Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hijr : 3
ذَرْهُمْ یَاْكُلُوْا وَ یَتَمَتَّعُوْا وَ یُلْهِهِمُ الْاَمَلُ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ
ذَرْهُمْ : انہیں چھوڑ دو يَاْكُلُوْا : وہ کھائیں وَيَتَمَتَّعُوْا : اور فائدہ اٹھالیں وَيُلْهِهِمُ : اور غفلت میں رکھے انہیں الْاَمَلُ : امید فَسَوْفَ : پس عنقریب يَعْلَمُوْنَ : وہ جان لیں گے
(اے محمد ﷺ ان کو ان کے حال پر رہنے دو کہ کھا لیں اور فائدے اٹھا لیں اور (طول عمل) ان کو (دنیا میں) مشغول کئے رہے۔ عنقریب ان کو اسکا (انجام) معلوم ہوجائے گا۔
3۔ اس سے اوپر کی آیت میں یہ ذکر تھا کہ قیامت کے دن کفار بعضے مسلمان گنہگاروں کو دوزخ سے نکلتے ہوئے دیکھ کر یہ کہیں گے کہ کاش ہم بھی مسلمان ہوتے تو اس وقت یہاں سے نکال لئے جاتے اور ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں نہ رہتے اب اس آیت اللہ تعالیٰ نے حضرت ﷺ کو یہ حکم فرمایا کہ ان کافروں کو ان کے حال پر چھوڑو اور ان کے پیچھے نہ پڑو کہ خواہی نخواہی یہ ایمان ہی لائیں اور اچھے عمل کریں بت پرستی چھوڑ دیں دین حق کو قبول کریں یہ کبھی راہ راست پر نہیں آئیں گے ان سے کہہ دو کہ دنیا میں جتنا جی چاہے کھا پی لو اور عیش و آرام کرلو اور ہمیشہ جینے کی امید پر بیٹھے رہو آگے جو ہوگا سب تمہیں معلوم ہوجائے گا ابھی تو یہی گمان کرتے رہو کہ ہماری عمر بہت بڑی ہے ہم ابھی کیا مرنے والے ہیں اس آیت میں یہ بات بتلائی گئی ہے کہ دنیا کی لذتوں میں پڑے رہنا اور طول طویل امید پر بیٹھے رہنا ایماندار شخص کے لئے زیبا نہیں ہے۔ حضرت علی بن ابی طالب ؓ فرماتے ہیں کہ میں تم لوگوں پر دو باتوں کا خوف کرتا ہوں طول امل اور خواہش نفس۔ طول امل آخرت کو بھلا دیتی ہے کیوں جو شخص کسی طویل امید پر بیٹھا ہوگا اس کے دل میں کبھی یہ بات نہ گزرے گی کہ ہم جلد مریں گے اور جب مرنے کا خیال نہ آئے گا تو وہ آخرت کی یاد کو بھول جائے گا۔ اور خواہش نفس حق سے روک دیتی ہے بھلے برے کی تمیز جاتی رہتی ہے۔ صحیح بخاری، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور صحیح ابن حبان میں عبد اللہ بن مسعود اور انس بن مالک ؓ سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک دن ایک چھوٹی اور دوسری بڑی لکیر کھینچ کر یہ فرمایا کہ چھوٹی لکیر آدمی کی عمر کی ہے اور بڑی لکیر اس کی بڑی بڑی دنیا کی امیدیں ہیں ایک دن اس کی عمر ختم ہوجاوے گی اور یہ بڑی بڑی امیدیں یوں ہی نا تمام رہ جائیں گی۔ 1 ؎۔ اس صحیح حدیث سے حضرت علی ؓ کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے اور حدیث کو حضرت علی ؓ کے قول کے ساتھ ملا کر { ویلھھم الامل } کی تفسیر کی جاسکتی ہے۔ صحیح کے حوالہ سے انس بن مالک ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ بڑے بڑے مالدار دوزخیوں سے دوزخ کے پہلے ہی جھونکے کے بعد فرشتے پوچھیں گے کہ دنیا کے جس عیش و آرام نے تم کو عقبیٰ سے غافل رکھا اس عذاب کے آگے وہ عیش و آرام تم کو کچھ یاد ہے وہ لوگ قسم کھا کر کہویں گے کہ نہیں۔ 2 ؎ یہ حدیث کا ٹکڑا { فسوف یعلمون } کی گویا تفسیر ہے۔ 1 ؎ صحیح بخاری ص 949 ج 2 باب فی الامل وطولہ ومشکوٰۃ باب الامل واحرص۔ 2 ؎ مشکوٰۃ ص 502 باب صفتہ النار واطہار۔
Top