Ashraf-ul-Hawashi - Al-Faatiha : 7
وَ یَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰى یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا
وَيَوْمَ : اور جس دن يَعَضُّ : کاٹ کھائے گا الظَّالِمُ : ظالم عَلٰي يَدَيْهِ : اپنے ہاتھوں کو يَقُوْلُ : وہ کہے گا يٰلَيْتَنِي : اے کاش ! میں اتَّخَذْتُ : پکڑ لیتا مَعَ الرَّسُوْلِ : رسول کے ساتھ سَبِيْلًا : راستہ
اور جس دن (ناعاقبت اندیش) ظالم اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کھائے گا (اور کہے گا) کہ اے کاش میں نے پیغمبر کے ساتھ رشتہ اختیار کیا ہوتا
ویوم یعض الظالم کی تفسیر۔ 27۔ ویوم یعض الظالم علی یدیہ، اس سے عقبہ بن ابی معیط کا ظلم مراد ہے۔ کہ جب وہ سفر سے واپس آتا تھا کھاناتیار کراتا اور اپنی قوم کے بڑے بڑے لوگوں کی دعوت کرتا تھا۔ یہ شخص رسول اللہ کے پاس زیادہ دیر بیٹھتا تھا، ایک روزسفر سے واپس ہوکرکھاناتیار کروایا لوگوں کو دعوت دی اور آپ کو بھی دعوت دی گئی آپ تشریف لے گئے۔ جب عقبہ نے کھانا لاکر آپ کے سامنے رکھا، آپ نے فرمایا میں اس وقت تک تمہارا کھانا نہیں کھاؤں گا جب تک تم لاالہ الا اللہ کے ساتھ محمد رسول اللہ کی شہادت نہ دو گے۔ عقبہ نے کلمہ شہادت پڑھ لیا اور آپ نے اس کا کھانا کھالیا، عقبہ ابی بن خلف کادوست تھا ابی کو عقبہ کے کلمہ پڑھنے کی اطلاع معلی تو اس نے عقبہ سے کہا عقبہ تم بےدین ہوگئے ہو۔ عقبہ نے کہا خدا کی قسم میں تو بےدین نہیں ہوا۔ بات صرف یہ تھی کہ میرے گھر ایک آدمی آیا اور بغیر کلمہ پڑھوائے میراکھانا کھانے سے انکار کردیا، میری غیرت نے گوارا نہیں کیا کہ وہ میرے گھر سے کھانا کھانے کے بغیرجائے۔ اس لیے میں نے شہادت دی اور اس نے کھانا کھالیا۔ ابی نے کہا میں اس وقت تم سے راضی نہیں ہوں گا، جب تک تم جاکر اس کے منہ پر تھوک نہ دو گے۔ عقبہ نے جاکرایسا ہی کیا۔ حضور نے فرمایا میں نے بھی اگر تجھے مکہ کے باہر پالیا تو تیرے سرپر تلوار ماروں گا، چناچہ بدر کے دن عقبہ مارا گیا، رہا ابی ، تو اس کے احد کے دن رسول اللہ نے اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔ ضحاک کا قول ہے کہ جب عقبہ نے آپ کے چہرے پر تھوکا تو وہ تھوک واپس عقبہ کے چہرے پر آپڑا، جس سے اس کا چہرہ جل گیا، اور مرتے دم تک اس کے چہرے پر نشان رہا۔ شعبی کا بیان ہے کہ عقبہ بن ابی معیط امیہ بن خلف کادوست تھا۔ عقبہ مسلمان ہوگیا، امیہ نے کہا تونے محمد کی بیعت کرلی اس لیے میراچہرہ تیرے لیے اور تیرا چہرہ میرے لیے دیکھن احرام ہے۔ عقبہ نے اسلام کا انکار کردیا اور مرتد ہوگیا۔ اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ویوم یعض الظالم ، اس سے مراد عقبہ بن ابی معیط، بن عبدالشمس، بن مناف ہے ہاتھ کاٹنے سے مراد ندامت و افسوس کہ وہ دوست کہ جس نے اس کو اللہ کے راستہ سے روکا۔ اس نے اس کا کہامان لیا اور گناہ کفر کا ارتکاب کیا، اپنے آپ کو تباہ کردیا۔ عطاء کا قول ہے کہ وہ اپنے دونوں ہاتھوں کہنیوں تک کھاجائے گا، پھر ہاتھ اگ آئیں گے وہ حسرت و افسوس کرتے ہوئے ان کو پھر کھاجائے گا، اور یوں ہی ہاتھ اگتے رہیں گے اور وہ حسرت سے کھاتا رہے گا۔ ” یقول یالیتنی اتخذت ، دنیا میں ، مع الرسول سبیلا، کاش میں محمد کا اتباع کرلیتا، اور ان کی بیعت کرلیتا، اور ہدایت کا راستہ اختیار کرلیتا، ابوعمرو نے یاء کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ دوسرے قراء نے یاء کے سکون کے ساتھ پڑھا ہے۔
Top