Ruh-ul-Quran - Al-Hijr : 3
ذَرْهُمْ یَاْكُلُوْا وَ یَتَمَتَّعُوْا وَ یُلْهِهِمُ الْاَمَلُ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ
ذَرْهُمْ : انہیں چھوڑ دو يَاْكُلُوْا : وہ کھائیں وَيَتَمَتَّعُوْا : اور فائدہ اٹھالیں وَيُلْهِهِمُ : اور غفلت میں رکھے انہیں الْاَمَلُ : امید فَسَوْفَ : پس عنقریب يَعْلَمُوْنَ : وہ جان لیں گے
چھوڑ دو انھیں وہ کھائیں پئیں اور عیش کریں اور غافل رکھے انھیں جھوٹی امید عنقریب جان لیں گے۔
ذَرْھُمْ یَاْکُلُوْا وَیَتَمَتَّعُوْا وَیُلْھِھِمُ الْاَمَلُ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْن۔ (سورۃ الحجر : 3) (چھوڑ دو انھیں وہ کھائیں پئیں اور عیش کریں اور غافل رکھے انھیں جھوٹی امید عنقریب جان لیں گے۔ ) دین سے بیزاری کا حقیقی سبب جلد ہی وہ وقت آنے والا ہے جب یہ لوگ اپنے کفر پر پچھتائیں گے اور آرزو کریں گے کہ کاش ہم نے اسلام کا راستہ اختیار کیا ہوتا لیکن آج آپ ﷺ جیسی عظیم شخصیت، آپ ﷺ جیسا عظیم پیغمبر، آپ ﷺ جیسی دعوت و نصیحت اور آپ ﷺ جیسی گہری ہمدردی و موعظت کے باوجود یہ لوگ آپ ﷺ کی بات سن کے نہیں دیں گے کیونکہ آپ ﷺ کی دعوت زندگی کے بارے میں گہری بصیرت پر مبنی ہے۔ آپ ﷺ ایک ایسی بات کی دعوت دے رہے ہیں جو اس طلسم رنگ و بو کی حقیقت کو جانے بغیر سمجھ نہیں آسکتی۔ حقیقت شناسی تو بہت دور کی بات ہے یہ لوگ ابھی تک بچپنے سے باہر نہیں نکلے۔ جس طرح ایک بچہ زندگی کی کسی حقیقت کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اسے دلچسپی ہوتی ہے تو کھانے پینے کی چیزوں میں، مٹھائیوں میں یا کھلونوں میں، کیونکہ وہ زندگی کو اس کے سوا کچھ نہیں جانتا کہ یہ ایک کھیلنے کا موقع ہے، دل بستگی کے دن ہیں جو جی میں آجائے اسے حاصل کرنے کی ضد ہے اور ہر چیز پر کھلونے کی طرح قبضہ کرنے کا شوق ہے، ہر چیز کو ہتھیالینے کی ہوس ہے۔ ظاہر ہے کہ جس کا زندگی کے بارے میں یہ تصور ہوگا وہ تو ظاہری زندگی کے لڑکپن سے بھی نکل نہیں پاتا، چہ جائیکہ باطنی اور معنوی زندگی کا سفر طے کرنے کے لیے تیار ہوجائے۔ زندگی چند حقائق کا نام ہے جس میں خوبصورتیاں بھی ہیں اور تلخیاں بھی، جس میں کچھ حاصل کرنے کی خواہشیں بھی ہیں اور کچھ کھو دینے کے حوصلے بھی۔ اس میں کچھ موہوم آرزوئیں بھی ہیں اور کچھ اولوالعزمیاں بھی۔ اس میں کامیابیوں کی رفعتیں بھی ہیں اور ناکامیوں کی عبرتیں اور حسرتیں بھی۔ یہ درحقیقت اپنے آپ کو کچھ بنانے کے دن ہیں۔ ایک آنے والی دنیا کی تیاری کے دن ہیں۔ اس میں شعور اور عقل کا قدم قدم پر امتحان بھی ہے۔ اور امیدوں اور آرزوئوں کا ہیجان بھی۔ زندگی کے ہر مرحلے پر غور و فکر کی دعوت ہے اور سوچ کے دائرے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو شخص اس رنگا رنگ زندگی سے قوس قزح تو بنانا چاہتا ہے اور زندگی کی ضروریات اور خواہشات کو پورا کرنا تو چاہتا ہے لیکن اس کی حقیقت کو جاننے کی کوشش کرنا نہیں چاہتا۔ اور حقوق و فرائض کے تصور سے بھی دور بھاگتا ہے۔ ایسا شخص یا ایسی قوم اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ( علیہ السلام) کی دعوت سے کیا فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ اس لیے نہایت فصاحت و بلاغت سے فرمایا کہ یہ لوگ اگر آپ ﷺ کی دعوت پر کان نہیں دھرتے تو آپ ﷺ کو اس پر دل گرفتہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ انھوں نے اپنے اندر کے وہ تمام سوتے خشک کردیے ہیں جہاں سے پیغمبر کی دعوت کی قبولیت کی استعداد ابلتی ہے اور عقل و خرد کے وہ تمام پیمانے توڑ ڈالے ہیں جس میں خیر و شر اور حق و باطل کے حقائق تولے جاتے ہیں۔ البتہ ایک فکرمندی کی بات ضرور ہے کہ انسانیت کا یہ قافلہ نہ پہلے رکا ہے اور نہ اب رکے گا۔ لیکن ان کی قسمت دیکھ کر دل ڈوبنے لگتا ہے کہ جس طرح یہ زندگی گزار رہے ہیں، انھیں نہایت تلخ حقائق سے واسطہ پڑے گا اور ان کا انجام بھی وہی ہو کر رہے گا جو اس سے پہلے ایسی قوموں کا ہوچکا ہے۔
Top