Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 255
اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ١ۚ۬ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌ١ؕ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖ١ؕ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ١ۚ وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ١ۚ وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ١ۚ وَ لَا یَئُوْدُهٗ حِفْظُهُمَا١ۚ وَ هُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ
اَللّٰهُ : اللہ لَآ اِلٰهَ : نہیں معبود اِلَّا ھُوَ : سوائے اس کے اَلْحَيُّ : زندہ الْقَيُّوْمُ : تھامنے والا لَا تَاْخُذُهٗ : نہ اسے آتی ہے سِنَةٌ : اونگھ وَّلَا : اور نہ نَوْمٌ : نیند لَهٗ : اسی کا ہے مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں مَنْ ذَا : کون جو الَّذِيْ : وہ جو يَشْفَعُ : سفارش کرے عِنْدَهٗٓ : اس کے پاس اِلَّا : مگر (بغیر) بِاِذْنِهٖ : اس کی اجازت سے يَعْلَمُ : وہ جانتا ہے مَا : جو بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ : ان کے سامنے وَمَا : اور جو خَلْفَھُمْ : ان کے پیچھے وَلَا : اور نہیں يُحِيْطُوْنَ : وہ احاطہ کرتے ہیں بِشَيْءٍ : کس چیز کا مِّنْ : سے عِلْمِهٖٓ : اس کا علم اِلَّا : مگر بِمَا شَآءَ : جتنا وہ چاہے وَسِعَ : سما لیا كُرْسِيُّهُ : اس کی کرسی السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَ : اور الْاَرْضَ : زمین وَلَا : اور نہیں يَئُوْدُهٗ : تھکاتی اس کو حِفْظُهُمَا : ان کی حفاظت وَھُوَ : اور وہ الْعَلِيُّ : بلند مرتبہ الْعَظِيْمُ : عظمت والا
خدا (وہ معبود برحق ہے کہ) اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں زندہ ہمیشہ رہنے والا اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند جو کچھ آسمانوں اور زمین میں سے سب اسی کا ہے کون ہے کہ اسکی اجازت کے بغیر اس سے (کسی کی) سفارش کرسکے، جو کچھ لوگوں کے روبرو ہو رہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز پر دسترس حاصل نہیں کرسکتے، ہاں جس قدر وہ چاہتا ہے (اسی قدر معلوم کرا دیتا ہے) اسکی بادشاہی (اور علم) آسمان اور زمین سب پر حاوی ہے اور اسے ان کی حفاظت کچھ بھی دشوار نہیں وہ بڑا عالی رتبہ اور جلیل القدر ہے
اثبات توحید ذات و کمال صفات۔ قال تعالی، اللہ لاالہ۔۔۔ الی۔۔ العظیم۔ گزشتہ رکوع کی آیت وانک لمن المرسلین میں اثبات رسالت کا ذکر تھا اور اس آیت میں اثبات توحید کا بیان ہے نیز ولو شاء اللہ مااقتتلوا۔ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور مشیت کا ذکر تھا اور اس بیان کا تھا کہ قیامت کے دن کوئی سفارش اور کوئی دوستی کام نہ آئے گی جس سے اللہ کی کبریائی اور عظمت مفہوم ہوتی ہے کہ اس کے سامنے کسی کو مجال دم زدن نہیں اسلیے اس آیت میں اللہ کی توحید ذات اور کمال صفات بیان فرماتے ہیں ہیں نیز گزشتہ آیت والکافرون ھم الظالمون میں کافروں کو ظالم بتلایا تھا اب اس آیت میں ان کے ظلم کی وجہ بیان فرماتے ہیں کہ کافر اور مشرک اس لیے ظالم ہیں کہ اللہ کے ساتھ شریک گردانتے ہیں اور صحیح عقیدہ توحید کو بیان فرماتے ہیں کہ اے مسلمانو تم کافروں کی طرح شرک کرکے ظالم نہ بنو بلکہ عقیدہ توحید کو حرز جان بناؤ چناچہ فرماتے ہیں اللہ وہ ذات ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں صرف وہی عبادت کا مستحق ہے استحقاق عبادت میں کوئی اس کا شریک اور سہیم نہیں اس لیے کہ صرف اللہ اپنی ذات سے خود بخود زندہ اور موجود ہے اس کی حیات اور بقاء ذاتی اور ابدی ہے اس کی حیات کی نہ کوئی ابتداء ہے اور نہ انتہاء اور اس کے سوا ہر چیز اپنی ذات سے مردہ اور معدوم ہے اور اس کی حیات مستعار کی ابتداء بھی ہے اور انتہاء بھی اس لیے کہ کوئی شے اپنی ذات سے قائم نہیں اللہ ہی ہر شے کا قائم رکھنے والا ہے ہر شے اپنی حیات اور بقا میں اور وجود میں اس کی محتاج ہے جیسے سایہ اپنی اصل کا محتاج ہوتا ہے ممکنات اپنے وجود اور بقاء میں اس سے کہیں زائد خدا کے محتاج ہیں ممکنات کی حیات اور وجود اسی واجب الوجود کی حیات کا ایک ادنی سا عکس اور پر تو ہے، کل ما فی الکون وھم اوخیال، او عکوس فی المرایا اوظلال۔ غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ تمام عالم کا قائم رکھنے والا اور اس کی تدبیر کرنے والا ہے اور ایک لمحہ بھی تدبیر سے غافل نہیں اس لیے کہ اس کو اونگھ اور نیند نہیں پکڑتی اس لیے کہ نیند ایک قسم کا تغیر ہے جو وجوب کے منافی ہے اور حیات کو ضعیف اور کمزور بناتا ہے پس جس کو اونگھ اور نیند آئے گی اور اس کی حیات بھی ناقص اور کمزور ہوگی اور دوسروں کی تدبیر بی نہیں کرسکے گا کیونکہ نیند موت کی بہن ہے لہذا نیند کی وجہ سے اس کی حیات بھی ناقص ٹھہرے گی اور اس کی شان قیومت میں بھی قصور اور نقصان لازم آئے گا اور چونہ وہی سب کے وجود اور حیات کا قائم رکھنے والا ہے اور اس لیے ثابت ہوا کہ آسمان اور زمین میں جو کچھ بھی ہے وہ سب اسی کی ملک ہے اوپر سے لے کر نیچے تک اسی کی حکومت اور بادشاہی ہے اس لیے کہ اصل مالک وہ ہے جو وجود اور حیات کا مالک ہو اور اس کی عظمت اور جلال اور شان کبریائی کا یہ عام ہے کہ اس کی بارگاہ عالی میں کسی کی مجال نہیں کہ بغیر اس کی اجازت کے کوئی سفارش کرسکے چہ جائیکہ کوئی اس کے حکم کو ہٹا سکے یا ٹلاسکے یہ تو اس کی عظمت اور جلال کا حال ہوا اور اسکے علم کی یہ شان ہے کہ وہی مخلوقات کے تمام اگلے اور پچھلے احوال کو خوب جانتا ہے تمام عقلاء عالم مل کر بھی معلومات خداوندی میں سے کسی ایک معمولی چیز کی علم اور ادراک کا بھی احاطہ نہیں کرسکتے مگر جتنی مقدار وہ تم کو علم دینا چاہتا ہے فقط اتنی مقدار تم اس چیز کو جان لیتے ہو اصل کنہ اور حقیقت کا علم اور اس کا علمی احاطہ وہ اللہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ ومااوتیتم من العلم الاقلیلا۔ آیت۔ اور تم کو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ غرض یہ کہ اللہ کا علم ذاتی اور تام ہے اور مخلوق کے تمام احوال کو محیط ہے جو اس کی واحدانیت اور قیومیت اور کمال عظمت پر دال ہے اور بندوں کا علم نہایت قلیل اور ناتمام بلکہ برائے نام ہے بندہ بدون اس کی تعلیم کے ایک ذرہ کو بھی نہیں جان سکتا اور ایک ذرہ کے بھی تمام احوال اور کیفیات اور جہات اور حیثیات کا احاطہ نہیں کرسکتا اگر ایک حال کو جان لیتا ہے تو سو حال سے جاہل اور بیخبر رہتا ہے اور اس علم ناتمام کے ساتھ اس بارگاہ میں شفاعت کرنا جس کا علم ذاتی اور تام ہو اور تمام اشیاء کی حقیقت اور کنہ اور تمام احوال کو محیط ہو بغیر اس کی اجازت کے ممکن نہیں اس لیے کہ شفاعت وہاں ہوتی ہے جہاں شفاعت کرنے ولا بادشاہ کو ایسی چیز سے آگاہ کرے جس کی بادشاہ کو خبر نہ ہو یا اس کو عفو کی مصلحت کی خبر نہ ہو اور بارگاہ خداوندی میں یہ ناممکن ہے کہ اس کو کسی شی کا علم نہ ہو اور اس کی مالکیت تمام کائنات کو محیط ہے اس لیے کہ اس کو کرسی جو اس کے عرش سے کم ہے وہی تمام آسمانوں اور زمینوں کو گھیرے ہوئے اور اپنے اندر سمائے ہوئے ہے جس طرح چاہے زمین اور آسمان میں تصرف کرتا ہے کسی کی مجال کیا ہے کہ بغیر اس کی اجازت کے کوئی سفارش کا کلمہ زبان سے نکال سکے شافع اور مشفوع لہ سب اسی کی ملک ہیں اور اس کی قدرت اور قیومیت کا یہ حال ہے کہ آسمانوں اور زمینوں کی حفاظت اور نگہبانی اس پر ذرہ برابر شاق اور اگر اں نہیں اور کیسے اس پر گراں ہوسکتی ہے وہ بڑا عالی شان اور بلند مرتبہ ہے ذات اور صفات میں کوئی بھی کسی طرح اس کے برابر نہیں وہ اتنابلند مرتبہ ہے کہ اس کی شان کے مطابق کوئی حمد وثنا بھی نہیں کرسکتا بری عظمت والا ہے کہ ہر چیز اس کے سوا حقیر اور قبیح ہے وہ اپنے افعال میں کسی کا محتاج نہیں عظمت و جلال کی وجہ سے سب سے مستغنی اور بےنیاز ہے پس جس ذات پاک کی یہ صفات ہوں کیا اس کا انکار کرنا یاس کے ساتھ کسی کو شریک کرنا ظلم عظیم نہ ہوگا کماقال تعالیٰ فی الا آیت الاولی۔ والکافرون ھم الظالمون۔ آیت۔ فوائد ولطائف۔ اس آیت کو آیت الکرسی کہتے ہیں کہ جس میں اللہ کی توحید ذاتی اور صفاتی کا ذکر ہے توریت اور انجیل اور کتب سابقہ کے دیکھنے والے خوب جانتے ہیں کہ اللہ کی کمال ذات اور کمال صفات کے متعلق جیسا اس آیت میں ذکر ہے اس کا شمہ بھی کسی کتاب میں مذکور نہیں۔ اس آیت میں سب سے پہلے اللہ نے اپنی توحید ذاتی کو بیان فرمایا، اللہ لاالہ الاھو۔ بعد ازاں ان صفات کو بیان فرمایا۔ الحی) 1۔ کمالات وجود یہ میں سب سے پہلا حیات ہے، حی، لغت میں اس زندہ شے کو کہتے ہیں کہ جو واقف ہو اور سنتا اور دیکھتا اور قادر ہو پس صفت حیات تمام صفات کمال کا مبدء ہے۔ القیوم 2) ۔ یعنی کائنات کو قائم اور باقی رکھنے والا، حی، سے خدا کا واجب الوجود ہونابیان کیا اور قیوم سے خدا کا واہب الوجود ہونابیان کیا یعنی بذاتہ اور بنفسہ وہ واجب الوجود ہے اور دوسروں کو وجود اور حیات ہبہ اور عطا کرنے والا ہے ممکن میں جو وجود بھی ہے وہ اسی واجب الوجود کا ہبہ اور عطیہ ہے صفت حیات کو ذکر کرکے کمال وجود کو بیان فرمایا اور صفت قیومیت کو ذکر کرکے کمال ایجاد کو بیان فرمایا۔ لاتاخذہ سنۃ ولانوم 3) ۔ اس کو نہ اونگھ پکڑتی ہے اور نہ نیند۔ اس سے اللہ کا تغیرات اور حوادث اور خصائص ممکنات سے پاک اور بری ہونا بیان فرمایا یہ جملہ الحی القیوم کی تاکید ہے کیونکہ اونگھ اور نیند سے حیات میں نقصان آتا ہے اس لیے کہ نیند موت کی بہن ہے اور اللہ موت کے شائبہ سے بھی پاک اور منزہ ہے اور علاوہ ازیں جس کی حیات ناقص ہوگی اس کی قیومیت یعنی حفاظت اور نگرانی بھی ناقص اور کمزور ہوگی لہذا لاتاخذہ کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ایسا قیوم اور مدبر ہے کہ ایک لمحہ بھی تدبیر سے غافل نہیں ہوسکتا وہ اپنی قیومت میں سہو اور نسیان اور غفلت اور سستی سے پاک اور منزہ ہے۔ (لہ مافی السماوات ومافی الارض۔ 4) اس جملہ سے صفت مالکیت کو ثابت کرنا ہے کہ وہ آسمانوں اور زمینوں کا مالک ہے اس لیے کہ مالک حقیقی وہ ہے جو وجود عطا کرے پس جس نے آسمانوں اور زمینوں کو وجود عطا کیا اور جو ان کے وجود کا قائم رکھنے والا اور تھامنے والا ہے وہی ان کا مالک حقیقی ہے۔ من ذالذی یشفع عندہ الاباذنہ۔ 5) ۔ اس جملہ سے اس کی حاکمیت اور جلال اور کبریائی کو بیان کرنا مقصود ہے کہ اس کی بارگاہ میں کسی کی مجال نہیں کہ بغیر اس کی اجازت کے لب کشائی کرسکے۔ یعلم مابین ایدیھم وماخلفھم۔ 6) ۔ اس جملہ میں اس کے علم محیط کو بیان فرمایا کہ اس کا علم مخلوقات کے تمام احوال کو محیط ہے۔ ولایحیطون بشئی من علمہ الا بماشاء۔ 7) ۔ اس جملہ میں یہ بتلایا گیا کہ جس طرح مخلوقات کا وجود عطیہ خداوندی ہے اسی طرح مخلوقات کا علم بھی عطیہ خداوندی سے بندے فقط اتنی مقدار جان سکتے ہیں جتنا وہ چاہے بندوں کو علم اس کی مشیت کے تابع ہے بندہ کا علم نہایت ہی قلیل اور محدود ہے اور اس کا جہل بالفعل غیر محدود اور غیر متناہی ہے۔ وسع کرسیہ السماوات والارض۔ 8) ۔ اس جملہ میں یہ بتلایا گیا کہ اللہ کی حاکمیت اور مالکیت آسمانوں اور زمینوں سے بھی متجاوز ہے جہاں تک بندوں کا وہم و خیال بھی نہیں۔ فائدہ۔ 1) ۔ احادیث نبویہ اوراقوال صحابہ وتابعین سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کرسی ایک جسم ہے جو آسمانوں اور زمین سے برا ہے اور عرش سے چھوٹا ہے حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ساتوں آسمان کرسی کے اندر ایسے ہیں جیسے کسی ڈھال میں سات درہم ڈال دیے جائیں کرسی کی اضافت اور نسبت اللہ کی طرف ایسی ہے جیسے عرش اللہ اور بیت اللہ کی نسبت ہے بظاہر یہ کوئی خاص قسم کی تجلی ہے اور جس طرح تجلیات کی انواع اوراقسام میں ہر شے کی تجلی علیحدہ ہے اسی طرح عجب نہیں کہ کرسی اور عرش کی تجلیات علیحدہ علیحدہ ہوں اور ایک دوسرے سے ممتاز ہوں جمہور سلف کے نزدیک آیت میں کرسی سے ظاہری اور متبادر معنی مراد ہیں اور بعض علماء ادھر گئے ہیں کہ کرسی اس کی عظمت اور سلطنت کی تصویر اور محض ایک مثال ہے ورنہ درحقیقت نہ کوئی کرسی ہے اور نہ وہاں کوئی بیٹھنے والا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ ہر جگہ لفظ سے حقیقی معنی ہی مراد لیے جائیں قرآن کریم میں صدہا جگہ مجازی اور کنائی معنی مراد لیے گئے ہیں۔ ولایؤدہ حفظہما۔ 9) ۔ اور اللہ تعالیٰ کو آسمان اور زمین کی حفاظت ذرہ برابر گراں نہیں اس جملہ سے یہ بتلانا ہے کہ اس کی صنف قدرت اور قیومیت ضعف اور نقصان سے پاک اور منزہ ہے۔ وھوالعلی العظیم۔ 10) ۔ اس جملہ میں اللہ کی صفت علو اور عظمت کو بیان فرمایا۔ 2) ۔ مستدرک حاکم میں ابوہریرہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، سورة بقرہ میں ایک آیت ہے جو تمام آیات قرآنیہ کی سردار ہے وہ آیت الکرسی ہے جس گھر میں وہ پڑھی جاتی ہے شیطان اس سے نکل جاتا ہے۔ صحیح مسلم وغیرہ میں ابی بن کعب سے مروی ہے کہ نبی کریم نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ اے ابوالمنذر قرآن میں سے اعظم یعنی سب سے بڑی آیت کون سی ہے میں نے کہا اللہ لاالہ الاھوالحی القیوم۔ آپ نے یہ سنتے ہی میرے سینہ پر ہاتھ اور مارا اور فرمایا اے ابولمنذر علم تمہیں مبارک ہو۔ اور اسی طرح حضرت عمر، اور حضرت علی، عبداللہ بن مسعود اور عبداللہ بن عباس اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے منقول ہے کہ تمام آیتوں کی سردار اور سب سے بڑی آیت آیت الکرسی ہے (درمنثور ص 325 ج 1) ۔ اسی بناء پر کہا جاتا ہے کہ اسم اعظم اللہ لاالہ الاھوالحی القیوم ہے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جب مردوں کو زندہ کرنے کا ارادہ فرماتے تو یاحی یاقیوم پڑھ کر دعا فرماتے اور آصف بن برخیا نے جب بلقیس کے عرش کو لانے کا ارادہ کیا تو یاحی یاقیوم پڑھ کر دعا مانگی۔ (تفسیر قرطبی ص 271 ج 3) ۔ 3) ۔ حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی قدس سرہ اللہ فرماتے ہیں کہ آیت الکرسی سورة بقرہ کا قلب ہے اور الحی القیوم بمنزلہ روح اور جان کے ہے اور باقی آیات بمنزلہ اعضاء اور جوارح کے ہیں اور اس سورت کے تمام مطالب اسی آیت کے گرد گھومتے ہیں جس طرح اعضاء اور جوارح جان کے شؤن اور مظاہر ہوتے ہیں اسی طرح اس سورت کی تمام آیتیں الحی القیوم کے شؤن اور مظاہر ہیں سورة بقرہ کے کل چالیس رکوع ہیں کوئی ایسا نہیں کہ جس میں حیات اور قیومیت اور ہمیشہ کی زندگانی کا مضمون مذکور نہ ہو۔ گویا کہ یہ تمام سورت الحی القیوم کی شرح اور بسط اور حیات اور قیومیت ہی کی توضیح اور تلویح ہے ابتداء سورت میں ذالک الکتاب لاریب فیہ سے قرآن کریم کا آب حیات ہونابیان فرمایا اور یہ بتلایا کہ ایمان اور تقوی سے حیات ابدی حاصل ہوتی ہے اور کفر اور نفاق سے دائمی ہلاکت پھر تیسرے رکوع میں افراد انسانی کی فردا فردا حیات کا زکر فرمایا وکنتم امواتا فاحیاکم۔ آیت۔ اور زمین و آسمان کی پیدائش اور دنیا کی نعمتوں کی پیدائش کا ذکر فرمایا جو دنیوی حیات کا ذریعہ ہیں اور پھرا پنی عبادت کا حکم دیا جو انسان کی حیات اخروی اور قیام ابدی کا ذریعہ ہے بعد ازاں ابوالبشر کی حیات اور منصب خلافت اور ملائکہ پر ان کی فضیلت کو ذکر فرمایا واذ قال ربک للملائکۃ انی جاعل فی الارض خلیفہ۔ آیت۔ بعدازاں پانچویں رکوع سے ایک خاص خاندان کی حیات کا ذکر شروع کیا یعنی بنی اسرائیل کی حیات اور ان پر اپنے ظاہری اور باطنی انعامات کا بیان شروع کیا جو تقریبا اخیر پارے تک چلا گیا جس میں ان کو جہانوں پر فضیلت دینا اور من سلوی کا ان کے لیے نازل کرنا اور ان کی ہدایت کے لیے توریت کا عطا کرنا اور اس خاندان میں ہزاروں پیغمبروں کو ہدایت کے لیے مبعوچ کرنا بیان فرمایا چودھویں رکوع تک جب اس خاندان کی حیات کا قصہ تمام ہوا تو پندرھویں رکوع سے ایک دوسرے خاندان کی حیات کا ذکر شروع فرمایا یعنی حضرت اسماعیل کا ان کی اقامت اور تواطن کے لیے خانہ کعبہ کی تعمیر ہوئی یہ جگہ نبی آخرالزمان کی پیدائش کی جگہ اور یہ قبلہ آخری قبلہ ہے دور تک یہ سلسلہ کلام چلا گیا جب ان دونوں خاندانوں کی حیات اور قائمی سے فارغ ہوئے تو پھر اس کے بعد چند اقسام حیات کو ذکر فرمایا کہ جو بظاہر حیات کے خلاف معلوم ہوتے ہیں من جملہ ان کے شہادت فی سبیل اللہ اور مصائب پر صبر کرنا اور قصاص کو جاری کرنا اور وصیت کو بغیر تغیر وتبدل کے جاری کرنا اور روح کو زندہ رکھنے کے لیے روزہ رکھنا اور دین کی بقاء کے لیے جہاد کرنا اور شعائر اسلام کو زندہ اور قائم رکھنے کے لیے حج اور عمرہ کرنا اور مال اور آبرو کی حیات کو قائم رکھنے کے لیے شراب اور جوئے سے پرہیز کرنا اور حقوق نکاح اور زوجیت کے زندہ اور قائم رکھنے کے لیے ایلاء اور خلع اور طلاق اور عدت اور حالت حیض میں مباشرت اور اجرت رضاعت وغیرہ کی حدود کی پوری پوری رعایت رکھنا تاکہ خاندانی اور معاشرتی حیات قائم رہے اور اس کاشیرازہ منتشر نہ ہو۔ پھر جب ان اقسام حیات کے بیان سے فراغت ہوئی تو الم تر الی الذین خرجوا من دیارھم وھم الوف حذرالموت۔ آیت۔ سے چند عجیب و غریب قصے بیان فرمائے جن میں اللہ حی قیوم کی طرف سے بلااسباب ظاہری حیات غیبیہ کا عطا ہونا بیان فرمایا تاکہ خوب واضح ہوجائے کہ اس کے سوا کوئی حی اور قیوم نہیں جو بھی زندہ اور قائم ہے وہ اس کی دی ہوئی حیات سے قائم ہے اللہ نے دو قصے اس کلمہ حی وقیوم سے پہلے ذکر فرمائے اور تین قصے اسی مدعا کے اثبات کے لیے آیت الکرسی کے بعد ذکر فرمائے، پہلا قصہ حیات بنی اسرائیل کی اس جماعت کا ذکر فرمایا کہ جو وبا سے ڈر کر بھاگے اور پھر ایک نبی کی دعا سے زندہ ہوئے، دوسرا قصہ طالوت اور جالوت اور تابوت سکینہ کا نازل فرمائیا جس سے اس خاندان کی گم شدہ حیات پھر واپس آئی۔ اس کے بعد آیت الکرسی کو ذکر فرمایا جس میں اللہ کی حیات اور قیومت اور مالکیت اور عظمت اور ہیبت اور قدرت کاملہ اور علم محیط کا ذکر فرمایا اور یہ بتلا دیا کہ اسلام اور سیدھا راستہ یہ ہے کہ خدا کو وحدہ لاشریک مانا جائے حق واضح ہے جس کا جی چاہے قبول کرے کسی پر زبردستی نہیں۔ اس کے بعد پھر اپنی حیات اور قیومیت کے اثبات کے لیے تین قصے ذکر فرمائے جس سے حیات اخروی کانمونہ معلوم ہوا اور یہ واضح ہوجائے کہ وہ حی وقیوم مردوں کے زندہ کرنے پر قادر ہے تاکہ لوگ قیامت کے بارے میں شک نہ کریں پھر اس کے بعد صدقات اور خیرات کے احکام بیان فرمائے جو انسان کی دینی اور دنیوی زندگی کے قیام کا سبب ہیں اور سود سے ممانعت فرمائی کہ جو انسان کی دینی اور دنیوی حیات کی تباہی اور بربادی کا سبب ہے پھر اس سورت کو للہ مافی السماوات ومافی الارض۔ آیت۔ سے ایمانیات اور اعتقادیات اور دعا اور استغفار کے مضمون پر ختم فرمایا اس لیے کہ ایمان اور توبہ اور استغفار ہی سے مردہ دلوں کو حیات جاودانی حاصل ہوتی ہے خلاصہ کلام یہ کہ تمام سورت حق تعالیٰ کے اسم حی وقیوم کی شرح اور تفصیل ہے اور آیت الکرسی اس سورت کے لیے بمنزلہ دل کے ہے اور یہ اسم حی وقیوم بمنزلہ جان کے ہے باقی آیتیں بمنزلہ اعضاء اور جوارح کے ہیں۔ واللہ اعلم۔ (حق اور باطل نور اور ظلمت کا فرق واضح ہے) ۔
Top