Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 255
اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ١ۚ۬ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌ١ؕ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖ١ؕ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ١ۚ وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ١ۚ وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ١ۚ وَ لَا یَئُوْدُهٗ حِفْظُهُمَا١ۚ وَ هُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ
اَللّٰهُ
: اللہ
لَآ اِلٰهَ
: نہیں معبود
اِلَّا ھُوَ
: سوائے اس کے
اَلْحَيُّ
: زندہ
الْقَيُّوْمُ
: تھامنے والا
لَا تَاْخُذُهٗ
: نہ اسے آتی ہے
سِنَةٌ
: اونگھ
وَّلَا
: اور نہ
نَوْمٌ
: نیند
لَهٗ
: اسی کا ہے
مَا
: جو
فِي السَّمٰوٰتِ
: آسمانوں میں
وَمَا
: اور جو
فِي الْاَرْضِ
: زمین میں
مَنْ ذَا
: کون جو
الَّذِيْ
: وہ جو
يَشْفَعُ
: سفارش کرے
عِنْدَهٗٓ
: اس کے پاس
اِلَّا
: مگر (بغیر)
بِاِذْنِهٖ
: اس کی اجازت سے
يَعْلَمُ
: وہ جانتا ہے
مَا
: جو
بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ
: ان کے سامنے
وَمَا
: اور جو
خَلْفَھُمْ
: ان کے پیچھے
وَلَا
: اور نہیں
يُحِيْطُوْنَ
: وہ احاطہ کرتے ہیں
بِشَيْءٍ
: کس چیز کا
مِّنْ
: سے
عِلْمِهٖٓ
: اس کا علم
اِلَّا
: مگر
بِمَا شَآءَ
: جتنا وہ چاہے
وَسِعَ
: سما لیا
كُرْسِيُّهُ
: اس کی کرسی
السَّمٰوٰتِ
: آسمان (جمع)
وَ
: اور
الْاَرْضَ
: زمین
وَلَا
: اور نہیں
يَئُوْدُهٗ
: تھکاتی اس کو
حِفْظُهُمَا
: ان کی حفاظت
وَھُوَ
: اور وہ
الْعَلِيُّ
: بلند مرتبہ
الْعَظِيْمُ
: عظمت والا
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، مگر وہی ہے۔ وہ زندہ ہے ۔ قائم رکھنے والا ہے۔ نہیں پکڑتی اس کو اونگھ اور نہ نیند ، اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ کون ہے جو اس کے سامنے سفارش کرسکے بغیر اس کی اجازت کے ، جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے اور نہیں احاطہ کرتے کسی چیز کا اس کے علم میں سے مگر جتنا وہ چاہے وسیع ہے اس کی کرسی آسمانوں اور زمین سے اور نہیں تھکاتی اس کو حفاظت ان کی اور وہ بلند تر اور عظمت والا ہے
ربطہ آیات پہلے دو رکوع میں اللہ تعالیٰ نے نظام خلافت کا ذکر فرمایا ہے۔ بنی اسرائیل کا واقعہ بیان کرکے جہاد کا مسئلہ سمجھایا ہے اور پھر نظام اسلام کی نشاندہی کی ہے کہ امیر کیسا ہوناچاہئے۔ سپاہی اور لشکر کی صفات کیا ہوں جہاد ہی کے سلسلہ میں جان و مال کی قربانی کا خصوصی ذکر فرمایا ہے۔ پھر اس اعتراض کا جواب دیا ہے کہ جہاد کرنا نبیوں کا کام نہیں۔ فلسفہ جہاد بیان کیا ہے کہ اگر جہاد کا حکم نہ ہو ، تو فسادی لوگ زمین میں فساد برپا کریں گے۔ لہٰذا سوسائٹی کو درندہ صفت لوگوں سے محفوظ کرنے کے لیے جہاد ضروری ہے۔ اب اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان اور توحید کا مسئلہ بیان کیا ہے۔ اور اس کا ربطہ پہلی آیتوں کے ساتھ مختلف طریقوں سے ہے جہاد کے سلسلہ میں جان و مال کھپانے کا ذکر ہوچکا ہے۔ مگر ان دو چیزوں کی قربانی اسی وقت قبول ہوگی جب ایمان صحیح ہو اور انسان کا عقیدہ توحید پر ہو۔ اعمال کا دارومدار پر ہے۔ اگر عقیدہ درست نہیں ہوگا تو کوئی عمل قابل نہیں ۔ عقیدہ توحید کے بغیر پہاڑ جتنے اعمال بھی بےسود محض ہوں گے۔ ان کی حیثیت راکھ اور غبار سے زیادہ سے نہیں ہوگی۔ لہٰذا مسئلہ توحید کو مسئلہ جہاد کے ساتھ یہ ربط ہے۔ پیشتر ازیں بنی اسرائیل کے واقعہ کے ضمن میں نظام خلافت بھی سمجھادیا گیا ہے اور اس بات کی وضاحت کردی گئی ہے کہ اقتدار کا حقیقی مالک خلیفہ نہیں ہوتا جو اپنی من مانی کرتا پھرے ، بلکہ اقتدار کا مالک اللہ ہوتا ہے۔ خلیفہ تو اللہ کا بندہ ہوتا ہے جو نظام خلافت کو چلاتا ہے۔ اس سورة کے آخری حصہ میں بھی یہی بات سمجھائی گئی ہے کہ خلیفہ اقتدار کا مالک نہیں ہوتا بلکہ وہ تو امین ہوتا ہے اور دین اور شریعت کو جاری کرتا ہے اس کے ساتھ ایک جماعت ہوتی ہے جو نفاذِ شریعت میں اسکی مدد کرتی ہے اسے مجلس شوریٰ کو لیں یا کچھ اور۔ وہ بہرحال ” وامرھم شوریٰ بینھمـ“ کے تابع ہوتی ہے۔ تو گویا نظام خلافت کا صحیح طور پر قائم کرنا بھی عقیدہ توحید پر موقوف ہے لہٰذا اس لحاظ سے بھی آیت زیر درس کو سابقہ آیات کے ساتھ ربط ہے۔ آیت الکرسی کی فضیلت یہ آیت ایک لمبی آیت ہے اور آیت الکرسی کہلاتی ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی کرسی کا ذکر ہے۔ وسع کرسیۃ السموت والارض حدیث شریف میں اس آیت پاک کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ حضرت ابی ابن کعب ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے ان سے پوچھا کہ قرآن پاک میں سب سے بڑی آیت کون سی ہے۔ تو حضرت ابی ابن کعب ؓ نے نہایت ادب سے عرض کیا اللہ و رسولہ اعلم یعنی اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتا ہے۔ پھر حضور ﷺ نے پوچھا۔ اچھا یہ بتائو ، قرآن پاک میں بہتر آیت کون سی ہے۔ انہوں نے پھر عرض کیا۔ اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتا ہے۔ پھر نبی کریم نے حضرت ابی ؓ سے سینہ پر ہاتھ مار کر وہی سوال کیا۔ تو انہوں نے جواب دیا حضور ! اعظم ایۃ فی القراٰن اللہ لا الہ ھو الحی القیوم یعنی قرآن پاک کی سب سے بڑی آیت یہ آیت الکرسی ہے تاہم اس آیت کا یہ اعزاز الفاظ یا کلمات کے اعتبار سے نہیں بلکہ فضیلت کے اعتبار سے اسے سب سے بڑی آیت ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ایک دوسری روایت میں آتا ہے جو شخص فرض نماز کے بعد اخلاص کے ساتھ آیت الکرسی پڑھے گا۔ وہ اگلی نماز تک اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہوگا۔ حضور نبی کریم رئوف الرحیم ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا۔ جو کوئی فرض نماز کے بعد اخلاص کے ساتھ آیت الکرسی پڑھیگا۔ موت کے سوا اس کے دخول جنت میں کوئی چیز مانع نہیں ہوگی۔ یعنی جنت میں داخلے کے لیے صرف موت ہی درمیان میں رکاوٹ ہے جونہی اس کی موت واقع ہوگی ، وہ شخص جنت میں داخل ہوجائیگا گویا یہ آیت کریمہ تلاوت کرنے والا جنت کا مستحق ہوگیا۔ ایک اور حدیث میں اس آیت اور سورة مومن کی چند ابتدائی آیات کی مزید فضیلت آئی ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی آیتیں ہیں مگر فضیلت کے لحاظ سے ان کو کمال درجہ حاصل ہے۔ حم تنزیل الکتب من اللہ العزیز العلیم غافر الذنب و قابل التوب شدید العقاب ذی الطول لا الہ الا ھو الیہ المصیر حضور نے فرمایا جو شخص آیت الکرسی اور سورة مومن یا غافر کی یہ تین آیتیں رات کے وقت تلاوت کریگا۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے صبح تک اس کی حفاظت ہوتی رہیگی۔ اور جو کوئی صبح کے وقت یہ آیتیں تلاوت کریگا۔ وہ رات تک اللہ کی امان میں ہوگا۔ ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ حضور نبی (علیہ السلام) نے فرمایا کہ سورة بقرہ میں ایک ایسی آیت ہے جو فضیلت کے لحاظ سے سب سے بڑی آیت ہے جس گھر میں یہ آیت پڑھی جاتی ہے۔ وہاں شیطان نہیں ٹھہر سکتا ۔ بلکہ وہاں سے بھا گ جاتا ہے۔ اس آیت کا اتنا عظیم اثر ہے ، صحیحین میں صدقہ الفطر کے اناج کی حفاظت والی حدیث آتی ہے کہ اس اناج کی حفاظت حضرت ابوہریرہ ؓ کے ذمہ تھی ، آپ رات کو پہرہ پر تھے کہ شیطان نے اس اناج میں سے کچھ لینا چاہا مگر صحابی رسول نے اسے پکڑ لیا ، مگر اس کی منت خوشاد کرنے پر چھوڑ دیا ۔ پھر دوسری رات آئی ، تو یہی واقعہ پیش آیا آپ نے شیطان کو دبوچ لیا ۔ اس نے وعدہ کیا کہ اس دفعہ چھوڑ دیا جائے پھر نہیں آئیگا آپ نے پھر اس کو چھوڑ دیا ، مگر وہ کم بخت تیسری رات پھر آ گیا ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے پھر اس کو پکڑ لیا اور فرمایا میں آ ج تجھے ہرگز نہیں چھوڑوں گا بلکہ حضور ﷺ کے پاس لے چلوں گا۔ شیطان نے پھر منت سماجت کی اور کہا کہ خدا کے لیے مجھے چھوڑ دو کہنے لگا کہ اگر تم آیت الکرسی پڑھ لیا کرو تو شیطان تمہارے قریب نہیں آسکے گا ، تمہاری حفاظت ہوگی ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے تیسری رات بھی شیطان کو چھوڑ دیا اور صبح کو سارا معاملہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں عرض کردیا ۔ آپ نے فرمایا اے ابوہریرہ ؓ شیطان ہے تو جھوٹا ، مگر بات اس نے ٹھیک کہی ہے۔ اگر کوئی شخص ایمان کے ساتھ اس آیت کی تلاوت کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسکا محافظ و نگہبان ہوگا۔ الغرض ! اس آیت پاک کو بہت بڑی فضلیت حال ہے ، لہٰذا ہر مسلمان کا سے ورد زبان بنا لینا چاہئے ، ہر نماز کے بعد اس کی تلاوت کی جائے ، صبح و شام کو اسے پڑھا جائے ، تو اللہ تعالیٰ ہر مصیبت سے مامون فرمائیگا اور آخرت میں جنت میں داخلے کی ضمانت ہوگی ، تا ہم مفسرین اور محدثین کرام فرماتے ہیں کہ ہر دعا اور ذکر کی قبولیت کے لیے بعض شرائط ہیں ، ہر دعا اور ہر ذکر محض پڑھ لینے سے درجہ قبولیت تک نہیں پہنچ جاتی ، قبولیت دعا کے لیے ضروری ہے کہ دعا گو فرائض سے خالی نہ ہو ، اللہ تعالیٰ نے اس پر نماز ، روزہ فرض کیا ہے ۔ تو ان کا تارک نہ ہو ، بلکہ انہیں پورا کرتا ہو اور پھر اس کا رزق بھی حلال ہو ، اس کا کھانا ، پینا اور پہننا حرام سے پاک ہو اور یہ بھی قبولیت کی شرط ہے کہ انسان حتیٰ الامکان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل کرتا ہو ، ترمذی شریف کی حدیث ۔۔۔۔ میں آتا ہے ۔ ان اللہ لا یقبل دعاء من قلب غافل ۔ اللہ تعالیٰ غافل دل کی دعا قبول نہیں کرتا ، جب کوئی دعا کرے ، تو نہایت خشو ع و خضوع کے ساتھ دعا کرنی چاہئے ، خدا کی بارگاہ میں ایسی دعا قبول نہیں ، جو دل کی گہرائیوں سے نکلنے کی بجائے محض زبان کی حرکت تک محدود ہو۔ یہ آیت پاک پچاس الفاظ پر مشتمل ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے گیارہ دلائل موجود ہیں ۔ یہ آیت گویا مجموعہ دلائل ہے۔ اس آیت کی فضلیت ان معانی میں ہے کہ کسی چیز کا علم یا اس کا ذکر اس کے معلوم یا مذکور کے تابع ہوتا ہے ، یعنی جو درجہ اور فضلیت کسی مذکور معلوم کو حاصل ہوگا وہی اس کے علم یا ذکر کو حاصل ہوگا ، اب قرآن پاک میں تو تمام چیزوں کا ذکر ہے ، کہیں خود قرآن پاک کے متعلق آتا ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے اور یہ ہدایت ہے ، کہیں اللہ کے نبیوں کا ذکر ہے ۔ کہیں بڑے آدمیوں کا ذکر ہے ، کہیں فرعون و قارون کا واقعہ بیان ہوا ہے کہیں صالحین کا ذکر ہے ، کہیں احکام ہیں کہیں نواہی ہیں ۔ انسان کی تہذیب کا بیان ہے۔ اس کے نفس اور روح کی کیفیت کا ذکر ہے۔ اسی طرح قرآن میں خود خدا تعالیٰ کی ذات اور اسکی توحیدکا ذکر ہے ، کہیں اس کی صفات کمال اور کہیں صفات و جلال و جمال کا ذکر ہے ، تو یہ جو اللہ کا ذاتی ذکر ہے ، یہ تمام اذکار سے افضل ہے ، لہٰذا جن آیات اور جملوں میں ان چیزوں کا ذکر ہوگا ، وہ آیات باقی آیات سے افضل ہوگی ، اس لحاظ سے چونکہ آیت الکرسی میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اسکی صفات کا ذکر ہے ، لہٰذا یہ آیت پاک بھی باقی آیات سے افضل ہے۔ توحید باری تعالیٰ اس عظیم آیت میں ارشاد ہوتا ہے ۔ اللہ لا الہ الا ھو اللہ وہی ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، نہ کوئی چھوٹا نہ بڑا ، نہ عارضی نہ مستقل ، نہ باپ نہ بیٹا کوئی بھی معبود نہیں ۔ معبود وہی اور صرف وہی ہے ، جو کوئی اللہ کے علاوہ کسی اور کو بھی معبود مانتا ہے ، تو اس کا عقیدہ قطعا ً باطل ہوے۔ وہ تو ایسی ذات ہے ۔ الحی جو زندہ ہے ، اس کی حیات ابدی اور سرمدی ہے ، اس کے علاوہ جتنی بھی زندگیاں ہیں ، سب جزوی اور عارضی ہیں ، کسی کو دائمی حیات حاصل نہیں ۔ زندگی کا سر چشمہ خدا کی ذات وحدہٗ لا شریک ہے ، یہ اس کی مشیت ہے جس کو جتنی زندگی چاہے دے دے اور جب چاہے واپس لے لے ۔ وہ القیوم بھی ہے ، یعنی خود قائم ہے اور کائنات کے باقی چیزوں کو قائم رکھنے والا ہے وہ عالم بالا سے لے کر ذرہ ذرہ تک کا محافظ اور نگران ہے۔ وہی پیدا کرنے والا ہے وہی جتنا عرصہ چاہے قائم رکھنے والا ہے اور پھر وہی فنا کرنے والا بھی ہے لوگوں نے کئی قسم کے باطل عقیدے بنا رکھے ہیں ۔ عیسائیوں نے باپ ، بیٹا اور روح القدس کا نظریہ قائم کیا ہوا ہے۔ تین خدا ہیں ، کیا ایک خدا کافی نہیں ہے۔ ہندوئوں کے عقیدے کے مطابق پیدا کرنے والا برہما ہے۔ تھامنیوالا وشنو ہے اور فنا کرنے والا شوا جی مہارج ہے۔ ان کے بھی تین خدا ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے باطل نظریات کی تردید فرمائی ۔ اور یہ بات واضح کردی کہ الحی القیوم وہی ہے ، پیدا بھی وہی کرتا ہے۔ پرورش بھی وہی کرتا ہے قائم بھی وہی رکھتا ہے اور پھر فنا بھی وہی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ جتنے عقیدے ہیں سب باطل ہیں ۔ اور پھر اس مالک الملک کی ہر چیز پر نگرانی اور حفاظت بھی اس طور ہے کہ لا تاخذہ سنۃ ولا نوم نہ اسے اونگھ آتی ہے اور نہ نیند ، اونگھ اور نیند تو غفلت کی علامت ہے اور اس کو آتی ہے جس کو تھکاوٹ ہوجائے اور آرام کی ضروررت ہو ، مگر اللہ کی ذات تو پاک ہے نہ وہ تھکتا ہے اور نہ اسے آرام کی ضرورت ہے۔ یہ تو ناتواں انسان ہے جو کچھ مشقت کرنے کے بعد تھک جاتا ہے اور پھر اسے آرام کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے اسکے لیے نیند جیسی نعمت تیار کی ہے۔ اللہ نے اس کو سباتا ً کہا ہے یعنی نیند انسان کے لیے آرام کا ذریعہ ہے ، تا کہ جب محنت کرنے کے بعد تھک ہار جائے تو کچھ دیر آرام کر کے پھر سے تازہ دم ہوجائے اور دوبارہ کام کاج اور عبادت میں مصروف ہوجائے۔ یہ تھکان ، کمزوری اور پھر آرام کی ضرورت اللہ تعالیٰ کی شان کے شایان نہیں ہے۔ وہ ان چیزوں سے پاک اور منزہ ہے ، بلکہ در حقیقت لہ ما فی السموات وما فی الارض زمین و آسمان کی ہر شے اسی کی پیدا کردہ ہے ۔ اسی کے قبضہ قدرت میں ہے ، اور اس کی مطیع ہے ، ہر چیز پر اس کا تصرف ہے اور اس میں اس کا کوئی شریک نہیں وہ ذات ہے جو یصرف الامر کیف یشاء جس طرح چاہے تصرف کرتا ہے ، کسی چیز کا گھٹانا ، بڑھانا ، بلندی ، پستی ، زندہ کرنا اور مارنا سب اس کے اختیار میں ہے ، ہر چیز پر اسی کا حکم چلتا ہے۔ مسئلہ شفاعت فرمایا جب قادر مطلق وہذات ہے ۔ تو من ذا الذی یشفع عندہ الا باذنہ کون ہے جو اس کے سامنے سفارش کرنے کا دم مار سکے بغیر اسکی اجازت کے ، مشرکوں کا عقیدہ یہ ہے کہ ان کے معبود ان کی سفارش کریں گے ، اللہ تعالیٰ خواہ راضی ہو یا ناراض یہ ہماری سفارش کر کے خدا کو ضرور ہی منا لیں گے ۔ یہودیوں اور نصرانیوں کا بھی اسی قسم کا عقیدہ ہے ، حالانکہ جبری اور قہری سفارش کا تو وجود ہی نہیں ہے۔ اس سے پہلے آیت میں آ چکا ہے کہ اس دن نہ خریدو فروخت ہوگی ، نہ دوستی کام آئیگی ولا شفاعۃ اور نہ کوئی سفارش ہوگی ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کی اجازت کے ساتھ سفارش کر نیکی اجازت ہوگی ۔ اشرف المخلوقات میں سب سے افضل انسان حضور خاتم النبیین ﷺ ے فرمایا قیامت کے د رب الحکمین کے سامنے آئوں گا اور اللہ تعالیٰ کے حضور لمبا سجدہ کروں گا پھر حکم ہوگا یامحدم ارفع راسک ، اے محمد ! آپ اپنا سر اٹھائیں ۔ آپ بات کریں آپ کی بات سنی جائیگی ، آپ سفارش کریں ، آپ کی سفارش قبول کی جائے گی ۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ حضور ﷺ کا یہ سجدہ دس برس کے وقفہ کے برابر لمبا ہوگا ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ شفاعت کی اجازت دیں گے ، بغیر اجازت کے کوئی سفارش نہیں ہوگی اور اجازت بھی اس شخص کے لیے دی جائیگی جس کا عقیدہ توحید پر ہوگا اور اللہ تعالیٰ کو پسند ہوا ۔ ولا یرضی لعبادہ الکفر اللہ تعالیٰ کفر والے عقیدہ ، شرک والے عقیدہ کو پسند نہیں کرتا ، وہ کفر کرنے کی توفیق تو دے دیتا ہے ۔ کافر کی رسی تو دراز کردیتا ہے مگر ان سے ناراض ہوتا ہے ، کیونکہ اس کے نزدیک والکفرون ھم الظلمون۔ کافر لوگ ہی اصل ظالم ہیں ، نیز یہ کہ ان الشرک الظلم عظیم شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ لہٰذا قیامت کے دن سفارش دو شرطوں سے مشروط ہوگی اور مستحق سفارش کیا شخص ہوگا ، من لا یشرک باللہ شیئا ً جو اللہ کے ساتھ شرک کرنے والا نہ ہو اور پھر یہ کہ بغیر اجازت کے سفارش نہ ہوگی ۔ جب اجازت ہوگی تو انبیاء ملائکہ ، اولیاء ، شہدا اور مومن سفارش کریں گے صحیحین کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ باربار سجدہ ریز ہوں گے اور اللہ تعالیٰ بار بار سفارش کی اجازت دیں گے ، یہ سفارش مختلف قسم کے لوگوں کے لیے ہوگی ۔ ایک دفعہ اجازت ہوگی کہ اس قسم کے لوگوں کے متعلق سفارش کریں ۔ آپ سفارش کر کے ان لوگوں کو دوزخ سے نکال لیں گے ، پھر سجدہ کریں گے پھر اجازت ہوگی ، اب ایسے لوگوں کی سفارش کریں ۔ آپ ان لوگوں کو بھی دوزخ سے نجات دلوائیں گے اور اس طرح آپ بار بار سجدہ کریں گے اور اللہ بار بار سفارش کی اجازت دیں گے ، دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حضور ﷺ کی شفاعت نصیب فرمائے۔ علم غیب خاصہ خداوندی ہے جس طرح اللہ تعالیٰ مختار مطلق اور قادر مطلق ہے اور جس طرح وہ الٰہ بر حق ہے اسی طرح وہ علیم کل بھی ہے ، چناچہ یہ اس کی صفت خاصہ ہے۔ یعلم ما بین ایدیھم وما خلفھم وہ ماضی کو بھی جانتا ہے اور مستقل سے بھی واقف ہے ۔ اس دنیا کے تمام امور کا بھی مکمل طور پر عالم ہے اور آخرت کے جہا ن یعنی برزخ اور قیامت کے حال کے ذرہ ذرہ سے بھی واقف ہے۔ یہ ماضی حال ، مستقبل وغیرہ انسانوں کی نسبت سے ہے وگرنہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو کوئی چیز غائب ہیں وما یعزب عن ربک من مثقال ذرۃ تیرے رب سے کوئی ذرہ برابر چیز بھی غائب نہیں ، وہ ہر شے کو جانتا ہے۔ ولا یحیطون بشی من علمہ الا بما شاء مخلوق میں سے خواہ انسان جن یا فرشتے یا کوئی اور مخلوق ہو کوئی بھی خدا تعالیٰ کے علم کا احاطہ نہیں کرسکتا ، ہاں جس قدر اللہ تعالیٰ چاہے ، وہ کسی کو اتنا علم عطا کردیتا ہے ، خدا کا علم غیر محدود ہے اور غیر متناہی ہے ، اس کو کوئی حد نہیں مگر مخلوق کا علم محدود ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت خضر (علیہ السلام) کے متعلق بخاری شریف کی روایت موجود ہے کہ ایک چڑیا نے پانی میں چونچ ماری اور جتنا پانی لے سکتی تھی لے لیا ۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا ، اے موسیٰ ! تیرا اور میرا علم خدا تعالیٰ کے علم کے مقابلے میں اس چڑیا کی چونچ کی مانند ہے ، ہم نے تو اللہ تعالیٰ کے علم میں سے اتنا حصہ بھی حاصل نہیں کیا ، جتنا چڑیا اس چڑیا نے سمندر سے پانی لیا ہے ، تم کہتے ہو کہ میں بڑا عالم ہوں ۔ بھلا ہمارے علم اور اللہ تعالیٰ کے علم میں کیا نسبت ہے ، تا ہم یہ ایک مثال ہے وگرنہ اللہ کا علم اور مقدار رات تو اس سے بھی زیادہ وسیع ہیں ، حتیٰ کہ انسان اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا ۔ اب جو لوگ دوسروں کے متعلق گمان رکھتے ہیں کہ وہ بھی ہر چیز کو جانتے ہیں ان کو کیا کہا جائے ۔ بعض لوگ اولیاء اللہ اور بعض انبیاء کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ ہماری سب باتوں کو جانتے ہیں ۔ بھائی ! یہ شرکیہ عقیدہ ہے ، ہر چیز کا جاننے والا اللہ کے سوا کوئی نہیں ۔ ہاں الا بما شاء جس قدر اللہ بتلا دے ، اتنا ہی جانتے ہیں ، یہ معبود بر حق ہی جانتا ہے کہ کسی کو کیا دکھ اور کیا تکلیف ہے۔ دوسرا کوئی نہیں جانتا اور نہ اس کو رفع کرنے پر قادر ہے ، وہ جب تک چاہتا ہے کسی کو مشکل میں ڈالے رکھتا ہے اور جب چاہتا ہے ۔ مصیبت اور پریشانی کو دور کردیتا ہے۔ آج کی دنیا میں بیچارے فلسطینی کن حالات سے گزر رہے ہیں ۔ فلپائنی مسلمان کس مشکل میں گرفتار ہیں ۔ افغانوں پر کیا بیت رہی ہے۔ ہندوستان کا مسلمان کس قدر بےبس ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کے سوا کون ہے جو مسلمانوں کے حالات کو درست فرمائے ، کون ہے ، جو ان کو مشکلات سے نکالے۔ ان کی کشتی کو گرداب سے نکالنا تو درکنا اللہ کے سوا کون ہے جو ان کے حال سے بھی واقف ہو۔ تمام انسانی برادری میں سے انبیاء علہیم السلام سب سے زیادہ جاننے والے ہوتے ہیں ۔ مگر ان کا علم بھی محدود ہوتا ہے ، وہ عالم الغیب نہیں ہوتے عالم الغیب و الشہادت صرف ذات خداوندی ہے۔ اسی کا علم ہر چیز پر محیط ہے ، واللہ بکل شی محیط اس کے علاوہ کسی اور کا علم ہر شے پر محیط نہیں ہے۔ عرش اور کرسی وسع کرسیۃ السموات والازض اس کی کرسی آسمان و زمین سے وسیع ہے عرش اور کرسی کا ذکر قرآن پاک میں جگہ جگہ موجود ہے ، مگر اس کی کیفیت کو ہم نہیں جانتے ہمارے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ان اشیاء کی موجودگی پر ایمان لے آئیں ۔ عرش اور کرسی کا حجم کیا ہے ، ان کی ساخت کیا ہے ، یہ چیزیں ہمارے احاطہ علم میں نہیں آسکتیں ۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ ساتوں زمینیں اور آسمان کرسی کے مقابلے میں ایسے ہیں ۔ جیسے کسی بہت بڑے میدان میں کڑا سا ہو ۔ اسی طرح عرش کے مقابلے میں کرسی کی ایسی ہی نسبت ہے۔ عرض اتنا بڑا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عرش کو عرش عظیم فرمایا ہے۔ بعض فرماتے ہیں کہ کرسی سے مراد علم اور قدرت ہے جوہر چیز پر وسیع ہے ۔ الرحمن علی العرش استوی اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے ، کس کیفیت کے ساتھ ، جیسا اسکی شان کے لائق ہے ، یہ بات ہمارے فہم و فراست میں نہیں آسکتی اور نہ ہم اپنے ذہن سے اس کا تصور کرسکتے ہیں ، بس ان چیزوں پر ایمان لانا ہی کافی ہے۔ ولا یودہ حفظھما ان چیزوں کی حفاظت اللہ تعالیٰ کو تھکا نہیں دیتی انسان نو مسلسل کچھ عرصہ کام کر کے تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے اور پھر آرام چاہتا ہے مگر اللہ تعالیٰ تمام کائنات کی مسلسل نگرانی کے باوجود تھکتا نہیں ۔ وہ ازل سے لے کر ابد اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے کام میں مصروف ہے ، نہ وہ تھکتا ہے ، نہ اسے اونگھ آتی ہے اور نہ نیند آتی ہے اور نہ کوئی چیز اس کے احاطہ قدرت سے باہر ہوتی ہے۔ وھو العلی اور وہ باعتبار ذات بہت بلند ہے ، وہ ہمارے تصور ، ہم اور خیال سے بلند تر ہے ، اس کے علاوہ وہ العظیم بھی ہے یعنی اس کی صفات بہت عظمت والی ہیں۔ وہ کمال عظمت کا مالک ہے ، وہ ذات کے لحاظ سے بلند ہے تو صفات کے لحاظ سے عظیم ہے۔ ہر شخص کو چاہئے کہ اس بلند مرتبہ آیت کو ورد زبا ن بنا لے تا کہ حضور ﷺ کے فرمان کے مطابق یہ آیت اس کے لیے بخشش و مغفرت کا ذریعہ بن جائے۔
Top