Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Taiseer-ul-Quran - Al-Baqara : 255
اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ١ۚ۬ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌ١ؕ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖ١ؕ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ١ۚ وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ١ۚ وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ١ۚ وَ لَا یَئُوْدُهٗ حِفْظُهُمَا١ۚ وَ هُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ
اَللّٰهُ
: اللہ
لَآ اِلٰهَ
: نہیں معبود
اِلَّا ھُوَ
: سوائے اس کے
اَلْحَيُّ
: زندہ
الْقَيُّوْمُ
: تھامنے والا
لَا تَاْخُذُهٗ
: نہ اسے آتی ہے
سِنَةٌ
: اونگھ
وَّلَا
: اور نہ
نَوْمٌ
: نیند
لَهٗ
: اسی کا ہے
مَا
: جو
فِي السَّمٰوٰتِ
: آسمانوں میں
وَمَا
: اور جو
فِي الْاَرْضِ
: زمین میں
مَنْ ذَا
: کون جو
الَّذِيْ
: وہ جو
يَشْفَعُ
: سفارش کرے
عِنْدَهٗٓ
: اس کے پاس
اِلَّا
: مگر (بغیر)
بِاِذْنِهٖ
: اس کی اجازت سے
يَعْلَمُ
: وہ جانتا ہے
مَا
: جو
بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ
: ان کے سامنے
وَمَا
: اور جو
خَلْفَھُمْ
: ان کے پیچھے
وَلَا
: اور نہیں
يُحِيْطُوْنَ
: وہ احاطہ کرتے ہیں
بِشَيْءٍ
: کس چیز کا
مِّنْ
: سے
عِلْمِهٖٓ
: اس کا علم
اِلَّا
: مگر
بِمَا شَآءَ
: جتنا وہ چاہے
وَسِعَ
: سما لیا
كُرْسِيُّهُ
: اس کی کرسی
السَّمٰوٰتِ
: آسمان (جمع)
وَ
: اور
الْاَرْضَ
: زمین
وَلَا
: اور نہیں
يَئُوْدُهٗ
: تھکاتی اس کو
حِفْظُهُمَا
: ان کی حفاظت
وَھُوَ
: اور وہ
الْعَلِيُّ
: بلند مرتبہ
الْعَظِيْمُ
: عظمت والا
اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔
361
وہ ہمیشہ سے زندہ ہے اور کائنات کی ہر چیز کو قائم رکھنے والا ہے۔ نہ اس پر اونگھ غالب آتی ہے اور نہ نیند۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کا ہے۔ کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے حضور سفارش
362
کرسکے ؟ جو کچھ لوگوں کے سامنے ہے وہ اسے بھی جانتا ہے اور جو ان سے اوجھل ہے اسے بھی جانتا ہے۔ یہ لوگ اللہ کے علم میں سے کسی چیز کا بھی ادراک نہیں کرسکتے مگر اتنا ہی جتنا وہ خود
363
چاہے۔ اس کی کرسی آسمانوں اور زمین کو محیط ہے اور ان دونوں کی حفاظت اسے تھکاتی نہیں۔ وہ بلندو برتر اور عظمت والا ہے
361
یہ آیت آیۃ الکرسی کے نام سے مشہور ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی ایسی مکمل معرفت بیان کی گئی ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ اسی لیے اس آیت کو قرآن کی سب سے افضل آیت قرار دیا گیا ہے۔ جیسا درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔
1
۔ ابی بن کعب سے روایت ہے کہ آپ نے مجھ سے پوچھا ابو منذر ! جانتے ہو، تمہارے پاس کتاب اللہ کی سب سے عظمت والی آیت کونسی ہے ؟ میں نے کہا : اللہ و رسولہ، اعلم آپ نے پھر پوچھا : ابو منذر ! جانتے ہو تمہارے پاس کتاب اللہ کی کونسی آیت سب سے عظیم ہے : میں نے کہا : (لاَ اِلٰہَ الاَّ ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ) آپ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا : ابو منذر ! تمہیں علم مبارک ہو۔ (مسلم، کتاب فضائل القرآن وما یتعلق بہ۔ باب فضل سورة کہف و آیۃ الکرسی)
2
۔ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ آپ نے مجھے صدقہ فطر کی حفاظت پر مقرر کیا۔ کوئی شخص آیا اور غلہ چوری کرنے لگا میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا : میں تجھے رسول اکرم کے پاس لے جاؤں گا ؟ وہ کہنے لگا، میں محتاج ہوں، عیالدار اور سخت تکلیف میں ہوں۔ چناچہ میں نے اسے چھوڑ دیا، جب صبح ہوئی تو آپ نے مجھ سے پوچھا : ابوہریرہ ! آج رات تمہارے قیدی نے کیا کہا تھا ؟ میں نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ اس نے محتاجی اور عیالداری کا شکوہ کیا تھا۔ مجھے رحم آیا تو میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا : دھیان رکھنا وہ جھوٹا ہے وہ پھر تمہارے پاس آئے گا۔ چناچہ اگلی رات وہ پھر آیا اور غلہ اٹھانے لگا۔ میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا آج تو ضرور میں تمہیں آپ کے پاس لے جاؤں گا۔ وہ کہنے لگا مجھے چھوڑ دو میں محتاج ہوں اور عیالدار ہوں، آئندہ نہیں آؤں گا مجھے پھر رحم آگیا اور اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو آپ نے مجھ سے پوچھا : ابوہریرہ ! تمہارے قیدی نے کیا کیا ؟ میں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ! اس نے سخت محتاجی اور عیالداری کا شکوہ کیا تھا، مجھے رحم آگیا تو میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا : دھیان رکھنا وہ جھوٹا ہے اور وہ پھر آئے گا۔ چناچہ تیسری بار میں تاک میں رہا۔ وہ آیا اور غلہ سمیٹنے لگا : میں نے کہا : اب تو میں تمہیں ضرور آپ کے پاس لے جاؤں گا۔ اب یہ تیسری بار ہے تو ہر بار یہی کہتا رہا کہ پھر نہ آؤں گا مگر پھر آتا رہا۔ اس نے کہا مجھے چھوڑ دو ، میں تمہیں چند کلمے سکھاتا ہوں جو تمہیں فائدہ دیں گے۔ میں نے کہا : وہ کیا ہیں ؟ کہنے لگا : جب تو سونے لگے تو آیۃ الکرسی پڑھ لیا کر۔ اللہ کی طرف سے ایک فرشتہ تیرا نگہبان ہوگا۔ اور صبح تک شیطان تیرے پاس نہیں آئے گا۔ چناچہ میں نے اسے پھر چھوڑ دیا، صبح ہوئی تو آپ نے مجھ سے پوچھا تیرے قیدی نے آج رات کیا کیا ؟ میں نے آپ کو ساری بات بتلا دی، تو آپ نے فرمایا ! اس نے یہ بات سچی کہی حالانکہ وہ کذاب ہے۔ پھر آپ نے مجھ سے کہا : ابوہریرہ ! جانتے ہو، تین راتوں سے کون تمہارے پاس آتا رہا ہے ؟ میں نے کہا : نہیں۔ آپ نے فرمایا وہ شیطان تھا۔ (بخاری۔ کتاب الوکالہ باب اذا و کل رجلا فترک الوکیل شیأا الخ)
3
۔ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہر چیز کی ایک کوہان ہوتی ہے اور قرآن کی کوہان سورة بقرہ ہے اور اس میں ایک آیت جو قرآن کی سب آیتوں کی سردار ہے اور وہ آیت الکرسی ہے۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر۔ باب ماجاء فی سورة البقرہ و آیۃ الکرسی) اس آیت کی عظمت یہ ہے کہ یہ آیت جہاں اللہ تعالیٰ کی تحمید و تقدیس بیان کرتی ہے وہاں شرک کی سب اقسام کی جڑ کاٹ کے رکھ دیتی ہے۔ ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور اس کی دلیل میں دو باتیں یا دو صفات ارشاد فرمائیں، ایک یہ کہ وہ حَیٌّ ہے، ازل سے زندہ ہے اور ابد تک رہے گا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ جو ہستی حی نہیں وہ الہ نہیں ہوسکتی، اس معیار پر پرکھا جائے تو دوسرے تمام الا ہوں کی الوہیت باطل قرار پاتی ہے۔ اس لیے کہ وہ حادث ہیں اور جو چیز حادث ہے اسے فنا یا موت لازمی ہے۔ خواہ یہ معبود جمادات سے تعلق رکھتے ہوں یا نباتات سے یا حیوانات سے یا انسانوں یا فرشتوں اور جنوں سے یا اجرام سماوی سے یہ سب چیزیں حادث ہیں اور کوئی چیز بھی حَیٌّ ہونے کی صفت پر پوری نہیں اترتی، دوسری صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ قائم بالذات ہے اور دوسری تمام اشیاء کو قائم رکھنے والی ہے۔ یہ صفت بھی اللہ کے سوا دوسرے کسی معبود میں نہیں پائی جاتی۔ اجرام سماوی خود جکڑے بندے قانون کے تحت محو گردش ہیں۔ پتھروں کے معبود اپنے پجاریوں کے محتاج ہیں کہ وہ انہیں دھو دھا کر صاف کرتے رہیں۔ پھر جب چاہیں ان میں ادل بدل بھی کرلیں اور ان کی الوہیت ان مجاوروں اور مریدوں کے سہارے قائم ہے جو لوگوں سے نذرانے وصول کرتے ہیں اور ان اولیاء اللہ کے متعلق جھوٹے افسانے اور قصے کہانیاں ان کی طرف منسوب کر کے لوگوں کو ان سے ڈراتے دھمکاتے اور لوگوں کو نذرانے پیش کرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ یہ لوگ اگر اپنی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیں تو ان کی خدائی ایک دن بھی نہیں چل سکتی۔ آگے فرمایا کہ اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عیوب سے تقدیس ہے اونگھ نیند کا ابتدائی درجہ ہے اور نیند ایک اضطراری کیفیت ہے جو ہر جاندار کو اس وقت لاحق ہوتی ہے جب وہ کام کرتے کرتے تھک جاتا ہے۔ ایسی حالت میں نیند اس پر غالب آ کر اسے بےہوش بنا دیتی ہے اور اس میں موت کے کچھ آثار بھی پائے جاتے ہیں۔ اسی لیے احادیث میں نیند کو موت کی بہن قرار دیا گیا ہے اور بعض احادیث میں اسے موت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اگر اونگھ یا نیند آجائے تو اس کائنات کا سارے کا سارا نظام آن کی آن میں درہم برہم ہوجائے اور اللہ کے سوا جتنے معبود ہیں وہ سب یا تو پہلے ہی مردہ ہیں یا پھر وہ اونگھ، نیند اور موت کا شکار ہونے والے ہیں، لہذا وہ الٰہ نہیں ہوسکتے۔ آگے فرمایا کہ زمین اور آسمان کی جملہ اشیاء اس کی مملوک ہیں اور وہ ان کا مالک ہے اور یہ تو ظاہر ہے جو چیز خود کسی دوسرے کی مملوک ہو وہ الٰہ نہیں ہوسکتی۔ پھر فرمایا کہ اس کے پاس کسی کو اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرنے کی قطعاً اجازت نہ ہوگی۔ عرب لوگ بھی کسی نہ کسی رنگ میں اللہ کے ہاں سفارش کے قائل تھے اور یہ سفارش دنیوی معاملات کے لیے بھی ہوسکتی ہے اور اخروی نجات کے لیے بھی۔ مشرکین کا سفارش کے متعلق یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ ان کے دیوتا یا فرشتے یا اولیاء چونکہ خود اللہ کی طرف سے تفویض کردہ اختیارات کے مالک ہیں۔ لہذا وہ ہمیں ہر طرح سے فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور چونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیارے ہیں۔ اس لیے صرف اللہ کے ہاں سفارش ہی نہیں بلکہ اس پر دباؤ ڈال کر اپنے ماننے والوں کو اللہ کی گرفت سے بچا سکتے اور ان کی بگڑی بنا سکتے ہیں۔ یہ عقیدہ چونکہ اللہ کے بجائے دوسروں پر توکل اور اعتماد کی راہ دکھلاتا ہے۔ لہذا اس عقیدہ کی پرزور الفاظ میں تردید فرما کر شرک کا یہ دروازہ بھی بند کردیا۔ ساتھ ہی (الا باذنہ) فرما کر سفارش کی کلیۃ نفی نہیں کی۔ بلکہ چند در چند شرائط عائد کر کے سفارش پر اعتماد کے عقیدہ کو یکسر ختم کردیا اور وہ شرائط یہ ہیں کہ اللہ جسے خود چاہے گا اسے ہی سفارش کی اجازت دے گا اور جس شخص کے حق میں چاہے گا اسی کے لیے اجازت دے گا اور جس کام کی معافی کے لیے سفارش کی اجازت دے گا۔ سفارش کرنے والا صرف اسی بات کے متعلق سفارش کرسکے گا۔ اس کے بعد فرمایا کہ اللہ تو سب لوگوں کے اگلے اور پچھلے، ماضی اور مستقبل کے سب حالات سے پوری طرح واقف ہے۔ جبکہ دوسرے اللہ کی وسعت علم کی گرد کو بھی نہیں پا سکے۔ سفارش تو یہ ہوتی ہے کہ فلاں شخص سے فلاں کام غلطی سے یا دانستہ سرزد ہوگیا ہے۔ اس کی زندگی کا سابقہ ریکارڈ بالکل ٹھیک ہے لہذا اس کا یہ گناہ معاف کردیا جائے۔ لیکن اللہ کے مقابلہ میں ان مشرکوں کے مزعومہ سفارشی اللہ کے علم میں کیا اضافہ کرسکتے ہیں ان کو تو اتنا ہی علم دیا گیا ہے جتنا کہ اللہ کو منظور تھا اور جو اپنی ذات کا بھی پورا علم نہیں رکھتا وہ دوسروں کے متعلق کیسے رکھتا ہے۔ آگے فرمایا کہ اس کی کرسی تمام کائنات کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ یہاں بعض لوگوں نے کرسی کا معنی اقتدار کیا ہے، لیکن ہم ان لوگوں کے نظریہ کے قائل نہیں بلکہ ہمارے خیال میں کرسی کے لفظ کے معانی میں جو جامعیت ہے وہ اقتدار میں نہیں ہے۔ پھر کوئی اللہ کی گرفت سے بچ کر کہاں جاسکتا ہے۔ آگے فرمایا کہ کائنات کے انتظام و انصرام اور اس کی حفاظت اللہ تعالیٰ کو نہ تھکاتی ہے اور نہ گرانبار بناتی ہے۔ لہذا اللہ تعالیٰ کو انسان اور انسانی کمزوریوں پر محمول نہ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات تو ہر قسم کی تشبیہات سے ماورا بھی ہے اور عظمت والی بھی ہے۔ گویا ان آخری جملوں میں پھر اللہ تعالیٰ کی تقدیس بیان کی گئی ہے۔ گویا تحمید، تسبیح اور تقدیس سب پہلوؤں سے یہ آیت ایک جامع آیت ہے۔
362
یہاں ہم تین احادیث صحیحہ درج کرتے ہیں جس سے شفاعت کے کئی پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے۔ مثلاً یہ کہ قیامت کا دن اس قدر ہولناک ہوگا کہ بڑے بڑے انبیاء بھی اللہ کے حضور سفارش کرنے کی جرات نہ کرسکیں گے اور بالآخر قرعہ فال نبی آخر الزمان پر پڑے گا، نیز یہ کہ سفارش کیسے لوگوں کے حق میں ہوگی، نیز یہ کہ ہمارے ہاں جو پیر و فقیر اپنے مریدوں سے بےدھڑک شفاعت کرنے کے وعدے کرتے ہیں یا جن لوگوں نے اپنی اخروی نجات کا انحصار ہی اپنے پیروں اور مشائخ کی شفاعت سمجھا ہوا ہے اس کی کیا حقیقت ہے وغیرہ وغیرہ۔
1
۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : قیامت کے دن ایماندار لوگ جمع ہو کر کہیں گے بہتر یہ ہے کہ ہم اپنے پروردگار کے حضور کسی کی سفارش پہنچائیں۔ وہ آدم کے پاس آ کر کہیں گے۔ آپ سب لوگوں کے باپ ہیں۔ آپ کو اللہ نے اپنے ہاتھ سے بنایا، فرشتوں سے سجدہ کرایا اور آپ کو تمام اشیاء کے نام سکھلائے۔ لہذا اپنے پروردگار کے ہاں ہماری سفارش کریں کہ وہ اس مصیبت کی جگہ سے نکال کر آرام دے۔ وہ کہیں گے : میں اس لائق نہیں اور وہ اپنا قصور یاد کر کے (اللہ کے حضور جانے سے) شرمائیں گے اور کہیں گے : تم نوح کے پاس جاؤ۔ وہ پہلے رسول ہیں۔ جنہیں اللہ نے زمین والوں کی طرف بھیجا، لوگ نوح کے پاس جائیں گے تو وہ کہیں گے : میں اس کا اہل نہیں۔ وہ اپنا سوال یاد کر کے شرمائیں گے جو انہوں نے بغیر علم کے اپنے پروردگار سے کیا تھا۔ پھر کہیں گے تم اللہ کے خلیل (حضرت ابراہیم) کے پاس جاؤ۔ لوگ ان کے پاس آئیں گے۔ وہ بھی یہی کہیں گے کہ میں اس کا اہل نہیں۔ تم موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ وہ ایسے بندے ہیں جس سے اللہ نے کلام کیا اور انہیں تورات دی۔ چناچہ لوگ موسیٰ کے پاس آئیں گے تو وہ کہیں گے : میں اس کا اہل نہیں۔ وہ اپنے خون ناحق کو یاد کر کے اپنے پروردگار کے ہاں جانے سے شرمائیں گے اور کہیں گے : تم عیسیٰ کے پاس جاؤ، وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول، اس کا کلمہ اور اس کی روح ہیں۔ اب لوگ ان کے پاس جائیں گے تو وہ کہیں گے : میں اس کا اہل نہیں۔ تم محمد ﷺ کے پاس جاؤ۔ وہ ایسے (مقرب) بندے ہیں جن کے اللہ تعالیٰ نے سب اگلے پچھلے قصور معاف کردیئے ہیں۔۔ پھر لوگ میرے پاس آئیں گے تو میں وہاں سے چل کر اپنے پروردگار کے حضور حاضر ہونے کی اجازت طلب کروں گا، مجھے اجازت مل جائے گی۔ پھر جب میں اپنے پروردگار کو دیکھوں گا تو سجدہ میں گر جاؤں گا پھر جب تک پروردگار چاہے گا، مجھے سجدہ میں پڑا رہنے دے گا، پھر ارشاد ہوگا، اپنا سر اٹھاؤ اور سوال کرو وہ تمہیں دیا جائے گا اور بات کرو تو سنی جائے گی اور سفارش کرو تو قبول کی جائے گی۔ چناچہ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اس کی ایسی تعریف کروں گا جو اللہ تعالیٰ مجھے اس وقت سکھلائے گا۔ پھر میں سفارش کروں گا جس کے لیے ایک حد مقرر کی جائے گی۔ میں ان لوگوں کو بہشت میں پہنچا دوں گا۔ پھر اپنے پروردگار کی طرف لوٹ آؤں گا اور جب اپنے پروردگار کو دیکھوں گا تو پہلے کی طرح سجدہ میں گر جاؤں گا۔ پھر میں سفارش کروں گا تو میرے لیے ایک حد مقرر کردی جائے گی، میں انہیں جنت میں داخل کروں گا۔ پھر تیسری بار اپنے پروردگار کی طرف لوٹ آؤں گا، پھر چوتھی بار آؤں گا۔ اور عرض کروں گا : پروردگار ! اب تو دوزخ میں (جانے والے) وہی لوگ باقی رہ گئے ہیں جو قرآن کی رو سے دوزخ میں جانے کے لائق ہیں اور انہیں ہمیشہ دوزخ میں رہنا ہے۔ (بخاری، کتاب التفسیر) زیر آیت (علم اٰدم الاسماء)
2
۔ حضرت ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : میں قیامت کے دن تمام اولاد آدم کا سردار ہوں گا اور اس میں کوئی فخر نہیں اور حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہوگا اور اس میں کوئی فخر نہیں اور آدم اور باقی سب انبیاء میرے جھنڈے تلے ہوں گے اور سب سے پہلے زمین میرے ہی لیے (بعث کے لیے) شق ہوگی اور اس میں کوئی فخر نہیں۔ پھر آپ نے تین بار فرمایا کہ لوگ اس دن بہت گھبرائے ہوئے ہوں گے۔ وہ آدم کے پاس آ کر کہیں گے : آپ ہمارے باپ ہیں لہذا ہمارے رب کے ہاں ہماری سفارش کیجئے۔ وہ کہیں گے : مجھ سے ایسا گناہ سرزد ہوا جس کی وجہ سے زمین پر اتارا گیا۔ البتہ تم لوگ نوح کے پاس جاؤ، لوگ نوح (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے تو وہ کہیں گے : میں نے ساری زمین والوں کے لیے بددعا کی اور وہ ہلاک ہوگئے، البتہ تم ابراہیم کے پاس جاؤ لوگ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے تو وہ کہیں گے : میں نے تین جھوٹ بولے ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا : کہ آپ نے کوئی جھوٹ نہیں بولا مگر اس سے دین کی تائید مقصود تھی۔ پھر حضرت ابراہیم کہیں گے کہ تم موسیٰ کے پاس جاؤ، لوگ موسیٰ کے پاس آئیں گے تو وہ کہیں گے : میں نے ایک شخص کو مار ڈالا تھا۔ اب تم عیسیٰ کے پاس جاؤ۔ وہ کہیں گے۔ مجھے لوگوں نے اللہ کے علاوہ معبود بنا ڈالا تھا۔ تم محمد ﷺ کے پاس جاؤ۔ پھر سب لوگ میرے پاس آئیں گے۔ سو میں ان کے ساتھ جاؤں گا اور جا کر جنت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گا۔ اندر سے کوئی پوچھے گا : یہ کون ہے ؟ کہا جائے گا محمد ﷺ ہیں تو وہ میرے لیے دروازہ کھول دیں گے اور مجھے خوش آمدید کہیں گے اور تواضح کریں گے، میں سجدہ میں گر جاؤں گا۔ اس وقت اللہ مجھے اپنی حمد و ثنا الہام کرے گا۔ پھر مجھے کہا جائے گا اپنا سر اٹھاؤ اور مانگو تمہیں دیا جائے گا اور سفارش کرو تو قبول کی جائے گی اور تمہاری بات سنی جائے گی اور یہی وہ مقام محمود ہے جس کا اللہ نے اس آیت میں ذکر فرمایا ہے (وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ ڰ عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا
79
)
17
۔ الإسراء :
79
) (ترمذی، ابو اب التفسیر، سورة بنی اسرائیل)
3
۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے آپ سے پوچھا ! یا رسول اللہ ! قیامت کے دن آپ کی شفاعت کا سب سے زیادہ مستحق کون ہوگا ؟ آپ نے فرمایا ! ابوہریرہ ! مجھے معلوم تھا کہ تجھ سے پہلے مجھ سے کوئی یہ بات نہ پوچھے گا کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں حدیث سننے کی کتنی حرص ہے تو سنو : میری شفاعت سب سے زیادہ اس شخص کے نصیب میں ہوگی جس نے سچے دل سے لا الہ الا اللہ کہا ہو۔ (بخاری، کتاب العلم۔ باب الحرص علی الحدیث)
363
کیونکہ یہ کائنات اور اس کی وسعت لامحدود ہے اور اس کا احاطہ انسان کی بساط سے باہر ہے۔ انسان جتنی طاقتور سے طاقتور دوربینیں ایجاد کرتا ہے، کائنات کی وسعت دیکھ کر اس کی حیرانگی میں مزید اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ پھر بھلا وہ اس کے علم کا کیا احاطہ کرسکے گا۔ انسان کا علم تو بس اتنا ہی ہے جتنا اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ انبیاء کو عطا کیا یا پھر انسان نے خود بعض اشیاء پر تجربے کر کے حاصل کرلیا ہے اور یہ ایسا ہی ہے جیسے سمندر کے مقابلہ میں پانی کی ایک بوند۔
Top