Al-Qurtubi - Al-Furqaan : 27
وَ یَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰى یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا
وَيَوْمَ : اور جس دن يَعَضُّ : کاٹ کھائے گا الظَّالِمُ : ظالم عَلٰي يَدَيْهِ : اپنے ہاتھوں کو يَقُوْلُ : وہ کہے گا يٰلَيْتَنِي : اے کاش ! میں اتَّخَذْتُ : پکڑ لیتا مَعَ الرَّسُوْلِ : رسول کے ساتھ سَبِيْلًا : راستہ
اور جس دن (ناعاقبت اندیش) ظالم اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کھائے گا (اور کہے گا) کہ اے کاش میں نے پیغمبر کے ساتھ رشتہ اختیار کیا ہوتا
(ویوم یعض۔۔۔۔۔ ) ویوم یعض الظالم علی یدیہ ماضی عضضت ہے کسائی نے عضضت پہلی ضاد کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے : اہل تفسیر سے یہ وضاحت آئی ہے، مفسرین سے مراد حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت سعید بن مسیب ہیں کہ یہاں ظالم سے مراد عقبہ بن ابی معیط اور اس کا دوست امیہ بن خلف ہے۔ عقبہ کو حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے قتل کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ غزوہ بدر کے قیدیوں میں تھا نبی کریم ﷺ نے اسے قتل کرنے کا حکم ارشاد فرمایا : اس نے عرض کیا : کیا میں دوسرے کے بغیر قتل کیا جائوں گا ؟ فرمایا تیرے کفر اور تیری سرکشی کے باعث تجھے قتل کیا جائے گا۔ اس نے عرض کی، بچوں کے لیے کوئی ہے ؟ فرمایا : آگ۔ حضرت علی ؓ شیر خدا اٹھے اور اسے قتل کردیا۔ امیہ کو نبی کریم ﷺ نے قتل کیا۔ یہ نبی کریم ﷺ کی نبوت کے دلائل میں سے ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے دونوں کے بارے میں خبر دی تھی تو دونوں کو کفر کی حالت میں قتل کردیا گیا۔ آیت میں ان دونوں کا نام نہیں لیا گیا کیونکہ فائدہ میں یہ زیادہ بلیغ ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ یہ ظالم کا راستہ ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی معصیت کرتے ہوئے کسی اور کی بات کو قبول کیا۔ حضرت ابن عباس ؓ قتادہ اور دوسرے علماء نے کہا : عقبہ نے اسلام لانے کا ارادہ کیا : ابی بن خلف نے اسے اس سے منع کیا وہ دونوں گہرے دوست تھے نبی کریم ﷺ نے دونوں کو قتل کیا۔ عقبہ غزوہ بدر کے موقع پر انتقام لینے کے لیے قتل کیا گیا اور ابی بن خلف غزوہ احد کے موقع پر دعوت مبارزت میں قتل ہوا۔ قشیری اور ثعلبی نے اس کا ذکر کیا ہے۔ پہلا قول نحاس نے ذکر کیا ہے۔ سبیلی نے کہا :” ویوم یعض الظالم علی یدیہ “ سے مراد عقبہ بن ابی معیط ہے وہ امیہ بن خلف جمحی کا دوست تھا یہ بھی روایت کی جاتی ہے کہ وہ ابی بن خلف جحمی کا دوست تھا جو امیہ کا بھائی تھا۔ عقبہ نے ولیمہ کی دعوت کی اس نے قریش کو دعوت دی اور رسول اللہ ﷺ کو بھی دعوت دی، رسول اللہ ﷺ نے اس کے کھانے میں اس وقت تک شریک ہونے سے انکار کردیا یہاں تک کہ وہ اسلام قبول کرے۔ عقبہ نے اس بات کو ناپسند کیا کہ اس کی دعوت میں قریش کے سرداروں میں سے کوئی نہ آئے۔ اس نے اسلام قبول کرلیا اور زبان سے شہادتیں کو ادا کیا، رسول اللہ ﷺ اس کے پاس تشریف لے آئے اور اس کا کھانا کھایا۔ اس کے دوست امیہ بن خلف نے عقبہ کو ملامت کی یا ابی بن خلف نے ملامت کی جو اس وقت موجود نہ تھا۔ عقبہ نے کہا : میں نے اس امر کو عظیم خیال کیا کہ میرے کھانے میں قریش کے اشراف میں سے کوئی غیر حاضرہو۔ اس کے دوست نے اسے کہا : میں اس وقت تک راضی نہیں ہوں گا یہاں تک کہ ٹوٹے، ان کے چہرے پر تھوکے اور ان کی گردن کو روندے اور تو یہ کہے : اللہ کے دشمن نے وہ سب کچھ کیا جو اس کے دوست نے اسے کہا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا : ” ویوم یعض الظالم علی یدید “ ضحاک نے کہا : جب عقبہ نے نبی کریم ﷺ کے چہرے پر تھوکنا چاہا تو تھوک اس کے اپنے چہرے کی طرف لوٹ آئی اور اس کے چہرے اور اس کے ہونٹوں کو جلا دیا، یہاں تک کہ اس کے چہرے پر نشان چھوڑا اور اس کے رخساروں کو جلا دیا۔ اسکے چہرے پر وہ نشان باقی رہا۔ یہاں تک کہ وہ قتل ہوا۔ عصہ یدیہ یہ غمگین اور شرمندہ کا فعل ہے کیونکہ اس نے اپنے دوست کی اطاعت کی۔ ” یقول یلیتنی اتخذف مع الرسول سبیلا “ وہ کہے گا : ہائے کاش ! میں نے دنیا میں رسول اللہ ﷺ کی اتباع اپنا کر جنت کی طرف جانے والا راستہ اختیار کیا ہوتا۔ یویلتی ہلاکت اور ویل کی بد دعا ہے جو اس نے کافر کی دوستی اختیار کی تھی اور اس کی متابعت کی تھی۔ ” لیتنی لم اتخذ فلانا خلیلاً “ فلاں سے مراد امیہ ہے، کنایۃً اس کا ذکر کیا ہے صراحۃً ذکر نہیں کیا تاکہ وہ وعدہ اسی کے ساتھ مخصوص نہ ہو بلکہ جو بھی ان جیسا عمل کرے ان کو شامل ہو۔ مجاہد اور ابورجاء نے کہا : ظالم، ہر ظالم میں عام ہے :” فلان “ سے مراد شیطان ہے : اس قول کے کرنے والے نے ما بعد ارشاد سے استدلال کیا ہے :” وکان الشیطن للانسان خذولا۔ “ حضرت حسن بصری نے اسے یاویلتی پڑھا ہے، سورة ہود میں اس کی وضاحت گزر چکی ہے۔ الخلیل سے مراد صاحب اور صدیق ہے، اس کی وضاحت سورة النساء میں گزر چکی ہے۔ ” لقد اضلنی عن الذکر “ نادم یہ کہے گا : جس کو میں نے دنیا میں دوست بنایا ہے اس نے مجھے قرآن اور اس پر ایمان لانے سے گمراہ کردیا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ’ ’ عن الذکر “ سے مراد عن الرسول ہے۔ ” وکان الشیطن للانسان خدولا “ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے، یہ ظالم کے قول کی حکایت نہیں اور کلام ” بعد اذجاءنی “ پر مکمل ہوجائے گی۔ خذل کا معنی اعانت کو ترک کرنا ہے، اسی سے ہے ابلیس نے مشرکوں کو بےیادرو مددگار چھوڑ دیا جب وہ مشرکوں کے سامنے سراقہ بن مالک کی صورت میں ظاہر ہوا جب اس نے فرشتوں کو دیکھا تو ان سے برأت کردی۔ ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ سے روکے اور اللہ تعالیٰ کی معصیت میں اس کی اطاعت کی جائے تو وہ انسان کا شیطان ہے جب عذاب اور آزمائش نازل ہوتی ہے تو اس وقت وہ بےیارومددگار ہوتا ہے، جس نے کہا کتنا اچھا کہا : اصحب خیار الناس حیث لقیتھم خیر الصابۃ من یکون غفیفا والناس مثل دراھم میز تھا فوجدت منھا فضۃ وزیوفا میں بہترین لوگوں کی سنگت اختیار کرتا ہوں جہاں بھی میں انہیں ملتا ہوں، بہترین دوست وہ ہوتا ہے جو پاک دامن ہو۔ لوگ دراہم کی طرح ہیں جن کی میں نے پرکھ کی تو میں نے ان میں سے کچھ چاندی اور کچھ کھوٹے پائے۔ صحیح میں حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” انما مثل الجلیس الصالح والجلیس السؤ کحامل المسک و نافخ الکیر فحامل المسک اما ان یحذیک واما ان تبتاع منہ واما ان تجد ریحا طیبۃ و نافخ الکیر اما ان یحرق ثمیابک واما ان تجد ریحا خبیثۃ (1) صالح دوست اور برے دوست کی مثال خوشبو بیچنے والے اور بھٹی والے کی سی ہے خوشبو بیچنے والا یا تو عطا کر دے گا یا تو اس سے خریدلے گا یا تو عمدہ خوشبو پائے گا اور بھٹی والا یا تو تیرے کپڑے جلا دے گا یا تو بد بو پائے گا : الفاظ مسلم کے ہیں۔ ابو دائود نے حضرت انس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ ابوبکر بزار نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے عرض کی گئی : یا رسول اللہ ﷺ ! ہمارے ساتھیوں میں سے کون سب سے بہتر ہے ؟ فرمایا : جس کا دیدار تمہیں اللہ تعالیٰ یاد دلائے، اس کی گفتگو تمہارے علم میں اضافہ کر دے اور اس کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلائے “۔ مالک بن دینار نے کہا : اگر تو نیک لوگوں کے ساتھ پتھر اٹھائے تو یہ تیرے لیے اس سے بہتر ہے کہ تو فجار کے ساتھ حلوہ کھائے اور یہ شعر پڑھا : وصاحب خیار الناس تنج مسلما وصاحب شرار الناس یوما فتندما اچھے لوگوں کے ساتھ سنگت اختیار کر تو سلامتی کے ساتھ نجات پا جائے گا اور برے لوگوں کے ساتھ سنگت اختیار کر تو کسی روز ضرور شرمندہ ہوگا۔
Top