Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 255
اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ١ۚ۬ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌ١ؕ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖ١ؕ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ١ۚ وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ١ۚ وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ١ۚ وَ لَا یَئُوْدُهٗ حِفْظُهُمَا١ۚ وَ هُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ
اَللّٰهُ : اللہ لَآ اِلٰهَ : نہیں معبود اِلَّا ھُوَ : سوائے اس کے اَلْحَيُّ : زندہ الْقَيُّوْمُ : تھامنے والا لَا تَاْخُذُهٗ : نہ اسے آتی ہے سِنَةٌ : اونگھ وَّلَا : اور نہ نَوْمٌ : نیند لَهٗ : اسی کا ہے مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں مَنْ ذَا : کون جو الَّذِيْ : وہ جو يَشْفَعُ : سفارش کرے عِنْدَهٗٓ : اس کے پاس اِلَّا : مگر (بغیر) بِاِذْنِهٖ : اس کی اجازت سے يَعْلَمُ : وہ جانتا ہے مَا : جو بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ : ان کے سامنے وَمَا : اور جو خَلْفَھُمْ : ان کے پیچھے وَلَا : اور نہیں يُحِيْطُوْنَ : وہ احاطہ کرتے ہیں بِشَيْءٍ : کس چیز کا مِّنْ : سے عِلْمِهٖٓ : اس کا علم اِلَّا : مگر بِمَا شَآءَ : جتنا وہ چاہے وَسِعَ : سما لیا كُرْسِيُّهُ : اس کی کرسی السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَ : اور الْاَرْضَ : زمین وَلَا : اور نہیں يَئُوْدُهٗ : تھکاتی اس کو حِفْظُهُمَا : ان کی حفاظت وَھُوَ : اور وہ الْعَلِيُّ : بلند مرتبہ الْعَظِيْمُ : عظمت والا
اللہ زندہ جاوید ہستی ، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے ، اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے ۔ وہ نہ سوتا ہے اور نہ اسے اونگھ لگتی ہے ۔ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے ، اسی کا ہے ۔ کون ہے جو اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے ؟ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے ۔ اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے ، اس سے بھی وہ واقف ہے اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز ان کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی ۔ الا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی ان کو دینا چاہے اس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور ان کی نگہبانی اس کے لئے کوئی تھکادینے والا کام نہیں ہے ۔ بس وہی بزرگ و برتر ذات ہے۔ “
اس آیت میں جن صفات کو گنوایا گیا ہے ان میں ہر ایک اسلامی تصور کائنات کے اساسی اصولوں میں کسی ایک اصول پر مشتمل ہے ۔ اگرچہ اسلامی نظریہ حیات اور اسلام کے اساسی عقائد پر مکی دور میں نازل ہونے والی آیات میں تفصیلی بحث کی گئی ہے ۔ تاہم اس اہم اور اساسی موضوع پر مدینہ میں نازل ہونے والی آیات میں بھی بعض اوقات بحث کی گئی ہے ۔ اس لئے کہ ان عقائد و تصورات پر ہی اسلامی نظام زندگی کی بنیادرکھی گئی ہے اور جب تک اساس ٹھیک نہ ہو ، پوری دیوار درست نہیں ہوسکتی ۔ نہ اس نظام کی تشریح ہوسکتی اور نہ یہ نظام نفس انسانی کے مسلمہ حقائق سے ہم آہنگ ہوسکتا ہے ۔ نہ اس کی کوئی معقول اور پر از تعین تعبیر کی جاسکتی ہے ۔ اس کتاب کے حصہ اول میں ، تفسیر سورة فاتحہ کے ضمن میں ، میں نے اس گمراہی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔ اور یہ کہا ہے کہ ذات باری کے بارے میں انسانی ضمیر اور عقیدہ کی تطہیر کی بڑی ضرورت ہے ۔ انسانی ضمیر جاہلیت کی تہہ بہ تہہ افکار کے نیچے محض اس لئے دبا ہوا تھا کہ انسان کے ذہن میں تصور الٰہ اپنی صاف و شفاف اور واضح شکل میں نہ تھا ۔ یہ عقیدہ خرافات اور دیومالائی عقائد کے نیچے دبا ہوا تھا۔ یہاں تک کے بڑے بڑے فلاسفر کے ہاں بھی تصور خدا واضح اور صاف نہ تھا ۔ یہاں تک کہ جب اسلامی نظریہ حیات آیا اور اس نے ذات باری کو اپنے صحیح تصور کے ساتھ پیش کیا اور انسانی ضمیر کو ان ناقابل یقین مروجہ تصورات کے بوجھ کے نیچے سے نکال دیا اور انسان جس اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں ماررہا تھا ، اس سے اسے نجات ملی۔ غرض اس آیت میں جو صفات بھی بیان کی گئی ہیں وہ اسلامی تصور کائنات کے لئے ایک عمومی اساس ہیں اور اس طرح یہ صفات پھر اسلام کے تفصیلی نظام زندگی کے لئے ماخذ ہیں۔ اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ........ ” اللہ ، جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے ۔ “ یہ ایک فیصلہ کن وحدانیت ہے جس میں کسی قسم کے انحراف کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، اور اس میں وہ شرکیہ شائبے بھی نہیں ہیں جو سابقہ ادیان کے تصور الٰہ پر طاری ہوگئے تھے ۔ مثلاً تثلیث کا خودساختہ عقیدہ جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد اہل کلیسا نے اختیار کیا ........ یا وہ عقائد جن کی قدیم مصری اقوام قائل تھیں ۔ جو کسی وقت ایک خدا کے قائل تھے لیکن ازمنہ مابعد میں اس ایک خدا کو سورج کی ٹکیا کی شکل میں متمثل کردیا گیا اور بعدہ ، اس بڑے سورج الٰہ کے تحت بہت سے چھوٹے الٰہ گھڑلئے گئے ۔ یہ فیصلہ کن وحدانیت ، اسلامی تصورات و عقائد کی اساس ہے جس سے اسلامی نظام زندگی اپنی مفصل صورت میں متشکل ہوتا ہے۔ یہی تصور اللہ ہے جس کے نتیجے میں ہم اپنی عبادات اور اطاعات میں صرف اللہ کی جانب متوجہ ہوتے ہیں اس کے مطابق کوئی انسان اللہ کے سوا کسی کا مطیع فرمان اور کسی کا غلام نہیں ہوسکتا ۔ وہ صرف اللہ کی عبادت کرسکتا ہے ۔ صرف اللہ کی اطاعت اس پر فرض ہے جس کا اللہ نے اطاعت کرنے کا واضح حکم دیا ہے ۔ اسی تصور خدا سے یہ اصول پھوٹتا ہے کہ حاکمیت صرف اللہ کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اس لئے صرف وہی قانون ساز ہوسکتا ہے اور انسان اپنے قواعد و ضوابط صرف شریعت کی روشنی میں وضع کرسکتا ہے ۔ اسی تصور الٰہ سے یہ بات نکلتی ہے کہ انسان اپنے لئے اقدار حیات صرف اللہ سے اخذ کرسکتا ہے ۔ زندگی کی کوئی قدر اگر اللہ کے ترازو میں کوئی وزن نہیں رکھتی تو اس کا کوئی وزن نہ ہوگا۔ کوئی قانون ، کوئی رواج اور کوئی تنظیم جو اللہ کے نظام کے خلاف ہے بالکل کالعدم ہے ۔ غرض عقیدہ توحید کے نتیجے میں انسانی ضمیر میں ایک شعور پیدا ہوتا ہے اور پھر اس کے نتیجے میں ایک تفصیلی نقشہ حیات مرتب ہوتا ہے۔ الْحَيُّ الْقَيُّومُ........ ” زندہ جاوید اور سنبھالنے والا “ جس حیات کی نسبت یہاں ذات باری کی طرف کی گئی ہے ۔ وہ ذاتی صفت ہے ۔ وہ ایسی حیات نہیں ہے جو مثلاً ایک مخلوق اپنے خالق سے مستعار لیتی ہے ۔ اس معنی میں صرف اللہ ہی زندہ جاوید ہے ۔ وہ ازلی اور ابدی زندہ ہے ۔ نہ اس کا کوئی نقطہ آغاز ہے اور نہ نقطہ انتہا ہے ۔ حیات الٰہیہ زمان ومکان کے اس تصور سے پاک ہے جو مخلوقات کی زندگی کا ایک لازمہ ہے ۔ جس کا ایک نقطہ سے آغاز ہوتا ہے اور ایک یونٹ پر وہ جاکر ختم ہوجاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں هُوَ الْحَيُّ........ کہا گیا کہ صرف وہی زندہ ہے ۔ اس مفہوم کے ساتھ اور کوئی زندہ نہیں ہے ۔ پھر حیات باری ان تصوراتی لوازم سے پاک ہے ۔ جن کے ساتھ ایک انسان زندگی کا کوئی تصور کرسکتا ہے ۔ اس لئے کہ اللہ جیسا کوئی نہیں ہے لَیسَ کَمِثلِہٖ شَیئیٌ........ یہی وجہ ہے کہ عام زندگی کے مفہوم کے ساتھ جو خصائص وابستہ ہیں اللہ تعالیٰ کی زندگی میں ان کا شائبہ تک نہیں ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کی حیات ایک مطلق اور بےقید حیات ہے اور ان خصوصیات سے پاک ہے جو انسانی زندگی کا لازمہ ہیں ۔ لہٰذا اس سے ان تمام تصوراتی دیومالائی مفاہیم کی نفی ہوجاتی ہے جو لوگوں نے اللہ کی جانب منسوب کر رکھے ہیں۔ القیوم کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کانگہبان ہے اور تمام موجودات اس کی وجہ سے موجود ہیں ۔ اور تمام موجودات اپنے وجود اور قیام کے لئے اس کے محتاج ہیں اور اس کے زیر تدبیر ہیں ۔ یہ بات نہیں ہے کہ اللہ تخلیق کے بعد اپنی مخلوقات کے بارے میں کوئی فکر نہیں کرتا جیسا کہ ارسطو کا قول ہے ۔ ارسطو کا یہ خیال تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے علاوہ کسی کے بارے میں فکر مند نہیں ہوسکتا ۔ وہ سمجھتا ہے کہ قیومیت کے اس تصور میں مکمل پاکی اور عظمت پائی جاتی ہے ۔ حالانکہ اس کے اس تصور کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ جل شانہ کا رابطہ اپنی مخلوق کے ساتھ کٹ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ مخلوق کو ترک کردیتے ہیں ۔ اس کے مقابلے میں اللہ کا اسلامی تصور ایک مثبت تصور ہے اس میں سلبیت نہیں ہے ۔ وہ اس اساس پر قائم ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا نگہبان ہے اور دنیا کی ہر ہستی اپنے وجود میں اللہ کے وجود اور تدبیر کی محتاج ہے ۔ یوں ایک مسلم مومن کا ضمیر و شعور ، اس کی پوری زندگی اور اس کا پورا وجود ، اس کے اردگرد پھیلی ہوئی کائنات کا وجود اللہ جل شانہ کے وجود کے ساتھ مربوط اور متعلق ہوجاتا ہے۔ اور وہ اللہ ہی ہے جو اس مومن ومسلم کی زندگی میں متصرف ہے اور پھر وہی ذات اس کے اردگرد پھیلی ہوئی کائنات میں بھی متصرف ہے اور یہ تصرف ذات باری تعالیٰ نہایت ہی حکیمانہ اور مدبرانہ ہے ۔ اسی منہاج سے وہ اپنی اقدار حیات اور حسن وقبیح کے پیمانے اخذ کرتا ہے ۔ اور اس پوری زندگی میں اور اس پورے عمل میں اللہ تعالیٰ انسان کا نگہبان رہتا ہے۔ لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ................ ” زمین و آسمان میں جو کچھ ہے ، اسی کا ہے ۔ “ یہ ایک ہمہ گیر ملکیت ہے اور بےقید ملکیت ہے ۔ کسی شرط کے ساتھ مشروط نہیں ۔ کسی حد میں محدود نہیں ہے ۔ نہ اس میں کوئی شریک ہے اور نہ یہ ملکیت کبھی ختم ہوتی ہے ۔ یہ وحدہٗ لاشریک الٰہ واحد ہے معانی میں سے ایک معنی ہے ۔ وہ واحد اللہ ہے ۔ صرف وہی الحی ہے ۔ صرف وہی نگہبان ہے ۔ صرف وہی مالک ہے ۔ اس سے ان تمام شرکیہ عقائد کی نفی کردی گئی جو بھی انسانی عقل میں در آسکتے ہیں ۔ اس دنیا میں ملکیت اور حاکمیت کے نظریہ کی بھی وضاحت ہوجاتی ۔ جب اللہ ہی حاکم ومالک ٹھہرا تو پھر اس دنیا میں بھی حق ملکیت کسی کو حاصل نہ ہوگا ۔ انسان حاکم نہ ہوگا بلکہ وہ اسی وحدہ لاشریک حاکم کا خلیفہ ہوگا۔ اور وہ نظام خلافت میں ان تمام حدود وقیود کا پابند ہوگا جو حدود وقیود خلیفہ گیرندہ نے استخلاف کے وقت اپنی شریعت میں خلیفہ پر عائد کی ہیں ۔ اس لئے کوئی خلیفہ شریعت کی حدود وقیود سے آزاد نہ ہوسکے گا ۔ اور اگر کوئی خلیفہ ان قیود کی پابندی نہ کرے گا جو خلافت کے منصب کی وجہ سے اس پر عائد ہیں تو سرے سے اس کی خلافت ہی کالعدم ہوجائے۔ اور اہل ایمان کا یہ فرض ہوگا کہ وہ اس خلیفہ کے خلاف شریعت اقدامات کو مسترد کردیں ۔ اسلامی شریعت میں یہی اسلامی نظریہ کارفرما ہے نیز اس شریعت پر مبنی جو عملی زندگی تشکیل ہوتی ہے ۔ اس کی تہہ میں بھی یہی نظریہ کارفرما ہے۔ جب اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں یہ فرماتے ہیں لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الأرْضِ........ ” اور اسی کے لئے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے۔ “ تو اس سے محض عقیدہ اور نظریہ یا محض خیال مراد نہیں ہوتا ۔ یہ فقرہ دراصل انسان کی پوری زندگی کے لئے ایک دستوری دفعہ ہوتی ہے ۔ نیز دنیاوی زندگی میں باہم جو رابطے قائم ہوتے ہیں ، وہ بھی اسی اساس پر ہیں کہ جو اس دنیا میں ہے وہ اللہ کا ہے ۔ جب یہ حقیقت انسانی ضمیر میں جاگزیں ہوجائے ۔ جب انسان اپنے مالک حقیقی کا صحیح شعور اپنالیتا ہے کہ وہ زمین و آسمان کا مالک ہے اور جب انسان اپنے دل و دماغ سے یہ غلط خیال نکال لیتا ہے کہ جسے وہ اپنی ملکیت سمجھتا ہے وہ تو اس کی ملکیت ہی نہیں ہے اور جب وہ شعوری طور پر اپنی جملہ مقبوضات کو مالک حقیقی کی ملکیت سمجھتا ہے اور جب انسان کے ذہن میں صرف یہ احساس پیدا ہوجاتا ہے کہ اس کے ہاتھ میں جو کچھ ہے وہ تو عارضی طور پر مانگا ہوا ہے ۔ اور اسے مالک حقیقی کی جانب سے ایک محددود وقت کے لئے دیا ہوا ہے تو ان حقائق کا محض ادراک اور احساس ہی انسان کے دل سے اس کی سرتیزی ، لالچ ، حرص ، بخل اور رات دن جمع کرنے کی فکر کی شدت کو کم کردیتا ہے۔ اس تصور حیات اور ان احساسات کی وجہ سے انسان کے اندر صبر ، تمنا اور قناعت اور راضی برضا ہونے کی صفات پیدا ہوجاتی ہیں ۔ وہ فیاض اور سخی ہوجاتا ہے ۔ اس کے دل میں سکون اور طمانیت پیدا ہوجاتی ہے ۔ چاہے وہ امیر ہو یا غریب اس کی چال ڈھال میں ایک قسم کا سکون و اطمینان اور قرار پیدا ہوجاتا ہے ۔ اگر اسے کچھ نہ ملے تو اسے حسرت نہیں ہوتی اور اگر اسے اس کا مطلوب حاصل نہیں ہوتا تو وہ اپنے دل میں جلن یا گھٹن نہیں پاتا۔ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلا بِإِذْنِهِ................ ” کون ہے جو اس کے ہاں ، اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرتا ہے ؟ “ یہ صفات باری میں سے ایک دوسری صفت ہے ۔ اس سے مقام الوہیت اور مقام عبدیت کی اچھی طرح وضاحت ہوجاتی ہے ۔ بندے سب کے سب اللہ تعالیٰ کے دربار میں مقام عبودیت میں کھڑے ہوتے ہیں ۔ وہ اپنے اس مقام سے نہ آگے بڑھ سکتے ہیں اور نہ تجاوز کرسکتے ہیں ۔ وہ بندے کے مقام پر خشوع و خضوع کی حالت میں ایستادہ ہوتے ہیں ۔ جو نہ رب کی طرف آگے بڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی اس کے ہاں سفارش کی جرأت کرسکتا ہے ۔ الایہ کہ اسے پیشگی اجازت مل گئی ہو تو وہ اس صورت میں اس اجازت کی حدود میں سفارش کرسکتا ہے ۔ ہاں یہ بندے اور غلام خود اپنے درمیان ضرور فرق مراتب رکھتے ہیں اور خود اللہ کے ہاں بھی ان کے درجات ومقامات میں ضرور تفاوت ہے۔ لیکن جناب باری تعالیٰ میں ان کے لئے ایک حد عبدیت ہے جس سے انہیں آگے بڑھنے کی نہ اجازت ہے اور نہ صلاحیت۔ اللہ تعالیٰ کی شان کبریائی ، اس کی جلالت شان اور اس کے رعب ودبدبے کی طرف یہاں ایک اشارہ کیا گیا ہے اور استفہام انکاری کا فقرہ استعمال کرکے اس اشارے کو مزید مؤثر بنادیا گیا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ اور اگر ایسا ہوا تو وہ ناپسندیدہ ہوگا ۔ لہٰذا کون ہے جو جناب باری تعالیٰ میں ایسی جرأت کرسکے ؟ ہاں اگر اس کی اجازت ہو تو ........ اس حقیقت کی روشنی میں وہ تمام باطل تصورات واضح ہوجاتے ہیں ۔ جو انبیاء ورسل کے بعد میں آنے والے لوگوں میں پیدا ہوگئے تھے جن کے حاملین نے حقیقت الٰہیہ اور حقیقت عبدیت کے درمیان التباس پیدا کردیا تھا ۔ ان لوگوں نے یہ عقیدہ اختیار کرلیا تھا کہ اللہ کا بیٹا ہے جو اس کے ساتھ بوجہ تعلق ابنیت کسی نہ کسی شکل میں شریک اور خلیط ہے ۔ پھر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسے لوگوں کا شریک بنالیا تھا جو اللہ کے ہاں سفارش کرتے ہیں اور وہ لازماً ان کی سفارش کو تسلیم کرتے ہیں یا پھر انہوں نے انسانوں میں سے بعض کو اللہ کا جانشین مقرر کردیا تھا جو اللہ سے اپنی قرابت کی وجہ سے اختیارات حاصل کرچکے تھے لیکن اس حقیقت کے اظہار کے بعد اللہ کے ہاں کوئی شفیع نہیں ہے ۔ یہ تمام تصورات باطل اور ناپسندیدہ ٹھہرتے ہیں ۔ اور انسانی ذہن انہیں قبول ہی نہیں کرتا ۔ انسانی ضمیر اس کا انکار کرتا ہے اور وہ ایک مومن کے رخ خیال پر آتے ہی نہیں ۔ یہ اسلامی تصور حیات کا ایک جلا ہے کہ اس میں کوئی وہم وتلبیس نہیں ہے ۔ اسلامی سوچ میں کوئی لچک نہیں ہے ۔ خدائی ، خدائی ہے اور بندگی ، بندگی ہے۔ ان دوحقائق میں کوئی ذاتی التقاء ممکن نہیں ہے ۔ رب ، رب ہے اور بندہ ، بندہ ہے ۔ ان کے مزاج اور طبیعت میں اشتراک ممکن نہیں ہے اور نہ ہی ان کا آپس میں ملاپ اور ایکا ممکن ہے ۔ ہاں بندے کا اپنے رب کے ساتھ ایک تعلق ہوتا ہے ۔ رب کی جانب سے بندے پر رحمت کا نزول ہوتا ہے ۔ قرب ، محبت اور اعانت ہوتی ہے ۔ اسلام اس تعلق کو تسلیم کرتا ہے اور تعلق باللہ سے نفس انسانی کو شرابور کردیتا ہے ۔ اس سے دل مومن بھرجاتا ہے اور اس پر فیضان رحمت و محبت ہوتا ہے اور مومن رحمت رب کی خوشگوار چھاؤں میں زندگی بسر کرتا ہے ۔ بغیر اس کے ذات الٰہی اور ذات انسانی کے درمیان اختلاط ہو کوئی تصور پیش کیا جائے ۔ بغیر اس کے کہ ہم حق و باطل کی کوئی آمیزش کریں یا افکار باطلہ کا ڈھیر لگاکر کوئی ایسا فکری انتشار و اضطراب پیدا کریں ، جس میں صداقت اور سچائی کوئی واضح اور صاف و شفاف صورت نظر نہ آئے۔ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلا بِمَا شَاءَ................ ” جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے اس سے بھی وہ واقف ہے ۔ اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز بھی ان کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی ۔ الایہ کہ کسی چیز کا علم ہو خود انہیں دینا چاہے۔ “ اس حقیقت کے دومتقابل پہل وہیں ۔ ایک جانب اس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ ایک مسلم کا تصور الٰہ کیا ہے ؟ دوسری جانب اس کا اظہار ہوتا ہے کہ اس الٰہ کے سامنے بندہ مسلم کا مقام کیا ہے ؟ اللہ کا مقام یہ ہے کہ وہ ہر ظاہر و باطن ، حاضر و غائب کے بارے میں مکمل علم رکھتا ہے ۔ وہ علیم وخبیر ہے ۔ اس کا علم ، کامل ، جزئیات پر حاوی اور تمام موجودات پر مشتمل ہے ۔ وہ انسان کی موجود حاضر پر بھی حاوی ہے ۔ اور ان سے پوشیدہ ماضی اور آنے والے مستقبل پر بھی حاوی ہے ۔ وہ ان امور پر بھی حاوی ہے جنہیں انسان جانتا ہے اور ان پر بھی حاوی جن کے بارے میں اسے کوئی علم نہیں ہے ۔ غرض ان فقیروں میں اللہ تعالیٰ کے علم کی شمولیت اور استقصاء کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ رہے انسان تو وہ صرف اس قدر جانتے ہیں جس قدر انہیں اللہ تعالیٰ جاننے کی اجازت دیتے ہیں ۔ حقیقت کا پہلاحصہ یہ ہے کہ اللہ ہر ظاہر و باطن کا عالم ہے ۔ یہ حقیقت نفس انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے انسان اور اس کا ضمیر باری تعالیٰ کے سامنے بالکل ننگا ہوجاتا ہے۔ باری تعالیٰ ظاہر و باطن کا علیم وبصیر ہے ۔ جس حقیقت کا انسان کو علم ہے اور وہ اس کا اظہار کررہا ہے وہ بھی اس کے سامنے ہے اور جس چیزکو وہ نہیں جانتا وہ بھی اس کے سامنے ہے ۔ وہ ماضی ، حال اور مستقبل مستور کو بھی جانتا ہے۔ جس کے بارے میں نفس انسانی بےعلم ہوتا ہے ۔ جب انسان کو اس حقیقت کا صحیح شعور ہوجائے تو اس کے جسم پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے ۔ کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ وہ تو باری تعالیٰ کے سامنے بالکل ننگا کھڑا ہے ۔ نیز اس تصور سے نفس انسانی میں تسلیم ورضا اور خدا خوفی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اس لئے کہ وہ علیم وبصیر ہے۔ دوسرا پہلو اس حقیقت کا یہ ہے کہ انسان کا علم صرف اس حد تک محیط ہے جس حد تک اللہ تعالیٰ کی مرضی ہو ۔ انسانوں کو اس حقیقت پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہئے ۔ خصوصاً اس دور میں جبکہ انہوں نے اس کائنات کے طبیعی اور تخلیقی شعبے میں قدرے معلومات حاصل کرلی ہیں ۔ وَلا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلا بِمَا شَاءَ................ ” اور وہ اللہ کے علم میں سے کسی چیز کا ادراک نہیں کرسکتے الا یہ کہ خود اللہ چاہے ۔ “ صرف اللہ ہی ہر چیز کا مکمل علم رکھتا ہے جو کامل اور شامل ہے ۔ اور اس کا علم بےقید ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کی اجازت ہی سے انسانوں پر بعض علوم منکشف ہوجاتے ہیں ۔ اور یہ انکشافات اللہ تعالیٰ اس لئے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا وعدہ فرمایا ہوا ہے اور اس کا وعدہ ہمیشہ سچا ہوتا ہے ۔ فرماتے ہیں سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ................ ” عنقریب ہم ان کو اپنے نشانات دکھائیں گے جو آفاق میں بھی ہیں اور خود ان کے نفسوں میں بھی ہیں ، تاکہ ان پر یہ حقیقت واضح ہوجائے کہ وہ حق ہیں۔ “ لیکن انسان اس بات کو بھول جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان پر جن علوم وحقائق کا انکشاف کردیتے ہیں وہ ان کے لئے فتنہ بن جاتے ہیں ۔ چاہے اس انکشاف کا تعلق قوانین فطرت کائنات سے ہو یا اس کا تعلق ان پوشیدہ معلومات سے ہو جسے وہ چند لحظوں کے لئے ایک متعین حد کے اندر اندر رہ کر جان لیتے ہیں ۔ ان دونوں حقائق اور عطاکردہ معلومات سے انسان فتنے اور گمراہی میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور وہ اس حقیقت کو فراموش کردیتا ہے کہ ان انکشافات کا اصل داتا تو اللہ ہے۔ اس فتنے اور گمراہی کی وجہ سے وہ نہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور نہ ذکر الٰہی ان کے دل میں ہوتا ہے بلکہ وہ خود سر ہوجاتے ہیں اور پھول جاتے ہیں بلکہ بعض اوقات کفر تک کی نوبت پہنچ جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے جب چاہا کہ انسان کو اس کرہ ارض پر اپنا خلیفہ بنائے تو اس نے انسان کو اپنی معرفت سے نوازا ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے ساتھ یہ وعدہ کیا کہ وہ عنقریب تمہیں انفس اور تمہارے آفاق میں تمہیں بعض نشانات راہ دکھائے گا ۔ اللہ کا وعدہ ہمیشہ سچا ہوتا ہے۔ اور اللہ نے اسے یوں سچا کر دکھایا کہ آئے دن انسان پر نئے نئے رازوں کا انکشاف ہوتا ہے۔ نسلوں کے بعد نسلوں میں ان اکتشافات کا گراف مسلسل اوپر چلا جارہا ہے ۔ ان انکشافات میں قدرتی توانائیاں ، اور اس کائنات کے طبیعی اصول شامل ہیں جو فریضہ خلافت ارضی ادا کرنے کے لئے انسان کے لئے ضروری ہیں تاکہ وہ اصولوں کی دریافت کے نتیجے میں ان درجات بلند تک پہنچ سکے جو اس کے لئے اللہ نے مقدر کر رکھے ہیں ۔ اس میدان میں اللہ تعالیٰ نے جس قدر علم مناسب سمجھا ، انسان کو عطا کردیا اور اسے اجازت دے دی کہ وہ اس میں کام کرے اور کچھ گوشے ایسے بھی تھے جن کی بابت اللہ تعالیٰ نے انسان کو علم نہیں دیا ۔ اس لئے کہ منصب خلافت فی الارض کے لئے اسے ان گوشوں کی ضرورت نہ تھی ۔ مثلاً انسان سے خود زندگی کا راز پوشیدہ رکھا گیا جو ابھی تک پوشیدہ ہے اور مستقبل میں بھی وہ ذہن انسانی کے قابو میں آنے والا معلوم نہیں ہوتا ۔ اور ابھی تک پوزیشن یہ ہے کہ اس موضوع پر بحث کرنا اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے برابر ہے ۔ جبکہ کسی بات پر کوئی بین دلیل نہیں ہوتی ۔ اس طرح انسان سے اگلے لمحے میں ہونے والے واقعات محفوظ اور پوشیدہ رکھے گئے ۔ کیونکہ وہ واقعات غیب ہیں جن تک رسائی کی کوئی سبیل نہیں ہے ۔ اور ان کے آگے اس قدر بھاری دیوار کھڑی کردی گئی ہے کہ انسان اسے دور نہیں کرسکتا۔ ہاں البتہ بعض اوقات اس پردہ مستور کے پیچھے سے اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو ایک جھلک دکھا دیتا ہے ۔ اور پھر پردہ گرجاتا ہے اور خاموشی چھاجاتی ہے ۔ اور انسان کی رفتار ایک حد پر رک جاتی ہے اور وہ اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ بہت سے اسرار و رموز انسان سے پوشیدہ رکھے گئے ، جن کے علم کی اسے کوئی حقیقی ضرورت نہ تھی ۔ جن کے بغیر بھی وہ خلافت فی الارض کے فرائض سرانجام دے سکتا تھا۔ اور اس زمین کی حقیقت کیا ہے ؟ یہ تو ایک ذرہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ اس وسیع کائنات کی فضا میں تیر رہا ہے۔ اپنے اس علم کی محدودیت کے باوجود اور اس حقیقت کے باوجود کہ اسے جو کچھ دیا گیا ہے وہ اللہ کی جانب سے ہے اور اس کی اجازت ہے ۔ انسان فتنے میں پڑجاتا ہے ۔ وہ اس زمین پر اپنے آپ کو الٰہ سمجھنے لگتا ہے۔ وہ کفر کی راہ اختیار کرتے ہوئے اس کائنات کے لئے کوئی اور الٰہ تسلیم کرنے سے انکار کردیتا ہے ۔ حالانکہ آج بیسویں صدی کے سائنس دان بڑی عاجزی سے یہ تسلیم کرنے لگے ہیں کہ ان کا علم محدود ہے ۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس کائنات کے وہ گوشے بہت ہی کم ہیں جن کا وہ ادراک کرسکے ہیں ۔ ہاں بعض جاہل جو اپنے آپ کو سائنس دان سمجھتے ہیں وہ اس غرے میں مبتلا ہیں کہ وہ بہت کچھ جانتے ہیں ۔ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضَ وَلا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ........ ” اس کی حکومت آسمانوں اور زمینوں پر چھائی ہوئی ہے اور اس کی نگہبانی اس کے لئے تھکادینے والا کام نہیں ہے ۔ “ یہ مقام تو ایسا ہے کہ یہاں اللہ کے اقتدار اعلیٰ کا بیان مجرد طور پر کیا جاتا لیکن یہ قرآن کریم کا ایک خاص انداز بیان ہے کہ وہ مجرد حقائق کو بھی محسوسات کی شکل میں پیش کرتا ہے۔ اس محسوس تصویر کشی کے انداز بیان سے ذہن انسانی اصل حقیقت کے قریب آجاتا ہے ۔ اور یوں حقیقت انسان کے دل و دماغ میں بیٹھ جاتی ہے ۔ کرسی سے مراد بالعموم اقتدار اعلیٰ ہوتا ہے۔ اور جب یہ کہا گیا کہ اس کی کرسی آسمانوں اور زمین سے بھی وسیع تر ہے تو گویا آسمانوں اور زمین پر اسی کا اقتدار اعلیٰ قائم ہے ۔ یہ بات تو تصوراتی پہلو سے ہے لیکن ایک محسوس اور ٹھوس انداز تعبیر سے جو تصویر ذہن نشین ہوتی ہے وہ دیرپا اور ٹھوس ہوتی ہے ۔ یہی بات ولا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا میں ہے ۔ اس میں بطو رکنایہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا بیان کیا گیا ہے ۔ لیکن یہ تعبیر بھی محسوس انداز میں پیش کی گئی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کو اس عظیم نگہبانی میں نہ کوئی جدوجہد کرنا پڑتی ہے ۔ اور نہ ہی اسے کوئی تھکاوٹ لاحق ہوتی ہے ۔ تعبیر کا یہ انداز قرآن کریم اس لئے اختیار کرتا ہے کہ معانی کی ایسی تصویر کشی کی جائے کہ وہ حس میں اتر جائے اور اس طرح ذہن انسانی میں یہ معانی اچھی طرح بیٹھ جائیں اور یوں نظر آئیں جس طرح محسوسات نظر آتے ہیں۔ جو شخص قرآن کے اس انداز بیان کو سمجھ لیتا ہے اسے ان مباحث اور اعتراضات سے کوئی دلچسپی نہیں رہتی جو قرآن کی اس محسوس انداز تعبیر پر یونانی فلسفہ کے نتیجے میں پیدا ہوئیں اور ان پر طویل عرصے تک جدل وجدال ہوتا رہا ۔ کیونکہ ان مباحث نے قرآن مجید کے سادہ اور فطری انداز تعبیر کو خواہ مخواہ چیستاں بنانے کی کوشش کی اور اس کے حسن سادہ کو ختم کردیا (تفصیلات کے لئے دیکھئے میری کتاب التصویر الفنی فی القرآن میں فصل التصویر الفنی اور طریقتہ القرآن) یہاں اس قدر کہنا کافی ہے کہ کرسی اور عرش کے بارے میں مجھے کوئی ایسی صحیح حدیث نہیں ملی ہے جس میں کرسی اور عرش کی تفسیر اور توضیح کی گئی ہو ۔ اس لئے میں یہی مناسب سمجھتا ہوں کہ اس سے زیادہ ان کے بارے میں مزید کچھ نہ کہوں۔ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ................ ” اور وہ بزرگ و برتر ہے ۔ “ اس آیت میں جو صفات بیان کی گئی ہیں یہ ان میں سے آخری صفات ہیں ۔ جن میں ایک حقیقت کا بیان ہے اور نفس انسانی میں اس حقیقت کا القاء مقصود ہے ۔ یعنی صرف وہ ذات ہی بلند ہے اور صرف وہ ذات ہی عظیم ہے ۔ مفہوم یہ ہے کہ اس کے علاوہ نہ کوئی عظیم ہے اور نہ کوئی سربلند ہے ۔ یہ نہیں کہا گیا کہ ” وہ بزرگ و برتر ہے “ بلکہ یہ کہا گیا کہ ” وہی علی اور وہی عظیم ہے “ پہلی تعبیر میں نص علو و عظمت ثابت ہوتی ہے ۔ دوسری تعبیر میں علو اور عظمت کو ذات باری کے ساتھ مخصوص کردیا گیا ۔ اور یہ اشارہ دیا گیا کہ اس معاملے میں اس کے ساتھ کوئی بھی شریک نہیں ہے ۔ صرف وہی علی ہے ۔ عظمت میں وہ منفرد ہے ۔ اور بندوں میں سے جو بھی علو اور عظمت کا ادعاء کرتا ہے اللہ اسے ذلیل اور سرنگوں کرتا ہے۔ اور آخرت میں وہ توہین آمیز سزا کا مستحق ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں تِلْكَ الدَّارُ الآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الأرْضِ وَلا فَسَادًا ................ ” وہ آخرت کا گھر ان لوگوں کے لئے مخصوص کردیں گے جو زمین پر اپنی بڑائی نہیں چاہتے اور نہ فساد کرنا چاہتے ہیں “ (83 : 28) اور جب فرعون کو ہلاک کیا گیا تو اس پر یہ تبصرہ کیا گیا انہ کان من العالین ................” وہ ان لوگوں میں سے تھا جو اپنی بڑائی چاہتے ہیں۔ “ انسان بہت بلند ہوسکتا ہے ، وہ عظمت وسربلندی کے اونچے مدارج تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کے حدود وقیود سے باہر نہیں نکل سکتا ۔ اور جب قلب مومن میں یہ عقیدہ اچھی طرح بیٹھ جاتا ہے تو وہ اسے مقام عبودیت تک پہنچا دیتا ہے ۔ اور وہ سرکشی اور بڑائی سے محفوظ ہوجاتا ہے ۔ اس کی طبیعت میں جھکاؤ پیدا ہوجاتا ہے۔ اور اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کی ہیبت بیٹھ جاتی ہے ۔ اس کے دل میں اللہ کی عظمت اور جلالت قدر کا شعور پیدا ہوجاتا ہے ۔ اس کا طرز عمل نہایت ہی مؤدبانہ اور پھر وہ اللہ کے بندوں کے مقابلے میں غرور وتکبر کا رویہ بھی اختیار نہیں کرتا ۔ غرض یہ شعور ایک طرف سے ایک عقیدہ اور ایک تصور ہے اور دوسری جانب ایک طرز عمل اور ایک سلوک اور رویہ ہے ۔ اسلامی تصور حیات کے ان دقیق پہلوؤں کی وضاحت اور تشریح اور اس کے بیان کے بعد کہ اس کائنات اور مخلوقات کا اپنے خالق کے ساتھ تعلق کیا ہے اور وضاحت کے بعد کہ خالق کائنات کے اوصاف کیا ہیں ، اب یہاں یہ موضوع لیا جاتا ہے کہ اس ایمانین تصور حیات کو اپنا نصب العین بنانے کے بعد اب اہل ایمان کا طریق کار کیا ہوگا ؟ وہ اس نظریہ کی دعوت کس طرح دیں گے ۔ اور وہ اس گم راہ انسانیت کی ہدایت کے لئے کیا طریقہ اختیار کریں گے ۔
Top