Tafseer-e-Saadi - Al-Furqaan : 54
وَ لَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَ جُنُوْدِهٖ قَالُوْا رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَؕ
وَلَمَّا : اور جب بَرَزُوْا : آمنے سامنے لِجَالُوْتَ : جالوت کے وَجُنُوْدِهٖ : اور اس کا لشکر قَالُوْا : انہوں نے کہا رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اَفْرِغْ : ڈال دے عَلَيْنَا : ہم پر صَبْرًا : صبر وَّثَبِّتْ : اور جمادے اَقْدَامَنَا : ہمارے قدم وَانْصُرْنَا : اور ہماری مدد کر عَلَي : پر الْقَوْمِ : قوم الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
اور جب سامنا ہوا جالوت اور اس کی فوجوں سے تو انھوں نے دعا کی اے ہمارے پروردگار ! ہم پر صبر انڈیل دے ‘ ہمارے قدم جمائے رکھ اور کافر قوم کے خلاف ہماری مدد فرما
راہِ حق میں نکلنے والوں کی دعا وَلَمَّا بَرَزُوْا لِجُالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ قَالُوْا رَبَّنَـآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقُوْمِ الْـکٰفِرِیْنَ ۔ (اور جب سامنا ہوا جالوت اور اس کی فوجوں سے تو انھوں نے دعا کی اے ہمارے پروردگار ! ہم پر صبر انڈیل دے ‘ ہمارے قدم جمائے رکھ اور کافر قوم کے خلاف ہماری مدد فرما) (250) ایک محدود تعداد اسلحہ جنگ کی کمی اور دشمن کے مقابلے میں بےسروسامانی کو محسوس کرتے ہوئے ان سرفروشوں نے اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلا دیے کہ الٰہی دشمن بہت طاقتور ہے اور ہم نہایت کمزور ہیں۔ اس کی طاقت کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں۔ البتہ تیری ذات پر بےپناہ اعتماد رکھتے ہیں۔ تیری قدرت و قوت کی کوئی انتہا نہیں۔ تو ہی بےکسوں کا سہارا اور بےبسوں کی طاقت ہے۔ ہمارا کام صرف یہ ہے کہ ہم اس منہ زور طاقت سے ٹکرا جائیں۔ لیکن کمزور دلوں کو حوصلہ دینا اور استقلال اور استقامت کی دولت عطا کرنا تیرے ہاتھ میں ہے۔ تو ہی جانتا ہے کہ طاقت ور دشمن کے مقابلے میں ہم پر کیا گزرے گی۔ ہر طرح کی صورت حال میں تو ہمیں ثبات قدم کی دولت عطا فرما۔ ہمیں مصائب کے مقابلے میں دل جمعی اور استقلال کے ساتھ کھڑا رہنے کا حوصلہ عطا فرما۔ ہماری کمزوری کو قوت میں تبدیل فرما دے اور دشمن کے مقابلے میں ان قوتوں سے ہماری مدد فرماجن سے تو ہمیشہ اپنے بندوں کی مدد فرماتا ہے۔ کافر لوگ اپنی قوت کے بل بوتے پر غرور اور تکبر کا اظہار کرتے ہوئے میدانِ جنگ میں آئے ہیں تو ان کے خلاف ہماری مدد فرما اور ہمیں ان پر غلبہ عطا فرما۔ جس طرح ایمان ‘ یقین اور صبر مومن کے ہتھیار ہیں اسی طرح اللہ کی تائید و نصرت اس کا اصل سرمایہ ہیں۔ جب یہ دونوں جمع ہوجاتی ہیں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اللہ کے بندوں پر غالب نہیں آسکتی۔ لیکن جب ان میں کمزوری پیدا ہوتی ہے ‘ بجائے صبر کی تصویر بننے کے حالات کی طغیانی اور قہرمانی کو دیکھتے ہوئے حالات اور طاقت کے سامنے سپر انداز ہوجاتے ہیں۔ بجائے اللہ سے حوصلہ طلب کرنے کے حوصلہ ہار جاتے ہیں اور اللہ سے لو لگانے کی بجائے ان قوتوں پر بھروسہ کرنے لگتے ہیں جو اللہ اور اس پر ایمان لانیو الوں کی دشمن ہیں تو پھر اللہ کی نظر التفات ایسے لوگوں کی طرف سے ہٹ جاتی ہے۔ پھر انھیں انہی لوگوں کے حوالے کردیا جاتا ہے جن پر وہ اعتماد کرتے ہیں۔ مومن اور مسلمان ہوتے ہوئے بھی وہ کافروں کا تر نوالہ بن جاتے ہیں۔ ان پر ذلت کی پھٹکار پڑتی ہے اور وہ تاریخ میں عبرت کے طور پر یاد رکھے جاتے ہیں۔ قرآن کریم نے بنی اسرائیل کے اس واقعے کو بھی بیان کیا ہے کہ جب اسے ارض مقدسہ پر حملہ کرنے کا حکم دیا گیا تو اس نے ارض مقدسہ پر قابض قوتوں کی طاقت کو دیکھتے ہوئے نہ صرف لڑنے سے انکار کیا بلکہ بزدلی کی انتہا کردی۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ اللہ نے چالیس سال تک انھیں صحرائے تیہ کے حوالے کردیا۔ ارض مقدسہ ان کے لیے حرام کردی گئی۔ بزدلوں کی پوری نسل اس صحرا کی نذر ہو کر رہ گئی۔ دوسری نسل صحرا میں پل کر جوان ہوئی تو تب ان کو عزت کی زندگی کا راستہ ملا۔ اور اس آیت کریمہ میں بنی اسرائیل کے اس گروہ کا ذکر ہو رہا ہے جنھوں نے کمزور اور بےمایہ ہوتے ہوئے بھی ایک بڑی قوت سے ٹکرانے کا حوصلہ کیا۔ کسی کمزوری کا شکار ہونے کے بجائے اللہ کی تائید و نصرت پر اعتماد کیا۔ تو اللہ نے معجزانہ طریقے سے ان کی مدد فرمائی۔ جس کا ذکر اگلی آیت کریمہ میں آرہا ہے۔
Top