Al-Quran-al-Kareem - Al-Hijr : 3
ذَرْهُمْ یَاْكُلُوْا وَ یَتَمَتَّعُوْا وَ یُلْهِهِمُ الْاَمَلُ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ
ذَرْهُمْ : انہیں چھوڑ دو يَاْكُلُوْا : وہ کھائیں وَيَتَمَتَّعُوْا : اور فائدہ اٹھالیں وَيُلْهِهِمُ : اور غفلت میں رکھے انہیں الْاَمَلُ : امید فَسَوْفَ : پس عنقریب يَعْلَمُوْنَ : وہ جان لیں گے
انھیں چھوڑ دے، وہ کھائیں اور فائدہ اٹھائیں اور انھیں امید غافل رکھے، پھر جلدی جان لیں گے۔
ذَرْهُمْ يَاْكُلُوْا وَيَتَمَتَّعُوْا وَيُلْهِهِمُ الْاَمَلُ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ ۝: ”ذَرْ“ مثال واوی سے فعل امر ہے، اس کا صرف امر اور مضارع استعمال ہوتا ہے، اس کے باقی صیغوں کی جگہ ”تَرَکَ“ کے مشتقات استعمال ہوتے ہیں۔ ”وَيُلْهِهِمُ“ ”لَھْوٌ“ سے باب افعال کا مضارع ”یُلْھِیْ“ ہے جو ”ذَرْ“ کا جواب ہونے کی و جہ سے یا لام امر مقدر ہونے کی و جہ سے مجزوم ہے، اس کی ”یاء“ اور ”يَاْكُلُوْا“ اور ”وَيَتَمَتَّعُوْا“ کا نون بھی اسی و جہ سے گرگئے ہیں۔ یہ سارے امر انھیں ڈانٹنے کے لیے ہیں، یہ نہیں کہ انھیں اجازت دی جا رہی ہے۔ اس معنی کی آیات کے لیے دیکھیے سورة مرسلات (46) ، سورة زخرف (83) اور سورة طور (45) وغیرہ۔”يَاْكُلُوْا وَيَتَمَتَّعُوْا“ سے معلوم ہوا کہ کفار کی زندگی کا مقصد ہی بس یہ ہے۔ ”الْاَمَلُ“ امید، کسی چیز کے حصول کی آرزو، عموماً جس کا حصول بعید ہو۔ وَيُلْهِهِمُ الْاَمَلُ : ابوسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں : (أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَرَزَ بَیْنَ یَدَیْہِ غَرَزًا ثُمَّ غَرَزَ إِلٰی جَنْبِہٖ آخَرَ ثُمَّ غَرَزَ الثَّالِثَ فَأَبْعَدَہٗ ، ثُمَّ قَالَ ھَلْ تَدْرُوْنَ مَا ھٰذَا ؟ قَالُوْا اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ أَعْلَمُ ، قَالَ ھٰذَا الإِْنْسَانُ وَھٰذَا أَجَلُہُ وَھٰذَا أَمَلُہُ یَتَعَاطَی الْأَمَلَ یَخْتَلِجُہُ دُوْنَ ذٰلِکَ)[ مسند أحمد : 3؍18، ح : 11138، إسنادہ جید ] ”رسول اللہ ﷺ نے اپنے آگے ایک لکڑی گاڑی، پھر ایک اس کے پہلو میں گاڑی، پھر تیسری اس سے دور گاڑی، پھر فرمایا : ”کیا تم جانتے ہو یہ کیا ہے ؟“ لوگوں نے کہا : ”اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔“ فرمایا : ”یہ انسان ہے اور یہ اس کی اجل (موت) ہے اور وہ اس کی آرزو ہے۔ وہ آرزو حاصل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور اس کے حصول سے پہلے اس کے راستے میں اجل رکاوٹ بن جاتی ہے۔“ عبداللہ بن عمرو ؓ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں : (صَلاَحُ أَوَّلِ ھٰذِہِ الْأُمَّۃِ بالزُّھْدِ وَالْیَقِیْنِ وَیُھْلَکُ آخِرُھَا بالْبُخْلِ وَالْأَمَلِ) [ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : 15؍3، ح : 3427 ]”اس امت کے اول کی درستگی زہد اور یقین کے ساتھ ہے اور اس کا آخری حصہ بخل اور امل (امید) کے ساتھ ہلاک ہوگا۔“
Top