہے : بیشک مومنین کہیں گے : اے ہمارے رب ! بلاشبہ ہمارے بھائی ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے اور ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے اور یہ شفاعت ان کے بارے میں ہے جن کا معاملہ بالکل قریب کا ہوتا ہے۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 341 دارالکتب العلمیہ، (صحیح بخاری، کتاب التوحید، : حدیث نمبر : 6886 ضیاء القرآن پبلی کیشنز) جیسا کہ جنت کے دروازے کے ساتھ چمٹنے والا بچہ شفاعت کرے گا۔ بلاشبہ یہ ان کے قرابتداروں اور انکے جاننے پہچاننے والوں کے بارے میں ہے اور انبیاء (علیہم السلام) ان کے بارے میں شفاعت کریں گے جو ان کے گنہگار امتی اپنے گناہوں کے سبب جہنم میں داخل ہوچکے ہوں گے بغیر کسی قرابت اور معرفت کے صرف نفس ایمان کے سبب (وہ شفاعت کریں گے) پھر خطاؤں اور گناہوں میں مستغرق ان لوگوں کے بارے میں ارحم الراحمین کی شفاعت باقی رہ جائے گی جن کے بارے میں انبیاء (علیہم السلام) کی شفاعت نے کوئی عمل نہ کیا اور حضور نبی رحمت ﷺ کی شفاعت باقی رہ جائے گی جن کے بارے میں انبیاء (علیہم السلام) کی شفاعت نے کوئی عمل نہ کیا اور حضور نبی رحمت ﷺ کی شفاعت حساب کی تعجیل کے بارے میں ہوگی اور یہ آپ ﷺ کے لئے ہی خاص ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : امام مسلم (رح) نے اپنی صحیح میں شفاعت کی کیفیت بڑے شافی بیان کے ساتھ بیان کردی ہے شاید آپ ﷺ نے اسے نہیں پڑھا کہ شفاعت کرنے والے جہنم میں داخل ہوں گے اور وہاں سے ایسے لوگوں کو نکالیں گے جنہوں نے عذاب واجب جان لیا ہوگا، پس اس بنا پر یہ کہنا بعید نہیں ہے کہ مومنین کے لئے دو شفاعتیں ہوں گی : ایک شفاعت ان کے بارے میں جو ابھی جہنم تک نہیں پہنچے اور دوسرے شفاعت ان کے بارے میں جو اس تک پہنچ چکے ہوں گے۔ اور اس میں داخل ہوچکے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے پناہ عطا فرمائے۔ آمین۔ سو آپ نے حضرت ابو سعید خدری ؓ کی حدیث سے ذکر کیا ہے : ” پھر جہنم پر ایک پل پچھایا جائے گا اور شفاعت کھل جائے گی اور وہ کہنے لگیں گے : اللہم سلم سلم “۔ اے اللہ ! سلامتی کے ساتھ گزار دے۔ سلامتی کے ساتھ گزار دے۔ عرض کی گئی : یا رسول اللہ ﷺ وہ پل کیسا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اس میں پاؤں رکھنے کی جگہ پر پھسلن ہوگی (پاؤں قرار نہ پا سکیں گے) اس کے ساتھ لوہے کے ٹیڑھے کنڈے ہوں گے اور اس میں سخت جگہ پر ایسے خار دار پودے ہوں گے جن کو سعدان کہا جاتا ہے۔ پس مومنین اس سے آنکھ جھپکنے کی طرح، بعض بجلی کی طرح، بعض ہوا کی طرح بعض پرندوں کی طرح اور بعض گھوڑوں اور اونٹوں کی تیز رفتاری کی طرح گزر جائیں گے اور وہ نجات پاجائے گا جو سلامت رہا، جسے فقط خراشیں آئیں اور جسے آتش جہنم میں گرنے سے بچا لیا گیا، یہاں تک کہ جب مومنین آگ سے خلاصی پاجائیں گے، پس قسم ہے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے ! تم میں سے کوئی بھی ان مومینن سے زیادہ طاقتور نہیں جو قیامت کے دن اپنے ان بھائیوں کا حق لینے کے لئے جو جہنم میں ہوں گے اللہ کی بارگاہ میں قسم کے ساتھ عرض کریں گے۔ وہ کہیں گے : اے ہمارے رب ! وہ ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے، نمازیں پڑھتے تھے اور حج کرتے تھے، تو ان کو کہا جائے گا : تم انہیں نکال لو جنہیں تم پہنچانتے ہو، پس ان کی صورتیں آگ پر حرام کردی جائیں گی، اور وہ بہت زیادہ مخلقوق کو نکال کرلے آئیں گے حالانکہ آگ نے نصف پنڈلی تک اور گھٹنوں تک انہیں پکڑا ہوا ہوگا، پھر وہ عرض کریں گے : اے ہمارے رب جن کے بارے تو نے ہمیں حکم دیا تھا ان میں سے کوئی باقی نہیں رہا، تو رب العالمین ارشاد فرمائے گا : تم واپس جاؤ اور جس کے دل میں ایک دینار کے برابر بھی خیر اور نیکی پاؤ تو اسے نکال لاؤ، پھر وہ کثیر مخلوق کو نکال لائیں گے، اور پھر عرض کریں گے : اے ہمارے رب ! ہم نے ان میں سے کوئی ایک بھی جہنم میں نہیں چھوڑا جن کے بارے تو نے ہمیں حکم ارشاد فرمایا تھا، پھر رب کریم فرمائے گا تم واپس لوٹ جاؤ اور جس کے دل میں تم نصف دینار کے برابر بھی خیر اور نیکی پاؤ تو اسے بھی نکال لاؤ چناچہ وہ خلق کثیر کو نکال کرلے آئیں گے۔ پھر عرض کریں گے : اے ہمارے رب ! ہم نے اس میں ان میں سے کوئی ایک بھی نہیں چھوڑا جن کے بارے تو نے ہمیں حکم ارشاد فرمایا، پھر رب العالمین ارشاد فرمائے گا تم واپس چلے جاؤ اور جس کے دل میں تم رائی کے دانے برابر بھی خیر اور نیکی پاؤ تو اسے نکال لاؤ چناچہ وہ کثیر مخلوق کو نکال لائیں گے، پھر عرض کریں گے : اے ہمارے رب ! ہم نے اس میں کوئی خیر اور بھلائی نہیں چھوڑی “۔ حضرت ابو سعید ؓ فرماتے تھے : اگر تم اس حدیث کے بارے میں میری تصدیق نہ کرو تو پھر چاہو تو یہ پڑھ لو : (آیت) ” ان اللہ لا یظلم مثقال ذرۃ وان تک حسنۃ یضعفھا ویؤت من لدنہ اجرا عظیما “۔ ترجمہ : بیشک اللہ تعالیٰ ظلم نہیں کرتا ذرہ برابر بھی (بلکہ) اگر ہو معمولی سی نیکی تو دوگنا کردیتا ہے اسے اور دیتا ہے اپنے پاس سے اجر عظیم) پس اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ملائکہ شفاعت کرچکے، انبیاء (علیہم السلام) شفاعت کرچکے اور مومن بھی شفاعت کرچکے اور رب ارحم الراحمین کے سوا کوئی باقی نہیں رہا۔ پس اللہ تعالیٰ جہنم سے ایک قبضہ (مشت) بھرے گا اور اس سے اس قوم کو نکال کرلے آئے گا جنہوں نے کبھی بھی خیر اور نیکی کا عمل نہیں کیا حالانکہ وہ کوئلہ بن چکے ہوں گے (1) (صحیح مسلم، کتاب الایمان جلد 1، صفحہ 102، وزارت تعلیم، ایضا صحیح بخاری، کتاب التوحید، حدیث نمبر 6886، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور آگے حدیث ذکر کی۔ اور حضرت انس ؓ کی حدیث سے ذکر ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : سو میں عرض کروں گا۔ اے میرے پروردگا ! مجھے اس کے بارے اجازت عطا فرما جس نے کہا ” الا الہ الا اللہ “ تو رب کریم فرمائے گا : وہ تیرے لئے نہیں ہے یا فرمایا : وہ تیری طرف نہیں ہے۔ مجھے اپنی عزت، کبریائی اور عظمت و جلال کی قسم ہے میں ضرور بہ ضرور اسے نکالوں گا جس نے کہا ” لا الہ الا اللہ “۔ (2) (صحیح مسلم، کتاب الایمان جلد 1، صفحہ 110، وزارت تعلیم، ایضا صحیح بخاری، کتاب التوحید، حدیث نمبر 6956، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث سے آپ ﷺ سے ذکر کیا گیا ہے : ” یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان قضا (فیصلہ فرمانے) سے فارغ ہوگا اور ارادہ فرمائے گا کہ وہ اہل جہنم میں سے جنہیں چاہے اپنی رحمت کے ساتھ نکال لے تو وہ ملائکہ کو حکم ارشاد فرمائے گا کہ وہ جن ہم سے انہیں نکال لائیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی شے کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے ان میں سے جن کے بارے اللہ تعالیٰ نے رحمت فرمانے کا ارادہ کیا ہے اور وہ کہتے ہیں ” لا الہ الا اللہ “۔ پس وہ فرشتے انہیں جہنم میں پہچان لیں گے اور وہ انہیں سجدوں کے نشانات سے پہچانیں گے، آگ ابن آدم کو کھا جائے گی سوائے سجدوں کے اثر کے (کیونکہ) اللہ تعالیٰ نے آپ پر سجدوں کے اثر (نشان) کو کھانا حرام قرار دیا ہے (1) (ایضا صحیح بخاری، کتاب التوحید، حدیث نمبر 6885، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) الحدیث بطولہ۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : یہ احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ مومنین وغیرہم کی شفاعت بلاشبہ ان کے لئے ہے جو جہنم میں داخل ہوچکے ہوں گے اور اس میں پہنچ چکے ہوں گے اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے، آمین۔ اور ابن عطیہ کا قول : ” ان میں سے جو نہیں پہنچے چکے “ یہ احتمال رکھتا ہے کہ وہ دوسری احادیث سے لیا گیا ہو۔ واللہ اعلم۔ ابن ماجہ نے اپنی سنن میں حضرت انس ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” قیامت کے دن لوگوں کی کئی صفیں بنائی جائیں گی “۔ اور ابن نمیر نے کہا ہے : اہل جنت کی پس اہل نار میں سے ایک آدمی ایک آدمی کے پاس سے گزرے گا تو وہ کہے گا : اے فلاں ! کیا تجھے وہ دن یاد نہیں ہے جب تو نے پانی طلب کیا تو میں نے تجھے خوب جی بھر کر پانی پلایا تھا ؟ فرمایا تو وہ اس کی شفاعت کر دے گا اور ایک اور آدمی کے پاس سے گزرے گا اور کہے گا کیا تجھے وہ دن یاد نہیں ہے جب میں نے تجھے طہور (جس سے پاکی حاصل کی جائے) دیا تھا ؟ چناچہ وہ اس کی شفاعت کر دے گا۔ ابن نمیر نے کہا : وہ کہے گا اے فلاں ! کیا تجھے وہ دن یاد نہیں جس دن تو نے مجھے فلاں فلاں کام کے لئے بھیجا تھا اور میں تیرے لئے چلا گیا تھا ؟ پس وہ اس کی شفاعت کرے گا (2) (سنن ابن ماجہ، کتاب الادب ‘ جلد ! کتاب الادب، جلد 1 صفحہ 170، وزارت تعلیم) رہیں ہمارے نبی مکرم محمد مصطفیٰ ﷺ کی شفاعتیں تو ان کے بارے میں اختلاف ہے۔ ایک قول ہے کہ وہ تین ہیں ایک قول ہے کہ وہ دو ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ پانچ ہیں۔ اس کا بیان سبحان میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور ہم نے ان پر کتاب ” التذکرہ “ میں بحث کی ہے۔ والحمد للہ۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” یعلم ما بین ایدیھم وما خلفھم “۔ دونوں ضمیریں ہر اس ذی عقل کی طرف لوٹ رہی ہیں جنہیں یہ قول متضمن ہے : (آیت) ” لہ ما فی السموت وما فی الارض “۔ اور مجاہد نے کہا ہے : (آیت) ” مابین ایدیھم “۔ سے مراد دنیا اور (آیت) ” وما خلفھم “ سے مراد آخرت ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : یہ سب فی نفسہ صحیح ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ مابین الید سے مراد ہر وہ شے ہے جو انسان کے سامنے ہے اور ماخلفہ سے مراد ہر وہ شے ہے جو اس کے بعد آئے گی۔ اور حضرت مجاہد کے قول کی طرح ہی سدی وغیرہ نے بھی کہا ہے۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” ولایحیطون بشیء من علمہ الا بما شآء “۔ یہاں علم بمعنی معلوم ہے یعنی وہ اس کی معلومات میں سے کسی شے کا احاطہ نہیں کرسکتے اور یہ حضرت خضر (علیہ السلام) کے اس قول کی طرح ہے جو انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس وقت کہا جب چڑیا نے سمندر میں چونچ ماری، میرا اور تمہارا علم اللہ تعالیٰ کے علم سے کم نہیں ہے مگر اتنا ہی جتنی یہ چڑیا اس سمندر سے کم ہے، پس یہ اور جو اس کے مشابہ ہے وہ معلومات کی طرف راجع ہے، کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا علم تو وہ ہے جو اس کی ذاتی صفت ہے وہ منقسم نہیں ہوتا، اور آیت کا معنی ہے : کسی کے لئے کوئی معلوم نہیں مگر وہی جو اللہ تعالیٰ چاہے کہ وہ اسے جان لے۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” وسع کرسیہ السموت والارض “۔ ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں حضرت علی ؓ سے ذکر کیا ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” کرسی ایک موتی ہے اور قلم بھی ایک موتی ہے اور قلم کی لمبائی سات سو برس کی ہے اور کرسی کی طوالت اتنی ہے جسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ “ حماد بن سلمہ نے عاصم بن بہدلہ سے اور یہی عاصم بن ابی النجود ہیں، اور انہوں نے زربن حبیش کے واسطہ سے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : ہر دو آسمانوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے اور ساتویں آسمان اور کرسی کے درمیان پانچ سو برس کا فاصلہ ہے اور کرسی اور عرش کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے اور عرش پانی کے اوپر ہے اور اللہ تعالیٰ (اپنی شان قدرت کے مطابق) عرش کے اوپر ہے اور وہ اسے جانتا ہے جس میں اور جس پر تم ہو، کہا جاتا ہے : کرسی اور کرسی اور جمع الکراسی ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے : کرسیہ کا معنی علمہ (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 342 دارالکتب العلمیہ) (اس کا علم) ہے۔ اور علامہ طبری نے اسے ترجیح دی ہے اور کہا ہے : اسی سے وہ کر اسیہ (کاپی) بھی ہے جو علم کو جمع کرتی ہے۔ (اور محفوظ رکھتی ہے) اور اسی وجہ سے علماء کو الکراسی کہا گیا ہے کیونکہ ان پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ شاعر نے کہا ہے : یحف بھم بیض الوجوہ وعصبۃ کر اسی بالاحداث حین تنوب : اچھی شہرت رکھنے والے اور علماء کا گروہ انہیں ان امور کے ساتھ گھیر لیتا ہے (2) جامع البیان للطبری، جلد 3 صفحہ 16) جب وہ پیش آتے ہیں۔ اور کہا گیا ہے : کر اسیہ سے مراد اللہ کی وہ قدرت ہے جس کے ساتھ وہ آسمانوں اور زمین کو ٹھہرائے ہوئے ہے۔ جس طرح آپ کہتے ہیں : اجعل لھذا الحائط کرسیا، اس دیوار کی کرسی بنا دو یعنی وہ جس پر اس کا اعتماد اور سہارا ہو، اور یہ حضرت ابن عباس ؓ کے قول کے قریب ہے جو انہوں نے (آیت) ” وسع کرسیہ “ میں کیا ہے، علامہ بیہقی (رح) نے کہا ہے : اور ہم نے حضرت ابن مسعود اور حضرت سعید بن جبیر ؓ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد (آیت) ” وسع کرسیہ “ میں یہ روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا علم ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ سے تمام روایات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ اس سے مراد وہی کرسی ہے جو عرش کے ساتھ مشہور ہے اور اسرائیل نے سدی سے اور انہوں نے ابو مالک سے اس قول (آیت) ”’ وسع کرسیہ السموت والارض “۔ کے تحت روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا : بیشک وہ چٹان جس پر ساتویں زمین ہے اور اس کی اطراف پر مخلوق کی انتہا ہے، اس پر چار فرشتے ہیں، ان میں سے ہر ایک کے چار چہرے ہیں : ایک انسان کا چہرہ، ایک شیر کا چہرہ، ایک بیل کا چہرہ اور ایک گدھ کا چہرہ، پس وہ اس پر کھڑے ہیں حالانکہ وہ زمینوں اور آسمانوں کو گھیرے ہوئے ہیں اور ان کے سر کرسی کے نیچے ہیں اور کرسی عرش کے نیچے ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی کرسی کو عرش کے اوپر رکھے ہوئے ہے۔ علامہ بیہقی نے کہا ہے اس میں اشارہ دو کرسیوں کی طرف ہے ان میں سے ایک عرش کے نیچے ہے اور دوسری عرش پر رکھی ہوئی ہے۔ اور اسباط عن السدی عن ابی مالک اور عن ابی صالح عن صالح عن ابن عباس ؓ اور عن مرۃ المھد انی عن ابن عباس ؓ اور عن مرۃ الھمدنی عن ابن مسعود ؓ عن ناس من اصحاب رسول اللہ ﷺ کی روایت میں ارشاد باری تعالیٰ (آیت) ”’ وسع کرسیہ السموت والارض “۔ کے تحت موجود ہے کہ آسمان و زمین کرسی کے درمیان میں ہیں اور کرسی عرشی کے سامنے ہے۔ اور ملحدین اس کو بادشاہ کی عظمت اور جلالت سلطان پر محمول کرتے ہیں اور وہ عرش وکرسی کے وجود کا انکار کرتے ہیں اور یہ کوئی شے نہیں ہے۔ اور اہل حق ان دونوں کو جائز قرار دیتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں بڑی وسعت ہے اور اس کے ساتھ ایمان لانا واجب ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے کہا ہے : کرسی قدم رکھنے کی جگہ ہے اور اس کی کجاوے کے چرچرانے کی طرح چرچراہٹ ہے۔ علامہ بہیقی (رح) نے کہا : ہم نے اس میں حضرت ابن عباس ؓ سے یہ بھی روایت کیا ہے اور ہم نے ذکر کیا ہے کہ اس کا معنی جو معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ عرش سے (نیچے) رکھی ہوئی ہے (جیسے) تحت سے قدم رکھنے کی جگہ اور اس میں اللہ تعالیٰ کے لئے مکان کا اثبات نہیں ہے، اور حضرت ابن بریدہ نے اپنے باپ سے روایت بیان کی ہے، انہوں نے فرمایا : جب حضرت جعفر ؓ حبشہ سے آئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : ” کیا تم نے کوئی انتہائی تعجب خیز شے دیکھی ہے ؟ـانہوں نے کہا : میں نے ایک عورت کو دیکھا ہے اس کے سر پر کھانے کا ایک ٹوکرا ہے، پس ایک شہسوار گزرا اور اس نے وہ ٹوکرا گرا دیا۔ پس وہ عورت بیٹھ گئی اور اپنا کھانا (طعام) جمع کرنے لگی، پھر وہ اس کی طرف متوجہ ہوئی اور اسے کہا : تیرے لئے اس دن ہلاکت اور بربادی ہو جس دن بادشاہ اپنی کرسی رکھے گا اور وہ مظلوم کے لئے ظالم کو پکڑے گا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے قول کی تصدیق کرتے ہوئے کہا : ” لا قد ست امۃ “ (امت پاک کردی گئی) یا فرمایا : کیف تقدس امۃ (امت کیسے پاکی بیان کرتی ہے) اس کا کمزور اس کے طاقتور سے اپنا حق نہیں لے سکے گا (1) (مجمع الزوائد، کتاب الخلافۃ، صفحہ 375، حدیث نمبر 9054) ابن عطیہ نے کہا ہے : حضرت ابو موسیٰ ؓ کے قول میں ہے۔ ” کرسی قدم رکھنے کی جگہ ہے “ وہ مراد یہ لیتے ہیں (کہ کرسی) عرش رحمن سے اس طرح ہے جیسے بادشاہوں کے تختوں سے قدم رکھنے کی جگہ ہوتی ہے اور یہ عرش کے سامنے بہت بڑی مخلوق ہے اور اس کی نسبت عرش کی طرف ایسے ہی ہے جیسے کرسی کی نسبت بادشاہ کے تحت کی طرف ہے۔ اور حسن بن ابی الحسن نے کہا ہے کہ کرسی سے مراد نفس عرش ہے، اور یہ قول پسندیدہ نہیں ہے اور جس کا تقاضا احادیث کرتی ہیں وہ یہ ہے کہ کرسی عرش کے سامنے پیدا کی گئی ہے اور عرش اس سے بڑا ہے (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 342 دارالکتب العلمیہ) اور ابو ادریس خولانی (رح) نے حضرت ابو ذر ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا، میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ سب سے عظیم آیت کون سی ہے جو آپ پر نازل کی گئی ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا آیۃ الکرسی۔۔۔ (3) (شعب الایمان، جلد 2، صفحہ 457) پھر فرمایا : اے ابو ذر ( رض) سات آسمانوں کو کرسی کے ساتھ ایسی ہی نسبت ہے جیسے وسیع زمین پر پھینکی ہوئی آنگوٹھی کے حلقہ کو اس کے ساتھ ہوتی ہے اور عرش کو کرسی پر ایسی ہی فضیلت حاصل ہے جیسے وسیع زمین کو انگوٹھی کے حلقہ پر ہوتی ہے۔ “ اسے آجری، ابو حاتم بستی نے اپنی صحیح مسند میں اور بیہقی (رح) نے روایت کیا ہے اور بیان کیا ہے کہ یہ روایت صحیح ہے۔ اور حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : ساتوں آسمان اور زمین کرسی کے مقابلے میں وسیع زمین میں پھینکی ہوئی انگوٹھی کے حلقہ کی طرح ہیں۔ اور یہ آیت اللہ تعالیٰ کی مخلوقات کے عظیم ہونے کے بارے میں آگاہ کرتی ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کی عظمت کا پتہ چلتا ہے کیونکہ اس امر عظیم کی حفاظت اسے نہیں تھکاتی۔ اور (آیت) ” یؤدہ “ کا معنی ہے وہ اسے بھاری اور بوجھل بنا رہا ہے کہا جاتا ہے : آدنی الشیء بمعنی اثقلنی۔ اس نے مجھے تھکا دیا اور میں نے اس سے مشقت برداشت کی۔ اسی کے ساتھ حضرت ابن عباس ؓ حضرت حسن ؓ اور حضرت قتادہ ؓ وغیرہم نے اس لفظ کی تفسیر بیان کی ہے۔ زجاج نے کہا ہے : یہ جائز ہے کہ اس میں ہا ضمیر اللہ تعالیٰ کے لئے ہو اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ کرسی کے لئے ہو، اور جب کرسی کے لئے ہوگی تو پھر یہ اللہ تعالیٰ کے امر میں سے ہے (یعنی کرسی) ۔۔۔۔ اور العلی اس سے مراد قدرومنزلت کی بلندی ہے نہ کہ مکان کی بلندی، کیونکہ اللہ تعالیٰ جگہ اور مکان سے منزہ اور پاک ہے۔ اور علامہ طبری نے ایک قوم سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی مخلوق سے بلند ہے کیونکہ اس کا مکان اپنی مخلوق کی جگہوں سے بلند ہے، ابن عطیہ نے کہا ہے : یہ جسم ماننے والے جہلاء کا قول ہے اور اصل یہی ہے کہ اسے بیان نہ کیا جائے (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 342 دارالکتب العلمیہ) اور عبدالرحمن بن قرط سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شب معراج آسمانوں کی بلندیوں میں تسبیح سنی : سبحان اللہ العلی الاعلی سبحانہ وتعالیٰ اور العلی والعالی ان کا معنی ہے اشیاء پر بہت سخت غلبہ رکھنے والا، عرب کہتے ہیں : علا فلان فلانا، یعنی فلاں فلاں پر غالب آگیا، شاعر نے کہا ہے : فلما علونا واستوینا علیہم ترکنا ھم صرعی لنسر و کا سر : پس جب ہم غالب آئے اور ہم نے انہیں خوب ہلکا کیا تو ہم نے انکے مردوں کو گدھوں اور عقابوں کے لئے چھوڑ دیا اور اسی سے قول باری تعالیٰ ہے : (آیت) ” ان فرعون علا فی الارض “۔ (آیت) ” العظیم “۔ یہ صفت ہے : اس کا معنی ہے قدرومنزلت اور شرف کے اعتبار سے عظیم۔ یہ اجسام کی عظمت کے معنی میں نہیں ہے۔ علامہ طبری نے ایک قوم سے بیان کیا ہے کہ العظیم بمعنی المعظم ہے (جس کو عظمت دی جائے) جیسے کہا جاتا ہے : عتیق بمعنی معتق ہے اور اعشی کا شعرہ ہے : فکان الخمر العتیق من الاس فنط ممزوجۃ بماء زلال : (2) (جامع البیان للطبری، جلد 3، صفحہ 19۔ 18، داراحیاء التراث العربیۃ) گویا کہ وہ شراب جو اسفنط (شراب کی ایک قسم) سے آزاد ہے درآنحالیکہ وہ میٹھے پانی سے ملی ہوئی ہو۔ اور ایک قوم سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے اس کا انکار کیا ہے اور کہا ہے : اگر یہ بمعنی معظم ہو تو پھر لازم آتا ہے کہ وہ مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے اور اسے فنا کرنے کے بعد عظیم نہ ہو کیونکہ اس وقت اسے عظیم بنانے والی کوئی شے نہیں۔ (1) (جامع البیان للطبری، جلد 3، صفحہ 19۔ داراحیاء التراث العربیۃ)
Top