Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 255
اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ١ۚ۬ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌ١ؕ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖ١ؕ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ١ۚ وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ١ۚ وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ١ۚ وَ لَا یَئُوْدُهٗ حِفْظُهُمَا١ۚ وَ هُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ
اَللّٰهُ : اللہ لَآ اِلٰهَ : نہیں معبود اِلَّا ھُوَ : سوائے اس کے اَلْحَيُّ : زندہ الْقَيُّوْمُ : تھامنے والا لَا تَاْخُذُهٗ : نہ اسے آتی ہے سِنَةٌ : اونگھ وَّلَا : اور نہ نَوْمٌ : نیند لَهٗ : اسی کا ہے مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں مَنْ ذَا : کون جو الَّذِيْ : وہ جو يَشْفَعُ : سفارش کرے عِنْدَهٗٓ : اس کے پاس اِلَّا : مگر (بغیر) بِاِذْنِهٖ : اس کی اجازت سے يَعْلَمُ : وہ جانتا ہے مَا : جو بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ : ان کے سامنے وَمَا : اور جو خَلْفَھُمْ : ان کے پیچھے وَلَا : اور نہیں يُحِيْطُوْنَ : وہ احاطہ کرتے ہیں بِشَيْءٍ : کس چیز کا مِّنْ : سے عِلْمِهٖٓ : اس کا علم اِلَّا : مگر بِمَا شَآءَ : جتنا وہ چاہے وَسِعَ : سما لیا كُرْسِيُّهُ : اس کی کرسی السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَ : اور الْاَرْضَ : زمین وَلَا : اور نہیں يَئُوْدُهٗ : تھکاتی اس کو حِفْظُهُمَا : ان کی حفاظت وَھُوَ : اور وہ الْعَلِيُّ : بلند مرتبہ الْعَظِيْمُ : عظمت والا
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، مگر وہی ہے۔ وہ زندہ ہے ۔ قائم رکھنے والا ہے۔ نہیں پکڑتی اس کو اونگھ اور نہ نیند ، اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ کون ہے جو اس کے سامنے سفارش کرسکے بغیر اس کی اجازت کے ، جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے اور نہیں احاطہ کرتے کسی چیز کا اس کے علم میں سے مگر جتنا وہ چاہے وسیع ہے اس کی کرسی آسمانوں اور زمین سے اور نہیں تھکاتی اس کو حفاظت ان کی اور وہ بلند تر اور عظمت والا ہے
ربطہ آیات پہلے دو رکوع میں اللہ تعالیٰ نے نظام خلافت کا ذکر فرمایا ہے۔ بنی اسرائیل کا واقعہ بیان کرکے جہاد کا مسئلہ سمجھایا ہے اور پھر نظام اسلام کی نشاندہی کی ہے کہ امیر کیسا ہوناچاہئے۔ سپاہی اور لشکر کی صفات کیا ہوں جہاد ہی کے سلسلہ میں جان و مال کی قربانی کا خصوصی ذکر فرمایا ہے۔ پھر اس اعتراض کا جواب دیا ہے کہ جہاد کرنا نبیوں کا کام نہیں۔ فلسفہ جہاد بیان کیا ہے کہ اگر جہاد کا حکم نہ ہو ، تو فسادی لوگ زمین میں فساد برپا کریں گے۔ لہٰذا سوسائٹی کو درندہ صفت لوگوں سے محفوظ کرنے کے لیے جہاد ضروری ہے۔ اب اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان اور توحید کا مسئلہ بیان کیا ہے۔ اور اس کا ربطہ پہلی آیتوں کے ساتھ مختلف طریقوں سے ہے جہاد کے سلسلہ میں جان و مال کھپانے کا ذکر ہوچکا ہے۔ مگر ان دو چیزوں کی قربانی اسی وقت قبول ہوگی جب ایمان صحیح ہو اور انسان کا عقیدہ توحید پر ہو۔ اعمال کا دارومدار پر ہے۔ اگر عقیدہ درست نہیں ہوگا تو کوئی عمل قابل نہیں ۔ عقیدہ توحید کے بغیر پہاڑ جتنے اعمال بھی بےسود محض ہوں گے۔ ان کی حیثیت راکھ اور غبار سے زیادہ سے نہیں ہوگی۔ لہٰذا مسئلہ توحید کو مسئلہ جہاد کے ساتھ یہ ربط ہے۔ پیشتر ازیں بنی اسرائیل کے واقعہ کے ضمن میں نظام خلافت بھی سمجھادیا گیا ہے اور اس بات کی وضاحت کردی گئی ہے کہ اقتدار کا حقیقی مالک خلیفہ نہیں ہوتا جو اپنی من مانی کرتا پھرے ، بلکہ اقتدار کا مالک اللہ ہوتا ہے۔ خلیفہ تو اللہ کا بندہ ہوتا ہے جو نظام خلافت کو چلاتا ہے۔ اس سورة کے آخری حصہ میں بھی یہی بات سمجھائی گئی ہے کہ خلیفہ اقتدار کا مالک نہیں ہوتا بلکہ وہ تو امین ہوتا ہے اور دین اور شریعت کو جاری کرتا ہے اس کے ساتھ ایک جماعت ہوتی ہے جو نفاذِ شریعت میں اسکی مدد کرتی ہے اسے مجلس شوریٰ کو لیں یا کچھ اور۔ وہ بہرحال ” وامرھم شوریٰ بینھمـ“ کے تابع ہوتی ہے۔ تو گویا نظام خلافت کا صحیح طور پر قائم کرنا بھی عقیدہ توحید پر موقوف ہے لہٰذا اس لحاظ سے بھی آیت زیر درس کو سابقہ آیات کے ساتھ ربط ہے۔ آیت الکرسی کی فضیلت یہ آیت ایک لمبی آیت ہے اور آیت الکرسی کہلاتی ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی کرسی کا ذکر ہے۔ وسع کرسیۃ السموت والارض حدیث شریف میں اس آیت پاک کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ حضرت ابی ابن کعب ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے ان سے پوچھا کہ قرآن پاک میں سب سے بڑی آیت کون سی ہے۔ تو حضرت ابی ابن کعب ؓ نے نہایت ادب سے عرض کیا اللہ و رسولہ اعلم یعنی اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتا ہے۔ پھر حضور ﷺ نے پوچھا۔ اچھا یہ بتائو ، قرآن پاک میں بہتر آیت کون سی ہے۔ انہوں نے پھر عرض کیا۔ اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتا ہے۔ پھر نبی کریم نے حضرت ابی ؓ سے سینہ پر ہاتھ مار کر وہی سوال کیا۔ تو انہوں نے جواب دیا حضور ! اعظم ایۃ فی القراٰن اللہ لا الہ ھو الحی القیوم یعنی قرآن پاک کی سب سے بڑی آیت یہ آیت الکرسی ہے تاہم اس آیت کا یہ اعزاز الفاظ یا کلمات کے اعتبار سے نہیں بلکہ فضیلت کے اعتبار سے اسے سب سے بڑی آیت ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ایک دوسری روایت میں آتا ہے جو شخص فرض نماز کے بعد اخلاص کے ساتھ آیت الکرسی پڑھے گا۔ وہ اگلی نماز تک اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہوگا۔ حضور نبی کریم رئوف الرحیم ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا۔ جو کوئی فرض نماز کے بعد اخلاص کے ساتھ آیت الکرسی پڑھیگا۔ موت کے سوا اس کے دخول جنت میں کوئی چیز مانع نہیں ہوگی۔ یعنی جنت میں داخلے کے لیے صرف موت ہی درمیان میں رکاوٹ ہے جونہی اس کی موت واقع ہوگی ، وہ شخص جنت میں داخل ہوجائیگا گویا یہ آیت کریمہ تلاوت کرنے والا جنت کا مستحق ہوگیا۔ ایک اور حدیث میں اس آیت اور سورة مومن کی چند ابتدائی آیات کی مزید فضیلت آئی ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی آیتیں ہیں مگر فضیلت کے لحاظ سے ان کو کمال درجہ حاصل ہے۔ حم تنزیل الکتب من اللہ العزیز العلیم غافر الذنب و قابل التوب شدید العقاب ذی الطول لا الہ الا ھو الیہ المصیر حضور نے فرمایا جو شخص آیت الکرسی اور سورة مومن یا غافر کی یہ تین آیتیں رات کے وقت تلاوت کریگا۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے صبح تک اس کی حفاظت ہوتی رہیگی۔ اور جو کوئی صبح کے وقت یہ آیتیں تلاوت کریگا۔ وہ رات تک اللہ کی امان میں ہوگا۔ ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ حضور نبی (علیہ السلام) نے فرمایا کہ سورة بقرہ میں ایک ایسی آیت ہے جو فضیلت کے لحاظ سے سب سے بڑی آیت ہے جس گھر میں یہ آیت پڑھی جاتی ہے۔ وہاں شیطان نہیں ٹھہر سکتا ۔ بلکہ وہاں سے بھا گ جاتا ہے۔ اس آیت کا اتنا عظیم اثر ہے ، صحیحین میں صدقہ الفطر کے اناج کی حفاظت والی حدیث آتی ہے کہ اس اناج کی حفاظت حضرت ابوہریرہ ؓ کے ذمہ تھی ، آپ رات کو پہرہ پر تھے کہ شیطان نے اس اناج میں سے کچھ لینا چاہا مگر صحابی رسول نے اسے پکڑ لیا ، مگر اس کی منت خوشاد کرنے پر چھوڑ دیا ۔ پھر دوسری رات آئی ، تو یہی واقعہ پیش آیا آپ نے شیطان کو دبوچ لیا ۔ اس نے وعدہ کیا کہ اس دفعہ چھوڑ دیا جائے پھر نہیں آئیگا آپ نے پھر اس کو چھوڑ دیا ، مگر وہ کم بخت تیسری رات پھر آ گیا ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے پھر اس کو پکڑ لیا اور فرمایا میں آ ج تجھے ہرگز نہیں چھوڑوں گا بلکہ حضور ﷺ کے پاس لے چلوں گا۔ شیطان نے پھر منت سماجت کی اور کہا کہ خدا کے لیے مجھے چھوڑ دو کہنے لگا کہ اگر تم آیت الکرسی پڑھ لیا کرو تو شیطان تمہارے قریب نہیں آسکے گا ، تمہاری حفاظت ہوگی ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے تیسری رات بھی شیطان کو چھوڑ دیا اور صبح کو سارا معاملہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں عرض کردیا ۔ آپ نے فرمایا اے ابوہریرہ ؓ شیطان ہے تو جھوٹا ، مگر بات اس نے ٹھیک کہی ہے۔ اگر کوئی شخص ایمان کے ساتھ اس آیت کی تلاوت کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسکا محافظ و نگہبان ہوگا۔ الغرض ! اس آیت پاک کو بہت بڑی فضلیت حال ہے ، لہٰذا ہر مسلمان کا سے ورد زبان بنا لینا چاہئے ، ہر نماز کے بعد اس کی تلاوت کی جائے ، صبح و شام کو اسے پڑھا جائے ، تو اللہ تعالیٰ ہر مصیبت سے مامون فرمائیگا اور آخرت میں جنت میں داخلے کی ضمانت ہوگی ، تا ہم مفسرین اور محدثین کرام فرماتے ہیں کہ ہر دعا اور ذکر کی قبولیت کے لیے بعض شرائط ہیں ، ہر دعا اور ہر ذکر محض پڑھ لینے سے درجہ قبولیت تک نہیں پہنچ جاتی ، قبولیت دعا کے لیے ضروری ہے کہ دعا گو فرائض سے خالی نہ ہو ، اللہ تعالیٰ نے اس پر نماز ، روزہ فرض کیا ہے ۔ تو ان کا تارک نہ ہو ، بلکہ انہیں پورا کرتا ہو اور پھر اس کا رزق بھی حلال ہو ، اس کا کھانا ، پینا اور پہننا حرام سے پاک ہو اور یہ بھی قبولیت کی شرط ہے کہ انسان حتیٰ الامکان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل کرتا ہو ، ترمذی شریف کی حدیث ۔۔۔۔ میں آتا ہے ۔ ان اللہ لا یقبل دعاء من قلب غافل ۔ اللہ تعالیٰ غافل دل کی دعا قبول نہیں کرتا ، جب کوئی دعا کرے ، تو نہایت خشو ع و خضوع کے ساتھ دعا کرنی چاہئے ، خدا کی بارگاہ میں ایسی دعا قبول نہیں ، جو دل کی گہرائیوں سے نکلنے کی بجائے محض زبان کی حرکت تک محدود ہو۔ یہ آیت پاک پچاس الفاظ پر مشتمل ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے گیارہ دلائل موجود ہیں ۔ یہ آیت گویا مجموعہ دلائل ہے۔ اس آیت کی فضلیت ان معانی میں ہے کہ کسی چیز کا علم یا اس کا ذکر اس کے معلوم یا مذکور کے تابع ہوتا ہے ، یعنی جو درجہ اور فضلیت کسی مذکور معلوم کو حاصل ہوگا وہی اس کے علم یا ذکر کو حاصل ہوگا ، اب قرآن پاک میں تو تمام چیزوں کا ذکر ہے ، کہیں خود قرآن پاک کے متعلق آتا ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے اور یہ ہدایت ہے ، کہیں اللہ کے نبیوں کا ذکر ہے ۔ کہیں بڑے آدمیوں کا ذکر ہے ، کہیں فرعون و قارون کا واقعہ بیان ہوا ہے کہیں صالحین کا ذکر ہے ، کہیں احکام ہیں کہیں نواہی ہیں ۔ انسان کی تہذیب کا بیان ہے۔ اس کے نفس اور روح کی کیفیت کا ذکر ہے۔ اسی طرح قرآن میں خود خدا تعالیٰ کی ذات اور اسکی توحیدکا ذکر ہے ، کہیں اس کی صفات کمال اور کہیں صفات و جلال و جمال کا ذکر ہے ، تو یہ جو اللہ کا ذاتی ذکر ہے ، یہ تمام اذکار سے افضل ہے ، لہٰذا جن آیات اور جملوں میں ان چیزوں کا ذکر ہوگا ، وہ آیات باقی آیات سے افضل ہوگی ، اس لحاظ سے چونکہ آیت الکرسی میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اسکی صفات کا ذکر ہے ، لہٰذا یہ آیت پاک بھی باقی آیات سے افضل ہے۔ توحید باری تعالیٰ اس عظیم آیت میں ارشاد ہوتا ہے ۔ اللہ لا الہ الا ھو اللہ وہی ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، نہ کوئی چھوٹا نہ بڑا ، نہ عارضی نہ مستقل ، نہ باپ نہ بیٹا کوئی بھی معبود نہیں ۔ معبود وہی اور صرف وہی ہے ، جو کوئی اللہ کے علاوہ کسی اور کو بھی معبود مانتا ہے ، تو اس کا عقیدہ قطعا ً باطل ہوے۔ وہ تو ایسی ذات ہے ۔ الحی جو زندہ ہے ، اس کی حیات ابدی اور سرمدی ہے ، اس کے علاوہ جتنی بھی زندگیاں ہیں ، سب جزوی اور عارضی ہیں ، کسی کو دائمی حیات حاصل نہیں ۔ زندگی کا سر چشمہ خدا کی ذات وحدہٗ لا شریک ہے ، یہ اس کی مشیت ہے جس کو جتنی زندگی چاہے دے دے اور جب چاہے واپس لے لے ۔ وہ القیوم بھی ہے ، یعنی خود قائم ہے اور کائنات کے باقی چیزوں کو قائم رکھنے والا ہے وہ عالم بالا سے لے کر ذرہ ذرہ تک کا محافظ اور نگران ہے۔ وہی پیدا کرنے والا ہے وہی جتنا عرصہ چاہے قائم رکھنے والا ہے اور پھر وہی فنا کرنے والا بھی ہے لوگوں نے کئی قسم کے باطل عقیدے بنا رکھے ہیں ۔ عیسائیوں نے باپ ، بیٹا اور روح القدس کا نظریہ قائم کیا ہوا ہے۔ تین خدا ہیں ، کیا ایک خدا کافی نہیں ہے۔ ہندوئوں کے عقیدے کے مطابق پیدا کرنے والا برہما ہے۔ تھامنیوالا وشنو ہے اور فنا کرنے والا شوا جی مہارج ہے۔ ان کے بھی تین خدا ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے باطل نظریات کی تردید فرمائی ۔ اور یہ بات واضح کردی کہ الحی القیوم وہی ہے ، پیدا بھی وہی کرتا ہے۔ پرورش بھی وہی کرتا ہے قائم بھی وہی رکھتا ہے اور پھر فنا بھی وہی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ جتنے عقیدے ہیں سب باطل ہیں ۔ اور پھر اس مالک الملک کی ہر چیز پر نگرانی اور حفاظت بھی اس طور ہے کہ لا تاخذہ سنۃ ولا نوم نہ اسے اونگھ آتی ہے اور نہ نیند ، اونگھ اور نیند تو غفلت کی علامت ہے اور اس کو آتی ہے جس کو تھکاوٹ ہوجائے اور آرام کی ضروررت ہو ، مگر اللہ کی ذات تو پاک ہے نہ وہ تھکتا ہے اور نہ اسے آرام کی ضرورت ہے۔ یہ تو ناتواں انسان ہے جو کچھ مشقت کرنے کے بعد تھک جاتا ہے اور پھر اسے آرام کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے اسکے لیے نیند جیسی نعمت تیار کی ہے۔ اللہ نے اس کو سباتا ً کہا ہے یعنی نیند انسان کے لیے آرام کا ذریعہ ہے ، تا کہ جب محنت کرنے کے بعد تھک ہار جائے تو کچھ دیر آرام کر کے پھر سے تازہ دم ہوجائے اور دوبارہ کام کاج اور عبادت میں مصروف ہوجائے۔ یہ تھکان ، کمزوری اور پھر آرام کی ضرورت اللہ تعالیٰ کی شان کے شایان نہیں ہے۔ وہ ان چیزوں سے پاک اور منزہ ہے ، بلکہ در حقیقت لہ ما فی السموات وما فی الارض زمین و آسمان کی ہر شے اسی کی پیدا کردہ ہے ۔ اسی کے قبضہ قدرت میں ہے ، اور اس کی مطیع ہے ، ہر چیز پر اس کا تصرف ہے اور اس میں اس کا کوئی شریک نہیں وہ ذات ہے جو یصرف الامر کیف یشاء جس طرح چاہے تصرف کرتا ہے ، کسی چیز کا گھٹانا ، بڑھانا ، بلندی ، پستی ، زندہ کرنا اور مارنا سب اس کے اختیار میں ہے ، ہر چیز پر اسی کا حکم چلتا ہے۔ مسئلہ شفاعت فرمایا جب قادر مطلق وہذات ہے ۔ تو من ذا الذی یشفع عندہ الا باذنہ کون ہے جو اس کے سامنے سفارش کرنے کا دم مار سکے بغیر اسکی اجازت کے ، مشرکوں کا عقیدہ یہ ہے کہ ان کے معبود ان کی سفارش کریں گے ، اللہ تعالیٰ خواہ راضی ہو یا ناراض یہ ہماری سفارش کر کے خدا کو ضرور ہی منا لیں گے ۔ یہودیوں اور نصرانیوں کا بھی اسی قسم کا عقیدہ ہے ، حالانکہ جبری اور قہری سفارش کا تو وجود ہی نہیں ہے۔ اس سے پہلے آیت میں آ چکا ہے کہ اس دن نہ خریدو فروخت ہوگی ، نہ دوستی کام آئیگی ولا شفاعۃ اور نہ کوئی سفارش ہوگی ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کی اجازت کے ساتھ سفارش کر نیکی اجازت ہوگی ۔ اشرف المخلوقات میں سب سے افضل انسان حضور خاتم النبیین ﷺ ے فرمایا قیامت کے د رب الحکمین کے سامنے آئوں گا اور اللہ تعالیٰ کے حضور لمبا سجدہ کروں گا پھر حکم ہوگا یامحدم ارفع راسک ، اے محمد ! آپ اپنا سر اٹھائیں ۔ آپ بات کریں آپ کی بات سنی جائیگی ، آپ سفارش کریں ، آپ کی سفارش قبول کی جائے گی ۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ حضور ﷺ کا یہ سجدہ دس برس کے وقفہ کے برابر لمبا ہوگا ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ شفاعت کی اجازت دیں گے ، بغیر اجازت کے کوئی سفارش نہیں ہوگی اور اجازت بھی اس شخص کے لیے دی جائیگی جس کا عقیدہ توحید پر ہوگا اور اللہ تعالیٰ کو پسند ہوا ۔ ولا یرضی لعبادہ الکفر اللہ تعالیٰ کفر والے عقیدہ ، شرک والے عقیدہ کو پسند نہیں کرتا ، وہ کفر کرنے کی توفیق تو دے دیتا ہے ۔ کافر کی رسی تو دراز کردیتا ہے مگر ان سے ناراض ہوتا ہے ، کیونکہ اس کے نزدیک والکفرون ھم الظلمون۔ کافر لوگ ہی اصل ظالم ہیں ، نیز یہ کہ ان الشرک الظلم عظیم شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ لہٰذا قیامت کے دن سفارش دو شرطوں سے مشروط ہوگی اور مستحق سفارش کیا شخص ہوگا ، من لا یشرک باللہ شیئا ً جو اللہ کے ساتھ شرک کرنے والا نہ ہو اور پھر یہ کہ بغیر اجازت کے سفارش نہ ہوگی ۔ جب اجازت ہوگی تو انبیاء ملائکہ ، اولیاء ، شہدا اور مومن سفارش کریں گے صحیحین کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ باربار سجدہ ریز ہوں گے اور اللہ تعالیٰ بار بار سفارش کی اجازت دیں گے ، یہ سفارش مختلف قسم کے لوگوں کے لیے ہوگی ۔ ایک دفعہ اجازت ہوگی کہ اس قسم کے لوگوں کے متعلق سفارش کریں ۔ آپ سفارش کر کے ان لوگوں کو دوزخ سے نکال لیں گے ، پھر سجدہ کریں گے پھر اجازت ہوگی ، اب ایسے لوگوں کی سفارش کریں ۔ آپ ان لوگوں کو بھی دوزخ سے نجات دلوائیں گے اور اس طرح آپ بار بار سجدہ کریں گے اور اللہ بار بار سفارش کی اجازت دیں گے ، دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حضور ﷺ کی شفاعت نصیب فرمائے۔ علم غیب خاصہ خداوندی ہے جس طرح اللہ تعالیٰ مختار مطلق اور قادر مطلق ہے اور جس طرح وہ الٰہ بر حق ہے اسی طرح وہ علیم کل بھی ہے ، چناچہ یہ اس کی صفت خاصہ ہے۔ یعلم ما بین ایدیھم وما خلفھم وہ ماضی کو بھی جانتا ہے اور مستقل سے بھی واقف ہے ۔ اس دنیا کے تمام امور کا بھی مکمل طور پر عالم ہے اور آخرت کے جہا ن یعنی برزخ اور قیامت کے حال کے ذرہ ذرہ سے بھی واقف ہے۔ یہ ماضی حال ، مستقبل وغیرہ انسانوں کی نسبت سے ہے وگرنہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو کوئی چیز غائب ہیں وما یعزب عن ربک من مثقال ذرۃ تیرے رب سے کوئی ذرہ برابر چیز بھی غائب نہیں ، وہ ہر شے کو جانتا ہے۔ ولا یحیطون بشی من علمہ الا بما شاء مخلوق میں سے خواہ انسان جن یا فرشتے یا کوئی اور مخلوق ہو کوئی بھی خدا تعالیٰ کے علم کا احاطہ نہیں کرسکتا ، ہاں جس قدر اللہ تعالیٰ چاہے ، وہ کسی کو اتنا علم عطا کردیتا ہے ، خدا کا علم غیر محدود ہے اور غیر متناہی ہے ، اس کو کوئی حد نہیں مگر مخلوق کا علم محدود ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت خضر (علیہ السلام) کے متعلق بخاری شریف کی روایت موجود ہے کہ ایک چڑیا نے پانی میں چونچ ماری اور جتنا پانی لے سکتی تھی لے لیا ۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا ، اے موسیٰ ! تیرا اور میرا علم خدا تعالیٰ کے علم کے مقابلے میں اس چڑیا کی چونچ کی مانند ہے ، ہم نے تو اللہ تعالیٰ کے علم میں سے اتنا حصہ بھی حاصل نہیں کیا ، جتنا چڑیا اس چڑیا نے سمندر سے پانی لیا ہے ، تم کہتے ہو کہ میں بڑا عالم ہوں ۔ بھلا ہمارے علم اور اللہ تعالیٰ کے علم میں کیا نسبت ہے ، تا ہم یہ ایک مثال ہے وگرنہ اللہ کا علم اور مقدار رات تو اس سے بھی زیادہ وسیع ہیں ، حتیٰ کہ انسان اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا ۔ اب جو لوگ دوسروں کے متعلق گمان رکھتے ہیں کہ وہ بھی ہر چیز کو جانتے ہیں ان کو کیا کہا جائے ۔ بعض لوگ اولیاء اللہ اور بعض انبیاء کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ ہماری سب باتوں کو جانتے ہیں ۔ بھائی ! یہ شرکیہ عقیدہ ہے ، ہر چیز کا جاننے والا اللہ کے سوا کوئی نہیں ۔ ہاں الا بما شاء جس قدر اللہ بتلا دے ، اتنا ہی جانتے ہیں ، یہ معبود بر حق ہی جانتا ہے کہ کسی کو کیا دکھ اور کیا تکلیف ہے۔ دوسرا کوئی نہیں جانتا اور نہ اس کو رفع کرنے پر قادر ہے ، وہ جب تک چاہتا ہے کسی کو مشکل میں ڈالے رکھتا ہے اور جب چاہتا ہے ۔ مصیبت اور پریشانی کو دور کردیتا ہے۔ آج کی دنیا میں بیچارے فلسطینی کن حالات سے گزر رہے ہیں ۔ فلپائنی مسلمان کس مشکل میں گرفتار ہیں ۔ افغانوں پر کیا بیت رہی ہے۔ ہندوستان کا مسلمان کس قدر بےبس ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کے سوا کون ہے جو مسلمانوں کے حالات کو درست فرمائے ، کون ہے ، جو ان کو مشکلات سے نکالے۔ ان کی کشتی کو گرداب سے نکالنا تو درکنا اللہ کے سوا کون ہے جو ان کے حال سے بھی واقف ہو۔ تمام انسانی برادری میں سے انبیاء علہیم السلام سب سے زیادہ جاننے والے ہوتے ہیں ۔ مگر ان کا علم بھی محدود ہوتا ہے ، وہ عالم الغیب نہیں ہوتے عالم الغیب و الشہادت صرف ذات خداوندی ہے۔ اسی کا علم ہر چیز پر محیط ہے ، واللہ بکل شی محیط اس کے علاوہ کسی اور کا علم ہر شے پر محیط نہیں ہے۔ عرش اور کرسی وسع کرسیۃ السموات والازض اس کی کرسی آسمان و زمین سے وسیع ہے عرش اور کرسی کا ذکر قرآن پاک میں جگہ جگہ موجود ہے ، مگر اس کی کیفیت کو ہم نہیں جانتے ہمارے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ان اشیاء کی موجودگی پر ایمان لے آئیں ۔ عرش اور کرسی کا حجم کیا ہے ، ان کی ساخت کیا ہے ، یہ چیزیں ہمارے احاطہ علم میں نہیں آسکتیں ۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ ساتوں زمینیں اور آسمان کرسی کے مقابلے میں ایسے ہیں ۔ جیسے کسی بہت بڑے میدان میں کڑا سا ہو ۔ اسی طرح عرش کے مقابلے میں کرسی کی ایسی ہی نسبت ہے۔ عرض اتنا بڑا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عرش کو عرش عظیم فرمایا ہے۔ بعض فرماتے ہیں کہ کرسی سے مراد علم اور قدرت ہے جوہر چیز پر وسیع ہے ۔ الرحمن علی العرش استوی اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے ، کس کیفیت کے ساتھ ، جیسا اسکی شان کے لائق ہے ، یہ بات ہمارے فہم و فراست میں نہیں آسکتی اور نہ ہم اپنے ذہن سے اس کا تصور کرسکتے ہیں ، بس ان چیزوں پر ایمان لانا ہی کافی ہے۔ ولا یودہ حفظھما ان چیزوں کی حفاظت اللہ تعالیٰ کو تھکا نہیں دیتی انسان نو مسلسل کچھ عرصہ کام کر کے تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے اور پھر آرام چاہتا ہے مگر اللہ تعالیٰ تمام کائنات کی مسلسل نگرانی کے باوجود تھکتا نہیں ۔ وہ ازل سے لے کر ابد اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے کام میں مصروف ہے ، نہ وہ تھکتا ہے ، نہ اسے اونگھ آتی ہے اور نہ نیند آتی ہے اور نہ کوئی چیز اس کے احاطہ قدرت سے باہر ہوتی ہے۔ وھو العلی اور وہ باعتبار ذات بہت بلند ہے ، وہ ہمارے تصور ، ہم اور خیال سے بلند تر ہے ، اس کے علاوہ وہ العظیم بھی ہے یعنی اس کی صفات بہت عظمت والی ہیں۔ وہ کمال عظمت کا مالک ہے ، وہ ذات کے لحاظ سے بلند ہے تو صفات کے لحاظ سے عظیم ہے۔ ہر شخص کو چاہئے کہ اس بلند مرتبہ آیت کو ورد زبا ن بنا لے تا کہ حضور ﷺ کے فرمان کے مطابق یہ آیت اس کے لیے بخشش و مغفرت کا ذریعہ بن جائے۔
Top