Urwatul-Wusqaa - Al-Furqaan : 27
وَ یَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰى یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا
وَيَوْمَ : اور جس دن يَعَضُّ : کاٹ کھائے گا الظَّالِمُ : ظالم عَلٰي يَدَيْهِ : اپنے ہاتھوں کو يَقُوْلُ : وہ کہے گا يٰلَيْتَنِي : اے کاش ! میں اتَّخَذْتُ : پکڑ لیتا مَعَ الرَّسُوْلِ : رسول کے ساتھ سَبِيْلًا : راستہ
اور جس روز ظالم اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کھائے گا ، کہے گا اے کاش میں نے رسول کے ساتھ راہ اختیار کی ہوتی
ظالم اپنے ہاتھ کاٹیں گے کہ کاش انہوں نے رسول کا ساتھ اختیار کیا ہوتا : 27۔ غصہ اور ندامت کے وقت کی حالت کا بیان ہے کہ انسان ایسی حالت میں اپنے ہاتھوں کو دانتوں سے کاٹتا ہے فرمایا وہ وقت ایسا ہوگا کہ مشرکین ومعاندین اپنے ہاتھوں کو کاٹتے ہوں گے اور اس وقت ان کی حالت دیدنی ہوگی یہ وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے دنیا میں اس طرح کی سوال اٹھائے اور رسول اللہ ﷺ اور ایمان والوں کی استہزاء کا نشانہ بنایا اور کٹ حجتیان کرتے ہوئے فرشتوں کے اترنے اور اللہ رب العزت کے بنفس نفیس ظاہر ہونے کے مطالبات کئے اس جگہ مفسرین نے کچھ خاص خاص لوگوں کے واقعات بھی بیان کئے ہیں اور تحریر کیا ہے کہ انہی واقعات کے پیش نظریہ آیت اتاری گئی ہے بہرحال حکم آیت کا عام ہے اور اس روز بلاشبہ ہر ظالم اپنے ہاتھ کاٹے گا اور جس کو اس نے دنیا میں سہارا پکڑا تھا اور آسرا تلاش کیا تھا اس پر افسوس کرتے ہوئے اور ہاتھ ملتے ہوئے کہے گا کہ اے کاش ! میں نے رسول اللہ ﷺ کی پیروی کی ہوتی اور اس راستہ کو اپنے لئے پسند کیا ہوتا ، قرآن کریم کی یہ آیت اس مضمون کی دوسری آیات کے ساتھ ہم کو بتاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا راستہ ہر لحاظ سے مکمل اور اکمل ہے اور وہ بالکل اسی طرح محفوظ بھی ہے اور تا قیامت رہے گا اس جگہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایک مختصر خاکہ پر نظر ڈال لی جائے تاکہ بات واضح ہوجائے ۔ رسول اعظم وآخر ﷺ کی سیرت طیبہ دائمی نمونہ عمل ہے : ہمارے رسول محمد رسول اللہ ﷺ سید المرسلین اور خاتم النبیین ہیں ۔ آپ ﷺ کی حیات طیبہ کا کمال یہ ہے کہ وہ بیک وقت زندگی کے تمام شعبوں میں انسان کی راہنمائی کرتی ہے ، ہاں ! جس کی حیات طیبہ تمام انسانوں کی رہبری کرے وہی سارے عالم کے لئے رسول ہے ۔ ہمارے رسول ﷺ سارے عالم کے لئے رحمت بن کر آئے اور تمام عالموں کے لئے بشیر ونذیر بنا کر بھیجے گئے ، ساری کائنات کے لئے رؤف ورحیم ٹھہرائے گئے ، آپ ﷺ کا طرہ امتیاز خلق عظیم ہے چونکہ آپ ﷺ سارے عالموں کے لئے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے اس لئے آپ ﷺ کی زندگی کو بھی تمام عالم کے لئے اسوہ حسنہ ٹھہرایا گیا ، بلاشبہ انسان جب کسی شعبہ حیات میں قدم رکھتا ہے تو اس کی فطری خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس نے زندگی کے جس شعبے کو اختیار کیا ہے اس کے سامنے اس میں کوئی اچھا نمونہ ہوتا کہ وہ اسے دیکھ کر بہتر ہے بہتر بنا سکے ، سرور عالم ﷺ کی سیرت مبارکہ کا کمال یہ ہے کہ دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ﷺ کی زندگی کی روشنی میں اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتا ہے اس لئے کہ ادب واخلاق کا کوئی سبق ایسا نہیں ہے جو ہمیں آپ ﷺ کی حیات طیبہ میں نہ ملتا ہو۔ آپ ﷺ کی زندگی کے تمام پہلو ہم گنانا چاہیں تو نہیں گنا سکتے ہاں ! آپ ﷺ کی سیرت مبارکہ کے بیشمار پہلوؤں میں چند اجمالی طور پر پیش کرتے ہیں جس سے آپ کو معلوم ہوگا کہ اے پیغمبر اسلام ! ﷺ کی سیرت طیبہ میں جامعیت اور عمل کے جو درس ہم کو ملتے ہیں دنیا کی تاریخ ان کو پیش کرنے سے یقینا قاصر ہے ، مثلا : پہلے تجارت ہی کو لیجئے ایک تاجر اور کاروباری انسان کی زندگی کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ وہ حسن معاملہ کا خوگر اور ایفائے عہد کا پابند ہو ۔ اگر کسی تاجر کی زندگی میں یہ دو وصف مفقود ہوں تو وہ کبھی اچھا تاجر نہیں بن سکتا ۔ ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ نبوت سے پہلے میں نے رسول اکرم ﷺ سے کوئی تجارتی معاملہ کیا تھا ابھی وہ معاملہ پورے طور پر طے نہیں ہوا تھا کہ میں کسی ضرورت سے یہ وعدہ کرکے چلا آیا کہ میں ابھی آتا ہوں اتفاقا تین دن تک مجھے اپنا وعدہ یاد نہ آیا ، تیسرے روز جب مجھے اپنا وعدہ یاد آیا تو میں اس جگہ پہنچا جہاں میں نے آپ ﷺ کو اپنا منتظر بنایا تھا میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ میرا اس طرح انتظار کر رہے ہیں اور میری اس پیمان شکنی اور نقص عہد پر بغیر کسی ناراضگی کے ارشاد فرمایا تم نے مجھے یہ زحمت دی میں اس جگہ پر تین دن سے (اس وقت سے اس وقت تک) منتظر ہوں ۔ یعنی اتنا وقت جتنے وقت میں میرا آنا اس جگہ ممکن تھا ۔۔۔۔۔۔۔ حسن معاملہ اور ایفائے عہد کی یہ وہ مثال ہے جو دنیا کے سارے تاجروں اور اہل معاملہ کے لئے ایک بہترین مثال ہے ۔ ایک حاکم اور عہدے دار کی زندگی میں سب سے بڑا جو ہر انصاف ہے جو اس کے اور اس کے ماتحتوں کے تعلقات کو شگفتہ بنا سکتا ہے انصاف فی نفسہ ایک مشکل امر ہے خصوصا اپنے محسنوں ‘ دولت مندوں اور خود اپنے مقابلے میں تو بہت ہی مشکل ہوجاتا ہے ، رسول اللہ ﷺ نے انصاف کے ان نازک ترین مرحلوں سے گزر کر تمام دنیا کے حاکموں ‘ عہدہ داروں کے لئے بہترین شاہراہ قائم فرما دی۔ مکہ فتح ہونے کے بعد عرب میں صرف طائف باقی رہ گیا تھا جو فتح نہیں ہوا تھا مسلمان بیس روز تک طائف کا محاصرہ کئے ہوئے پڑے رہے مگر طائف فتح نہ ہوا اور مسلمانوں کو محاصرہ اٹھا لینا پڑا۔ صخر ایک رئیس تھا اس کو معلوم ہوا تو اس نے طائف کا محاصرہ کیا اور طائف کا محاصرہ کیا اور طائف والوں کو اتنا مجبور کیا کہ وہ صلح پر آمادہ ہوگئے صخر نے اس کے بعد نبی کریم ﷺ کو اطلاع دی اور جب طائف اسلام کے ماتحت آگیا تو مغیرہ بن شعبہ جو طائف کے رہنے والے تھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں آپ ﷺ سے انصاف چاہتا ہوں سخر نے میری پھوپھی پر زبردستی قبضہ کرلیا ہے میری پھوپھی صخر سے واپس دلائی جائے اس کے بعد بنو سلیم آئے اور انہوں نے کہا کہ صخر نے ہمارے چشموں پر قبضہ کر رکھا ہے ہمارے چشموں کو واپس دلایا جائے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگرچہ صخر نے ہم پر احسان کیا ہے لیکن احسان کے مقابلے میں انصاف کا دامن کبھی نہیں چھوٹ سکتا اسی وقت آپ ﷺ صخر کو حکم دیا کہ مغیرہ کی پھوپھی کو ان کے گھر پہنچا دو اور بنو سلیم کے پانی کے چشمے واپس کر دو ۔ یہ وہ عدل و انصاف تھا جو آپ ﷺ نے اپنے محسنوں کے مقابلے میں چھوڑا ۔ خاندان مخزوم کی ایک دولت مند خاتون نے ایک مرتبہ چوری کی ‘ چور کی سزا اسلام میں ہاتھ کاٹ ڈالنا ہے ، اس خاتون کی خاندانی وجاہت کے لحاظ سے لوگ چاہتے تھے کہ یہ خاتون سزا سے بچ جائے ، لوگوں نے اسامہ بن زید ؓ کو جو ایک لحاظ سے آپ ﷺ کا پوتا تھا اور آپ ﷺ ہی نے پرورش کی تھی اور ان سے آپ ﷺ کو بیحد محبت تھی اس پر مجبور کیا کہ وہ ان کی سفارش نبی کریم ﷺ سے کریں ۔ اسامہ ؓ نے معافی کی درخواست کی تو آپ ﷺ کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا اور فرمایا اے اسامہ ! کیا تم حدود الہی میں سفارش کرتے ہو العیاذ باللہ اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتیں تو میں ان کو بھی سزا دیتا ، بنی اسرائیل صرف اسی وجہ سے تباہ ہوگئے کہ وہ غریبوں پر حد جاری کرتے تھے اور امیروں سے درگزر کرتے تھے ، یہ ہے وہ انصاف جو آپ ﷺ نے دولت مندوں اور صاحبان وجاہت کے مقابلے میں چھوڑا ۔ انصاف کا نازک ترین مرحلہ یہ ہے کہ اپنے مقالبہ میں بھی عدل انصاف کا دامن چھوٹنے نہ پائے یہ انصاف کا وہ نازک ترین مرحلہ ہے جہاں بڑوں بڑوں کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں مگر رسول اللہ ﷺ نے انصاف کے اس نازک ترین مرحلے سے گزر کر بھی تمام دنیا کے حاکموں کے لئے قابل تقلید نمونہ چھوڑا ہے ۔ رسول اکرم ﷺ ایک مرتبہ مال غنیمت تقسیم فرما رہتے تھے ‘ لوگوں کی بہت بھیڑ تھی ایک آدمی آکر منہ کے بل آپ ﷺ پر لد گیا ۔ آپ ﷺ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی ‘ آپ ﷺ نے اس سے اسے ٹھوکا دیا ‘ جس کی وجہ سے اتفاقا اس کے خراش آگئی ‘ آپ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ میاں ! تم مجھ سے بدلہ لے لو ، اس نے کہا یا رسول اللہ ! میں نے معاف کردیا ۔ دوستی وتعلقات کی دنیا پر اگر گہری نظر ڈالی جائے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ دوستی اور محبت کی بنیادی خلوص باہمی ارتباع اور ایک دوسرے کی ہمدردی سے مستحکم ہوتی ہیں ، دیکھئے کہ آپ بحیثیت ایک دوست اور ساتھی ہونے کے اپنے دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ کس طرح پیش آتے تھے ۔ ایک سفر میں صحابہ کرام نے کھانا پکانے کا انتظام کیا اور ہر ایک نے ایک ایک کام اپنے ذمے لے لیا ، حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں جنگل سے لکڑیاں لاؤں گا ، صحابہ نے کہا کہ ہمارے ماں باپ قربان آپ ﷺ کو زحمت فرمانے کی ضرورت نہیں ۔ ہم سب کام خود انجام دے لیں گے ، ارشاد فرمایا : یہ صحیح ہے لیکن اللہ اس بندے کو پسند نہیں کرتا جو دوسروں سے اپنے آپ کو نمایاں کرتا ہو۔ دشمنوں کے مقابلے میں آپ ﷺ نے اخلاق وکردار کا وہ اعلی نمونہ پیش کیا کہ اگر آپ اس کو پیش نظر رکھا جائے تو آپ کا بڑے سے بڑا دشمن دوست ہو سکتا ہے ‘ بشرطیکہ اس کا ضمیر بالکل تاریک نہ ہوگیا ہو ۔ آپ ﷺ نے مکہ کے ان ہزاروں دشمنوں کو معاف کردیا جنہوں نے آپ ﷺ کو سخت سے سخت تکلیفیں پہنچائی تھیں آپ ﷺ نے اپنے چچا کے قاتل کو معاف کردیا ‘ آپ ﷺ نے ہندہ کو معاف کردیا جس نے آپ ﷺ کے چچا حضرت حمزہ ؓ کی لاش کے ساتھ گستاخیاں کی تھیں ‘ آپ ﷺ نے عمیر بن وہب کو معاف کردیا جو اپنی تلوار میں زہر بجھا کر آپ ﷺ کے قتل کے ارادے سے آیا تھا ۔ آپ ﷺ نے اس یہودیہ کو معاف کردیا جس نے خیبر میں آپ ﷺ کو زہر دیا تھا ۔ مالدار ہونے کی حیثیت سے اگر دنیا کسی صالح نظام تمدن کو برسر عمل لانا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ رسول اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ کو اپنے لئے نمونہ بنائے ۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان المبارک میں آپ ﷺ کی سخاوت بہت بڑھ جاتی تھی ‘ تمام عمر آپ ﷺ نے کسی کا سوال رد نہیں کیا ۔ ایک روز حضرت ابوذر ؓ سے ارشاد فرمایا ابوذر ؓ ! اگر یہ احد کا پہاڑ میرے لئے سونا ہوجائے تو میں کبھی اس کو گوارا نہیں کروں گا کہ تین روز گزر جائیں اور ایک دینار بھی میرے پاس رکھا رہ جائے ، مگر وہ کہ جس کو میں قرض کی ادائیگی کے لئے رکھ چھوڑوں ۔ آج دنیا کے ہر حصے میں مزدور اور سرمایہ دار کی جنگ جاری ہے ۔ یہ عالمگیر جنگ صرف ان کے مقابلے میں مجبور و لاچار ہو کر رہ گئی ہے لیکن رسول اکرم ﷺ نے اس سلسلے میں جو جو اصول پیش کئے ہیں اگر ان پر عمل کیا جاتا تو دنیا آج جس محرومی وبدنصیبی سے دوچار ہے آپ دنیا کے ہر فرد کو اپنی حیثیت کے مطابق خوش حال وخوش نصیب پاتے ، سرمایہ داری کی بنیاد روپے کی جمع کرنے اور اس نظریہ پر قائم ہے کہ انسان وسائل ثروت پر جب کبھی قبضہ پائے تو وہ ان کو روکے رکھے ‘ یہاں تک کہ ان سے اپنی ذات کے لئے فائدہ نہ اٹھا لے ، اس خود غرضانہ نظرئیے غیر منصفانہ نظام معیشت نے تباہی مچا کر رکھ دی ‘ اسی نظام معیشت کی کو کھ سے ہزاروں فاقہ کش ‘ مزدور ‘ قرض دار پیدا ہوئے جو ایک ایک دانے کو ترس رہے ہیں ۔ رسول اکرم ﷺ نے سب سے پہلے انسانی ضمیر پر اس حقیقت کو واضح کیا کہ دولت جمع کرنے سے نہیں بلکہ اچھے کاموں میں خرچ کرنے سے بڑھتی ہے ۔ آپ ﷺ نے سود کو حرام قرار دیا اور سود کے روکنے کی انتہائی کوشش کی ۔ آپ ﷺ ہی نے حصول معیشت کے ذریع میں سے بعض کو جائز اور بعض کو ناجائز قرار دیا ، ۔ آپ ﷺ ہی نے مزدوروں کی مشکلات حل کرتے ہوئے فرمایا کہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدور ادا کی جائے ، آپ ﷺ ہی نے سرمایہ دارانہ اخلاق اور سرمایہ دارانہ نظام کا قلع قمع کرکے دنیا پر خوش حالی ‘ امن اور بلند اخلاقی کے دروازے وا کئے ۔ خود غرض اور نفس پرست سرمایہ داروں نے جن مصیبتوں کو انسانوں پر مسلط کیا ہے وہ بلیک مارکٹنگ اور چور بازاری ہے جو غریبوں کے لئے عذاب الیم سے کم نہیں ۔ آپ ﷺ نے ان لوگوں پر جو غذائی اجناس اور دوسری اشیاء کو محض نفع اندوزی کی خاطر روک کر رکھے ہیں ‘ بہت بڑی ذمہ داری عائد کی ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا : جو لوگ غذائی اجناس اور دوسری اشیاء کو ذخیرہ کو لیتے ہیں تاکہ بازار میں مصنوعی طور پر ان کی مقدار گھٹ جائے اور قیمت بڑھ جائے تو وہ بڑے گنہگار ہیں ۔ آپ ﷺ نے تجارت میں بھی خوش اخلاقی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا : اللہ اس آدمی پر رحم کرتا ہے جو خریدنے بیچنے اور تقاضا کرنے میں نرمی اختیار کرتے ہیں ۔ خرید وفروخت کے آداب بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ خریدوفروخت کرتے وقت جھوٹی قسمیں نہ کھاؤ ، اپنے مال کا عیب اور خوبی دونوں باتیں خریدار کے سامنے بیان کرو اور مال بیچنے کے لئے چکنی چپڑی ‘ پھسلادینے والی باتیں نہ کرو ‘ مال کو تخمینے سے نہیں بلکہ پوری طرح ناپ تول کر بیچو۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو اپنے مال کے عیب کو چھپاتا ہے اور خریدار پر ظاہر نہیں کرتا وہ ہمیشہ اللہ کے غضب میں رہتا ہے ۔ تفوق و برتری کا وہ خیال جو ہزارہا سال سے انسان کی فطرت میں جاگزیں تھا ‘ آپ ﷺ نے اس کو مٹا کر دنیا کو احترام انسانیت کے درس اور مساوات کی نعمت سے سرفراز فرمایا ، آپ ﷺ ہی نے دنیا پر اس حقیقت کو واضح کیا کہ غلام وآقا ، شاہ وگدا ‘ شودر وبرہمن خدا کی نظر میں سب برابر ہیں ۔ اسلام میں معیار شرافت تو تقوی اور صرف تقوی ہے ۔ ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ میرے شمار میں نہیں آسکتا کہ رسول اللہ ﷺ نے منبر پر کتنی بار یہ الفاظ فرمائے تھے کہ اے اللہ کے بندو ! بھائی بھائی بن جاؤ ۔ خطبہ حجۃ الوداع میں بنی نوع انسان کو مساوات کا پیغام دیتے ہوئے فرمایا کہ عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ‘ نہ عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت ہے ، تم سب کے سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے ۔ انسان کی سب سے بڑی خوبی کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تم میں بہترین آدمی وہ ہے جس سے لوگوں کو زیادہ فائدہ پہنچے ۔ رحمۃ للعالمین ﷺ کی شان رحمت کی عمومیت کا اندازہ اس سے کیجئے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : تم زمین والوں پر رحم کرو ‘ آسمان والا تم پر رحم کرے گا ۔ اس مختصر سی تحریر میں آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کے یہ چند پہلو میں نے آپ ﷺ کے سامنے پیش کئے ۔ مجھے یقین ہے کہ اگر تمام عمر لکھنے والے لکھتے رہیں اور بیان کرنے والے بیان کرتے رہیں تب بھی حضور ﷺ کا اول وصف بیان نہیں ہو سکتا ۔ دفتر تمام گشت وبہ پایاں رسید عمر ماہمچناں دراول وصف تو ماندہ ایم :
Top