ویوم یعض الظالم علی یدیہ یقول یلیتنی اتخذت مع الرسول سبیلا۔
اور جس روز کہ ظالم (افسوس سے) اپنے دانتوں سے اپنے ہاتھ کاٹے گا (اور) کہے گا ‘ کاش میں رسول کے ساتھ (ان کی) راہ پکڑ لیتا۔
اَلظَّالِمَ سے مراد ہے عقبہ بن ابی معیط۔ ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ : کا بیان نقل کیا ہے کہ ابی بن خلف رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا ‘ عقبہ بن ابی معیط نے اس کو سرزنش کی اس پر یہ آیت خَذُوْلاً تک نازل ہوئی ‘ شعبی اور مقسم سے بھی ایسی ہی روایت آئی ہے۔
بیضاوی نے لکھا ہے ‘ دانتوں سے ہاتھ کاٹنا۔ انگلیوں کے پورے کھانا ‘ دانت پسینا یہ سب کنائی الفاظ ہیں ‘ ان سے مراد ہوتا ہے انتہائی غصہ اور حسرت۔
ضحاک نے کہا ‘ جب عقبہ نے رسول اللہ ﷺ کے چہرۂ مبارک پر تھوک پھینکا تو اس کا تھوک لوٹ کر اسی کے رخساروں پر آپڑا ‘ جس سے دونوں رخسارے جل گئے اور مرتے دم تک جلنے کا نشان نہیں گیا شعبی کا بیان ہے کہ عقبہ بن ابی معیط امیہ بن خلف کا دوست تھا۔ عقبہ مسلمان ہوگیا۔ امیہ نے کہا چونکہ تو نے محمد ﷺ : کی بیعت کرلی ہے اس لئے میرا چہرہ تیرے لئے اور تیرا چہرہ میرے لئے دیکھنا حرام ہے۔ عقبہ نے اسلام کا انکار کردیا اور مرتد ہوگیا اس پر اللہ نے اس کے بارے میں آیت (یَوْمَ یَعُضُّ الظَّالِمُ ) نازل فرمائی الظالم سے مراد ہے عقبہ بن ابی معیط بن امیہ بن عبدالشمس بن عبدمناف۔ ہاتھ کاٹنے سے مراد ہے ندامت و افسوس کہ وہ دوست جس نے اس کو اللہ کے راستہ سے روکا اس نے اس کا کہا مان لیا اور گناہ و کفر کا ارتکاب کر کے اپنے آپ کو خود تباہ کردیا۔ عطاء نے کہا وہ (قیامت کے دن) اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں تک کھاجائے گا پھر ہاتھ اگ آئیں گے وہ حسرت و افسوس کرتے ہوئے ان کو پھر کھاجائے گا اور یوں ہی ہاتھ اگتے رہیں گے اور وہ حسرت کے ساتھ کھاتا رہے گا۔
یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلاً یعنی کاش میں محمد ﷺ : کا اتباع کرلیتا اور ان کی معیت میں ہدایت کا راستہ اختیار کرلیتا۔ جو ایک ہی ہے اور مجھے گمراہی کی طرف نہیں لے جاتا۔