Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 256
لَاۤ اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ١ۙ۫ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ١ۚ فَمَنْ یَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى١ۗ لَا انْفِصَامَ لَهَا١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
لَآ اِكْرَاهَ : نہیں زبردستی فِي : میں الدِّيْنِ : دین قَدْ تَّبَيَّنَ : بیشک جدا ہوگئی الرُّشْدُ : ہدایت مِنَ : سے الْغَيِّ : گمراہی فَمَنْ : پس جو يَّكْفُرْ : نہ مانے بِالطَّاغُوْتِ : گمراہ کرنے والے کو وَيُؤْمِنْ : اور ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر فَقَدِ : پس تحقیق اسْتَمْسَكَ : اس نے تھام لیا بِالْعُرْوَةِ : حلقہ کو الْوُثْقٰى : مضبوطی لَا انْفِصَامَ : لوٹنا نہیں لَهَا : اس کو وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں۔ ہدایت گمراہی سے بالکل الگ ہوچکی ہے۔ جس نے طاغوت کا انکار کیا اور اللہ پر ایمان لے آیا اس نے مضبوط رسی پکڑ لی جو ٹوٹنے والی نہیں اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے
لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قف لا قَدْتَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ج فَمَنْ یَّـکْفُرْبِالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْ م بِاللّٰہِ فَقَدِاسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ق لَاانْفِصَامَ لَہَا ط وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۔ (دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں۔ ہدایت گمراہی سے بالکل الگ ہوچکی ہے۔ جس نے طاغوت کا انکار کیا اور اللہ پر ایمان لے آیا اس نے مضبوط رسی پکڑ لی جو ٹوٹنے والی نہیں اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے) (256) دین کا مفہوم یہاں دین سے مراد اللہ تعالیٰ کے متعلق وہ عقیدہ ہے جو آیت الکرسی میں بیان کیا گیا ہے۔ اور اس عقیدہ کی بنیاد پر بننے والا وہ نظام زندگی ہے جس کا نام اسلام ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ آیت الکرسی میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ سورة فاتحہ کے درس میں ہم الٰہ کا مفہوم واضح کرچکے ہیں۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ الٰہ معبود کو کہتے ہیں ‘ حاکم حقیقی کو کہتے ہیں ‘ اس ذات کو کہتے ہیں جس کے ساتھ انسان اپنی تنہائی میں امیدیں باندھتا ہے اور ہر وقت جس کی ناراضگی سے لرزاں و ترساں رہتا ہے۔ وہی سب سے زیادہ محبت کا مستحق ہے اور وہی نفرت کا حوالہ ہے۔ وہی ذات ہے جو غیر مشروط طور پر مطاع مطلق ہے ‘ جس کے حکم پر نہ سوال کیا جاسکتا ہے نہ انکار کیا جاسکتا ہے۔ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے سب اسی کی ملکیت ہے ‘ کوئی اس کے سامنے دم مارنے کی جرأت نہیں کرتا ‘ اس کا علم ہر چیز کو محیط ہے۔ انسان کا ایک ایک لمحہ باقی کائنات کی طرح اس کے علم اور اس کی نگاہوں میں ہے۔ تمام مخلوقات کی حفاظت صرف وہی کرتا ہے ‘ اس کی حفاظت اٹھ جائے تو کسی کے لیے کوئی جائے امان نہیں۔ یہ ان تصورات کا خاکہ ہے جو آیت الکرسی میں دیا گیا ہے۔ اس سے خود بخود یہ بات نکلتی ہے کہ جس طرح کائنات کی ایک ایک مخلوق اس کے تکوینی نظام اور تکوینی قانون کی پابند ہے ‘ اسی طرح انسان چونکہ عقل و شعور اور فی الجملہ آزادی سے نوازا گیا ہے۔ وہ قانون تکوینی کے ساتھ ساتھ قانون تشریعی کا بھی پابند ہے۔ اللہ کو بجا طور پر یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اس کی زمین پر بسنے والے اور اس کی ربوبیت کے فیض سے پلنے والے اور اس کی عطا و بخشش کے سہارے جینے والے انسانوں کو قانون دے اور اپنی مرضی سے آگاہ کرے۔ ان پر اپنے احکام و قوانین پر مشتمل کتابیں اتارے اور اس کی تفہیم و وضاحت اور عملی طور پر اسے برپا کرنے کے لیے اپنے رسول بھیجے۔ اور پھر انسانوں کو حکم دے کہ تمہیں اس راہنمائی کے مطابق زندگی گزارنی ہے ‘ اسی پر تمہاری دنیوی اور اخروی فلاح کا دارومدار ہے۔ یہ وہ دین ہے جس کا نام اسلام ہے۔ جس کے بارے میں یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اس میں کوئی جبر ‘ کوئی زور اور زبردستی نہیں۔ اِکْرَاہ فِی الدِّیْن کا مفہوم مقصود اس سے یہ ہے کہ ہم نے انسان کو عقل ‘ شعور اور تمیز دے کر ایک آزادی سے نوازا ہے کہ وہ چاہے تو اس دین کو اختیار کرے اور چاہے تو اسے اختیار کرنے سے انکار کر دے۔ ہم فطری طور پر انسان پر جبر نہیں کرتے یعنی انسان کو اس طرح ہم نے پیدانھیں کیا کہ اس کے اندر یہ جبر رکھا جاتا کہ وہ ہمیشہ اسلام ہی پر چلنے کے لیے اپنے آپ کو مجبور پائے۔ جب بھی وہ سوچے اسلام کے مطابق سوچے اور جب بھی کوئی قدم اٹھائے تو اللہ کی اطاعت میں اٹھائے۔ فرشتوں کی طرح اس سے مختلف سوچ اور اس سے مختلف عمل پر قدرت ہی نہ رکھے۔ یہ وہ جبر فطری ہے جس سے اللہ نے انسان کی ہدایت و ضلالت میں کام نہیں لیا۔ اس میں ایک حقیقت کا اظہار بھی ہے اور ایک غلط فہمی کا ازالہ بھی۔ حقیقت تو وہی ہے جسے ہم نے عرض کردیا۔ یعنی انسان دین کی قبولیت اور عدم قبولیت میں آزاد چھوڑا گیا ہے۔ کسی طرح کا اس پر جبر نہیں کیا گیا۔ اور غلط فہمی یہ ہے کہ کبھی لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ اللہ کے نبی اور اس کی کتابیں دنیا میں اس لیے نازل کی جاتی رہی ہیں تاکہ انسانوں میں اختلافات ختم ہوجائیں ‘ ان کے سامنے ایک راہ راست واضح کردی جائے اور لوگ اس راہ راست کو اختیار کرلیں ‘ تمام غلط راستے اور الٹی سیدھی پگڈنڈیاں خود بخود ختم ہو کر رہ جائیں گی۔ لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ انبیاء آتے رہے ‘ کتابیں نازل ہوتی رہیں ‘ لیکن انسانوں میں خیر و شر کا اختلاف کبھی ختم نہ ہوا تو پھر انبیاء کے آنے اور کتابوں کے نازل ہونے کا فائدہ کیا ہوا ؟ اور کبھی کافر اسی غلط فہمی کو ایک بہانے کے طور پر بھی پیش کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ہم جو شرک کرتے ہیں اور اپنی مرضی سے ہم تحریم و تحلیل کے فیصلے کرتے ہیں تم کہتے ہو یہ باتیں کفر اور شرک ہیں اور اللہ کو یہ باتیں پسند نہیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر اللہ ایسی باتوں سے زبردستی روک کیوں نہیں دیتا ؟ ہم بھی یہی کر رہے ہیں اور ہمارے آبائو اجداد بھی یہی کرتے تھے۔ لیکن اللہ نے نہ انھیں روکا نہ ہمیں روکا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اس پر راضی ہے اور تم نے بلا وجہ ایک اختلاف پیدا کر رکھا ہے۔ قرآن کریم نے اس بات کو مختلف جگہ بیان کیا ہے ہم صرف ایک مقام کا حوالہ دیتے ہیں : وَقَالَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا لَوْشَآئَ اللّٰہُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُوْنِہٖ مِنْ شَیْئٍ نَّحْنُ وَ لَا اٰبَـآئُ نَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ دُوْنِہٖ مِنْ شَیْئٍ کَذٰلِکَ فَعَلَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَہَلْ عَلَی الرُّسُّلِ اِلَّاالْبَلَاغُ الْمُبِیْنُ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ فَمِنْہُمْ مَّنْ ھَدَی اللّٰہُ وَمِنْہُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْہِ الضَّلٰـلَۃُ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ اِنْ تَحْرِصُ عَلٰی ھُدٰ ہُمْ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِیْ مَنْ یُّضِلُّ وَمَا لَہُمْ مِّنْ نَّاصِرِیْنَ ۔ (اور مشرکین کہتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم اس کے سوا کسی کو نہ پوجتے ‘ نہ ہم نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم اس کے حکم کے بغیر کسی چیز کو حرام ٹھہرا سکتے۔ ایسا ہی سوال اٹھایا ان لوگوں نے بھی جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں تو کیا رسولوں پر واضح طور پر پہنچا دینے کے سوا کوئی ذمہ داری بھی ہے ؟ ہم نے تو ہر امت میں ایک رسول اٹھایا اس دعوت کے ساتھ کہ لوگو ! اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت سے بچو۔ تو ان میں سے کچھ ایسے ہوئے جن کو اللہ نے ہدایت بخشی اور کچھ ایسے ہوئے جو گمراہی کے سزا وار ٹھہرے تو ملک میں چلو پھرو اور دیکھو کہ رسولوں کو جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا۔ اگر تم ان لوگوں کی ہدایت کے حریص ہو تو یاد رکھو کہ اللہ ان لوگوں کو ہدایت دینے والا نہیں ہے جن کو گمراہی کا سزاوار ٹھہرا چکا اور ان کے لیے کوئی مددگار نہیں) (النحل 35 تا 37) ان آیات کریمہ میں دیکھئے اللہ نے مشرکین کی طرف سے اس غلط فہمی یا بہانے کا ذکر فرمایا ہے اور پھر اس کا جواب بھی دیا ہے کہ ہمارا کام صرف یہ تھا کہ تمہاری ہدایت کے لیے رسول بھیجتے ‘ چناچہ ہم نے ہر امت میں کوئی نہ کوئی نبی یا رسول بھیجا اور انھوں نے آ کر پوری تندہی اور جانفشانی سے یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ بندگی کے لائق صرف اللہ ہے اس کے علاوہ تمام وہ قوتیں جو اپنی بندگی کرانے کی کوشش کرتی ہیں وہ سب غلط ہیں اس لیے صرف اللہ کی بندگی کرو اور باقی تمام آستانوں سے انکار کردو۔ اس کے بعد ذمہ داری ان لوگوں کی شروع ہوجاتی ہے جن کی طرف یہ ہدایت بھیجی گئی۔ اب اسے قبول کرنا یا رد کردینا ان کی ذمہ داری ہے۔ اور اسی ذمہ داری کی ادائیگی یا عدم ادائیگی کے حوالے سے اللہ تعالیٰ ان سے سلوک فرماتے ہیں۔ اس کے بعد پھر سوال اٹھایا ہے کہ تم ہی یہ بتائو کہ کیا اللہ کے رسولوں پر صاف صاف پہنچا دینے کے علاوہ بھی کوئی ذمہ داری ہے انھوں نے اپنا کام ہمت سے بڑھ کر کیا۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اللہ نے ان پر جبر نہیں فرمایا کیونکہ یہ اس کی مشیت کا تقاضا نہیں نیز اگر وہ جبراً لوگوں کو مسلمان بناتا یا جبراً لوگوں کو کافر بناتا تو پھر جزا و سزا کا تصور عقل اور اخلاق کے اعتبار سے بگڑ جاتا نیکی کرنے والوں کے بارے میں کہا جاتا کہ انھوں نے مجبوراً نیکی کی ہے تو انھیں جزاء کس بات کی دی جا رہی ہے اور کس بات پر انھیں نوازا جا رہا ہے۔ اور برائی کرنے والوں کے بارے میں کہا جا تاکہ انھوں نے مجبوراً برائی کی ہے انھیں سزا کس بات کی دی جا رہی ہے اس لیے اس غلط فہمی یا بہانے کا کوئی جواز نہیں۔ یہی وہ بات ہے جو اس آیت کریمہ میں فرمائی گئی ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں ‘ ہدایت گمراہی سے بالکل الگ ہوچکی ہے اور پوری طرح اسے واضح کر کے بیان کردیا گیا ہے۔ اب لوگوں کا یہ کام ہے کہ وہ اسے قبول کریں یا اسے رد کردیں۔ لیکن یہ بات یاد رکھیں کہ قبول کرنے کی صورت میں وہ ایسی مضبوط رسی اور مضبوط زنجیر کو تھام لیں گے جو کبھی ٹوٹنے والی نہیں۔ یہی رشتہ انھیں دنیا میں ہر کجی اور گمراہی سے بچائے گا اور آخرت میں وہ اسی رسی کو تھامے ہوئے جنت میں پہنچ جائیں گے۔ لیکن اس کے برعکس لوگوں نے زندگی گزارنے کے لیے جو سہارے بنا رکھے ہیں ‘ جو رسیاں پکڑ رکھی ہیں وہ تو دنیا میں بھی کام دینے والی نہیں چہ جائیکہ آخرت میں کام دے سکیں۔ وہ تمام رسیاں راستے میں ٹوٹ جائیں گی اور تمام سہارے راستے ہی میں جواب دے جائیں گے۔ طاغوت کا مفہوم ہر غلط سہارے اور اللہ کے سوا ہر آستانے اور ہر مرکز اطاعت سے انکار کرنے کا یہاں حکم دیا گیا ہے اور اسے طاغوت کے نام سے یاد کیا گیا ہے اس لیے فرمایا کہ جس نے طاغوت سے کفر کیا اور اللہ پر ایمان لایا اس نے ایک مضبوط رسی کو تھام لیا۔ سوال یہ ہے کہ یہ طاغوت کیا ہے ؟ طاغوت ملکوت اور جبروت کے وزن پر طغیٰ کے مادہ سے ہے جس کا معنی ہے حد سے گزر جانا ‘ حد سے آگے بڑھ جانا ‘ اپنی حدود سے نکل جانا اور کناروں سے اچھل جانا۔ عربی میں ” طغی الماء “ کا معنی ہوتا ہے ” پانی حد سے آگے بڑھ گیا “ یعنی پانی میں طغیانی آگئی ‘ سیلاب آگیا۔ اور یہ طغیانی اور سیلاب اس وقت آتا ہے جب پانی دریا کے کناروں سے نکل کر دور دور بہنے لگتا ہے۔ اس لیے طاغوت لغوی اعتبار سے ہر اس شخص کو کہا جاتا ہے جو اپنی جائز حد سے تجاوز کرجاتا ہے۔ لیکن اصطلاحی طور پر طاغوت سے مراد وہ شخص ہے جو بندگی کی حدود سے تجاوز کر کے خود آقا اور خدا بن کے بیٹھ جائے۔ اور اللہ کے بندوں سے اپنی بندگی کرانے کی کوشش کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی نافرمانی اور سرکشی کے تین درجے ہیں۔ پہلا درجہ یہ ہے کہ بندہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا بندہ سمجھے اور اس بات پر ایمان رکھے کہ بندگی صرف اللہ کا حق ہے۔ لیکن عملی طور پر اللہ کے احکام کی نافرمانی کرے ‘ کبھی اس کے حکم کو مانے اور کبھی اس کے مطابق عمل کرنے سے گریز کرے۔ بلکہ اس کے برعکس عمل کرے۔ ایسے شخص کو فاسق کہا جاتا ہے۔ دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ بندہ سرے سے اس بات سے ہی منحرف ہوجائے کہ بندگی کرانا صرف اللہ کا حق ہے اور مجھے صرف اللہ کی بندگی کرنی چاہیے۔ بلکہ وہ خود مختار ہوجائے اور جو جی میں آئے کرتا پھرے۔ اور اللہ کے قانون کو ماننے سے انکار کر دے اور یا اللہ کے مقابلے میں کسی اور کی بندگی کرنا شروع کر دے۔ اس رویے کو کفر کرتے ہیں اور ایسا کرنے والا کافر کہلاتا ہے۔ تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ صرف اللہ کے احکام سے بغاوت ہی نہ کرے ‘ بلکہ اس کے مقابلے میں خود خدا بن کر یا بندوں کا مالک بن کر بیٹھ جائے اور اللہ کے بندوں پر حکم چلانے لگے۔ یہ سرکشی اور گمراہی کا آخری درجہ اور مرتبہ ہے جو شخص اس مرتبے پر پہنچ جاتا ہے اسے طاغوت کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے سرکشی کے مختلف سرچشمے اور مراکز ہیں جن پر طاغوت کا اطلاق ہوتا ہے۔ مثلاً ہر وہ شخص جو اپنی اطاعت کو اللہ کی طرح دوسرے پر لازم قرار دیتا ہے۔ وہ پارلیمنٹ جو اللہ کے قانون کے مقابلے میں قانون سازی کرتی ہے ‘ وہ آمر مطلق یا وہ بادشاہ جو اللہ کے قانون کے توڑ پر اپنی خواہشات پر مبنی قانون کی پیروی کو لوگوں پر لازم قرار دیتا ہے ‘ ہر وہ شیخ اور مرشد جو اپنی مرضی کو دین قرار دے کر لوگوں سے اس کی اطاعت کرواتا ہے اور اپنے سامنے لوگوں کو اس طرح جھکاتا ہے جیسے بندہ اللہ کے سامنے جھکتا ہے۔ ہر وہ برادری جو غیر شرعی فیصلے اپنے لوگوں پہ نافذ کرتی ہے اور جبراً لوگوں کو اس پر چلاتی ہے۔ اسی طرح آدمی کا وہ نفس جو سرکش ہو کر ایک مستقل مطاع بن جاتا ہے اور بندے کو اپنی اطاعت پر مجبور کرتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک طاغوت ہے۔۔ اس طرح کے ہر طاغوت کا انکار اور ان کے طریقوں کو ماننے سے انکار ایمان کا لازمی جزو ہے جس طرح اللہ پر ایمان لانا اور اس پر یقین لانے کے ساتھ ساتھ اس کی اطاعت کرنا ضروری ہے اسی طرح دنیا کے ہر آستانے سے سر اٹھا لینا ‘ ہر تخت و تاج کو ٹھکرا دینا اور ہر جابر اور ظالم کی بات کو ماننے سے انکار کردینا بھی ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ اس لیے یہاں فرمایا کہ جو اللہ پر ایمان لاتا ہے اور طاغوت سے انکار کرتا ہے۔ اسے اللہ کی وہ رسی تھامنے کو ملتی ہے جس سے آدمی کی دنیا اور آخرت محفوظ ہوجاتی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ آسمان سے زمین تک ایک رسی تنی ہوئی ہے جو آدمی اسے تھام لیتا ہے وہ دنیا میں بھی تباہی سے بچ جاتا ہے اور آخرت میں بھی سرخرو ہوگا اور جو اسے چھوڑ دے گا اس کی دنیاو آخرت دونوں تباہ ہوجائیں گی۔ ہماری متذکرہ بالا گذارشات سے یہ بات تو واضح ہوگئی کہ یہاں اکراہ سے مراد فطری جبر ہے جو اللہ تعالیٰ کسی پر نہیں فرماتے۔ نہ وہ کسی کو جبراً ایمان دیتے ہیں نہ وہ جبراً کسی کو گمراہ کرتے ہیں۔ اللہ کے نبیوں اور ان پر ایمان لانے والوں نے بھی اسی بنیادی اصول پر تبلیغ و دعوت کا کام کیا ہے۔ انھوں نے اپنی تمام صلاحیتیں اس بات پر صرف کر ڈالیں کہ کوئی شُخص ایسا باقی نہ رہے جس تک اللہ کے دین کی دعوت نہ پہنچے۔ بلکہ حتیٰ الامکان دعوت اس تکرار اور اہتمام سے پیش کی جائے اور اس کی تفہیم اور دل و دماغ میں اتارنے کے لیے عقلی دلائل سے کام لیا جائے ‘ فطری دلائل واضح کیے جائیں اور وقتاً فوقتاً ایسے معجزات کا بھی ظہور ہو جس سے اس بات کا یقین آسان ہوجائے کہ واقعی اس دین کا داعی اللہ کا نبی اور رسول ہے۔ وہ جو کچھ کہتا ہے وہ اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ اللہ کی طرف سے کہتا ہے اسی وجہ سے اس کے ہاتھ سے بعض دفعہ ایسے اعمال کا صدور ہوتا ہے جو انسانی استطاعت سے باہر ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی تائید و نصرت اس کے ساتھ ہے۔ اور مزید یہ کہ اس کے سیرت و کردار کی پاکیزگی و بلندی کا حال یہ ہے کہ دشمن اپنی تمام تر دشمنی کے باوجود اس کے کردار میں کوئی کمزوری نہیں دکھا سکتے۔ بلکہ عموماً اس اعتراف پر مجبور ہوتے ہیں کہ جو کچھ وہ پیغمبر کہتا ہے ہم اگرچہ اسے قبول نہیں کرتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نے زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا تو وہ اللہ پر کیسے جھوٹ بول سکتا ہے۔ اس طرح سے اللہ کے نبی لوگوں پر اپنی دعوت اور ہدایت کے اعتبار سے اتمام حجت کردیتے ہیں اور ان کے ماننے والے بھی اسی راستے پر چلتے ہوئے دلائل وبراہین اور اپنے حسن کردار کو دلیل بناتے ہیں جبر اور زبردستی کو نہیں۔ اللہ اگر انھیں اقتداردیتا ہے تو وہ اقتدار کو اللہ کے احکام کی بالا دستی اور مخلوق خدا کی خدمت کا ذریعہ بناتے ہیں۔ لیکن اس اقتدار کے ذریعہ وہ کسی غیر مسلم کو مسلمان ہونے کے لیے مجبور نہیں کرتے۔ اس لحاظ سے ” لا اکراہ فی الدین “ کا مفہوم یہ ہوگا کہ دین میں کوئی زبردستی نہیں۔ یعنی ہم کسی کو ایمان لانے پر مجبور نہیں کریں گے۔ جو آدمی ایمان لائے گا سو اپنی مرضی سے لائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے جہاں جہاں بھی حکومتیں قائم کیں اور بہت سارے ممالک فتح کیے انھوں نے غیر مسلموں کو مذہبی آزادی دی۔ اور ان کی پوری طرح سے نہ صرف جان و مال کی حفاظت کی بلکہ ان کے مذہبی حقوق کو بھی کبھی نقصان نہ پہنچنے دیا اور ان کی عبادت گاہوں کو پورے احترام سے باقی رکھا۔ اگر وہ جبراً مسلمان بناتے تو اندلس میں کوئی عیسائی باقی نہ رہتا۔ اور ہندوستان میں مسلمان اقلیت میں نہ ہوتے۔ اسی وجہ سے کبھی کسی اسلامی حکومت کے حوالے سے یہ شکایت پیدا نہ ہوئی کہ وہ غیر مسلموں کو جبراً مسلمان بنا رہے ہیں۔ خود آنحضرت ﷺ نے تیرہ سال تک تکلیفیں اٹھا کر اہل مکہ کو اسلام کی دعوت دی۔ اور مدینہ طیبہ میں آنحضرت ﷺ کے تشریف لے جانے سے پیشتر ہی حضرت مصعب بن عمیر ( رض) اور حضرت اسعد بن زرارہ ( رض) کی کوششوں سے مدینے کے دو بڑے قبیلوں کی اکثریت مسلمان ہوچکی تھی۔ اس لیے بعض برخود غلط قسم کے لوگوں کی جانب سے اسلام پر جو یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے اس کی کیا حقیقت باقی رہ جاتی ہے۔ ایک غلطی کا ازالہ حیرت ہوتی ہے کہ علم و ہنر کی اس ترقی کے زمانے میں بعض کم سواد یہ کہنے کی جرأت کرتے ہیں کہ لا اکراہ فی الدین کا مطلب یہ ہے کہ دین میں کوئی قانونی جبر نہیں۔ کیونکہ جبر سے مراد قانونی جبر ہے۔ یعنی جو شخص مسلمان ہوجاتا ہے اسے یہ آزادی ہے کہ وہ زندگی چاہے اسلام کے مطابق گزارے اور چاہے اسلام کے تقاضوں کے برعکس۔ اسے اسلامی حکومت جبراً اسلامی احکام کی پابندی کا حکم نہیں دے سکتی۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک آدمی کو اسلام لانے کے بعد یہ آزادی میسر رہتی ہے تو پھر اس کے اسلام لانے کا فائدہ کیا ہوا ؟ درحقیقت یہ لوگ مغرب کے اس تصور سے متاثر ہیں کہ مذہب انسان کا ایک پرائیویٹ معاملہ ہے۔ یعنی اس کا تعلق ہر آدمی کی نجی زندگی سے ہے۔ جہاں تک اس کی پبلک لائف اور تہذیبی و تمدنی زندگی کا سوال ہے اس میں وہ آزاد ہے کہ جس طرح چاہے زندگی گزارے۔ یہ جو اسلام میں سزائوں کا ذکر کیا جاتا ہے یہ سراسر مولویوں کے ڈھکوسلے ہیں۔ کوئی شخص نماز پڑھے نہ پڑھے ‘ زکوۃ دے یا نہ دے ‘ روزہ رکھے یا نہ رکھے ‘ شرم و حیا کی زندگی گزارے یا بےحیا بن کر رہے ‘ حقوق العباد ادا کرے یا حق تلفیاں کرتا پھرے ‘ اسلامی حکومت کو ہرگز اس بات کا اختیار نہیں کہ وہ ایسے شخص کو کسی بات پر مجبور کرے یا اس کے کسی جرم کی سزا دے۔ عجیب بات یہ ہے کہ یہ باتیں بعض دفعہ بڑے بڑے دانشوروں کی جانب سے کہی جاتی ہیں۔ اور مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کو بھی مانتے ہیں۔ الجھن کی بات یہ ہے کہ اگر مذہب انسان کا پرائیویٹ معاملہ ہے تو پھر قرآن و سنت نے اسلام کا جو ایک نظام پیش کیا ہے اس کی کیا تعبیر کی جائے گی۔ اسلام میں حدود و تعزیرات کا ایک پورا نظام ہے۔ اس کے فرائض وواجبات ہیں جن کی ادائیگی مسلمانوں پر واجب کی گئی ہے۔ اسلام کا ایک عدالتی سسٹم ہے جس میں عدالت کو کچھ اختیارات دیے گئے ہیں۔ اسلام میں ارتداد کی سزا رکھی گئی ہے ‘ اسلام نے اہل ایمان پر جہاد بھی واجب کیا ہے۔ قرآن کریم نے جس طرح حدود کا ذکر کیا ہے اسی طرح محاربہ پر بدترین سزائوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ کیا یہ سب باتیں مذہب کے پرائیویٹ معاملہ ہونے کی دلیل ہیں ؟ ایک خاتون چوری کے جرم میں ماخوذ ہوتی ہے۔ آپ ﷺ سے سفارش کی جاتی ہے کہ اسے معاف کردیا جائے۔ آپ ﷺ برہم ہو کر فرماتے ہیں کہ اگر میری بیٹی فاطمہ ( رض) بھی چوری کرتی جیسے اس عورت نے کی ہے تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔ آنحضرت ﷺ رحمت اللعالمین تھے۔ با ایں ہمہ شادی شدہ زانیوں کو سنگسار کروایا اور دیگر حدود بھی جاری فرمائیں۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ جو لوگ اسلام کو پرائیویٹ معاملہ قرار دیتے ہیں اور سیکولرازم کا پر اپیگنڈہ کرتے ہیں انھیں اس بات پر کبھی غور کرنا چاہیے کہ دنیا بھر کی حکومتیں تو اپنے قانون کی نافرمانی پر سزائیں دیتی ہیں حتیٰ کہ بعض جگہ پھانسی تک دی جاتی ہے لیکن آپ کو اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اصلاً یہ کہنا چاہتے ہیں کہ لا دینی حکومت کے قوانین کی جہاں نافرمانی ہوتی ہے اس کی تو سزا ملنی چاہیے ‘ البتہ اللہ سے بغاوت اور اس کے قوانین کی بےحرمتی اور نافرمانی پر کوئی سزا نہیں ہونی چاہیے۔ یعنی آپ کے نزدیک بندوں کی عزت و حرمت اور ان کے قوانین کی بالادستی کی اہمیت تو ہے لیکن اللہ کے ذات اور اس کے قوانین کی حرمت کا آپ کو کوئی پاس نہیں۔ یہ تصور سب کچھ ہوسکتا ہے لیکن اسلامی تصور نہیں ہوسکتا۔
Top