Mafhoom-ul-Quran - Al-Furqaan : 33
وَ یَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰى یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا
وَيَوْمَ : اور جس دن يَعَضُّ : کاٹ کھائے گا الظَّالِمُ : ظالم عَلٰي يَدَيْهِ : اپنے ہاتھوں کو يَقُوْلُ : وہ کہے گا يٰلَيْتَنِي : اے کاش ! میں اتَّخَذْتُ : پکڑ لیتا مَعَ الرَّسُوْلِ : رسول کے ساتھ سَبِيْلًا : راستہ
اور اس دن کو یاد کرو جس دن ظالم اپنے ہاتھوں کو اپنے دانتوں سے کاٹے گا اور یوں کہتے گا کہ کاش میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ راستہ بنا لیتا
رسول ﷺ کی اتباع نہ کرنے والے خسارے میں ہوں گے 1۔ ابن مردویہ وابو نعیم فی الدلائل بسند صحیح من طریق سعید بن جبیر ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ابو معیط نبی ﷺ کے پاس مکہ میں بیٹھا کرتا تھا اور آپ کو تکلیف نہ دیتا تھا اور وہ بردبار آدمی تھا اور باقی قریش جب آپ کے ساتھ بیٹھتے تھے تو آپ کو تکلیف دیتے تھے۔ اور ابو معیط کا ایک دوست شام میں رہتا تھا جو موجود نہیں تھا قریش نے کہا ابو معیط نے دین تبدیل کرلیا اس کا دوست شام سے رات کو آیا اور اپنی بیوی سے کہا محمد ﷺ نے کیا کیا اس دین کے بارے میں جس پر وہ تھے اس کی بیوی نے کہا وہ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہے۔ پھر اس نے پوچھا میرے دوست ابو معیط نے کیا کیا۔ اس نے کہا کہ اس نے دین تبدیل کرلیا ہے یہ سن کر اس نے بڑی تکلیف میں رات گزاری جب صبح ہوئی تو ابو معیط اس کے پاس آیا اس نے سلام کیا مگر اس نے جواب نہیں دیا ابو معیط نے کہا تجھے کیا ہوا ہے تو نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا اس نے کہا میں تیرے سلام کا جواب کیسے دوں اور تو صابی ہوگیا اس نے پوچھا کیا قریش نے ایسا ہی کہا ہے۔ اس نے کہا ہاں ! ابو معیط نے کہا میرا کون ساعمل انکے سینوں سے میری ناراضگی دور کرے گا اگر میں ایسا کروں دوست نے کہا ہم اس کی مجلس میں جاتے ہیں (یعنی محمد ﷺ کی مجلس میں) اور تو ان کے چہرہ پر تھوک دینا اور اس کو گالیاں دینا ان بری گالیوں میں سے جو تو جانتا ہے۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ نبی ﷺ نے اس تھوک کو اپنے چہرہ مبارک سے صاف کیا پھر اس کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا اگر میں نے تجھ کو مکہ کے پہاڑوں کے باہر پالیا تو میں انتقام میں تیری گردن ماردوں گے۔ جب بدر کا دن تھا اور یہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ نکلا اس نے نکلنے سے انکار کیا تو اس کے ساتھیوں نے کہا ہمارے ساتھ نکل اس نے کہا کہ آدمی (یعنی محمد ﷺ نے کہا تھا کہ تیری گردن انتقام میں ماروں گا۔ انہوں نے کہا تیرا سرخ اونٹ ہے۔ وہ تجھ کو نہیں پاسکے گا اگر شکست ہوئی تو اس پر بیٹھ کر بھاگ جانا تو وہ ان کے ساتھ باہر نکلا جب اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو شکست دی تو اس کے اونٹ نے اسے کیچڑ والی زمین میں گرادیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کو قیدی بنا کر پکڑ لیا قریش کے ستر قیدیوں میں ابو معیط آپ کے پاس آیا اور کہا کیا آپ مجھے ان کے درمیان قتل کردیں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں اس وجہ سے جو تو نے میرے چہرہ پر تھوکا تھا تو اللہ تعالیٰ نے ابو معیط کے بارے میں یہ آیت اتاری۔ آیت ” ویوم یعض الظالم علی یدیہ “ سے لے کر ” وکان الشیطان للانسان خذولا “ تک۔ 2۔ ابو نعیم من طریق الکلبیابو صالح سے روایت کیا اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ عقبہ بن ابی معیط جب سفر سے آتا تھا تو کھانا تیار کرتا اور سارے مکہ والوں کو دعوت دیتا اور وہ اکثر نبی ﷺ کے ساتھ بیٹھا کرتا تھا اور آپ کی باتوں سے خوشی ہوتا تھا اس پر بدبختی غالب آئی ایک دن وہ سفر سے آیا اور کھانا تیار کیا پھر رسول اللہ ﷺ کو بھی بلایا اپنے کھانے کی طرف آپ نے فرمایا میں تیرے کھانے میں سے نہیں کھاؤں گا یہاں تک کہ تو گواہی دے گا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں اس نے کہا اے میرے بھتیجے کھانا کھائیں آپ نے فرمایا میں اس وقت تک نہیں کھاؤں گا جب تک تو پھر نہ کہے گا عقبہ نے گواہی دی اور آپ نے اس کے کھانے میں سے کھالیا۔ یہ بات ابی بن خلف کو پہنچی تو وہ اس کے پاس آیا اور کہا اے عقبہ تو نے دین تبدیل کرلیا ہے اور وہ اس کا قریبی دوست تھا اس نے کہا نہیں اللہ کی قسم میں نے دین تبدیل نہیں کیا لیکن میرے پاس ایک آدمی یعنی محمد ﷺ آیا اس نے میرے کھانے میں سے انکار کردیا مگر اس صورت میں کہ میں اس کے لیے گواہی دوں تو مجھے شرم آئی کہ میرے گھر سے کھائے بغیر چلا جائے تو میں نے اس کی گواہی دے دی تو اس نے کھالیا ابی بن خلف نے کہا میں تجھ سے راضی نہیں ہوں گا یہاں تک کہ تو اس کے پاس جا کر کر اس کے چہرہ پر تھوک دے عقبہ نے ایسا کرلیا اس کو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر میں تجھ کو مکہ سے باہر ملا تو میں تلوار سے تیری گردن اڑا دوں گا عقبہ بدر کے دن قید ہوگیا اور اس انتقام میں قتل کردیا گیا اس دن اس کے علاوہ قیدیوں میں کوئی قتل نہ ہوا۔ 3۔ ابن جریر وابن المنذر وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ابی بن خلف نبی ﷺ کے پاس حاضر ہوتا تھا اور عقبہ بن ابی معیط نے اس کو ڈانٹا۔ تو یہ آیت نازل ہوئی۔ آیت ” ویوم یعض الظالم علی یدیہ “ سے لے کر ” وکان الشیطان للانسان خذولا “ تک۔ نبی کا دشمن بدر میں قتل کیا گیا 4۔ عبدالرزاق فی المصنف وابن جریر وابن المنذر مقسم سے جو ابن عمر ؓ کے غلام ہیں ان سے روایت کیا کہ عقبہ بن ابی معیط اور ابی بن خلف جمحی دونوں آپس میں ملے عقبہ بن ابی معیط نے ابی بن خلف سے کہا اور دونوں جاہلیت میں دوست تھے اور ابی نبی ﷺ کے پاس آیا آپ نے اس کو اسلام پیش کی اجب یہ بات عقبہ نے سنی تو اس سے کہا میں تجھ سے راضی نہیں ہوں گا یہاں تک کہ تو محمد ﷺ کے پاس آئے اور ان کے چہرہ مبارک پر تھوک دے اور ان کو برا بھلا کہے اور ان کو جھٹلادے راوی نے کہا مگر اللہ تعالیٰ نے اسے حضور ﷺ پر غلبہ نہیں دیا۔ جب بدر کا دن تھا تو عقبہ بن ابی معیط کو دوسرے قیدیوں میں قید کرلیا گیا نبی ﷺ نے علی بن ابی طالب ؓ کو اس کے قتل کردینے کا حکم فرمایا عقبہ نے کہا یا محمد ﷺ کیا ان لوگوں کے درمیان صرف میں قتل کیا جاؤں گا ؟ فرمایا ہاں اس نے کہا کیوں ؟ فرمایا تیرے کفر تیری نافرمانی اور تیری سرکشی اور اللہ اور اس کے رسول پر زیادتی کی وجہ سے علی بن ابی طالب ؓ اس کی طرف کھڑے ہوئے اور اس کی گردن ماردی۔ لیکن ابی بن خلف نے کہا اللہ کی قسم ! میں محمد ﷺ کو قتل کردوں گا (نعوذ باللہ) رسول اللہ ﷺ کو یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا بلکہ میں انشاء اللہ اس کو قتل کردوں گا وہ اس بات سے ڈر گیا اور اس کے دل میں کھٹکا پید اہو گیا کیونکہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کوئی بات نہیں سنی تھی مگر وہ سچی ہوتی جب احد کا دن تھا تو وہ مشرکین کے ساتھ نکلا اور اس نے نبی ﷺ کو ڈھونڈنا شروع کیا تاکہ ان پر حملہ کردے تو ایک آدمی مسلمانوں میں سے نبی ﷺ اور اس کے درمیان حائل ہوجاتا تھا اور رسول اللہ ﷺ نے جب یہ دیکھا تو اپنے اصحاب سے فرمایا اس کا راستہ چھوڑد و آپ نے نیزہ لیا اور اس کے ساتھ اس کو مار دیہا تو وہ نیزہ اس کی ہنسلی کی ہڈی میں جاری ہوگیا اس کا زیادہ خون بھی نہیں نکلا تھا اور خون اس کے پیٹ میں چلا گیا تو بیل کی طرح ڈکارتا تھا اس کے ساتھی آئے یہاں تک کہ اس کو اٹھایا جیسا کہ وہ ڈکار رہا تھا اس کے ساتھیوں نے کہا کیا ہے یہ اللہ کی قسم تجھ کو ایک معمولی خراش ہے ؟ اس نے کہا اللہ کی قسم اگر مجھے اس کی چمک ہی لگ جاتی تو مجھے قتل کر ڈالتی کیا آپ نے یوں نہیں فرمایا تھا کہ میں تجھ کو قتل کروں گا اللہ کی قسم جو زخم مجھے لگا ہے اگر یہ تمام حجاز والوں کو لگتا تو سب کو قتل کردیتا۔ راوی نے کہا کہ وہ نہیں ٹھہرا یعنی وہ زندہ نہیں رہا مگر ایک دن یا اتنا ہی عرصہ یہاں تک کہ دوزخ کی طرف مرگیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں نازل فرمایا آیت ” ویوم یعض الظالم علی عیدیہ “ سے لے کر آیت ” وکان الشیطان للانسان خذولا ‘ ‘ 5۔ ابن ابی شیبہ وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن سابط (رح) سے روایت کیا کہ ابی بن خلف نے کھانا تیار کیا پھر وہ آیا اس مجلس میں جس میں نبی ﷺ تشریف فرما تھے اور کہا کھڑے ہوجاؤ تو نبی ﷺ کے علاوہ سب کھڑے ہوئے اور آپ نے فرمایا میں کھڑا نہیں ہوں گا یہاں تک کہ تو اس بات کی گواہی نہیں دے گا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بلا شبہ میں اللہ کا رسول ہوں تو اس نے گواہی دے دی اور ابی بن خلف کی ملاقات عقبہ بن ابی معیط سے ہوئی تو اس نے پوچھا کیا تو نے اس طرح اس طرح کہا ہے تو اس نے کہا کہ میں نے اپنے کھانے کے لیے ارادہ کیا تھا کہ کسی طرح نبی ﷺ کھانا کھالیں اور میں مسلمان نہیں ہوا۔ اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آیت ” ویم یعض الظالم علی یدیہ “ یعنی جس روز ظالم افسوس سے اپنے دانتوں سے اپنے ہاتھ کاٹے گا اور کہے گا کاش میں رسول اللہ کے ساتھ ان کی راہ پکڑ لیتا۔ دین حق قبول کرنے کے بعد انکار 6۔ الفریابی وابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) نے آیت ” ویوم یعض الظالم علی عیدیہ “ کے بارے میں فرمایا کہ عقبہ بن ابی معیط نے نبی ﷺ کو کھانے کی مجلس میں بلایا نبی ﷺ نے کھانے سے انکار فرمایا اور فرمایا میں نہیں کھؤں گا یہاں تک کہ تو اس بات کی گواہی نہ دے گا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں تو اس نے گواہی دیدی اور آپ نے کھانا تناول فرما لیا عقبہ بن ابی معیط کی اپنے دوسرے امیہ بن خلف سے ملاقات ہوئی۔ اس نے کہا کہ تو نے اپنا دین چھوڑدیا ہے امیہ نے کہا تیرا بھائی اسی دین پر ہے جس کو تو جانتا ہے لیکن میں نے کھانا تیار کیا تھا تو انہوں نے کھانے سے انکار کردیا یہاں تک کہ میں وہ یہ بات کروں یعنی گواہی دوں میں نے وہ الفاظ کہہ دئیے لیکن میرے دل میں اس کا کوئی تصور نہیں۔ 7۔ ابن ابی حاتم نے ہشام (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” ویویعض الظالم علی عیدیہ “ سے مراد ہے کہ وہ اپنی ہتھلیوں کو ندامت کی وجہ سے کھائے گا یہاں تک کہ وہ اپنے کندھوں تک پہنچے گا اور اسے احساس بھی نہیں ہوگا۔ 8۔ ابن ابی حاتم نے سفیان (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” ویوم یعض الظالم علی یدیہ “ یعنی اپنے ہاتھ کو کھائے گا پھر اس کا ہاتھ پھوٹ پڑے گا۔ 9۔ ابن ابی حاتم نے ابو عمران جونی (رح) سے آیت ” ویوم یعض الظالم علی یدیہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ وہ اس کو چبائے گا یہاں تک کہ ہڈی ٹوٹ جائے گی پھر وہ ہڈی پیدا ہوجائے گی۔ 10۔ عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے سعید بن المسیب (رح) سے روایت کیا کہ ی آیت امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی آیت ” ویوم یعض الظالم علی یدیہ “ ہاتھ کاٹنے والا عقبہ ہے۔ اور آیت ” لم اتخذ فلانا خلیلا “ اور خلیل سے مراد امیہ اور عقبہ امیہ کا دوست تھا اور امیہ کو یہ بات پہنچی کہ عقبہ اسلام قبول کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو وہ اس کے پاس آیا اور کہا کہ میرا چہرا تیرے چہرے سے حرام ہے اگر تو اسلام لایا تو میں تجھ سے کبھی بھی بات نہیں کروں گا تو اس نے ایسا کرلیا (یہ اسلام لانے سے باز آگیا) تو یہ دونوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ قیامت کے روز کف افسوس 11۔ سعید بن منصور وعبد بن حمید وابن المنذر ابو مالک (رح) نے آیت ” لم اتخذ فلانا خلیلا ‘ کے بارے میں فرمایا کہ عقبہ بن ابی معیط اور میہ بن خلف دونوں جاہلیت میں آپس میں بھائی بھائی تھے۔ امیہ بن خلف کہے گا اے افسوس مجھ کو کہ میں عقبہ بن ابی معیط کو دوست نہ بناتا۔ 12۔ ابن ابی حاتم نے عمرو بن میمون (رح) سے آیت ” ویوم یعض الظالم علی یدیہ “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ آتی عقبہ بن ابی معیط اور ابی بن خلف کے بارے میں نازل ہوئی کہ نبی ﷺ عقبہ کے پاس ایک ضرورت کے لیے تشریف لے گئے اس نے لوگوں کے لیے کھانا پکایا ہوا تھا اس نے نبی ﷺ کو کھانے کی دعوت دی آپ نے فرمایا میں کھانا نہیں کھاؤں گا یہاں تک کہ تو اسلام لائے اس نے اسلام قبول کرلیا تو آپ نے کھانا تناول فرمالیا یہ خبرابی بن خلف کو پہنچی وہ عقبہ کے پاس آیا اور اس کو ید دلایا جو اس نے کہا کہ کلمہ پڑھ لیا عقبہ نے اس سے کہا تیری کیا رائے ہے کہ میرے گھر میں محمد ﷺ جیسا کوئی شخص داخل ہو جبکہ کھانا بھی تیار ہو پھر وہ کھائے بغیر چلا جائے ؟ اس نے کہا کہ میرا چہرہ تیرے چہرے پر حرام ہے یہاں تک کہ تو اس دین کو نہ چھوڑ دے جس میں تو داخل ہو تو عقبہ لوٹ (یعنی اسلام چھوڑدیا) تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ 13۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” ویوم یعض الظالم “ سے مراد امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط ہیں اور وہ دونوں جہنم میں دوست ہوں گے اور آگ کے ایک ہی منبر پر ہوں گے۔ 14۔ عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو ذکر کیا گیا کہ ایک آدمی قریش میں سے رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا کرتا تھا اس کو ایک دوسرا آدمی قریش میں سے ملا وہ اس کا دوست تھا وہ برابر اس کے ساتھ لگا رہا یہاں تک کہ اس کو پھیر دیا اور روک دیا رسول اللہ ﷺ کے ملنے سے تو اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے بارے میں نازل فرمایا جو تم سنتے ہو۔ 15۔ الفریابی وابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) وسلم سے روایت کیا کہ آیت ” یویلتی لیتنی لم اتخذ فلانا خلیلا “ میں فلاں سے مراد شیفان ہے (کاش میں اس کو دوست نہ بناتا) 16۔ عبد بن حمید وابن المنذر واطبن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” وکان الشیطان للانسان خذولا “ سے مراد ہے کہ شیطان قیامت کے دن اس کا ساتھ چھوڑدے گا اور اسے بری ہوجائے گا آیت ” وقال الرسول یرب ان قومی اتخذوا ہذا القراٰن مہجورا “ یہ تمہارے نبی کا قول ہوگا جو اپنی قوم کی اپنے رب سے شکایت کرے گا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو صبر دلاتے ہوئے فرمایا آیت ” وکذلک جعلنا لکل نبی عدوا من المجرمین “ یعنی آپ سے پہلے بھی رسول نے اپنی قوموں کی اسی طرح تکلیفیں اٹھائی اس لیے یہ تجھ پر ہرگز بھاری نہ ہوں۔ 17۔ الفریابی وعبد بن حمید وابن جریر ابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” اتخذوا ہذا القراٰن ہجورا “ کفار نازیبا باتیں کر کے بکواس مارتے تھے اور وہ کہتے تھے کہ یہ جادو ہے۔ 18۔ الفریابی و سعید بن منصور وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابراہیم نخعی (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” اتخذوا ہذا القراٰن مہجورا “ یعنی ناحق باتیں کرتے ہیں کیا تو نے مریض کو نہیں دیکھا جب وہ بکواس بکتا ہے اس وقت کہتے ہیں حجر المریض یعنی مریض نے ناحق بات کی۔ 19۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” وکذلک جعلنا لکل نبی عدوا من المجرمین ‘ سے مراد ہے کہ کبھی کوئی نبی نہیں بھیجا گیا مگر مجرمین اس کے دشمن بن گئے اور کبھی کوئی نبی نہیں بھیجا گیا مگر بعض مجرم زیادہ سخت ثابت ہوئے بعض سے (دشمنی کے لحاظ سے) 20۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” وکذلک جعلنا لکل نبی عدوا من المجرمین “ سے مراد ہے کہ نبی ﷺ کا دشمن ابو جہل تھا اور موسیٰ (علیہ السلام) کا دشمن قارون تھا اور قارون، موسیٰ (علیہ السلام) کا چچا زاد بھائی تھا۔ 21۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” وکذلک جعلنا لکل نبی عدوا من المجرمین “ سے مراد ہے کہ محمد ﷺ کو اس بات پر قائل کیا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجرموں میں سے نبی اکرم ﷺ کے دشمن بنانے والا ہے جیسے کہ ان سے پہلے انبیاء کے دشمن بنائے۔
Top