Urwatul-Wusqaa - Al-Hijr : 3
ذَرْهُمْ یَاْكُلُوْا وَ یَتَمَتَّعُوْا وَ یُلْهِهِمُ الْاَمَلُ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ
ذَرْهُمْ : انہیں چھوڑ دو يَاْكُلُوْا : وہ کھائیں وَيَتَمَتَّعُوْا : اور فائدہ اٹھالیں وَيُلْهِهِمُ : اور غفلت میں رکھے انہیں الْاَمَلُ : امید فَسَوْفَ : پس عنقریب يَعْلَمُوْنَ : وہ جان لیں گے
انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو ، کھائیں پئیں اور عیش و آرام کریں ، امیدوں پر پھولے رہیں لیکن وہ وقت دور نہیں کہ انہیں معلوم ہوجائے گا
ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو وہ وقت دور نہیں کہ ان کو حقیقت واضح ہوجائے گی : 3۔ نبی اعظم وآخر ﷺ سے فرمایا جارہا ہے کہ اے میرے رسول ! ان احمقوں کو اسی حالت میں رہنے دیجئے جن کو اپنے نفع ونقصان کی بھی سمجھ نہیں اور یہ امتیاز بھی نہیں کہ کون ہمارا خیر خواہ ہے اور کون خیر خواہ نہیں ہے ؟ ان کو مزید سمجھانے کی ضرورت نہیں ، کیوں ؟ اس لئے کہ یہ ہدایت کے طلب گار نہیں یہ بات جو کہی گئی ہے کہ ان کا مطلب فریضہ نبوت سے منع کرنا نہیں بلکہ آپ کو تسلی دینا مقصود ہے اور یہ بتانا مقصود ہے کہ آپ دل برداشہ نہ ہوں کہ یہ لوگ ماننے کیلئے تیار نہیں اگر وہ نہیں مان رہے تو نقصان کس کا کر رہے ہیں ؟ یقین جانئے کہ وہ سراسر ان کا اپنا ہی نقصان ہے اور جب وہ ہدایت کے طلب گار ہی نہیں تو وہ ہدایت کیونکر پائیں گے ، ان کی خواہش کیا ہے ؟ یہی کہ وہ خوب کھائیں پئیں اور عیش و عشرت کریں انہیں اس میں مگن رہنے دیجئے یہ گویا لمبی آسیں لگائے بیٹھے ہیں اور ہم بھی ان کو ڈھیل پر ڈھیل دیئے جا رہے ہیں تاکہ جتنا فائدہ اٹھا سکتے ہیں اٹھا لیں اور رج رج کر کھائیں اور دب دب کر ہل چلائیں اور عقل وفکر سے کبھی بھی کام نہ لیں بس گویا وہ جانور کے جانور ہی رہے سوچ وبچار کام تو انسانوں کا ہے ۔ ان کو خود بخود پتہ چل جائے گا کہ انہوں نے اپنے اوپر کتنا ظلم کیا ، حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ انسان کی بدبختی کی چار نشانیاں ہیں : 1۔ آنکھوں میں آنسوؤں کا نہ آنا ۔ 2۔ دل کا سخت ہونا ۔ 3۔ طول امل ملنا اور 4۔ حرص دنیا کا اعتدال سے متجاوز ہوجانا۔ یہ بات ان لوگوں کی ہے جن کو کافر کہا جاتا ہے لیکن اگر ذرا غور کرلیا جائے اور ہم سب اپنا اپنا تجزیہ کر کے بھی دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ آج ہمارا اپنا حال کیا ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم ” پار والوں “ کو جو کچھ سمجھ رہے ہیں ان کیلئے ” پار والے “ ہم کود ہی ہوں ، حرص دنیا میں آج کون پیچھے ہے ؟ دنیا کے مال ومتاع کی اتنی فراوانی ہے کہ شاید ہی کسی دور میں اتنی ہوئی ہو لیکن طمع وحرص کا یہ عالم ہے کہ کسی کا دل بھرنے میں نہیں آتا جدھر دیکھوپریشانی ہی پریشانی ہے اور دوڑ بھاگ اتنی ہے کہ راتوں کو آرام ہے نہ دونوں کو چین اور یہ بات اکثر دیکھنے میں آتی ہے کہ جتنا مال و دولت بڑھتا جاتا ہے پریشانیاں بھی ساتھ ساتھ اسی قدر بڑھتی جارہی ہیں لیکن ہم ہیں کہ اپنا تجزیہ کر کے دیکھنا حرام سمجھتے ہیں ہم جب بات کریں گے تو ” زمانہ “ ہماری زبان پر آئے گا اور ہم نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ ذرا دیکھیں تو کہ ” زمانہ “ کیا چیز ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ ” زمانہ “ ہم خود ہی ہیں ۔
Top