Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-Furqaan : 27
وَ یَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰى یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا
وَيَوْمَ
: اور جس دن
يَعَضُّ
: کاٹ کھائے گا
الظَّالِمُ
: ظالم
عَلٰي يَدَيْهِ
: اپنے ہاتھوں کو
يَقُوْلُ
: وہ کہے گا
يٰلَيْتَنِي
: اے کاش ! میں
اتَّخَذْتُ
: پکڑ لیتا
مَعَ الرَّسُوْلِ
: رسول کے ساتھ
سَبِيْلًا
: راستہ
اور جس روز ظالم اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کھائے گا ، کہے گا اے کاش میں نے رسول کے ساتھ راہ اختیار کی ہوتی
ظالم اپنے ہاتھ کاٹیں گے کہ کاش انہوں نے رسول کا ساتھ اختیار کیا ہوتا : 27۔ غصہ اور ندامت کے وقت کی حالت کا بیان ہے کہ انسان ایسی حالت میں اپنے ہاتھوں کو دانتوں سے کاٹتا ہے فرمایا وہ وقت ایسا ہوگا کہ مشرکین ومعاندین اپنے ہاتھوں کو کاٹتے ہوں گے اور اس وقت ان کی حالت دیدنی ہوگی یہ وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے دنیا میں اس طرح کی سوال اٹھائے اور رسول اللہ ﷺ اور ایمان والوں کی استہزاء کا نشانہ بنایا اور کٹ حجتیان کرتے ہوئے فرشتوں کے اترنے اور اللہ رب العزت کے بنفس نفیس ظاہر ہونے کے مطالبات کئے اس جگہ مفسرین نے کچھ خاص خاص لوگوں کے واقعات بھی بیان کئے ہیں اور تحریر کیا ہے کہ انہی واقعات کے پیش نظریہ آیت اتاری گئی ہے بہرحال حکم آیت کا عام ہے اور اس روز بلاشبہ ہر ظالم اپنے ہاتھ کاٹے گا اور جس کو اس نے دنیا میں سہارا پکڑا تھا اور آسرا تلاش کیا تھا اس پر افسوس کرتے ہوئے اور ہاتھ ملتے ہوئے کہے گا کہ اے کاش ! میں نے رسول اللہ ﷺ کی پیروی کی ہوتی اور اس راستہ کو اپنے لئے پسند کیا ہوتا ، قرآن کریم کی یہ آیت اس مضمون کی دوسری آیات کے ساتھ ہم کو بتاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا راستہ ہر لحاظ سے مکمل اور اکمل ہے اور وہ بالکل اسی طرح محفوظ بھی ہے اور تا قیامت رہے گا اس جگہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایک مختصر خاکہ پر نظر ڈال لی جائے تاکہ بات واضح ہوجائے ۔ رسول اعظم وآخر ﷺ کی سیرت طیبہ دائمی نمونہ عمل ہے : ہمارے رسول محمد رسول اللہ ﷺ سید المرسلین اور خاتم النبیین ہیں ۔ آپ ﷺ کی حیات طیبہ کا کمال یہ ہے کہ وہ بیک وقت زندگی کے تمام شعبوں میں انسان کی راہنمائی کرتی ہے ، ہاں ! جس کی حیات طیبہ تمام انسانوں کی رہبری کرے وہی سارے عالم کے لئے رسول ہے ۔ ہمارے رسول ﷺ سارے عالم کے لئے رحمت بن کر آئے اور تمام عالموں کے لئے بشیر ونذیر بنا کر بھیجے گئے ، ساری کائنات کے لئے رؤف ورحیم ٹھہرائے گئے ، آپ ﷺ کا طرہ امتیاز خلق عظیم ہے چونکہ آپ ﷺ سارے عالموں کے لئے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے اس لئے آپ ﷺ کی زندگی کو بھی تمام عالم کے لئے اسوہ حسنہ ٹھہرایا گیا ، بلاشبہ انسان جب کسی شعبہ حیات میں قدم رکھتا ہے تو اس کی فطری خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس نے زندگی کے جس شعبے کو اختیار کیا ہے اس کے سامنے اس میں کوئی اچھا نمونہ ہوتا کہ وہ اسے دیکھ کر بہتر ہے بہتر بنا سکے ، سرور عالم ﷺ کی سیرت مبارکہ کا کمال یہ ہے کہ دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ﷺ کی زندگی کی روشنی میں اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتا ہے اس لئے کہ ادب واخلاق کا کوئی سبق ایسا نہیں ہے جو ہمیں آپ ﷺ کی حیات طیبہ میں نہ ملتا ہو۔ آپ ﷺ کی زندگی کے تمام پہلو ہم گنانا چاہیں تو نہیں گنا سکتے ہاں ! آپ ﷺ کی سیرت مبارکہ کے بیشمار پہلوؤں میں چند اجمالی طور پر پیش کرتے ہیں جس سے آپ کو معلوم ہوگا کہ اے پیغمبر اسلام ! ﷺ کی سیرت طیبہ میں جامعیت اور عمل کے جو درس ہم کو ملتے ہیں دنیا کی تاریخ ان کو پیش کرنے سے یقینا قاصر ہے ، مثلا : پہلے تجارت ہی کو لیجئے ایک تاجر اور کاروباری انسان کی زندگی کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ وہ حسن معاملہ کا خوگر اور ایفائے عہد کا پابند ہو ۔ اگر کسی تاجر کی زندگی میں یہ دو وصف مفقود ہوں تو وہ کبھی اچھا تاجر نہیں بن سکتا ۔ ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ نبوت سے پہلے میں نے رسول اکرم ﷺ سے کوئی تجارتی معاملہ کیا تھا ابھی وہ معاملہ پورے طور پر طے نہیں ہوا تھا کہ میں کسی ضرورت سے یہ وعدہ کرکے چلا آیا کہ میں ابھی آتا ہوں اتفاقا تین دن تک مجھے اپنا وعدہ یاد نہ آیا ، تیسرے روز جب مجھے اپنا وعدہ یاد آیا تو میں اس جگہ پہنچا جہاں میں نے آپ ﷺ کو اپنا منتظر بنایا تھا میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ میرا اس طرح انتظار کر رہے ہیں اور میری اس پیمان شکنی اور نقص عہد پر بغیر کسی ناراضگی کے ارشاد فرمایا تم نے مجھے یہ زحمت دی میں اس جگہ پر تین دن سے (اس وقت سے اس وقت تک) منتظر ہوں ۔ یعنی اتنا وقت جتنے وقت میں میرا آنا اس جگہ ممکن تھا ۔۔۔۔۔۔۔ حسن معاملہ اور ایفائے عہد کی یہ وہ مثال ہے جو دنیا کے سارے تاجروں اور اہل معاملہ کے لئے ایک بہترین مثال ہے ۔ ایک حاکم اور عہدے دار کی زندگی میں سب سے بڑا جو ہر انصاف ہے جو اس کے اور اس کے ماتحتوں کے تعلقات کو شگفتہ بنا سکتا ہے انصاف فی نفسہ ایک مشکل امر ہے خصوصا اپنے محسنوں ‘ دولت مندوں اور خود اپنے مقابلے میں تو بہت ہی مشکل ہوجاتا ہے ، رسول اللہ ﷺ نے انصاف کے ان نازک ترین مرحلوں سے گزر کر تمام دنیا کے حاکموں ‘ عہدہ داروں کے لئے بہترین شاہراہ قائم فرما دی۔ مکہ فتح ہونے کے بعد عرب میں صرف طائف باقی رہ گیا تھا جو فتح نہیں ہوا تھا مسلمان بیس روز تک طائف کا محاصرہ کئے ہوئے پڑے رہے مگر طائف فتح نہ ہوا اور مسلمانوں کو محاصرہ اٹھا لینا پڑا۔ صخر ایک رئیس تھا اس کو معلوم ہوا تو اس نے طائف کا محاصرہ کیا اور طائف کا محاصرہ کیا اور طائف والوں کو اتنا مجبور کیا کہ وہ صلح پر آمادہ ہوگئے صخر نے اس کے بعد نبی کریم ﷺ کو اطلاع دی اور جب طائف اسلام کے ماتحت آگیا تو مغیرہ بن شعبہ جو طائف کے رہنے والے تھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں آپ ﷺ سے انصاف چاہتا ہوں سخر نے میری پھوپھی پر زبردستی قبضہ کرلیا ہے میری پھوپھی صخر سے واپس دلائی جائے اس کے بعد بنو سلیم آئے اور انہوں نے کہا کہ صخر نے ہمارے چشموں پر قبضہ کر رکھا ہے ہمارے چشموں کو واپس دلایا جائے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگرچہ صخر نے ہم پر احسان کیا ہے لیکن احسان کے مقابلے میں انصاف کا دامن کبھی نہیں چھوٹ سکتا اسی وقت آپ ﷺ صخر کو حکم دیا کہ مغیرہ کی پھوپھی کو ان کے گھر پہنچا دو اور بنو سلیم کے پانی کے چشمے واپس کر دو ۔ یہ وہ عدل و انصاف تھا جو آپ ﷺ نے اپنے محسنوں کے مقابلے میں چھوڑا ۔ خاندان مخزوم کی ایک دولت مند خاتون نے ایک مرتبہ چوری کی ‘ چور کی سزا اسلام میں ہاتھ کاٹ ڈالنا ہے ، اس خاتون کی خاندانی وجاہت کے لحاظ سے لوگ چاہتے تھے کہ یہ خاتون سزا سے بچ جائے ، لوگوں نے اسامہ بن زید ؓ کو جو ایک لحاظ سے آپ ﷺ کا پوتا تھا اور آپ ﷺ ہی نے پرورش کی تھی اور ان سے آپ ﷺ کو بیحد محبت تھی اس پر مجبور کیا کہ وہ ان کی سفارش نبی کریم ﷺ سے کریں ۔ اسامہ ؓ نے معافی کی درخواست کی تو آپ ﷺ کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا اور فرمایا اے اسامہ ! کیا تم حدود الہی میں سفارش کرتے ہو العیاذ باللہ اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتیں تو میں ان کو بھی سزا دیتا ، بنی اسرائیل صرف اسی وجہ سے تباہ ہوگئے کہ وہ غریبوں پر حد جاری کرتے تھے اور امیروں سے درگزر کرتے تھے ، یہ ہے وہ انصاف جو آپ ﷺ نے دولت مندوں اور صاحبان وجاہت کے مقابلے میں چھوڑا ۔ انصاف کا نازک ترین مرحلہ یہ ہے کہ اپنے مقالبہ میں بھی عدل انصاف کا دامن چھوٹنے نہ پائے یہ انصاف کا وہ نازک ترین مرحلہ ہے جہاں بڑوں بڑوں کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں مگر رسول اللہ ﷺ نے انصاف کے اس نازک ترین مرحلے سے گزر کر بھی تمام دنیا کے حاکموں کے لئے قابل تقلید نمونہ چھوڑا ہے ۔ رسول اکرم ﷺ ایک مرتبہ مال غنیمت تقسیم فرما رہتے تھے ‘ لوگوں کی بہت بھیڑ تھی ایک آدمی آکر منہ کے بل آپ ﷺ پر لد گیا ۔ آپ ﷺ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی ‘ آپ ﷺ نے اس سے اسے ٹھوکا دیا ‘ جس کی وجہ سے اتفاقا اس کے خراش آگئی ‘ آپ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ میاں ! تم مجھ سے بدلہ لے لو ، اس نے کہا یا رسول اللہ ! میں نے معاف کردیا ۔ دوستی وتعلقات کی دنیا پر اگر گہری نظر ڈالی جائے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ دوستی اور محبت کی بنیادی خلوص باہمی ارتباع اور ایک دوسرے کی ہمدردی سے مستحکم ہوتی ہیں ، دیکھئے کہ آپ بحیثیت ایک دوست اور ساتھی ہونے کے اپنے دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ کس طرح پیش آتے تھے ۔ ایک سفر میں صحابہ کرام نے کھانا پکانے کا انتظام کیا اور ہر ایک نے ایک ایک کام اپنے ذمے لے لیا ، حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں جنگل سے لکڑیاں لاؤں گا ، صحابہ نے کہا کہ ہمارے ماں باپ قربان آپ ﷺ کو زحمت فرمانے کی ضرورت نہیں ۔ ہم سب کام خود انجام دے لیں گے ، ارشاد فرمایا : یہ صحیح ہے لیکن اللہ اس بندے کو پسند نہیں کرتا جو دوسروں سے اپنے آپ کو نمایاں کرتا ہو۔ دشمنوں کے مقابلے میں آپ ﷺ نے اخلاق وکردار کا وہ اعلی نمونہ پیش کیا کہ اگر آپ اس کو پیش نظر رکھا جائے تو آپ کا بڑے سے بڑا دشمن دوست ہو سکتا ہے ‘ بشرطیکہ اس کا ضمیر بالکل تاریک نہ ہوگیا ہو ۔ آپ ﷺ نے مکہ کے ان ہزاروں دشمنوں کو معاف کردیا جنہوں نے آپ ﷺ کو سخت سے سخت تکلیفیں پہنچائی تھیں آپ ﷺ نے اپنے چچا کے قاتل کو معاف کردیا ‘ آپ ﷺ نے ہندہ کو معاف کردیا جس نے آپ ﷺ کے چچا حضرت حمزہ ؓ کی لاش کے ساتھ گستاخیاں کی تھیں ‘ آپ ﷺ نے عمیر بن وہب کو معاف کردیا جو اپنی تلوار میں زہر بجھا کر آپ ﷺ کے قتل کے ارادے سے آیا تھا ۔ آپ ﷺ نے اس یہودیہ کو معاف کردیا جس نے خیبر میں آپ ﷺ کو زہر دیا تھا ۔ مالدار ہونے کی حیثیت سے اگر دنیا کسی صالح نظام تمدن کو برسر عمل لانا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ رسول اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ کو اپنے لئے نمونہ بنائے ۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان المبارک میں آپ ﷺ کی سخاوت بہت بڑھ جاتی تھی ‘ تمام عمر آپ ﷺ نے کسی کا سوال رد نہیں کیا ۔ ایک روز حضرت ابوذر ؓ سے ارشاد فرمایا ابوذر ؓ ! اگر یہ احد کا پہاڑ میرے لئے سونا ہوجائے تو میں کبھی اس کو گوارا نہیں کروں گا کہ تین روز گزر جائیں اور ایک دینار بھی میرے پاس رکھا رہ جائے ، مگر وہ کہ جس کو میں قرض کی ادائیگی کے لئے رکھ چھوڑوں ۔ آج دنیا کے ہر حصے میں مزدور اور سرمایہ دار کی جنگ جاری ہے ۔ یہ عالمگیر جنگ صرف ان کے مقابلے میں مجبور و لاچار ہو کر رہ گئی ہے لیکن رسول اکرم ﷺ نے اس سلسلے میں جو جو اصول پیش کئے ہیں اگر ان پر عمل کیا جاتا تو دنیا آج جس محرومی وبدنصیبی سے دوچار ہے آپ دنیا کے ہر فرد کو اپنی حیثیت کے مطابق خوش حال وخوش نصیب پاتے ، سرمایہ داری کی بنیاد روپے کی جمع کرنے اور اس نظریہ پر قائم ہے کہ انسان وسائل ثروت پر جب کبھی قبضہ پائے تو وہ ان کو روکے رکھے ‘ یہاں تک کہ ان سے اپنی ذات کے لئے فائدہ نہ اٹھا لے ، اس خود غرضانہ نظرئیے غیر منصفانہ نظام معیشت نے تباہی مچا کر رکھ دی ‘ اسی نظام معیشت کی کو کھ سے ہزاروں فاقہ کش ‘ مزدور ‘ قرض دار پیدا ہوئے جو ایک ایک دانے کو ترس رہے ہیں ۔ رسول اکرم ﷺ نے سب سے پہلے انسانی ضمیر پر اس حقیقت کو واضح کیا کہ دولت جمع کرنے سے نہیں بلکہ اچھے کاموں میں خرچ کرنے سے بڑھتی ہے ۔ آپ ﷺ نے سود کو حرام قرار دیا اور سود کے روکنے کی انتہائی کوشش کی ۔ آپ ﷺ ہی نے حصول معیشت کے ذریع میں سے بعض کو جائز اور بعض کو ناجائز قرار دیا ، ۔ آپ ﷺ ہی نے مزدوروں کی مشکلات حل کرتے ہوئے فرمایا کہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدور ادا کی جائے ، آپ ﷺ ہی نے سرمایہ دارانہ اخلاق اور سرمایہ دارانہ نظام کا قلع قمع کرکے دنیا پر خوش حالی ‘ امن اور بلند اخلاقی کے دروازے وا کئے ۔ خود غرض اور نفس پرست سرمایہ داروں نے جن مصیبتوں کو انسانوں پر مسلط کیا ہے وہ بلیک مارکٹنگ اور چور بازاری ہے جو غریبوں کے لئے عذاب الیم سے کم نہیں ۔ آپ ﷺ نے ان لوگوں پر جو غذائی اجناس اور دوسری اشیاء کو محض نفع اندوزی کی خاطر روک کر رکھے ہیں ‘ بہت بڑی ذمہ داری عائد کی ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا : جو لوگ غذائی اجناس اور دوسری اشیاء کو ذخیرہ کو لیتے ہیں تاکہ بازار میں مصنوعی طور پر ان کی مقدار گھٹ جائے اور قیمت بڑھ جائے تو وہ بڑے گنہگار ہیں ۔ آپ ﷺ نے تجارت میں بھی خوش اخلاقی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا : اللہ اس آدمی پر رحم کرتا ہے جو خریدنے بیچنے اور تقاضا کرنے میں نرمی اختیار کرتے ہیں ۔ خرید وفروخت کے آداب بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ خریدوفروخت کرتے وقت جھوٹی قسمیں نہ کھاؤ ، اپنے مال کا عیب اور خوبی دونوں باتیں خریدار کے سامنے بیان کرو اور مال بیچنے کے لئے چکنی چپڑی ‘ پھسلادینے والی باتیں نہ کرو ‘ مال کو تخمینے سے نہیں بلکہ پوری طرح ناپ تول کر بیچو۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو اپنے مال کے عیب کو چھپاتا ہے اور خریدار پر ظاہر نہیں کرتا وہ ہمیشہ اللہ کے غضب میں رہتا ہے ۔ تفوق و برتری کا وہ خیال جو ہزارہا سال سے انسان کی فطرت میں جاگزیں تھا ‘ آپ ﷺ نے اس کو مٹا کر دنیا کو احترام انسانیت کے درس اور مساوات کی نعمت سے سرفراز فرمایا ، آپ ﷺ ہی نے دنیا پر اس حقیقت کو واضح کیا کہ غلام وآقا ، شاہ وگدا ‘ شودر وبرہمن خدا کی نظر میں سب برابر ہیں ۔ اسلام میں معیار شرافت تو تقوی اور صرف تقوی ہے ۔ ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ میرے شمار میں نہیں آسکتا کہ رسول اللہ ﷺ نے منبر پر کتنی بار یہ الفاظ فرمائے تھے کہ اے اللہ کے بندو ! بھائی بھائی بن جاؤ ۔ خطبہ حجۃ الوداع میں بنی نوع انسان کو مساوات کا پیغام دیتے ہوئے فرمایا کہ عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ‘ نہ عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت ہے ، تم سب کے سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے ۔ انسان کی سب سے بڑی خوبی کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تم میں بہترین آدمی وہ ہے جس سے لوگوں کو زیادہ فائدہ پہنچے ۔ رحمۃ للعالمین ﷺ کی شان رحمت کی عمومیت کا اندازہ اس سے کیجئے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : تم زمین والوں پر رحم کرو ‘ آسمان والا تم پر رحم کرے گا ۔ اس مختصر سی تحریر میں آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کے یہ چند پہلو میں نے آپ ﷺ کے سامنے پیش کئے ۔ مجھے یقین ہے کہ اگر تمام عمر لکھنے والے لکھتے رہیں اور بیان کرنے والے بیان کرتے رہیں تب بھی حضور ﷺ کا اول وصف بیان نہیں ہو سکتا ۔ دفتر تمام گشت وبہ پایاں رسید عمر ماہمچناں دراول وصف تو ماندہ ایم :
Top